دفتر چہارم: حکایت: 47
قصۂ عمارت کردنِ سلیمان علیہ السّلام مسجدِ اقصٰی را بہ تعلیمِ وحیِ خدا بجہت حکمتہا و معاونتِ ملائکہ و دیو و پری
حضرت سلیمان علیہ السّلام کے وحی خدا کی تعلیم کے مطابق خاص حکمتوں کی بنا پر مسجدِ اقصٰی کو تعمیر کرنے اور (اس کام میں) فرشتوں جنّوں پریوں کے (انکو مدد دینے کا قصہ)
1
بعد ازاں آمد ندا از پیشِ تخت
بر سلیماںؑ آں نبیِّ نیک بخت
ترجمہ: اسکے بعد تخت کے سامنے سے حضرت سلیمان علیہ السّلام (یعنی) ان نیک بخت پیغمبر کو (ہاتفِ غیب کی طرف سے) ندا آئی۔
2
اے سلیمانؑ مسجدِ اقصٰی بساز
لشکرِ بلقیس آمد در نماز
ترجمہ: کہ اے (حضرت) سلیمانؑ! مسجد اقصیٰ تعمیر کیجئے۔ کیونکہ بلقیس کا لشکر نماز پڑھنے لگا ہے۔ (اب وسیع مسجد کی ضرورت ہے۔)
3
چونکہ او بنیادِ آں مسجد نہاد
جن و انس آمد بدن در کار داد
ترجمہ: جب انہوں نے اس مسجدِ (اقصٰی) کی بنیاد رکھی تو جن و انسان آئے اور کام میں لگ گئے۔
4
یک گروہ از عشق و قومے بے مراد
ہمچنانکہ در رہِ طاعت عباد
ترجمہ: ایک جماعت شوق سے (کام کرتی تھی) اور ایک بادلِ ناخواستہ۔ جیسے بندے طاعت (و عبادت) کے راستے میں۔ (کہ کوئی شوق سے عبادت کرتا ہے، اور کوئی مارے باندھے۔ اس ذکر سے مولانا جبر و اختیار کے مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)
5
خلق دیوانند و شہوت سلسلہ
میکشد شاں سوئے دکان و غلہ
ترجمہ: (مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں مار سے باندھے کام کرنے والے دیوؤں کی طرح لوگ (بھی گویا) دیو ہیں، اور خواہشِ نفسانی زنجیر ہے۔ جو انکو دکانداری اور غلہ کی طرف کھینچتی ہے۔)
مطلب: ہر مخلوق اپنے رب کی مربوب، اور اسکی مسخّر و مطیع، اور اس سے خائف اور اسکی دلدادہ ہے۔ رب اپنے مربوب کی پرورش کرتا ہے، اور اسے اپنے راستے پر چلاتا ہے، اور ہر مخلوق اس اسم کی مربوب ہے جسکا وہ مظہر ہے۔ پس ہر اسم اپنے مربوب کو اپنے مقتضا کے موافق عمل کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور اسی قسم کی استعداد بھی اسی مربوب میں ہوتی ہے، اور یہ اعمال اس مربوب کے کسب اور اسکے رب کی ایجاد سے مربوب میں پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ جو مخلوق اسم ”ہادی“ کی مظہر ہے، اسکا رب اسے صراطِ ہدایت کی طرف لے جاتا ہے، اور اس سے ابتداء کا عمل صادر کرتا ہے، اور یہ اعمال اپنے عامل کو ہدایت کے راستے سے اس کے رب کی طرف پہنچا دیتے ہیں، اور وہ تجّلیاتِ حقانیہ میں رب کا مشاہدہ کرتا ہے، اور جو مخلوق اسم ”مضل“ کی مظہر ہے، اس کا رب اسم ”مضل“ ہے جو اسے اپنے راستے پر چلا کر اس سے اعمالِ ضلالت صادر کراتا ہے، اور یہ اعمال اسکو جہنم کی طرف لے جا کر منتقم کے سامنے حاضر کردیتے ہیں۔ وہ اس سے انتقام لے کر اور اسے صاف کر کے اسکے رب کے سامنے تجلیاتِ منتقیہ میں پیش کرتا ہے۔ چنانچہ یہ آیت اس مضمون پر مشتمل ہے کہ ﴿مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴾ (ھود: 56) ”زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے قبضے میں نہ ہو، یقینا میرا پروردگار سیدھے راستے پر ہے۔“ پس بیت کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق مجبور ہے، اور اپنے رب کے لیے اسکا انقیاد جو وہ بحسبِ فطرت رکھتی ہے، اسکی زنجیر ہے جسکے ذریعہ وہ اسے جدھر چاہتا ہے کھینچتا ہے۔ اس انقیاد کو شہوت سے تعبیر کیا ہے، یعنی جس شخص کو کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے وہ اسی کا منقاد ہو جاتا ہے، اور شخصِ مجبور کو دیوؤں کے ساتھ تشبیہ دی ہے یعنی جس طرح دیو حضرت سلیمان علیہ السّلام کے حکم کے آگے مجبور تھے، اسی طرح ہر مخلوق اپنے مقتضائے نفس کے آگے جس کا محرک اس کا رب ہے مطیع ہے۔(بحر)
6
ہست ایں زنجیر از خوف و ولہ
تو مبین ایں خلق را بے سلسلہ
ترجمہ: یہ زنجیر (جو مقتضیِ اعمالِ مختلفہ ہے) خوف اور دلدادگی سے (پیدا ہوتی ہے۔) تم اس مخلوق کو (جو مختلف کام کرتی ہے) اس سلسلہ سے خالی نہ سمجھو۔
مطلب: ہر شخص جو کام کرتا ہے یا تو وہ اسے کسی کے خوف سے کرتا ہے یا خود اپنے شوق سے۔ یہی خوف و شوق دو زنجیریں ہیں جو لوگوں کو خاص خاص مشاغل کی طرف کشاں کشاں لیے جا رہی ہے۔ مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ یہ زنجیر جو مخلوق کے رب کے ہاتھ میں ہے، اس خوف و شیفتگی کی وجہ سے ہے جو اسے اپنے رب کے ساتھ ہے، اور تمام مخلوق اس سلسلہ میں مربوط ہے۔(انتہٰی)
7
میکشاند شاں سوئے کشت و شکار
میکشد شاں سوئے کانہا و بحار
ترجمہ: وہ زنجیر انکو کھیتی اور شکار کی طرف لے جاتی ہے۔ ان کو (معدنیات کے لیے) کانوں (کی طرف) اور (موتی نکالنے کے لیے) دریاؤں کی طرف کھینچتی ہے۔
8
میکشاند شاں بسوئے نیک و بد
گفت حق فِیْ جِیْدِھَا حَبلُ الْمَسَدْ
ترجمہ: (وہ زنجیر) ان کو اچھے اور برے اعمال کی طرف کھینچتی ہے۔ (جس طرح) حق تعالٰی نے (ابولہب کی عورت کے بارے میں) فرمایا ہے کہ اسکی گردن میں مونج کی رسی ہے۔
9
قَدْ جَعَلْنَا الْحَبْلَ فِیْۤ اَعْنَاقِھِمْ
وَاتَّخَذْنَا الْحَبْلَ مِنْ اَخْلَاقِھِمْ
ترجمہ: (قدرت الٰہیہ کا یہ اشارہ ہے کہ) ہم نے ان کی گردنوں میں (مقتضیاتِ اعمال کی) رسّی ڈال دی اور ہم نے یہ رسی ان کی عادات و خصائل سے تیار کی ہے۔
10
لَیْسَ مِنْ مُّسْتَقْذِرٍ مُسْتَنْقِہٖ
قَطُّ اِلَّا طَآئِرُہٗ فِیْ عُنْقِہٖ
ترجمہ: جو شخص بھی گنہگار یا گناہوں سے پاک ہے لا محالہ اس (کے اعمال نامہ) کا پرندہ اس کی گردن میں (لٹکتا) ہے۔
مطلب: یہ اس آیت کے مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ﴾ (بنی اسرائیل: 13) ”اور ہر شخص (کے عمل) کا انجام ہم نے اس کے اپنے گلے سے چمٹا دیا ہے۔“ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے اعمال اس کی گردن میں بمنزلہ زنجیر ہیں جو اسے اس مقام میں کشاں کشاں لے جاتے ہیں جس کا وہ اہل ہے۔
11
نیستند ایں خلق بے بندِ گراں
ہست آں بند و کمند آں خونفشاں
ترجمہ: یہ مخلوقات (مذکورہ قسم کی) بھاری قید سے آزاد نہیں ہیں۔ وہ بند و کمند ہی اس خوں فشانی کی باعث ہے (جو مجرموں کا انجام ہے۔)
انتباہ: یہ شعر اکثر نسخوں میں نہیں ہے۔ قلمی نسخہ بھی اس سے ساکت ہے جو اسکے الحاقی ہونے کی دلیل ہے۔ آگے مولانا بیان فرماتے ہیں کہ خواہشِ نفسانی اور جذبۂ طبعی کی قید و بند، کس طرح انسان پر نظر بندی کا عمل کرتی ہے، اور اسکی نظر میں مکروہ کو مستحسن، معیوب کو مرغوب، اور بد صورت کو خوب صورت ظاہر کرتی ہے۔
12
حرصِ تو در کارِ بد چوں آتش ست
اخگر از رنگِ خوش آتش خوش ست
ترجمہ: برے کام میں تیری حرص، آگ کی مانند ہے۔ جس طرح آگ کے خوشنما رنگ سے انگارا خوشنما (نظر آتا) ہے۔ (اسی طرح برا کام حرص کی آگ سے خوب صورت نظر آتا ہے۔)
13
آں سوادِ فحم در آتش نہاں
چونکہ آتش شد سیاہی شد عیاں
ترجمہ: کوئلے کی وہ سیاہی (جو اسکے سلگنے سے پہلے موجود تھی اس کے سلگنے کے بعد) آگ میں چھپ گئی۔ جب آگ جاتی رہی، تو (وہی سابقہ) سیاہی نمودار ہو گئی۔
14
اخگر از حرصِ تو شد فحمِ سیاہ
حرص چوں شد ماند آں فحم تباہ
ترجمہ: (اسی طرح بد اعمال کا) کالا کوئلہ، تیری حرص (کی آگ) میں (سلگ کر لال) انگارا بن گیا۔ جب حرص جاتی رہی، تو وہی خراب کوئلہ رہ گیا۔
15
آں زماں کہ فحم اخگر مے نمود
آں ز حسنِ کار نارِ حرص بود
ترجمہ: جس وقت کوئلہ انگارا نظر آتا ہے۔ وہ آتشِ حرص کی خوبی عمل سے (ایسا نظر آتا) تھا۔
16
حرص کارت را بیارائیدہ بود
حرص رفت و ماند کارِ تو کبود
ترجمہ: حرص نے تیرے برے کام کو آراستہ کر (کے دکھا) دیا تھا۔ حرص چلی گئی، تو وہ تیرا کام بدنما رہ گیا۔
17
غورۂ را کہ بیارائید غول
پختہ پندارد کسے کوہست گول
ترجمہ: کچے پھل کو جو بھوت نے آراستہ کر (کے پختہ) دکھایا۔ تو جو شخص بے وقوف ہے، وہ اسکو پختہ سمجھتا ہے۔
18
آزمائش چوں نماید جانِ او
کند گردد ز آزموں دندانِ او
ترجمہ: جب اس کا جی (کھانے کو چاہتا ہے، اور) آزمائش کرتا ہے۔ تو اس آزمائش سے اسکے دانت کھٹے ہو جاتے ہیں (کیونکہ پھل کھٹا ہوتا ہے۔)
19
از ہوس آں دام دانہ می نمود
عکسِ غولِ حرصِ واں خود دام بود
ترجمہ: (اسی طرح پرندے کی) ہوس سے (اسکے) غولِ حرص کے عکس نے، اس جال کو دانہ دکھایا، اور وہ جال ہی تھا۔
20
حرص اندر کارِ دین و خیر جُو
چوں نماند حرص ماند نغز او
ترجمہ: (جو) حرص دین کے کام، اور نیکی میں (ہوتی ہے اب اسکو بھی) دیکھو۔ (چنانچہ) جب حرص نہ رہے تو (بھی) وہ (دین کا کام وہی) خوب صورت (کا خوب صورت) رہتا ہے۔ (اس میں بالکل تغیر نہیں آتا۔)
21
خیرہا نغرند نے از عکسِ غیر
تابِ حرص ار رفت ماند تابِ خیر
ترجمہ: (اس سے ثابت ہوا کہ) نیک باز (بذاتِ خود) خوب صورت ہیں نہ کہ غیر کے عکس سے۔ اگر حرص کی چمک جاتی رہے، تو نیکی کی (ذاتی) چمک باقی رہتی ہے۔
مطلب: کوئی کام برا ہو یا اچھا، اسکو حرص خوب مزیّن کر کے دکھاتی ہے، اور اس کی زینت کو دیکھ کر آدمی اسے اختیار کرنے کے درپے ہو جاتا ہے، لیکن اگر حرص باقی نہ رہے تو اس چیز کی وہ چمک دمک کبھی نہیں رہتی جو حرص نے حریص کی نظر میں نمایاں کی تھی، اب برا کام تو نہایت مکروہ اور بھیانک نظر آتا ہے، مگر نیک کام اپنی ذاتی خوبیوں سے پھر بھی خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔
کَمَا قِیْلَ۔
ع۔ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
فَلِلّٰہِ دَرُّ مَوْلَانَا حَیْثُ یَاْتِیْ بِھٰکَذَا الدُّرَرِ الْغُرَرِ مِنْ بِحَارِ اَفْْکَارِہٖ۔
22
تاب حرص از کارِ دنیا چوں برفت
فحم باشد ماندہ از اخگر بہ تفت
ترجمہ: جب دنیا کے کام سے حرص کی سرگرمی جاتی رہتی ہے۔ تو (وہ کام) دہکتے ہوئے انگارے سے (کالا) کوئلہ رہ جاتا ہے۔ (آگے ایک مثال سے اسکی توضیح فرماتے ہیں:)
23
کودکاں را حرص مے آرد غرار
تا شوند از ذوقِ دل دامن سوار
ترجمہ: بچوں کو (کھیل کی) حرص نادان بنا دیتی ہے۔ حتٰی کہ وہ اپنے دل کے ذوق سے دامن سوار بن جاتے ہیں۔
24
چوں ز کودک رفت آں حرصِ بدش
بر دگر اطفال خندہ آیدش
ترجمہ: جب بچے سے (اس کے بڑا ہونے کے بعد) وہ بیہودہ حرص زائل ہو جاتی ہے۔ تو اسے (ان) دوسرے بچوں پر ہنسی آتی ہے (جو دامن سوار بنتے ہیں۔)
25
کہ چہ مے کردم چہ مے دیدم دریں
خل ز عکسِ حرص بنمود انگبیں
ترجمہ: (اور وہ اپنا عہدِ طفلی یاد کر کے کہتا ہے) کہ میں (بھی) کیا (بیہودہ حرکت) کیا کرتا تھا (اور) اس میں مجھے کیا (خوبی) نظر آتی تھی۔ (ہاں) حرص کے عکس سے سرکہ (مجھے) شہد دکھائی دیتا تھا۔ (آگے بیان فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام کے کام مذکورہ قسم کی حرص سے پاک ہوتے ہیں، اور ان میں بھی بمناسبتِ مقامِ مسجدِ اقصٰی اور کعبۃ اللہ کا ذکر ہے:)
26
آں بنائے انبیاءؑ بے حرص بود
لا جرم پیوستہ رونقہا فزود
ترجمہ: انبیاء علیہم السّلام کی وہ تعمیر (جس کا نام مسجدِ اقصٰی ہے) حرص کے بغیر (بنی) تھی۔ اس لیے ہمیشہ (اس میں) رونق ترقی ہوتی ہے۔
27
اے بسا مسجد برآوردہ کرام
لیک نبود مسجدِ اقصاش نام
ترجمہ: ارے کافی مساجد ہیں، جو بڑے بڑے لوگوں نے بنائی ہیں۔ لیکن ان کا نام مسجدِ اقصٰی نہیں (کہ یہ انبیاء علیہم السّلام کی تعمیر ہونے کے باعث سب سے ممتاز ہے۔)
28
کعبہ را کِش ہر زماں عزّے فزود
آں ز اخلاصاتِ ابراہیم بود
ترجمہ: (اسی طرح) کعبہ کی عزت جو ہر وقت بڑھتی گئی۔ تو یہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اخلاص (کے سبب) سے تھی۔
29
فضلِ آں مسجد ز خاک و سنگ نیست
لیک در بنّاش حرص و جنگ نیست
ترجمہ: اس مسجد (الحرام) کی فضیلت (اسکی تعمیر کی) مٹی اور پتھر سے نہیں۔ بلکہ (اس سبب سے ہے کہ وہ خالصًا لوجہ اللہ بنی ہے) اسکے بنانے والے کو (کوئی نفسانی) حرص، اور (کسی دوسرے کے) مقابلہ (کا خیال) نہیں۔
مطلب: جو کام خالصًا لوجہ اللہ کیا جائے وہ خیر و برکت سے معمور ہوتا ہے، اور جو کام کسی حرص یا تفاخر کی بنا پر کیا جائے، وہ بے خیر و برکت ہوتا ہے، کیونکہ اسکی پشت پر تائیدِ غیبی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر مسجد کی تعمیر سے یہ مقصد ہو کہ اپنی نیک شہرت ہو گی یا رزق اور روزی کا ایک ذریعہ نکل آئے گا، تو گویا حرص اس تعمیر کی محرّک تھی۔ طلبِ رضائے حق اس کی باعث نہ تھی، اور اگر یہ مقصد ہو کہ ہمارے مسجد محلے یا فلاں شہر کی مسجد سے بڑھ چڑھ کر ہو، تو یہ مقابلہ و مفاخرت کا خیال ہے۔ اس صورت میں بھی وہ مسجد خاص خدا کی رضا کے لیے نہ ہوئی۔ ان ساری صورتوں میں وہ مسجد اس خیر و برکت سے بہرہ مند نہیں، جو مساجدُ اللہ کا حق ہے۔ غرض پیغمبروں کی تعمیر کی مساجد سے کوئی مسجد لگاؤ نہیں کھا سکتی۔
30
نے کتب شاں چوں کتابِ دیگراں
نے مساجد شاں نہ کسب و خانماں
ترجمہ: نہ ان کی کتابیں دوسروں کی کتاب سے مشابہ ہیں۔ (کیونکہ وہ آسمانی ہیں، یہ زمینی) نہ ان کی مساجد (عام لوگوں کی مساجد کے ساتھ مشابہ ہیں) نہ (ان کے) کاروبار اور گھر بار (لوگوں کے کاروبار اور گھر بار سے مناسبت رکھتے ہیں۔)
31
نے ادب شاں نے غضب شاں نے نکال
نے نعاس و نے قیاس و نے خیال
ترجمہ: نہ ان کا ادب (لوگوں کے ادب سے مشابہ ہے) نہ ان کا غصہ، نہ عذاب۔ نہ اونگھ نہ قیاس نہ خیال (غرض ان کی ہر ایک بات جداگانہ شان رکھتی ہے۔)
32
ہر یکے را دادہ حق در مرتبت
صد ہزاراں حشمت و صد مکرمت
ترجمہ: حق تعالٰی نے ہر ایک (نبی کو اس کے) مرتبہ میں لاکھوں شوکتیں، اور سینکڑوں عزتیں بخشی ہیں۔ ﴿لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ﴾ (البقرۃ: 285) ”ہم اسکے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے۔“
33
ہر یکے شاں را یکے فرے دگر
مرغِ جانِ شاں طائر از پرّے دگر
ترجمہ: ان میں سے ہر ایک کی ایک اور ہی شان ہے۔ ان کی روح کا پرندہ ایک اور ہی بازو سے اڑنے والا ہے۔
34
دل ہمی لرزد ز ذکرِ حالِ شاں
قبلۂ افعالِ ما افعالِ شاں
ترجمہ: ان حضرات کا حال بیان کرتے ہوئے دل لرزتا ہے۔ (کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے) ان کے افعال ہمارے افعال کے قبلہ ہیں (یعنی ہم اپنے افعال میں ان کے افعال کو بطورِ نمونہ پیش نظر رکھتے ہیں۔ ”وَ اَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ“ (سنن النسائی‘ کتاب صلاۃ العیدین‘ باب کیف الخطبۃ))
35
مرغِ شاں را بیضۂ زریں بدست
نیم شب جانِ شاں سحرگہ بیں شدست
ترجمہ: ان کے مرغ کا انڈہ طلائی ہے۔ آدھی رات کے وقت، انکی روح صبح (کے وقت کو) دیکھتی ہے۔ (ان کی ارواح سے جو احوالِ صادر ہوتے ہیں، وہ سراپائے خیر و برکت ہوتے ہیں، اور انکی خداداد بصیرت پر اکثر مغیبات نمایاں ہو جاتی ہیں۔)
36
ہرچہ گویم من بحال نیکوئے قوم
نقص گفتم گشتہ ناقص گوئے قوم
ترجمہ: میں ان حضرات کی جو خوبی (دل و جان) سے بیان کرتا ہوں۔ تو گویا میں ان کا ناقص گو (مداح) بن کر نقص بیان کر رہا ہوں۔
مطلب: ان حضرات کی شان اس قدر بلند و رفیع ہے کہ میں ان کی جو کچھ بھی تعریف کر سکتا ہوں اور کرتا ہوں، وہ ان کی شان کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ اس لیے وہ ان کے حق میں بجائے مدح ہونے کے ایک طرح بے ادبی بن جاتی ہے۔ اب بمناسبتِ مقام مسجدِ اقصٰی اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کے استعارہ میں طالبین و سالکین کو تزکیۂ قلب کی ہدایت فرماتے ہیں:
37
مسجدِ اقصٰی بسازید اے کرام
کہ سلیماں باز آمد والسّلام
ترجمہ: اے بزرگو! (اپنے باطن کی) مسجد اقصٰی تعمیر کرو۔ کیونکہ سلیمانِ (زمانہ یعنی مرشد کامل) آ گیا (جس کی نگرانی اور ہدایت کے ماتحت یہ کام ہو سکتا ہے) اور (تم پر) سلام ہو۔
مطلب: جس طرح حضرت سلیمان علیہ السّلام کے زیرِ انتظام مسجدِ اقصٰی تعمیر ہوئی۔ اسی طرح مرشدِ کامل کے زیرِ نگرانی تعمیرِ باطن ہوسکتی ہے۔ یہ موقع مغتنم سمجھو۔ شیخ ولی محمد اس کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں کہ دل کی مسجدِ اقصٰی تعمیر کرو تاکہ پھر دنیا میں سلیمان پیدا ہو جائے (یعنی خود تم سلیمانِ زمانہ بن جاؤ، اور محمد رضا نے سلیمان سے تجلّیِ حق مراد لی ہے، یعنی یہ مسجد تعمیر کرو تاکہ تجلّیِ حق اس میں پہنچے، مگر مولانا بحر العلوم کے نزدیک یہ دونوں تقریریں الفاظِ بیت سے ظاہر نہیں۔ البتہ اگر نسخہ یوں ہوتا کہ ”سلیمانؑ باز آید والسّلام“ تو پھر یہ دونوں تقریریں درست ہوتیں۔
