دفتر چہارم: حکایت: 45
مثلِ قانع شدنِ آدمی بدنیا، و حرصِ او در طلب، و غفلتِ او از روحانیاں کہ ابنائے جنسِ وے اند، و نعرۂ ایشان کہ ﴿یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴾ (یٰس: 26)
آدمی کے دنیا پر قانع ہونے، اور (اسکی) طلب میں حرص کرنے، اور ان روحانی ہستیوں سے جو انکی جنس سے ہیں غفلت اختیار کرنے کی مثال، اور ان (روحانی ہستیوں) کا نعرہ لگانا کہ ”کاش! میری قوم کو معلوم ہوجائے“
مطلب: سورہ یٰسۤ میں اللہ تعالٰی نے ایک مومنِ صالح کا قصّہ بیان فرمایا ہے، جس نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے حواریوں کی تائید میں اہلِ انطاکیہ کو نصیحت کی، تو ان لوگوں نے طیش میں آکر اسکو قتل کر ڈالا، وہ جنت میں داخل ہوا تو اس نے کہا: ﴿یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ - بِمَا غَفَرَ لِیۡ رَبِّیۡ وَ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ﴾ (یٰس: 26،27) یعنی ”کاش! میری قوم کو معلوم ہوجائے۔ کہ اللہ نے کس طرح میری بخشش کی ہے، اور مجھے باعزت لوگوں میں شامل کیا ہے۔“
1
آں سگے در کو گدائے کور دید
حملہ مے آورد و دلقش مے کشید
ترجمہ: ایک کتّے نے کوچے میں اندھا فقیر دیکھا۔ تو اس پر حملہ آور ہوا، اور اسکی گدڑی کھینچنے لگا۔
2
گفتہ ایم ایں را ولے بارِ دگر
شد مکرّر بہرِ تاکیدِ نظر
ترجمہ: ہم اس (قصّہ) کو (دفتر دوم میں) بیان کر چکے ہیں۔ مگر تاکیدِ نظر کے لیے دوبارہ اسکا ذکر آ گیا۔
3
کور گفتش آخر آں یارانِ تو
بر کہ اند ایندم شکار و صید جو
ترجمہ: اندھے نے اسکو کہا (اے کتّے!) آخر وہ تیرے ہم قوم (کتّے، تو) اب پہاڑ پر شکار و صید کی تلاش کر رہے ہیں (تو بڑا پست ہمت ہے، جو مجھ جیسے فقیروں پر حملہ کرتا ہے۔)
4
قومِ تو در کوہ مے گیرند گور
درمیانِ کوئے مے گری تو کور
ترجمہ: تیرے ہم قوم (کتّے) تو پہاڑ میں گورخر کو پکڑ رہے ہیں۔ تو کوچے کے اندر اندھے کو پکڑتا ہے (کچھ شرم کر۔)
مطلب: دوسرے بلند نظر کتّے ایک اعلٰی شکار کے طالب ہیں، مگر یہ پست نظر کتّا ایک غریب و معذور فقیر کو اپنا شکار سمجھ رہا ہے، اس مثال سے مولانا ان شیوخِ مزوّر و پیرانِ ریاکار کو غیرت دلاتے ہیں، کہ تم اس ذلیل و خسیس کتّے کی طرح صرف حطامِ دنیا کو اپنے دلقِ مرقّع، اور تسبیحِ ہزار دانہ کی قیمت سمجھتے ہو، حالانکہ درویشی کا مطمح نظر بہت بلند ہے۔
5
ترکِ ایں تزویر كن شیخِ نفور
آب شوری جمع کردہ چند کور
ترجمہ: اے پیر! جو (اسبابِ سعادت اور ذرائعِ کمالات سے) متنفّر ہے، اس مکر کو چھوڑ دے۔ تو ایک کھاری پانی ہے، جس نے (اپنے گرد) چند اندھوں کو جمع کر رکھا ہے۔
مطلب: تو بظاہر آبِ شیریں مگر درحقیقت آبِ شور ہے، جو خوشگوار و مفید ہونے کے بجائے مُضر ہے، اور تیرے چند مرید جو بصیرتِ باطن سے محروم، اور با کمال و بے کمال میں امتیاز کرنے سے عاجز ہیں، تیرے معتقد ہیں۔ اس مکر و فریب کو چھوڑ دے، اور ان بندگانِ خدا کی گمراہی، اور انکے وقت اور مال کے اِتلاف کا عذاب اپنے سر نہ لے، مگر اس وقت تو تیری یہ حالت ہے کہ گویا تو بزبانِ حال کہہ رہا ہے:
6
کایں مریدانِ من و من آبِ شور
مے خورند از من ہمی گردند کور
ترجمہ: کہ یہ میرے مرید ہیں، اور میں کھاری پانی ہوں۔ وہ مجھ سے (تاثیرِ صحبتِ بد کا پانی) پیتے ہیں، اور اندھے ہوجاتے ہیں (میری صحبتِ بد انکی بصیرت پر پردہ ڈال دیتی ہے۔)
7
آبِ خود شیریں کن از بحرِ لدن
آبِ بد را دامِ ایں کوراں مکن
ترجمہ: اپنا (فیضان کا) پانی قُرب (خدا) کے دریا سے میٹھا کر لے۔ بُرے پانی کو ان اندھوں کو (پھانسنے) کے لیے جال نہ بنا (یعنی صدق و اخلاص کے ساتھ متوجہ اِلَی الْحق ہو جا، تاکہ تجھے کمالِ باطن حاصل ہو، اور تیرے فیض سے یہ لوگ بہرہ مند ہوں۔)
