دفتر چہارم: حکایت: 44
بقیہ قصّۂ دعوت سلیمان علیہ السّلام بلقیس را بایمان
حضرت سلیمان علیہ السّلام کا بلقیس کو ایمان کی دعوت دینے کا باقی قصّہ
1
خیز بلقیسا بیا و ملک بیں
بر لبِ دریائے یزداں دُر بچیں
ترجمہ: اے (ملکہ) بلقیس! اٹھ، اور (قربِ حق کی) بادشاہی پر نظر کر۔ حق تعالٰی (کی رحمت) کے دریا کے کنارے پر موتی چن لے۔ (فانی بادشاہی کا خیال چھوڑ کر، لازوال بادشاہی کو طلب کر۔)
2
خواہرانت ساکنِ چرخِ سنی
تو بمردارے چہ سلطانی کنی
ترجمہ: تیری بہنیں (مثل آسیہ امراۂ فرعون قربِ حق کے) بلند آسمان میں مقیم ہیں۔ تو مردار (دنیا) پر کیا بادشاہی کرتی ہے؟
3
خیز بلقیسا بیا دولت نگر
جاوداں از دولتِ ما بر بخور
ترجمہ: اے بلقیس! اٹھ (ابدی و لازوال) بادشاہی دیکھ۔ ہمیشہ ہماری دولتِ (قرب) سے پھل کھا۔
4
خواہرانت را ز بخششہا و داد
ہیچ میدانی کہ آں سلطان چہ داد
ترجمہ: تجھے کچھ معلوم بھی ہے کہ اس سلطانِ (حقیقی) نے تیری بہنوں کو، کیا انعامات و عطیات بخشے ہیں؟
5
خیز بلقیسا در آور بحرِ جُود
ہر دمے بردار بے سرمایہ سود
ترجمہ: اے بلقیس! اٹھ، اور بخشش کے دریا میں آجا۔ ہر لحظہ سرمایہ کے بغیر نفع کما۔
6
خواہرانت جملہ در عیش و طرب
بر تو چوں خوش گشت ایں رنج و تعب
ترجمہ: تیری بہنیں سب کی سب (عالمِ بقا کی) عیش و خوشی میں ہیں۔ تجھکو اس عالمِ فانی کی محنت و مشقت کیوں گوارا ہوگئی؟
7
خیز بلقیسا سعادت یار شو
وز ہمہ مُلکِ سبا بیزار شو
ترجمہ: اے بلقیس! اٹھ خوش نصیبی کی رفیق بن جا۔ اور تمام ملکِ سبا سے بیزار ہو جا۔
8
تو ز شادی چوں گدائے طبل زن
کہ منم شاہ و رئیسِ گولخن
ترجمہ: (افسوس تو الٹا) ایک فقیر کی طرح (فخر کا) نقّارہ بجا رہی ہے۔ کہ میں خس و خاشاک کی ڈھیری کی بادشاہ و رئیس ہوں۔
مطلب: بے خانماں فقیروں کا ٹھکانہ، خس و خاشاک میں ہوتا ہے۔ یہی انکا ملک ہے، یہی انکی تخت گاہ، اگر وہ اپنی اس تخت گاہ پر فخر کرنے لگیں، تو کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ مگر دنیائے فانی کے ملک و حکومت پر فخر کرنا بھی، اس فقیر کے فخر کرنے سے کچھ کم بیہودہ نہیں۔ ہمارے ملک میں دائرہ یا تکیہ کے متولی عمومًا فقیر کہلاتے ہیں، جنکا کام یہ ہوتا ہے کہ بستی کے حقّہ نوشوں کے لیے روزانہ ادھر ادھر سے خس و خاشاک، اور گوبر، اوپلے جمع کر کے جلاتے ہیں، اور آگ ہر وقت مہیّا رکھتے ہیں۔ یہی انکا شغل ہے، یہی کاروبار ہے، اور یہی انکا منصب ہے، جسکی بدولت انکو روٹی ملتی ہے۔ معلوم نہیں مولانا کے عہد میں بھی اس قسم کے دائروں اور تکیوں کے متولّی فقیر کہلاتے ہوں گے، یا آپ نے دنیائے فانی کے بادشاہوں کے لیے یہ ایک فرضی مثال پیش فرمائی ہے، مگر ہمارے عہد میں یہ مثال بالکل صحیح ہے کہ تکیہ کے فقیروں کا ملک و دولت گوبر، اوپلے کا انبار، اور راکھ کی ڈھیری ہوتی ہے، اور فی الحقیقت یہی نتیجہ دنیائے فانی کی بادشاہی کا ہے۔