38
ور ازیں دیواں و پریاں سرکشند
جملہ را املاک در چنبر کشند
ترجمہ: اور اگر (تعمیرِ باطن کی) اس (خدمت) سے (قوائے نفسانیہ کے) دیو اور پریاں سرکشی کریں۔ تو (ان) سب کو (روحانی طاقتوں کے) فرشتے قید (و زنجیر) میں ڈال لیں گے۔
39
دیو یکدم کژ رود از مکر و زرق
تازیانہ آیدش بر سر چو برق
ترجمہ: (نفس کا) شیطان کسی وقت مکر و فریب سے کج روی اختیار کرتا ہے۔ تو اس کے سر پر بجلی کی طرح تازیانہ آ کر لگتا ہے۔ (سالک کا نفس اطاعت سے روگردانی کرے تو وہ اس کو ریاضت سے سزا دے کر قابو میں لے آتا ہے۔)
40
چوں سلیماںؑ شو کہ تا دیوانِ تو
سنگ برّند از پئے ایوانِ تو
ترجمہ: تم (بھی) سلیمان علیہ السّلام کی طرح (صاحبِ سیاست) بن جاؤ۔ تاکہ تمہارے (قوائے نفسانیہ کے) دیو تعمیر (باطن) کے لیے پہاڑوں سے پتھر کاٹ (کاٹ) کر (لانے کی خدمت بجا) لائیں۔
41
چوں سلیماںؑ باش بے وسواس و ریو
تا ترا فرماں برد جِنِّی و دیو
ترجمہ: تم بے شک و شبہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرح (صاحبِ سیاست) بن جاؤ۔ تاکہ (قوائے نفسانیہ کے) جن و شیطان تمہارے فرماں بردار رہیں۔
42
خاتمِ تو ایں دلست و ہوش دار
تا نگردد دیو را خاتم شکار
ترجمہ: (تم سلیمان ہو تو) تمہاری انگشتری یہ قلب ہے اور ہوشیار رہو۔ تاکہ یہ انگشتری شیطان کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔
مطلب: یہ اس مشہور قصّے کی طرف تلمیح ہے جس کا ذکر مفتاح العلوم کی جلد سوم میں بھی گزر چکا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے جن و انس پر حکومت کرنے کا راز صرف ان کی انگشتری میں تھا۔ ایک مرتبہ کسی دیو یا شیطان نے جس کا نام صخر تھا۔ کسی حیلے سے وہ انگشتری اڑا لی جس کی بدولت وہ تختِ سلیمانی پر قابض ہو کر حکومت کرنے لگا، اور حضرت سلیمان علیہ السّلام ملک و حکومت سے علیحدہ ہو کر چالیس روز تک بحالتِ گمنامی وقت گزارتے رہے۔ ان دنوں وہ مچھلی والوں کا کام کرتے رہے جس کے عوض میں ان کو دو مچھلیاں مل جاتیں۔ ادھر جب امتحانِ الٰہی کی معیاد پوری ہو گئی تو چالیس روز کے بعد وہ دیو انگشتری سمندر میں پھینک کر بھاگ گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو اگلے روز جو دو مچھلیاں حسب معمول دی گئیں، تو ان میں سے ایک مچھلی کے پیٹ سے وہ انگشتری نکل پڑی جس کو پہن کر وہ اپنے دارالحکومت کی طرف گئے۔ امرائے دربار نے ان کا استقبال کیا اور وہ بدستورِ سابق امن و اطمینان سے حکومت کرنے لگے۔ یہ روایت نما قصّہ اباطیلِ یہود کی قبیل سے ہے، جس کو بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں چسپاں کر لیا: ﴿وَ لَقَدۡ فَتَنَّا سُلَیۡمٰنَ وَ اَلۡقَیۡنَا عَلٰی کُرۡسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ﴾ (ص: 34) ”اور یہ بھی واقعہ ہے کہ ہم نے سلیمان کی ایک آزمائش کی تھی اور ان کی کرسی پر ایک دھڑ لا کر ڈال دیا تھا۔ پھر انہوں نے (اللہ سے) رجوع کیا۔“ ان کے نزدیک ”جَسَدًا“ سے یہی شیطان بصورت انسان مراد ہے جو حضرت سلیمان علیہ السّلام کا ہم شکل ہو کر حکومت کرنے لگا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قصّہ محض بناوٹی افسانہ ہے۔ احادیث صحیحہ سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے ایک مرتبہ افسران فوج سے بد دلی دیکھ کر کہا کہ آج کی رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ سب سے ستر فرزند پیدا ہوں گے، جو بڑے ہو کر اللہ تعالٰی کی راہ میں دلیرانہ جہاد کریں گے، مگر غلطی سے اِنْ شَآءَ اللہ نہ کہا۔ اس غلطی کی پاداش میں بجائے ستر فرزندوں کے صرف ایک ناقص الاعضاء بچہ پیدا ہوا، جس کو لا کر انکی کرسی پر رکھ دیا گیا۔ پس آیت میں ”جَسَدًا“ سے یہی مراد ہے۔ تفسیر مدارک میں لکھا ہے: ”عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوٗدَ عَلَیْہِمَا السَّلَامُ لَأَطُوْفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى سَبْعِيْنَ امْرَأَةً تَحْمِلُ كُلُّ امْرَأَةٍ فَارِسًا يُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ إِنْ شَآءَ اللّٰهُ فَلَمْ يَقُلْ وَلَمْ تَحْمِلْ شَيْئًا إِلَّا وَاحِدًا سَاقِطًا أَحَدُ شِقَّيْهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قَالَهَا لَجَاهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ (بخاری: 3424) یعنی ”حضرت ابوہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت سلیمان بن داود علیہما السلام نے کہا: میں آج ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ ہر عورت کو ایک گھڑ سوار کا حمل ٹھرے گا (یعنی ہرہر عورت ایک شہسوار کو جنم دے گی) جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا، ان کے ساتھی نے کہا آپ إِنْ شَآءَ اللّٰهُ کہہ دیں، لیکن انھوں نے إِنْ شَآءَ اللّٰهُ نہ کہا، تو ایک عورت کے سوا کسی کو حمل نہ ٹھہرا، وہ بھی (ایسا کہ) جس کا ایک پہلو ساقط تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ’’اگر وہ إِنْ شَآءَ اللّٰهُ کہہ دیتے تو وہ سب کے سب جوان ہوکر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔‘‘ اس کے بعد اس تفسیر میں لکھا ہے: ”وَ اَمَّا مَا یُرْوَیٰ مِنْ حَدِيْثِ الْخَاتَمِ وَالشَّيْطَانِ، وَعِبَادَةِ الوَثَنِ فِيْ بَيْتِ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَمِنْ أَبَاطِيْلِ الْيَهُوْدِ“ (مدارک) یعنی ”اور وہ جو انگشتری اور شیطان (صخر) اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھر میں بُت کی پرستش ہونے کا قصہ مشہور ہے تو وہ یہود کی بناوٹی باتوں سے ہے۔“ (انتہٰی) یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا نے ایسے جھوٹے قصے کی طرف تلمیح کیوں کی؟ اسکا جواب یہ ہے کہ مولانا کا منصب تاریخ نویسی کا نہیں کہ وہ صحیح و غلط اور قوی و ضعیف روایت میں امتیاز ملحوظ رکھنے کے ذمہ دار ہوں، بلکہ ان کا مقصد محض معارف و حقائق بیان کرنا ہے، اور اس میں جس طرح تمثیلات و توجیہات اور منقولات و مرویّات کا ذکر مخاطب کو اپنا مطلب سمجھانے میں مفید سمجھتے تھے، ان کو ذکر کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے طوطی زاغ، باز، بلبل، سگ، شغال، شیر، فرس، فیل وغیرہ کے قصے جا بجا لکھتے ہیں، اور کسی کو ان کے صدق و کذب کی بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اسی طرح تقریر و بیان کو سہل الفہم بنانے، اور مخاطب کے ذہن نشین کرنے کے لیے مولانا کی زبان سے طوطی و زاغ کی امثال کی طرح، مرویّاتِ یہود بھی نکل جاتی ہیں، یہاں ان کی حیثیت تاریخ و تذکرہ کی سی ہوتی ہے۔ غرض مولانا فرماتے ہیں کہ تم شیطان سے اپنی انگشتری یعنی اپنے قلب کو محفوظ رکھو، ورنہ وہ تم پر قابض و مسلّط ہو کر تم کو تمام برکات و فیوض سے محروم کر دے گا، جس طرح حضرت سلیمان علیہ السّلام کی بادشاہی صخر مارد نے غضب کر لی تھی۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
43
پس سلیمانی کند بر تو مُدام
دیو با خاتم حذر کن والسّلام
ترجمہ: (ورنہ) پھر شیطان تم پر (اس) انگشتری کی بدولت ہمیشہ حکومت کرے گا۔ (لہٰذا اس سے) بچو اور (ہمارا) سلام۔ (آگے اس تمثیل کا مصداق متعین فرماتے ہیں:)
44
آں سلیمانی دلا منسوخ نیست
در سَر و سِرَّت سلیمانی کنی است
ترجمہ: اے دل! وہ سلیمانی (حکومت جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا ہوئی تھی مطلقًا) منسوخ نہیں ہوئی۔ (بلکہ آج) تیرے دماغ اور باطن میں (بھی) سلیمانی کرنے والی ہستی (موجود) ہے۔
مطلب: اگرچہ بحسبِ ظاہر حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرح جن و انس، اور وحوش و طیور پر حکمرانی اب کسی کے لیے ممکن نہیں، لیکن اگر بنظرِ اعتبار دیکھا جائے تو ہر انسان اپنے عالمِ وجود کا حکمران ہے، جو قویٰ و ملکات اور خصائل و عادت کی بہت سی نیک و بد کائنات پر مشتمل ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان پر اسکے ملکاتِ سیئہ اور خصائلِ ردّیہ غالب آجاتے ہیں۔
45
دیو ہم وقتے سلیمانی کند
لیک ہر جولاہا اطلس کے تند
ترجمہ: کبھی دیو بھی سلیمانی (کا دعوٰی) کرنے لگتا ہے۔ (لیکن وہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کا سا حق حکومت کب ادا کر سکتا ہے چنانچہ) ہر جولاہا اطلس کب بُن سکتا ہے؟
46
دست جنباند چو دستِ او ولیک
درمیانِ ہر دو شاں فرقیست نیک
ترجمہ: وہ (جولاہا بھی بنتے وقت اپنا) ہاتھ اس (شخص) کے ہاتھ کی طرح ہلاتا ہے، (جس نے اطلس بُنی ہے) لیکن ان دونوں (کے کام ) میں بڑا فرق ہے۔
مطلب: ہر چند کہ انسان کا نفسِ امّارہ بھی اس پر قابض و حکمران ہو جاتا ہے، مگر اس کی حکمرانی مصدرِ برکات و خیرات نہیں ہوتی، بلکہ سراسر معاصی و سیّئات کی موجب ہوتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ یہاں کھدر بننے والا جولاہا مذموم قرار نہیں دیا گیا۔ نہ اس کا کام قابلِ مذمت ہے، بلکہ مقصود صرف اتنا ہے کہ کھدر باف اطلس باف کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح نہ نفسِ امّارہ نفسِ مطمئنہ کی ریس کر سکتا ہے۔ آگے اس کی نظیر میں ایک قصّہ بیان فرمائیں گے، کہ ایک بادشاہ کے دو وزیر وزارت کے ایک ہی عہدے پر یکے بعد دیگرے سرفراز ہوئے، اور دونوں کا نام حسن تھا، مگر نیّت اور عمل کے لحاظ سے ایک فی الواقع حسن تھا، دوسرا غیر حسن۔
47
در بیانِ ایں حدیث معنوی
یک حدیث بشنو اندر مثنوی
ترجمہ: اس پُر معنٰی بات کی توضیح میں۔ مثنوی کے اندر ایک کہانی سن لو: