دفتر 4 حکایت 46: دعوت کا باقی (بیان، جو) حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف سے بلقیس کو دی گئی کہ موقع غنیمت ہے

دفتر چہارم: حکایت: 46

بقیّہ دعوتِ سلیمان علیہ السّلام بلقیس را کہ فرصت غنیمت است

(اس) دعوت کا باقی (بیان، جو) حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف سے بلقیس کو دی گئی کہ موقع غنیمت ہے

1

خیز بلقیسا کہ بازاریست تیز

زیں خسیسانِ کساد افگن گریز

ترجمہ: اے بلقیس! اٹھ کہ بازار تیزی پر ہے۔ ان (بے دین) کمینے لوگوں سے بھاگ، جو (تجھے) نقصان میں ڈالنے والے ہیں۔(جیسے فرمایا: ﴿فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ(البقرۃ: 16) لہٰذا نہ انکی تجارت میں نفع ہوا، اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔

2

خیز بلقیسا کنوں با اختیار

پیش ازانکہ مرگ آرد گیرو دار

ترجمہ: اے بلقیس! اب اٹھ (اور عمل کر، جبکہ تو) با اختیار (ہے) قبل اسکے کہ موت (اپنی) دار و گیر شروع کر دے۔ (پھر تجھے عمل کرنے کا اختیار نہ رہے گا۔)

3

خیز بلقیسا بیا پیش از اجل

در نگر شاہی و ملکے بے خلل

ترجمہ: اٹھ اے بلقیس! آ جا(اور) موت سے پہلے (سچی) بادشاہی، اور لازوال ملک دیکھ لے۔ (اس میں بلقیس کے نام سے ہر شخص کو متوجّہ الٰی اللہ ہونے کی ہدایت ہے۔)

4

خیز بلقیسا بجاہِ خود مناز

اندریں درگہ نیاز آور نہ ناز

ترجمہ: اے بلقیس! اٹھ (فقیری اختیار کر) اپنے (شاہی) مرتبہ پر ناز نہ کر۔ اس درگاہ میں عاجزی پیش کر، نہ کہ فخر۔

5

خیز بلقیسا و مستہ با قضا

ورنہ مرگ آید کشد گوش ترا

ترجمہ: اے بلقیس! اٹھ اور قضا کے ساتھ نہ جھگڑ۔ ورنہ موت آ کر تیری گوشمالی کرے گی (موت کے وقت تجھے سخت پشیمان ہونا پڑے گا۔)

6

بعد ازاں گوشت کشد مرگ آنچناں

کہ چو دزد آئی بشحنہ مُو کناں

ترجمہ: اسکے بعد موت تیری ایسی گو شمالی کرے گی۔ کہ تو اسطرح بال نوچتی ہوئی پیش ہو گی، جسطرح چور کوتوال کے سامنے (جاتا ہے۔)

7

زیں خراں تا چند باشی نعلِ دزد

گر همی دزدی بیا و لعل دزد

ترجمہ: تو کب تک ان (دنیا دار) گدھوں (کے سموں) سے نعل چرائے گی؟ اگر چراتی ہے، تو لعل (و جواہر) چرا (سونے اور چاندی کے لیے دنیا داروں کی پا بوسی نہ کر۔ انبیاء علیہم السّلام و اولیاءکرام کی تعلیمات سے حکمت کے جواہر حاصل کر۔)

8

خواہرانت یافتہ ملکِ خلود

تو گرفتہ ملکتِ کور و کبود

ترجمہ: تیری بہنوں نے رضائے الٰہی کا ابدی ملک حاصل کر لیا۔ تو نے (یہ دنیا کی) بے نور و تاریک حکومت اختیار کر رکھی ہے۔

9

اے خنک آں را کزیں ملکت بجست

کہ اجل ایں ملک را ویراں کنست

ترجمہ: ارے بشارت ہے اس شخص کو جو اس (دنیا کی) حکومت سے دست بردار ہوا۔ کیونکہ موت اس (نا پائیدار) حکومت کو ویران کرنے والی ہے۔

10

خیز بلقیسا بیا بارے ببیں

ملکتِ شاہاں و سلطانانِ دیں

ترجمہ: اے بلقیس! اٹھ آجا، اور آخر دین کے امراء و سلاطین (یعنی انبیاء علیہم السّلام و اولیاء) کی بادشاہی كو دیکھ۔

11

شستہ در باطن میانِ بوستاں

ظاہرًا خارے میانِ دوستاں

ترجمہ: وہ (بزرگ اپنے) باطن میں (کمالات کے) باغ کے اندر بیٹھا ہے۔ اور بظاہر اپنے احباب و اقارب میں ایک کانٹا (یعنی عام آدمیوں کی طرح کھٹکنے اور جھگڑنے والا ہے۔)

12

بوستان با او رواں ہر جا رود

لیک آں از خلق پنہاں مے شود

ترجمہ: وہ جہاں جاتا ہے (کمالاتِ باطن کا) باغ اسکے ساتھ چلتا ہے۔ لیکن وہ (باغ) مخلوق (کی نظر) سے مخفی ہوتا ہے۔

13

میوہہا لابہ کناں کز من بچر

آبِ حیواں آمدہ کز من بخور

ترجمہ: اس باغ کے میوے خوشامد کرتے ہیں کہ ہم سے تناول کیجئے۔ آبِ حیات آتا ہے کہ مجھے نوش فرمائیے۔

14

طوف میکن بر فلک بے پر و بال

ہمچو خورشید و چوں بدر و چوں ہلال

ترجمہ: (اے بلقیس! اس سیر میں) آسمان کے اوپر پَر و بازو کے بغیر چکر لگاتی رہو۔ سورج کی طرح، پورے چاند کی طرح، اور نئے چاند کی طرح۔

15

چوں رواں باشی رواں و پائے نہ

میخوری صد لوت و لقمہ خائے نہ

ترجمہ: جب تم (اس سیر پر) روانہ ہوگی تو پاؤں کے بغیر چلو گی۔ سینکڑوں غذائیں کھاؤ گی، اور لقمہ چبانے والی نہ ہوگی۔

16

نے نہنگِ غم زند بر کشتیت

نے پدید آید ز مردن رشتیت

ترجمہ: (اس عالم میں) نہ تیری کشتی پر غم کا مگرمچھ حملہ آور ہو گا۔ نہ تجھے موت سے کوئی خرابی پیش آئے گی۔ (عالمِ معنٰی میں نہ غم و الم ہے نہ موت۔)

17

ہم تو شاہ و ہم تو لشکر ہم تو تخت

ہم تو نیکو بخت باشی ہم تو بخت

ترجمہ: (وہاں) تو (خود) ہی ملکہ ہوگی، خود ہی فوج، اور خود ہی تخت۔ تو خود ہی نیک بخت ہوگی، اور خود ہی خوش نصیب (مگر یہ معاملہ عالمِ معنٰی کا ہے۔)

18

گر تو نیکو بختی و سلطانِ زفت

بخت غیرِ تست روزے بخت رفت

ترجمہ: (بخلاف اسکے) اگر تو (عالمِ ظاہر میں) خوش نصیب ہے، اور با اقبال ملکہ ہے۔ (تو کچھ فائدہ نہیں، کیونکہ یہاں) خوش نصیبی تجھ سے غیر ہے (متّحد نہیں۔ اس لیے) ایک دن (یہ) خوش نصیبی زائل ہو جائے گی (اگر وہ متّحد و غیر منفک ہوتی تو زائل نہ ہوتی۔)

19

تو بماندی چوں گدائے بینوا

دولتِ خود ہم تو باش اے مجتبٰی

ترجمہ: (پھر) تو ایک فقیر کی طرح بے سامان رہ جائے گی۔ پس اے برگزیدہ (خاتون!) اب (بہتر یہی ہے کہ) تو اپنی سلطنت آپ ہی بن (اور یہ بات عام معنٰی ہی سے مخصوص ہے۔)

20

چوں تو باشی بختِ خود اے معنوی

پس تو کہ بختی ز خود کے گم شوی

ترجمہ: اے (عالم) معنٰی (کی سیر کرنے والی!) جب تو خود اپنا نصیب ہو گی۔ پھر تم جو کہ خود ہی نصیب ہے، اپنے آپ سے کب گم ہوگی؟

21

تو ز خود کے گم شوی اے خوش خصال

چونکہ عینِ تو ترا شد ملک و مال

ترجمہ: اے خوش خصال! جب تمہاری ذات ہی تمہارا ملک و مال بن گئی، تو (پھر تمہارے ملک و مال کا گم ہونا خود تمہارا گم ہونا ہے پس) تم اپنے آپ سے کب گم ہوسکتی ہو؟

انتباہ: بلقیس کا قصّہ جو شروع ہوا تھا، یہاں ختم ہوا۔ ما بقی کا خلاصہ یہ ہے کہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہو کر شرک و کفر سے تائب ہوئی، اور داخلِ مومنین ہو گئی۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے اس سے نکاح کر لیا جسکی تفصیل پیچھے گزر چکی، آگے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے اور واقعات آتے ہیں: