دفتر چہارم: حکایت: 43
نشان جُستنِ عبدالمطّلب از موضعِ محمّد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کہ کجایش جویم؟ و جواب آمدن
عبد المطّلب کا مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کی قیام گاہ کے متعلق سوال کرنا کہ میں انکو کہاں تلاش کروں؟ اور جواب آنا
1
گفت عبد المطلّب کایں دم کجاست
اے علیمُ السّرِ نشان دہ راہِ راست
ترجمہ: عبد المطّلب نے پوچھا کہ اب وہ کہاں ہیں، اے دانائے راز! سیدھی راہ کا پتہ بتا دے۔
2
از درونِ کعبہ آوازش رسید
گفت اے جویندہ طفلِ رشید
ترجمہ: کعبہ کے اندر سے آواز آئی، (ہاتف نے) انکو کہا کہ اے سعادت مند! بچے کو تلاش کرنے والے۔
3
ہاتفش گفتا مخور غم کایں زماں
با تو زاں شاہِ جہاں بدہم نشاں
ترجمہ: ہاتف غیبی نے کہا غم نہ کر میں ابھی۔ اس شاہِ جہاں کا پتہ تجھ کو بتائے دیتا ہوں۔
4
در فلاں وادیست زیرِ آں درخت
پس رواں شد زود پیر نیک بخت
ترجمہ: (وہ بچہ) فلاں وادی میں اس درخت کے نیچے (موجود) ہے۔ پس نیک بخت بزرگ (یعنی عبد المطّلب یہ سنتے ہی) فورًا روانہ ہو گئے۔
5
در رکابِ اُو امیرانِ قریش
زانکہ جدّش بود ز اعیانِ قریش
ترجمہ: انکی رکاب میں سرداران قریش (بھی) تھے۔ کیونکہ آپکے دادا (عبد المطّلب) قریش کے بڑے لوگوں میں سے تھے۔ (اس لیے سردارانِ قریش کا انکے ساتھ جانا لازمی تھا۔)
6
تا بہ پشتِ آدمؑ اسلافش ہمہ
مہترانِ رزم و بزم و ملحمہ
ترجمہ: (ایک آپکے دادا پر کیا منحصر ہے؟) آپکے تمام بزرگ حضرت آدم علیہ السّلام کی پشت تک۔ (ہمیشہ) رزم و بزم اور میدانِ جنگ میں سردار رہے ہیں۔
7
ایں نسب خود قشرِ او را بودہ است
کز شہنشاہانِ مہ پالودہ است
ترجمہ: (مگر آپکے کمالات اس قدر رفیعُ الشّان ہیں، کہ) یہ نسب (بھی) آپ (کی ذاتِ عالی صفات) کے لیے بمنزلۂ پوست ہے۔ (اور آپ بمنزلۂ مغز ہیں) کیونکہ آپ بڑے بڑے بادشاہوں سے (بھی) برگزیدہ ہیں۔
مطلب: گو آپکے آباء و اجداد کو بڑی عزت و عظمت حاصل تھی، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے کمالاتِ ذاتیہ، نسب کے افتخار سے بے نیاز ہیں، بلکہ بڑے بڑے سلاطینِ عالم سے بھی آپکا درجہ بہت ارفع و اعلٰی ہے۔ چنانچہ سلاطین و ملوک جنکی شوکت و صولت سے کبھی ربع مسکوں لرزتا تھا، اپنے اپنے وقت میں ہزاروں آئے اور چلے گئے، آج کوئی انکا نام تک نہیں لیتا، بلکہ مخلوقِ کثیر انکے نام سے بھی واقف نہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی شان و عظمت کے ذکر سے، آج تک کروڑوں انسانوں کی زبانیں شکر فشاں ہیں، اور تا قیامت رہیں گی۔ اس سلطانِ دارین بننے والے بچے کو کسی درخت کے نیچے بٹھاکر، اعیانِ قریش کو اسکے پاس لے جانے میں قدرتِ الٰہیہ کا یہی اشارہ مضمر تھا، کہ اسطرح شاہانِ عالم اس شہنشاہ کی آستاں بوسی کو فخر سمجھیں گے۔ ایک روایت منقول ہے: ”عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الْأَسْقَعِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِصْطَفٰی مِنْ وَلَدِ إِبْرَاھِیْمَ إِسْمَاعِیْلَ وَ اصْطَفٰی مِنْ بَنِیْ إِسْمَاعِیْلَ کِنَانَۃَ وَ اصْطَفٰی مِنْ بَنِیْ کِنَانَۃَ قُرَیْشًا وَ اصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بِنَی ھَاشِمٍ وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِیْ ھَاشِمٍ“ (مسند احمد: 17112) یعنی ”سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالٰی نے اولادِ ابراہیم سے اسماعیل کو، بنو اسماعیل سے کنانہ کو، بنو کنانہ سے قریش کو، قریش سے بنو ہاشم کو، اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو منتخب فرمایا۔“(انتہٰی) آگے وہی افتخارِ نسب سے آپکی بے نیازی کا ذکر ہے:
8
مغزِ او خود از نسب دورست و پاک
نیست جنبش از سمک کس تا سماک
ترجمہ: آپ (کے فضائل) کا مغز نسب (کے پوست پر فخر کرنے) سے بعید و پاک ہے۔ (کیونکہ) زیرِ زمین سے بالائے فلک تک، کوئی آپکے برابر کا نہیں۔
مطلب: آباء و اجداد پر فخر کرنا اس شخص کے لیے مفید ہے، جسکے آباء و اجداد اس سے افضل ہوں، لیکن اگر کوئی اپنے آباء و اجداد سے خود افضل واقع ہو، تو اسکے لیے اپنی نسب پر فخر کرنا مفید نہیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم صرف اپنے بزرگوں سے ہی نہیں، بلکہ تمام کائنات سے افضل ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے لیے نسب کی عظمت چنداں موجبِ فخر نہیں۔ اگر جنس سے متعارف معنٰی مراد ہوں، تو پھر مطلب یوں ہوسکتا ہے کہ ہر شخص اپنے آباؤ اجداد پر فخر اس لحاظ سے کرتا ہے کہ وہ انکا ہم جنس ہوتا ہے، اور اسکی جنس کے افراد کا فضائل و کمالات سے بہرہ مند ہونا خود اسکے لیے موجبِ فخر ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ پاک ایسے کمالاتِ ذاتیہ پر مشتمل ہے جن میں آپکے ہم جدی افراد مشترک نہیں ہیں، بلکہ ان کمالات کے لحاظ سے تمام عالم میں کوئی بھی آپکے ساتھ متجانس نہیں ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا نسب پر فخر کرنا موزوں نہیں۔ بحر العلوم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا مغز جو حقیقتِ محمدیہ ہے، تمام کائنات، اور مغزِ موجودات پر سبقت رکھتا ہے، اور کوئی مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی جنس نہیں، اور وہ حقیقتِ محمدیہ ذاتِ متحمعہ اسمائے فعلیہ و انفعالیہ و جمیع صفات کی مظہرِ اوّل ہے۔(انتہٰی)
سوال: غزوۂ حنین کے معرکہ میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے یہ رجز پڑھا تھا:
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
(مسلم:1776) یعنی ”میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطّلب کا فرزند ہوں“ جس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے عبدالمطّلب کے دادا ہونے پر فخر کیا۔ پس مولانا کے قول کے ساتھ اسکی مطابقت کیونکر ہوگی؟
جواب: رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے: ”اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَ فَخْرَھَا بِالْآبَاءِ اِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ اَوْ فَاجِرٌ شَقِیٌّ اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ اٰدَمَ وَ آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ“ (الترمذي:3955) یعنی ”اللہ تعالٰی نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور فخر بآباء کو دور کر دیا ہے، وہ (بزرگ جن پر تم فخر کرتے ہو،) یا تو مومن پرہیزگار ہوگا، یا بدکار و بدبخت ہو گا (تو تمہیں کیا؟) تمام لوگ آدم علیہ السّلام کی اولاد ہیں، اور آدم علیہ السّلام کو مٹی سے (پیدا کیا گیا ہے۔)“ اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فخر بآباء اچھا نہیں، اور جب فخر بآباء کا غیر مستحسن ہونا صریحًا ثابت ہے، تو رجزِ مذکور سے قیاسًا، فخر کا اثبات کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ کیونکہ قیاسی حکم، صریح حکم کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ غزوۂ حنین میں جب بنی ہوازن کے شدید حملہ سے لشکرِ اسلام منتشر ہوگیا، اور اس میں بھی اصلی خرابی مکہ کے ان جدیدُ الاسلام لوگوں کی تھی، جنکی صف سب سے آگے تھی، تو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم یک و تنہا کوہِ ثبات بن کر میدان میں کھڑے ہوگئے، اور فرمایا: ”میں نبی ہوں میں ابن عبد المطلب ہوں“ یعنی نبی ”مَنْصُوْرٌ مِّنَ اللہ“ ہوتے ہیں۔ وہ فتح سے مایوس اور اعداء سے مرعوب نہیں ہوا کرتے، اور ”ابن عبد المطلب“ یعنی بنو ہاشم کا کوئی فرد، میدانِ جنگ سے پیٹھ موڑ کر بھاگنے والا نہیں۔ ان دونوں باتوں سے اعداء کے بڑھے ہوئے حوصلے کو پست کرنا، اور افواجِ اسلام کے پست شدہ حوصلے کو ابھارنا مقصود تھا، چنانچہ آن کی آن میں تمام افواج، اطراف و جوانب سے سیلاب کی طرح امنڈ آئیں، اور چشمِ زدن میں دشمن کو زیر کر لیا، پس اس رجز میں ایک طرح کی خبر ہے، فخر نہیں۔ آگے آپکی جنس نہ ہونے کی دلیل مذکور ہے:
9
نورِ حق را کس نجوید زاد و بود
خلعتِ حق را چہ حاجتِ تار و پود
ترجمہ: نورِ حق کی پیدائش اور وجود کی کوئی تحقیق نہیں کرتا۔ (کہ کس خاندان سے ہے؟ حق تعالٰی کی جانب سے ہے، اور وہ حق تعالٰی کا خلیفہ ہے، کیونکہ حق تعالٰی اسماء و صفات کے ساتھ اسمیں ظاہر بظہورِ اتم ہے۔) اللہ تعالٰی کی خلعت کو (نسب و خاندان کے) تار و پود کی اسکو ضرورت نہیں (یہ نسب صرف صورتِ عنصریہ سے تعلق رکھتی ہے جو حقیقت کا پوست ہے، پس آپ اپنی حقیقت کے لحاظ سے اوّل ہیں، اور صورت کے لحاظ سے آخر۔)(بحر)
10
کمترین خلعت کہ بدہد در ثواب
بر فزاید بر طرازِ آفتاب
ترجمہ: ادنٰی سے ادنٰی خلعت جو (حق تعالٰی اعمال کے اجر و) ثواب میں عطا فرماتا ہے۔ وہ (اپنی تابانی و درخشانی میں) آفتاب کے نقش و نگار پر فائق ہے۔
مطلب: جب عامۃُ النّاس حُسنِ اعمال سے ایسے نورانی خلعت کے حقدار ہو جاتے ہیں، جسکی تابانی کے آگے آفتاب بھی ماند پڑجائے، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾ (الحجرات: 13) اور اس فضیلت کے حصول کے بعد، وہ نسب کی فضیلت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم بطریقِ اولٰی نسب کے افتخار سے بے نیاز ہیں، جو حق تعالٰی کا نور ہیں۔(منہج)