8
خیز شیرانِ خدا بیں گور گیر
تو چو سگ چونی بزرقی کور گیر
ترجمہ: اٹھ، (کھڑا ہوا، اور) دیکھ خدا کے شیر گورخر کا شکار کرتے ہیں۔ تو کتّے کی طرح مکاری سے اندھے کو کیوں پکڑ رہا ہے؟ (مردانِ حق فیوضِ غیب کی دولت سے بہرہ مند ہو رہے ہیں، تو لباسِ پیری زیب تن کر کے مریدوں کا مال و زر ٹھگنے کو کمال سمجھتا ہے۔)
9
گور چہ از صید غیرِ دوست دور
جملہ شیر و شیر گیر و مستِ نور
ترجمہ: گورخر کیا حقیقت رکھتا ہے؟ (وہ مردانِ حق تو) ما سویٰ اللہ کے شکار سے دور (رہنے والے ہیں) سراپا شیر ہیں، اور شیر کو شکار کرنے والے، اور نور میں مست ہیں۔
مطلب: ان مردانِ حق کو علٰی سبیلِ المشاکلہ ”گور گیر“ کہہ دیا ہے، ورنہ وہ ما سویٰ اللہ کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے، چہ جائیکہ انکا شکار کرنا چاہیں، وہ ہر وقت انوارِ الٰہیہ کے مشاہدہ میں مست ہیں، اور یہی انکا شکار ہے۔
10
در نظارہ صید و صیادیِ شہ
کردہ ترکِ صید و مردہ در ولہ
ترجمہ: وہ (اپنے لباسِ) شکار کے، اور شاہِ (حقیقی تعالٰی شانہ) کی شکار گیری کے مشاہدہ میں (مستغرق) ہیں۔ (مراداتِ دنیا کا) شکار ترک کردیا، اور عشق میں فنا ہو گئے۔
مطلب: وہ دو چیزوں کے مشاہدہ میں مستغرق ہیں، ایک تو انوارِ الٰہیہ جو ان پر وارد ہو رہے ہیں، اس لیے وہ انکے لیے بمنزلۂ شکر ہیں، دوسری چیز شاہِ حقیقی تعالٰی شانہٗ کا خود انکو شکار کرنا، یعنی اپنی کمندِ عشق میں مقیّد کرنا، اس پُرلطف کیفیّت کو بھی وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، آگے فرماتے ہیں کہ شاہِ حقیقی نے نہ صرف انکو شکار ہی کیا ہے، بلکہ انکو دوسرے شکاروں کے پھانسنے کے لیے آلۂ کار بھی بنا رکھا ہے، یعنی انکے عشق کا شعلہ، دوسرے اہل طلب میں بھی آتشِ عشق مشتعل کر دیتا ہے۔
11
ہمچو مرغِ مردہ شاں بگرفتہ یار
تا کند او جنسِ ایشاں را شکار
ترجمہ: محبوبِ حقیقی نے انکو مردہ پرندوں کی طرح پکڑ رکھا ہے۔ تاکہ وہ انکے ہم جنس پرندوں کو شکار کرے۔
مطلب: شکاریوں کا قاعدہ ہے کہ جس نوع کے پرندوں کو شکار کرنا مطلوب ہو، اس نوع کا ایک پرندہ مار کر اسکی کھال میں بھوسہ وغیرہ بھر دیتے ہیں، اور اسے محفوظ رکھتے ہیں، بوقتِ ضرورت جنگل میں کسی جگہ جال بچھا کر اس پر، اس مردہ پرندہ کو کھڑا کردیتے ہیں، اور خود چھپ کر اس جانور کی طرح بولتے ہیں، اسکے ہم جنس جانور یہ آواز سن کر آتے ہیں اور جال میں پھنس جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ یہ مردِ حق جو درجۂ فنا پر فائز ہوچکا ہے، محبوبِ حقیقی اس سے مردہ پرندے کا سا کام لیتا ہے، اور اسکے ذریعہ دوسرے لوگوں کو اپنے دامِ عشق میں گرفتار کرتا ہے۔
12
مرغِ مردہ مضطر اندر وصل و بین
خواندۂ اَلْقَلْبُ بَیْنَ الْاِصْبَعَیْن
ترجمہ: مردہ پرندہ وصل و ہجر میں مجبور ہے۔ تم نے (یہ حدیث) پڑھ ہی لی ہے، کہ قلب دو انگلیوں کے درمیان ہے۔
مطلب: یہ ظاہر ہے کہ جب سالک فنا کو پہنچ گیا، تو فراق و ہجر متصوّر نہیں، بلکہ وہ وصلِ دائم میں ہے کہ ”اَلْفَانِیْ لَا یُرَدُّ“ مسلّم ہے، اور اگر بقا میں نزول کرے تو بھی اصلًا فراق میں نہیں ہوتا، بلکہ اسکا شہودِ تام ہوتا ہے۔ پس یہاں وصل و فراق سے مراد سیر فی اللہ ہے، اور بقا و فنا کو پہنچنے والا، اگرچہ سَیر الٰی اللہ تمام کرچکا ہے، مگر سَیر فی اللہ کی انتہا نہیں، پس با اعتبار سَیر فی اللہ کے وہ وصل و فراق میں ہے، کیونکہ جب اسکو ایک میں مطلوب کا شہود حاصل ہوتا ہے، تو وہ واصل ہوتا ہے۔ اور جب اسکو دوسری تجلّی کا اشتیاق ہوتا ہے، تو اس تجلّی کے غیر حاصل ہونے کے لحاظ سے وہ ہجر ہے، پس وہ ہمیشہ فراق و ہجر میں ہے۔(بحر العلوم)
13
مرغِ مرده اش را هر آں کو شد شکار
چوں بہ بیند شد شکارِ شہر یار
ترجمہ: جو شخص اس مردہ پرندے کا شکار ہو جائے۔ جب وہ دیکھے گا (تو اسے معلوم ہوگا) کہ وہ (خاص) بادشاہ کا شکار ہوا ہے۔ (اہلُ اللہ کا محبّ و مقرب خدا کا محبّ و مقرّب ہوتا ہے۔)
14
ہر کہ او زیں مرغِ مردہ سر بتافت
دستِ آں صیّاد را هرگز نيافت
ترجمہ: جس نے اس مردہ پرند (فانی فی اللہ) سے روگردانی کی۔ اس نے صیّاد (شاہِ حقیقی) کی (رحمتِ حقیقی) کے (رحمت کے) ہاتھ کو ہرگز نہ پایا۔
15
گوید او منگر بمرداریِ من
عشقِ شہ بیں در نگہداریِ من
ترجمہ: وہ (فنا فی اللہ) کہتا ہے، میرے مردہ ہونے کو نہ دیکھ۔ (میں غیر مذبوح جانور کی طرح نجس و مردار نہیں، بلکہ) شاہ (حقیقی) کے عشق کو دیکھ، جو (نجاست کی آلائشوں سے) میری حفاظت کرنے میں (مصروف) ہے۔
16
من نہ مردارم مرا شہ کشتہ است
صورتِ من شِبہِ مردہ گشتہ است
ترجمہ: میں مردار نہیں، بلکہ مجھ کو شاہِ (حقیقی) نے مقامِ فنا پر فائز فرمایا ہے۔ (ہاں، فقر و فنا کے لحاظ سے) میری حالت مردہ سے مشابہ ہوگئی ہے۔
17
جنبشم زیں پیش بود از بال و پر
جنبشم اکنوں ز دستِ داد گر
ترجمہ: میری حرکت اس سے پہلے بال و پَر کے ساتھ تھی۔ اب (فنا کے بعد) میری جنبش (خداوندِ) عادل کے ہاتھ سے ہے۔ (اس میں قربِ فرائض و قربِ نوافل کی طرف اشارہ ہے، جسکا مفصّل بیان، مفتاح العلوم کی جلد اوّل میں درج ہوچکا ہے۔)
18
جنبشِ فانیم بیروں شد ز پوست
جنبش باقی ست اکنوں چوں از دست
ترجمہ: میری ناپائیدار حرکت (جو اعصابِ جسم سے پیدا ہوتی تھی، وہ میرے) پوست (تک) سے نکل چکی۔ اب (یہ موجودہ) حرکت، چونکہ اسکی طرف سے ہے اس لیے پائیدار ہے۔
19
ہر کہ کج جنبد بہ پیشِ جنبشم
گرچہ سیمرغ ست زارش میکشم
ترجمہ: جو (پرندہ) میری پرواز کے آگے ٹیڑھی پرواز کرے۔ اگرچہ وہ سیمرغ ہو، میں اس کو بری حالت میں مارتا ہوں۔ (بے ادب خواہ کیسا ہی عالی جاہ ہو۔ فقراء کی تیغِ انتقام اسکو پارہ پارہ کردیتی ہے۔)
؎ دلبر بر صفِ افتادگانِ عشق متاز
کہ جائے گرد ازیں خاک مرد مے خیزد
20
ہیں مرا مردہ بیں گر زندۂ
در کفِ شاہم نگر گر بندۂ
ترجمہ: خبردار! اگر تو زندہ (دل) ہے، تو مجھے مردہ نہ سمجھ۔ مجھکو شاہِ (حقیقی) کے ہاتھ میں دیکھ، اگر تو اللہ تعالٰی کا (صائب النظر) بندہ ہے۔
21
مردہ زندہ کرد عیسیٰؑ از کرم
من بکفِّ خالقِ عیسیٰؑ درم
ترجمہ: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے از راہِ کرم مردہ کو زندہ کر دیا۔ میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو پیدا کرنے والے (خداوند تعالٰی شانہٗ) کے ہاتھ میں ہوں۔ (پھر میں مردہ سے زندہ کیوں نہ ہوں؟)
22
کے بمانم مردہ در قبضۂ خدا
بر کفِ عیسیٰؑ مدار ایں ہم روا
ترجمہ: میں خدا تعالٰی کے قبضے میں (رہ کر) کب مردہ رہ سکتا ہوں؟ (بلکہ) اسکو تم حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے ہاتھ پر بھی روا نہ سمجھو۔ (کہ کوئی مردہ انکے ہاتھ میں آ کر زندہ نہ ہوگا، چہ جائیکہ تم خداوند تعالٰی کے متعلق، ایسی بدگمانی کرو۔)
23
عیسیٰؑ ام لیکن ہر آں کو یافت جاں
از دمِ من او بماند جاوداں
ترجمہ: میں (صرف زندہ ہی نہیں، بلکہ) عیسیٰ علیہ السّلام (کی طرح مردوں کو زندہ کرنے والا) ہوں، لیکن (فرق اتنا ہے کہ) جو شخص میرے دم سے جان پائے، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
24
شد ز عیسیٰؑ زندہ لیکن باز مُرد
شاد آں کو جاں بدیں عیسیٰؑ سپرد
ترجمہ: (اور برخلاف اسکے مردہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام (کے ہاتھ سے بھی) زندہ ہوا لیکن وہ پھر دوبارہ مرگیا۔ (پس) مبارک ہے وہ جس نے اس عیسیٰ علیہ السّلام (فنا فی اللہ) کو (اپنی) جان سپرد کردی (تا کہ وہ زندہ جاوید ہو جائے۔)
مطلب: یہ بشارت ہے اس شخص کو جس نے اپنی زندگی، اور اپنا دل و جان مرشد کے حوالہ کر دیا، اور اسکے ارشاد کے موافق طاعات و عبادات میں پوری طرح ساعی رہا۔ پھر وہ فنا کے بعد بقا کا درجہ حاصل کر کے ”مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا“ کے راز کا مظہر بن جاتا ہے، اور باقی بقاء باللہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے، اور جب اس پر موت اضطراری طاری ہوتی ہے، تو وہ: ”اَلْمُؤْمِنُوْنَ لَا یُمُوْتُوْنَ بَلْ یُنْقَلُوْنَ مِنْ دَارِ الْفَنَآءِ اِلٰی دَارِ الْبَقَآءِ“ کا مصداق ہوتا ہے۔ بخلاف اس شخص کے جو موتِ اضطراری کے بعد زندہ کیا گیا، تو وہ محض ایک پیغمبر یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے معجزہ کا اظہار تھا، کیونکہ اسکی حیات جسمانی تھی، جو عارضی ہے۔ اور مرشدِ کامل کی صحبت سے حاصل ہونے والی حیات، حياتِ روحانی ہے۔ جسم فانی ہے، اسکی حیات بھی نا پائیدار ہے۔ روح باقی ہے، اسکی زندگی بھی ابدی ہے۔ (کذا فی المنہج) مگر مولانا بحر العلوم میں فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السّلام سے مراد یہاں ذاتِ حق ہے، اور یہ اطلاق علٰی سبیلِ المشاکلہ ہے۔ اس سے ذاتِ ولیِ کامل مراد نہیں ہوسکتی۔ جیسے کہ شعر سے متبادر ہوتا ہے، ورنہ اسکی فضیلت حضرت عیسٰی علیہ السّلام پر لازم آتی ہے، جو درست نہیں۔ پس بیتِ بالا ”عیسیٰؑ ام۔۔الخ“ مقولۂ حق ہے۔ (انتہٰی) ہمارے نزدیک صاحبِ منہج کی تقریر اقرب الٰی الصواب ہے۔ مولانا بحر العلوم کی توجیہ محض تکلّف اور خلافِ سیاق ہے۔ ولیِ کامل کی تفضیل حضرت عیسٰی علیہ السلام پر اس صورت میں متصوّر ہے کہ ان دونوں میں مقابلہ و توازن مقصود ہو، اور پھر ولی کو ترجیح دی جائے۔ مثلًا ایک مردہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور ایک ولی کامل دونوں سے یکساں طور پر زندگی حاصل کرسکتا ہے، مگر اسکا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دم سے زندہ ہونا ایسا اچھا نہ سمجھا جائے جیسا ولیِ کامل سے زندگی حاصل کرنا۔ اس صورت میں بے شک یہ محذور لازم آتا ہے، مگر یہاں تو نہ زندگی کی نوعیت ایک ہے نہ اتباع کی حیثیت یکساں ہے۔ وہ زندگی جسمانی، یہ زندگی روحانی۔ وہ ”قُمْ بِاذْنِ اللہ“ کے حکم کا ایک اضطراری اتباع۔ اور یہاں مریدانہ عقیدت کے ساتھ شیخ کا اختیاری اتباع۔ کہاں وہ زندہ ہونا، اور کہاں یہ زندگی۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ اگر کسی حنفی المذہب شخص کو کہا جائے کہ میاں تم دینی و دنیوی مسائل میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی شریعت کا اتباع نہ کرو، بلکہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ پر عمل کیا کرو، تو آپ فرمانے لگیں کہ یہ تو بڑے گناہ کی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو فضیلت دے دی، حالانکہ تفضیل و ترجیح کا یہاں خیال بھی نہیں۔ علاوہ ازیں مولانا بحر العلوم کی توجیہ سیاق کے سلسلہ سے بالکل خلاف ہے۔
25
من عصایم در کفِ موسیٰ خویش
موسیم پنہاں و من پیدا بہ پیش
ترجمہ: میں اپنے موسیٰ (یعنی حق تعالٰی) کے ہاتھ میں (بمنزلہ) عصا ہوں۔ میرا موسیٰ باطن ہے، اور میں (سب کے) آگے ظاہر ہوں (یعنی میرے تمام افعال اسکی قدرت کے مظہر ہیں۔)
26
بر مسلماناں پلِ دریا شوم
باز بر فرعون اژدها شوم
ترجمہ: مسلمانوں کے لیے میں دریائے نیل کا پل بن جاتا ہوں۔ پھر فرعون (اور اسکی قوم) کے لیے اژدھا بن جاتا ہوں۔ (اہلِ حق کے لیے میں باعثِ نجات، اور کفّار کے لیے موجبِ عذاب ہوں۔)
27
ایں عصا را اے پسر تنہا مبیں
کہ عصا بے کفِّ حق نبود چنیں
ترجمہ: اے عزیز! اس عصا کو تنہا نہ سمجھ۔ کیونکہ اس قسم کا عصا خدائی ہاتھ کے بغیر نہیں ہوا۔
28
موجِ طوفان ہم عصا بد کو ز درد
طنطنہِ جادو پرستاں را بخورد
ترجمہ: (حضرت نوح علیہ السّلام کی دعا سے آنے والے) طوفان کی موج بھی (ایک طرح) عصا تھی۔ جس نے (حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم کو اسی پُر) درد (طریق) سے (ہلاک کیا، جسطرح فرعون کی) جادو پرست قوم کی شان و شوکت کو توڑ ڈالا۔
29
ہم عصا بُد باد بر اعدائے ہودؑ
کہ بر آورد از بقیہ عاد دود
ترجمہ: حضرت ہود علیہ السّلام کے دشمنوں پر ہوا بھی (ایک طرح سے) عصا تھی۔ جس نے (قومِ) عاد کے بقیہ (لوگ) دھوئیں سے اڑا دیئے۔
30
ہم عصائے بود پشّہ در نبرد
کو بر آورد از سرِ نمرود گرد
ترجمہ: مچھر بھی (حق و باطل کے) معرکہ میں ایک عصا تھا۔ جس نے نمرود کے مغز کے پرچخے اڑا دیے۔
31
گر عصاہائے خدا را بشمرم
زرقِ ایں فرعونیاں را بر درم
ترجمہ: اگر (اسی طرح) میں خداوند تعالٰی (کے عذاب) کی لاٹھیوں کو شمار کرتا جاؤں۔ تو ان فرعون الطبع لوگوں کے مکر (و عناد و خصومت کے پردہ) کو چاک کردوں۔
32
لیک زیں شیریں گیاہے زہر مند
ترک کن تا چند روزے مے چرند
ترجمہ: لیکن (مناسب یہ ہے کہ انکا پردہ فاش نہ کرو اور فوائدِ دنیا کی) یہ میٹھی (مار) زہریلی گھاس انکو چند روز چرنے دو۔
مطلب: یہ اس آیتِ کریمہ کا مضمون ہے: ﴿ذَرۡہُمۡ یَاۡکُلُوۡا وَ یَتَمَتَّعُوۡا وَ یُلۡہِہِمُ الۡاَمَلُ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ﴾ (الحجر: 3) ”(اے پیغمبر) انہیں انکی حالت پر چھوڑ دو کہ یہ خوب کھالیں، مزے اڑا لیں، اور خیالی امیدیں، انہیں غفلت میں ڈالے رکھیں، کیونکہ عنقریب انہیں پتہ چل جائے گا (کہ حقیقت کیا تھی۔“) ”فوائد دنیویہ“ کو زہریلی اور شیریں گھاس سے تشبیہ، اس حدیث کے مطابق دی ہے جو صحیحین میں حکیم بن حزام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”إِنَّ هٰذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيْبِ نَفْسٍ بُوْرِكَ لَهُ فِيْهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِاَشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيْهِ وَكَانَ كَالَّذِيْ يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلٰى“ (مسلم: 1035) یعنی”بیشک یہ مال شاداب (آنکھوں کو لبھانے والا) اور شیریں ہے، جو تو، اسے حرص و طمع کے بغیر لے گا اسکے لیے اس میں برکت عطا کی جا ئے گی، اور جو دل کے حرص سے لے گا، اسکے لیے اس میں برکت نہیں ڈالی جا ئے گی، وہ اس انسان کی طرح ہوگا، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا، اور اوپر والا ہا تھ نیچے والے ہا تھ سے بہتر ہے۔(انتہٰی) مطلب یہ کہ ان لوگوں کو غفلت میں رہنے دو، اور اپنے اعمالِ سیئہ سے اپنی تباہی کا سامان کرنے دو، آخر جہنم کے پُر ہونے کے لیے ایندھن بھی چاہیے۔
33
گر نباشد جاہِ فرعون و سرے
از کجا یابد جہنم پرورے
ترجمہ: اگر فرعون کا (سا) مرتبہ، اور سرداری نہ ہو۔ تو جہنم کہاں سے پرورش پائے؟ (آخر انہی مغرور و متکبّر لوگوں سے تو جہنم کو اپنا پیٹ بھرنا نصیب ہوگا۔)
34
فربہش کن آنگہش کُش اے قصاب
زانکہ بے برگند در دوزخ کلاب
ترجمہ: اے قصائی! (پہلے) اس (بکرے) کو (خوب کھلا پلا کر) موٹا کر لے۔ پھر اسکو ذبح کر، کیونکہ دوزخ میں کتّے بھوکے ہیں۔ (جہنم کے درندوں کے لیے موٹے دنیادار اچھی غذا ہیں۔ آگے دوزخ کے لیے غذا کے ضروری ہونے کی دلیل دیتے ہیں:)
35
گر نبودے خصم و دشمن در جہاں
پس بمردے خشم اندر مردماں
ترجمہ: اگر دنیا میں مخالف اور دشمن نہ ہوتے، تو لوگوں میں غصہ ختم ہوجاتا (کیونکہ مخالف و دشمن ہی غصہ کے محرّک ہوتے ہیں۔)
36
دوزخ آں خشم است و خصمے بایدش
تا زید ورنہ رحیمی بکشدش
ترجمہ: (اس مثال سے سمجھ لو کہ) دوزخ، گویا وہ غصہ ہے، اور اسکو (حق کے) دشمن (یعنی منکر و کافر کی) ضرورت ہے۔ تاکہ وہ (اپنے اشتعال میں) قائم رہے، ورنہ (خدا کی) رحیمی اسکو بجھا دے۔
37
در جہاں گر لطف بے قہرے بُدے
پس کمالِ بادشاہی کے شدے
ترجمہ: اگر جہاں میں مہربانی (خالص، اور) قہر کے بغیر ہوتی۔ تو وہ بادشاہی کا کمال کب ہوسکتی؟
مطلب: بقول سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
درشتی و نرمی بہم در بہ است
چو رگِ زن کہ جراح و مرہم نہ است
مہر و قہر اور نرمی و درشتی دونوں کا ہونا ضروری ہے، کہ بادشاہی کی شان اسی میں ہے۔ مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ حقیقی بادشاہی ذاتِ حق کی ہے، جو موصوف بصفاتِ کمالیہ فعّالہ ہے۔ الوہیت کا ظہور ان صفات کے ظاہر ہونے، اور انکے آثار کے ظہور پانے کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور الوہیت کے لیے صفاتِ جمالیہ مثلًا رحمت، رأفت، کرم، حلم اور صفاتِ جلالیہ مثلًا قہر، جبر، انتقام وغیرہ کا ہونا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ان صفات کے لیے جائے ظہور کا ہونا بھی لابد ہے۔ چنانچہ صفاتِ جلالیہ کا مکانِ ظہور جہنم، اور صفاتِ جمالیہ کا جنت ہے۔ رحمت سے یہاں مراد رحمتِ خالص ہے، ورنہ جہنم بھی جب کہ منتقم اپنا حق لے لے گا۔ سراپائے رحمت بن جائے گا، اور اہلِ دوزخ سے عذاب مرتفع ہو جائے گا۔ پس ظاہر ہوا کہ جہنم کی پیدائش ظہورِ قہر کے لیے اور قہر کا ظہور ثبوتِ الوہیت کے لیے ہے۔(انتہٰی) اوپر کی تقریر میں تمثیلات کا سلسلہ چلا آیا ہے۔ چنانچہ کور و سگ کی کشمکش، پھر آبِ شور اور اسکو پینے والے اندھے، شیرانِ گور گیر، مردہ بدستِ زندہ، مرغِ مردہ اور حالِ عیسیٰ علیہ السّلام، عصا، گیا زہرمند، گوسفندِ فربہ۔ قصاب وغیرہ تمثیلات کے پردے میں معارف و حقائق بیان کئے گئے ہیں، مگر سامعین میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ قرآن کو سننے والوں میں بھی بعض کج فطرت بول اٹھے تھے: ﴿مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا﴾ (البقرۃ: 28) یعنی ”کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے؟“ اسی طرح احتمال تھا کہ کسی منکر کے دل میں مثنوی کے متعلق بھی یہ خیال پیدا نہ ہوجائے کہ مولانا نے یہ کیا بے لطف تمثیلات کا جھاڑ باندھا ہے۔ اس لیے مولانا فرماتے ہیں:
38
ریشخندے کردہ اند آں منکراں
بر مثلها و بیانِ ذاکراں
ترجمہ: منکر لوگوں نے اہلِ ذکر کی (پیش کردہ) تمثیلات، اور بیان کا مضحکہ اڑایا ہے۔
39
تو اگر خواہی بکن ہم ریشخند
چند خواہی زیست اے مردار چند
ترجمہ: (اے منکر!) اگر تو بھی (ہماری امثال کا) مضحکہ اڑانا چاہتا ہے تو اڑا لے۔ اے مردار! تو کب تک زندہ رہے گا؟ (مضحکہ اڑا کر تباہ ہوجائے تو اچھا ہے، کہ ایسے خر دماغ لوگوں کا یہی انجام مناسب ہے۔)
40
شاد باشید اے محبان در نیاز
بر ہمیں در کہ شود امروز باز
ترجمہ: (اور) اے دوستو! (جو ان تمثیلات کو پسند کرتے، اور ان سے عبرت حاصل کرتے ہو) تم اسی (تقریر و بیان کے) دروازہ (سے فیض حاصل کرنے) پر جو آج مفتوح ہے، نیاز (مندانہ خلوص) میں خوش رہو۔ (آگے بتاتے ہیں کہ معتقد و منکر اور مخلص و منافق کا مسلک الگ الگ ہوتا ہے۔)
41
ہر حویجے باشدش کردے دگر
درمیانِ باغ از سیر و گبر
ترجمہ: ہر ضرورت کی چیز (جو بوئی جاتی ہے اس) کی کیاری باغ کے اندر الگ ہوتی ہے۔ (مثلًا) لہسن اور گاجر (یا کبر)
42
ہر یکے با جنسِ خود در کردِ خود
از برائے پختگی نم مے خورد
ترجمہ: ہر چیز اپنی (ہم جنس) اشیاء کے ساتھ اپنی کیاری میں، پرورش پانے کے لیے (نہر یا بارش یا شبنم سے) سیراب ہوتی ہے۔ (اب خاص مخلص و معتقد کو خطاب فرماتے ہیں:)
43
تو کہ کُردِ زعفرانی زعفراں
باش آمیزش مکن با دیگراں
ترجمہ: تم زعفران کی کیاری (سے) ہو (اس لیے) زعفران (بن کر) رہو۔ (اور) ریحان (یا دوسری بوٹیوں) کے ساتھ نہ ملو۔
مطلب: تم منکرین و غیر معتقدین کے ساتھ نہ ملو، نہ انکی باتیں سنو، بلکہ انکے ساتھ بحث و تکرار بھی نہ کرو۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ قَدۡ نَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ اَنۡ اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ اِنَّکُمۡ اِذًا مِّثۡلُہُمۡ﴾ (النساء: 140) یعنی ”اور اس نے کتاب میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جارہا ہے، اور انکا مذاق اڑایا جارہا ہے، تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں، ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے۔“ منکرین و ملاحدہ کی نہ صرف صحبت مضر ہے، بلکہ ان سے بحث و مناظرہ کرنا بھی ضرر سے خالی نہیں۔ حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدّث گنگوہی قُدِّسَ سِرُّہٗ فرماتے ہیں، ایک ملحد کے سامنے سے تین شخص گزرے، پہلا تو خاموشی اور تیز رفتاری کے ساتھ لپکا، چلا گیا۔ ملحد کی طرف منہ پھیر کر بھی نہ دیکھا، اور دوسرا شخص آہستہ آہستہ سامنے کو نکلا مگر چلا گیا، کچھ بولا نہیں، اور تیسرا شخص ملحد کی تردید کے درپے ہو گیا، اور کھڑا ہو کر کہنے لگا تو فاسق ہے، اور ایسا ویسا ہے۔ ملحد نے کہا، یہ تیسرا کچھ تو یقینًا میرا ہو لیا، پنچے سے نکلنا محال ہے۔ اور دوسرا بھی غالب ہے کہ قابو میں آ جائے، مگر پہلا سالم بچ نکلا۔ (تذکرۃ الرشید: حصہ دوم: ص: 242)
44
آب مے خور زعفرانا تا رسی
زعفرانی اندریں حلوا رسی
ترجمہ: اے زعفران! (فیضان کا) پانی پئے جا تاکہ تو پختگی کو پہنچ جائے۔ تو زعفران ہے (اس لیے) اس حلوے میں (ضرور) داخل ہوگا۔
مطلب: منکرین کی صحبت کو چھوڑ کر اہلِ کمال کی خدمت میں حاضر رہنا اختیار کرو، تاکہ ان سے فیضان حاصل کرو۔ چونکہ تمہاری فطرت اچھی ہے، اور تم خاص صلاحیّت و استعداد رکھتے ہو، اس لیے اللہ تعالٰی کے کرم سے امیدِ واثق ہے، کہ تم کمالات کی منزلِ مقصود پر ضرور پہنچو گے۔
45
تو مکن در کُردِ شلغم پوزِ خویش
تا نگردد با تو او ہم طبع و کیش
ترجمہ: (اے زعفران!) تو شلغم کی کیاری میں منہ نہ ڈال۔ تاکہ وہ تجھے اپنا ہم طبع، اور ہم مذہب بنالے۔
نکتۂ لطیفہ: ”تا نگردد با تو ہم طبع و کیش“ کے لفظی معنٰی یہ ہیں کہ ”تاکہ وہ تیرا ہم طبع اور ہم مذہب نہ بن جائے“ اور اس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ یہاں بات شلغم کے زعفران بن جانے سے نہیں کی ہے، جس پر یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ اسمیں کیا خرابی ہے کہ کوئی بد آدمی کسی نیک کی صحبت سے نیک بن جائے؟ مولانا اس سے منع کیوں فرماتے ہیں۔ منع تو اس سے فرمانا تھا کہ زعفران شلغم بن جائے یعنی نیک آدمی برے آدمی کے قرب سے برا ہو جائے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ مولانا کا مقصد یہی ہے کہ وہ اسطرح تیرا ہم طبع نہ بن جائے کہ تجھے بھی اپنی مثل بنالے۔ جیسے کہ ہم نے ترجمہ کا پیرایہ اختیار کیا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ مولانا نے ایسا طرزِ بیان جو موردِ شبہ ہے، کیوں اختیار کیا؟ سو اس میں یہ خاص نکتہ مرکوز ہے کہ فعل ”نگردد“ کی اسناد شلغم کے ساتھ کی ہے، جسمیں یہ لطیف اشارہ مضمر ہے کہ بری طرح کی صحبت کا برا اثر جو پڑتا ہے تو وہ صرف برے آدمی یعنی برا اثر ڈالنے والے کا فعل ہوتا ہے۔ اثر قبول کرنے والے کا فعل نہیں ہوتا، کیونکہ بری صحبت سے اثر قبول کرنے والا بالکل مسلوبُ الاختیار ہوتا ہے۔ اس لیے ہر شخص کو بری صحبت سے بچنا چاہیے، کیونکہ اگر وہ اس زعم میں بری صحبت سے پرہیز نہ کرے، کہ میں اس سے متاثر نہیں ہوں گا، تو یہ اسکے اختیار سے باہر ہے۔ وہ خود اثر قبول کرنے یا نہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، بلکہ برا آدمی خود ایک نہ ٹلنے والا اثر ڈالتا ہے، اور جس پر وہ اثر پڑتا ہے، وہ نہ اسکو محسوس کرتا ہے نہ اسکے ردّ و دفع پر قادر ہے۔ بخلاف اسکے اگر عام طرزِ کلام کے موافق یوں کہتے کہ ”تا نگردی تو باہم طبع و کیش“ تو اگرچہ وہ شبہ وارد نہ ہوتا، مگر فعل کی اسناد زعفران کے ساتھ ہو جانے سے وہ نکتہ فوت ہوجاتا ہے۔
46
تو بکُردے او بکُردے مُودعہ
زانکہ اَرْضُ اللّٰہِ آمد وَاسِعَۃ
ترجمہ: (اے زعفران) تو ایک (جدا) کیاری میں، اور وہ ایک (دوسری) کیاری میں لگایا گیا ہے۔ (پھر تجھکو اسکے ساتھ مخلوط و مجتمع ہونے کی کیا ضرورت؟) کیونکہ یہ ارشاد آ چکا ہے کہ ”اللہ تعالٰی کی زمین فراخ ہے“۔
مطلب: اشارہ بآیت: ﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا﴾ (النساء: 97) یعنی ”جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔ اور اسی حالت میں فرشتے انکی روح قبض کرنے آئے تو بولے: تم کس حالت میں تھے؟ وہ کہنے لگے کہ: ہم تو زمین میں بے بس بنا دیئے گئے تھے۔ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اسمیں ہجرت کرجاتے؟ لہذا ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور وہ نہایت برا انجام ہے۔“ مدّعا یہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنی زمین کے اندر نیکوں اور بدوں، مومنوں اور کافروں، سعیدوں اور شقیوں کی الگ الگ کیاریاں بنا دیں، تو سب کو اپنی اپنی جگہ پر رہنا چاہیے، کیوں آپس میں اختلاط کرتے ہیں۔
47
خاصہ آں ارضیکہ از پہناوری
در سفر گم میشود دیو و پری
ترجمہ: خصوصًا وہ (عالم غیب کی) سر زمین، جسکی وسعت سے دیو و پری بھی سفر میں بھول جائیں۔
مطلب: جنات و شیاطین ایک لمحہ میں زمین کا سفر مشرق سے مغرب تک کر جائیں اور راستہ نہ بھولیں، مگر عالمِ غیب وہ وسیع میدان ہے، جسمیں یہ سریعُ السیر ہستیاں بھی گم ہو کر رہ جائیں۔ تمہارے لیے وہ عالم کُھلا ہے۔ پھر برے لوگوں کی صحبت سے کیوں ضرر اٹھا رہے ہو؟ وہ عالم اس قدر عریض و طویل اور بسیط و وسیع ہے کہ:
48
اندر آں بحر و بیابان و جبال
منقطع میگردد اوہام و خیال
ترجمہ: اس (عالمِ غیب کے) سمندر، اور جنگل، اور کوہستان میں۔ اوہام و خیالات (کا سبک سیر سیاح) بھی (تھک ہار کر) چلنے سے رہ جاتا ہے۔
49
ایں بیاباں در بیابانہائے او
ہمچو اندر بحر و بر یک تارِ مُو
ترجمہ: یہ (زمین کے) جنگل اس (عالم کے) جنگلوں کے آگے (اس طرح بے حقیقت ہیں) جیسے (تمام) بحر و بر میں ایک بال کا تار(اب اس عالم کی سیر کی کیفیت بیان فرماتے ہیں:)
50
آب استادہ کہ سیرستش نہاں
تازہ تر خوشتر ز جُوہائے رواں
ترجمہ: (سالک کے باطن کا) کھڑا پانی، جسکی روانی باطنی ہے، جاری نہروں (کے پانی) سے زیادہ تازہ (اور) زیادہ اچھا ہے۔ (سالک کی سیر باطنی ہوتی ہے، سیاحِ ارض کی طرح ظاہری اور حسّی نہیں ہوتی، مگر وہ اس سیر سے کہیں زیادہ پُرلطف اور مسرّت خیز ہوتی ہے۔)
51
کو درونِ خویش چوں جان و رواں
سیر پنہاں دار دو پائے رواں
ترجمہ: کیونکہ وہ اپنے باطن سے جان و روح کی طرح۔ مخفی سیر اور قدم جاری رکھتا ہے۔ (آگے مولانا سامع کی بے توجہی کے سبب سے اس بحث کو بند کرتے ہیں:)
52
مستمع خفتہ است کوتہ کن خطاب
اے خطیب ایں نقش را کم زن بر آب
ترجمہ: اے تقریر کرنے والے! (تیری تقریر کو) سننے والا تو سو رہا ہے۔ اب تو تقریر کو بند کر، یہ نقش پانی کی سطح پر نہ کر (کہ اسکا اثر پائیدار نہیں۔)