دفتر 4 حکایت 42: عبدالمطلب کا مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کے گم ہوجانے سے مطلع ہونا، اور شہر کے گرد آپکو ڈھونڈنا، اور کعبہ کے دروازے پر رونا، اور حق تعالٰی سے آپکو طلب کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 42

خبر شدنِ عبدالمطّلب از گمشدنِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم و طالب شدنِ او گردِ شہر، و نالیدن بر درِ کعبہ، و از حق طلب کردنِ او را

عبدالمطلب کا مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کے گم ہوجانے سے مطلع ہونا، اور شہر کے گرد آپکو ڈھونڈنا، اور کعبہ کے دروازے پر رونا، اور حق تعالٰی سے آپکو طلب کرنا

1

چوں خبر يابيد جدِّ مصطفٰی

از حلیمہ وز فغانش برملا

ترجمہ: جب حضرت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کے دادا (عبدالمطلب) نے حلیمہ (کے آنے) کی، اور اسکے برملا فریاد کرنے کی، خبر پائی۔

2

وز چناں بانگِ بلند و نعرہا

کہ بمیلے میرسد از وے صدا

ترجمہ: اور اتنی بلند آواز، اور نعروں سے جن کی گونج ایک میل تک جاتی تھی۔

3

زود عبدالمطلب دانست چیست

دست بر سینہ ہمی زد می گریست

ترجمہ: تو عبدالمطلب نے فوراً معلوم کر لیا کہ کیا بات ہے۔ وہ سینہ پیٹتے اور روتے تھے۔

4

آمد از غم بر درِ کعبہ بسوز

کائے خبیر از سِرِّ شب وز رازِ روز

ترجمہ: وہ سوز غم میں، کعبہ کے دروازے پر آئے (اور دعا کی) کہ اے رات کے بھیدوں اور دن کے راز سے واقف کار!

5

خویشتن را من نمی بینم فنے

تا بود ہمرازِ تو ہمچوں منے

ترجمہ: میں اپنے اندر کوئی ایسا جوہر نہیں دیکھتا، کہ مجھ سا (ذلیل) تیرا ہمراز ہو۔

6

خویشتن را من نمی بینم ہنر

تا شوم مقبولِ ایں مسعود در

ترجمہ: میں اپنے اندر (کوئی ایسا) ہنر نہیں دیکھتا۔ تاکہ اس مبارک دروازے پر میں مقبول ہو سکوں۔

7

یا سر و سجدہ مرا قدرے بود

یا با شکم دولتے خنداں شود

ترجمہ: یا میرے سر اور سجدہ کی کچھ قدر ہو۔ یا میری اشکباری سے کوئی قسمت جاگ اٹھے۔

8

لیک در سیمائے آں دُرِّ یتیم

دیده ام آثارِ لطفت اے کریم

ترجمہ: لیکن اے کریم! میں نے اس دُرِّیتیم (محمد صلی اللہ علیہ وسلّم) کی پیشانی پر تیری مہربانی کے آثار دیکھے ہیں۔

9

کہ نمی ماند بما گرچہ ز ماست

ما ہمہ مِسّيم و احمدؐ کیمیاست

ترجمہ: جو ہم سے مشابہ نہیں ہے، اگرچہ ہم میں سے ہے۔ ہم سب تانبہ ہیں، وہ کیمیا ہے۔

10

آں عجائبہا کہ من دیدم برو

من ندیدم بر ولی و بر عدو

ترجمہ: وہ عجائبات جو میں نے اس پر (درخشاں) دیکھے۔ کسی دوست و دشمن پر نہیں دیکھے۔

11

آنچہ فضلِ تو دریں طفلیش داد

کس نشاں ندہد بصد سالہ جہاد

ترجمہ: تیرے فضل (و کرم) نے اسے بچپن ہی میں جو (کمال) عطا فرمایا ہے۔ کوئی سو سال کے مجاہدہ میں بھی اسکا نمونہ پیش نہیں کرسکتا۔

12

چوں یقین دیدم عنایتہائے تو

بروئے آں دُرّیست از دریاۓ تو

ترجمہ: جب میں نے اس پر تیری وہ عنایات (بچشمِ) یقین دیکھ لیں۔ (تو معلوم کر لیا کہ) وہ تیرے (کمالات کے) سمندر کا ایک موتی ہے۔

13

من ہم او را مے شفیع آرم بتو

حالِ او اے حال داں با من بگو

ترجمہ: میں تیری درگاہ میں اسکو (اپنا) شفیع لاتا ہوں۔ (کہ) اے حال جاننے والے، اسکا حال مجھے بتادے۔

14

از درونِ کعبہ آمد بانگ زود

کہ ہم اکنوں رخ بتو خواہد نمود

ترجمہ: فوراً کعبہ کے اندر سے آواز آئی۔ کہ وہ ابھی تم کو دیدار کروائے گا۔

15

با دو صد اقبال او محظوظِ ماست

با دو صد طُلبِ مَلَک محفوظِ ماست

ترجمہ: وہ ہماری طرف سے سینکڑوں اقبالوں سے بہرہ مند ہے۔ فرشتوں کی سینکڑوں جماعتوں کے ذریعہ ہماری حفاظت میں ہے۔

16

ظاہرش را شہرۂ گیہاں کنیم

باطنش را از ہمہ پنہاں کنیم

ترجمہ: ہم انکے ظاہر کو دنیا بھر میں مشہور کر دیں گے۔ انکے باطن کو سب سے مخفی رکھیں گے۔ (چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم دہر میں سرورِ کائنات مانے گئے، مگر آپکے باطنی کمالات کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ آگے حق تعالٰی کے کلام میں زمین کی تعریف آتی ہے، جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیدائش ہوئی:)

17

زرِّ کان ست آب و گل ما زرگریم

گہ گہش خلخال و گہ خاتم بریم

ترجمہ: پانی اور مٹی، کان کا سونا ہے، اور ہم سونے کی اشیاء بنانے والے ہیں۔ کبھی اس سے پازیب اور کبھی انگشتری قطع کرتے (اور بناتے) ہیں۔ (مٹی سے جو مخلوق پیدا کی جاتی ہے۔ کسی کو اولٰی درجہ، اور کسی کو اعلٰی درجہ دیا جاتا ہے۔)

18

گر حمائلہا شمشیرش کنیم

گاہ بندِ گردنِ شیرش کنیم

ترجمہ: کبھی ہم اسکو تلوار کا پرتلا بناتے ہیں۔ کبھی شیر کی گردن کا پٹہ بناتے ہیں۔

19

گہ ترنجِ تخت بر سازیم ازو

گاہ تاج فرقہائے ملک جو

ترجمہ: کبھی اس سے تخت کی آرائش بناتے ہیں۔ کبھی کشور کشا (بادشاہوں) کے سروں کے تاج (ترنجتخت سنہری بیل بوٹا تخت کی آرائش کے لئے بناتے ہیں۔)

20

عشقہا داریم با ایں خاکِ ما

زانکہ افتادہ است در قعدہ رضا

ترجمہ: ہم کو اس مٹی کے ساتھ بڑی محبت ہے۔ کیونکہ وہ رضا (و تسلیم) کی نشست میں پڑی ہے۔

مطلب: یہاں عنصرِ خاک کی فضیلت ثابت ہوئی ہے۔ واضح ہو کہ انسان کا وجود دس لطائف سے مرکب ہے، جن میں پانچ لطائف عالمِ امر یعنی ملکوت سے تعلق رکھتے ہیں جو یہ ہیں: قلب، روح، سر، خفی، اخفی اور پانچ عالم خلق یعنی ناسوت سے متعلق ہیں، اور وہ نفس اور عناصرِ اربعہ ہیں۔ عالمِ امر کے پانچوں لطائف کی فنا و بقا سے ولایتِ صغریٰ کا مقام حاصل ہوتا ہے، اور لطیفۂ نفس کی فنا و بقا ولایتِ کبریٰ کے حصول کو مستلزم ہے۔ اس سے اوپر ولایتِ علیا کا مقام ہے، جس میں عنصرِ خاک کے سوا باقی عناصر ثلٰثہ کی سیر اور انکی فنا و بقا ہوتی ہے۔ مقاماتِ سلوک سے برترین مقام، کمالاتِ نبوت کا ہے، اور یہ مقام مرشدِ کامل کے عنصرِ خاک پر توجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے یہ تعجب خیز بات معلوم ہوسکتی ہے، کہ عالم امر کے مقابلے میں عالم خلق کتنے بڑے کمالات کا مظہر ہے، اور پھر عالمِ خلق میں بھی عنصرِ خاک جو کہترین عنصر ہے، کیسے بالاتریں کمال کا جلوہ گاہ ہے۔

21

گہ چنیں شاہے ازو پیدا کنیم

گہ ہم او را پیشِ شہ شیدا کنیم

ترجمہ: (1) کبھی اس (آب و گل) سے ہم ایسا شاهِ (رُسل و سیّدُ الانبیاء) پیدا کرتے ہیں۔ (اور کبھی) اسی (شاہِ رسل) کو شاهِ (حقیقی تعالٰی شانہٗ) (یعنی ہم اپنے آپ پر) شیدا کرتے ہیں۔

(2) کبھی اس (آب و گل) سے ہم ایسا شاهِ (رسل و سیّدُ الانبیاء) پیدا کرتے ہیں (اور) کبھی اسی (آب و گل کی مخلوق) کو اس شاهِ (رسل) پر شیدا کردیتے ہیں۔

مطلب: پہلے ترجمہ کا مطلب یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم الله تعالٰی کے محبوب و محبّ ہیں۔ دوسرے ترجمہ کا مطلب یہ ہے کہ آپکی امت، بلکہ شجر و حجر تک آپکے عاشق ہیں۔

22

صد ہزاراں عاشق و معشوق ازو

در فغان و در نفیر و جستجو

ترجمہ: (1) لاکھوں عاشق و معشوق اس (شاہ رسل کی امت میں) سے (آپکے عشق میں) نالہ و فریاد اور تلاش میں ہیں۔

(2) لاکھوں عاشق و معشوق اس (آب و گل) سے (پیدا ہو کر آپکے عشق میں) نالہ و فریاد کر رہے ہیں، اور تلاش میں ہیں۔

23

کارِ ما اینست برکوریِّ آں

کہ بکارِ ما ندارد ميلِ جاں

ترجمہ: ہمارا کام تو اس (شیطان یا شیطان سیرت آدمی) کی کور چشمی کے خلاف یہی ہے۔ جو ہمارے کام کی طرف (دل) و جان سے مائل نہیں ہے۔

مطلب: انسان کا فطری فرض ہے کہ وہ اللّٰہ تعالٰی کے عجائباتِ قدرت پر نظر کرے، اور تخلیقِ عالم میں اس نے جو مصالح و حکم مرکوز رکھے ہیں تا بمقدور انکو سمجھے۔ چنانچہ الله تعالٰی فرماتا ہے: ﴿قُلِ انۡظُرُوۡا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا تُغۡنِی الۡاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنۡ قَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ﴾ (یونس: 101) ”اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ یہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، ذرا اسکی طرف تو نظر کرو اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے۔ نشانیاں اور ڈراوے انکو کچھ بھی سود مند نہیں۔“ اس قسم کی آیات قرآن مجید میں بکثرت آئی ہیں، مگر جو بدفطرت انسان ان حکمت و قدرت کی رموز کی طرف توجہ نہیں کرتا، وہ شیطان سیرت ہے۔ قدرتِ الٰہیہ اسکی کور چشمی کے باوجود اپنا کام کئے جاتی ہے۔ چونکہ قدرت کے ایسے حیرت انگیز، عبرت خیز کام پر نظر نہ کرنا، اور اس سے سبق گیر نہ ہونا، سخت کور چشمی ہے۔ اس لئے عجائبات کی تفصیل کی ثنا میں یہ تنبیہی کلمہ فرما دیا۔

24

ایں فضیلت خاک را زاں رود ہیم

زانکہ نعمت پیش بے برگاں نہیم

ترجمہ: یہ فضلیت خاک کو ہم اس لئے دیتے ہیں۔ کہ ہم بے سامان لوگوں کے آگے نعمت رکھتے ہیں۔ (مخلوقِ خاک نے تواضع کی، تو تاجِ خلافت حاصل کیا۔ مخلوقِ آتش نے سرکشی کی، تو طوقِ لعنت اسکے گلے میں پڑا۔)

25

زانکہ دارد خاک شکل اغبری

وز دروں دارد صفاتِ انوری

ترجمہ: کیونکہ خاک (ظاہر میں) غبار آلودہ صورت رکھتی ہے۔ اور باطن میں نوارنی اوصاف رکھتی ہے۔ (زمین ظاہری صورت میں مٹی، اور ریت کا ڈھیر ہے، مگر اسکے باطن میں خوش رنگ اشجار، اور طرحدار گلزار پیدا کرنے کی طاقت موجود ہے۔)

26

ظاہرش با باطنش گشتہ بجنگ

باطنش چوں گوہر و ظاہر چو سنگ

ترجمہ: اسکا ظاہر، باطن کے ساتھ مصروفِ جنگ ہے۔ اسکا باطن مثلِ جواہرات، اور ظاہر مثلِ سنگ ہے۔ (زمین کے ظاہری اجزا میں سے ایک پہاڑ ہیں جو پتھروں کے ڈھیر ہیں، مگر انہی کے اندر قیمتی جواہرات ہوتے ہیں۔)

27

ظاہرش گوید کہ ما اینیم و بس

باطنش گوید نکو بین پیش و پس

ترجمہ: اسکا ظاہر کہتا ہے کہ ہم صرف یہی (ادنٰی اوصاف رکھتے) ہیں۔ جو آپ دیکھتے ہیں، مگر) اسکا باطن کہتا ہے کہ آگے پیچھے اچھی طرح دیکھو (آپکو بے پایاں اوصاف نظر آئیں گے۔)

28

ظاہرش منکر کہ باطن ہیچ نیست

باطنش گوید بنمائیم بایست

ترجمہ: اسکا ظاہر انکاری ہے، کہ باطن کچھ نہیں۔ اسکا باطن کہتا ہے، کہ ٹھہرو میں (اپنے کمالات) دکھاتا ہوں۔ (مخلوقِ خاک کا ظاہر، اپنے انکسار و تواضع کی وجہ سے، کسی باطنی خوبی کا مدّعی نہیں، مگر جب اسکے باطن کو دیکھا جائے، تو گوناگوں کمالات کا مخزن نظر آتا ہے۔)

29

ظاہرش با باطنش در چالش اند

لاجرم زیں صبر نصرت مے کنند

ترجمہ: اسکا ظاہر اور باطن باہم جنگ میں (مصروف) ہیں۔ اس لئے اس ثابت قدمی سے وہ (باری باری) غلبہ پاتے ہیں۔

30

زیں تُرش رو خاک صورتہا کنیم

خندۂ پنہانش را پیدا کنیم

ترجمہ: اس خاک سے جو (بظاہر) تُرش رو ہے۔ ہم (گوناگوں) صورتیں بناتے ہیں۔ (اور ان صورتوں کی آفرینش سے) اس خندهٔ باطن کو ظاہر کرتے ہیں۔ (بدصورت مٹی سے خوبصورت مخلوق کا پیدا کرنا اسکے باطنی حُسن کا اظہار ہے۔)

31

زانکہ ظاہرِ خاک اندوہ و بُکاست

در درونش صد ہزاراں خندہا ست

ترجمہ: کیونکہ خاک کا ظاہر، غم و ماتم ہے۔ اور اسکے باطن میں لاکھوں مسرّتیں ہیں۔

32

کاشفُ السِّرِّیم کارِ ما ہمیں

کایں نہاں ہا را بر آریم از زمیں

ترجمہ: ہم بھید کو ظاہر کرنے والے ہیں۔ ہمارا کام یہی ہے، کہ ان پوشیده امور کو زمین سے ظاہر کردیں۔

33

گرچہ دُزد از منکری دم میزند

شحنہ آں از عصر پیدا مے کند

ترجمہ: اگرچہ چور (چوری سے) انکار کا دم مار رہا ہے۔ (مگر) کوتوال ( بھی اس (چوری) کو تفتیش کے ذریعہ برآمد کر لیتا ہے۔

34

فضلہا دزدیده اند ایں خاکہا

ما مقر آریم شاں از ابتلا

ترجمہ: ان (طرح طرح) کی مٹیوں نے (بہت سی) فضیلتیں چُرا رکھی ہیں۔ ہم (مختلف) امتحانات کے ذریعہ ان سے (ان فضیلتوں کا) اقرار کرا لیتے ہیں۔

مطلب: زمین نے ہمارے بہت سے جود و کرم، اور فضل و احسان کو اپنے اندر چھپا رکھا ہے۔ ہم اس پر ہوا، دھوپ، بارش کے بہت سے گرم و سرد تر امتحان وارد کرتے ہیں، تو ہمارے وہ مخفی احسانات گوناگوں نباتات کی صورت میں جلوہ گر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی چونکہ مٹی سے پیدا ہوا ہے۔ اس میں ہمارے عطا کردہ بہت سے کمالات مخفی ہیں جنکا ظہور مختلف قسم کے امتحانات کے ساتھ ہوتا ہے۔(منہج) الله تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ - الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقره: 155-156) ”اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں انکو خوشخبری سنادو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انکو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں، اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پس ان امتحانات میں جو شخص کامیاب ہوجاتا ہے، اس میں صبر و شکر، اور رضا و تسلیم وغیرہ فضائل کے بے شمار جواہر درخشاں نظر آنے لگتے ہیں، اور یہی وہ گراں بہا کمالات ہیں، جو انسان کی ذات میں مخفی و مستور ہیں، اور جنکا ظہور اسکے لئے باعثِ بشارت ہے۔ جنابِ عبدالمطلب کے جواب میں ہاتفِ غیب نے جو تقریر ع۔زرِّ کانست آب و گل ما زرگریم۔۔۔الخسے شروع کی تھی، آگے اسکا نفسِ مطلب آتا ہے:

35

بس عجب فرزند کو را بودست

لیک احمدؐ بر ہمہ افزودست

ترجمہ: (زمین کے) بہت سے عجیب (اور با کمال) فرزند ہیں، جو اس سے (پیدا) ہوئے ہیں۔ لیکن حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلّم سب سے افضل ہیں۔ (فرزندانِ زمین سے انبیاء علیہم السّلام مراد ہیں، اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم سیّد الانبیاء ہیں۔)

36

شد زمین و آسمان خندان و شاد

کاینچنیں شاہے ز ما دو جفت زاد

ترجمہ: زمین اور آسمان خوش خرم ہو گئے، کہ ایسا شاہِ (انبیاء علیہم السّلام) ہم دو زن و شوہر سے پیدا ہو۔ (زمین و آسمان کو زن و شوہر مجازاً کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کہ آسمانی تاثیرات سے زمین متاثّر ہوتی ہے، جس سے ظہورِ موالید ہوتا ہے۔)

37

مے شگافد آسماں از شادیش

خاک چوں سوسن شد از آزادیش

ترجمہ: آسمان انکی خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ زمین انکی پیدائش سے سوسن کی طرح (سرسبز) ہوگئی۔ (آگے پھر وہی خاکی زاد ہستی کے ظاہر و باطن کے مقابلہ کا ذکر آتا ہے:)

38

ظاہرت با باطنت اے خاکِ خوش

چونکہ در جنگست و اندر کشمکش

ترجمہ:- (1) اے اچھی خاک! چونکہ تیرا ظاہر، باطن کے ساتھ۔ جنگ اور کشمکش میں ہیں۔

39

ہر کہ با خود بہر حق باشد بجنگ

تا شود معنیش خصمِ بُو و رنگ

ترجمہ: پس جو شخص (محض) اللہ تعالٰی کی (رضا) کے لئے خود اپنے ساتھ جنگ کرے۔ تاکہ اسکا باطن (ظاہری) رنگ کو مغلوب کر لے۔

40

ظلمتش با نورِ او شد در قتال

آفتابِ جانش را نبود زوال

ترجمہ: تو اسکی ظلمت اسکے نور کے ساتھ جنگ کر (کے ہزیمت پا) رہی ہے۔ اسکے آفتابِ روح کو زوال نہیں۔

انتباہ: مذکورہ تین شعروں کا ترجمہ تین طرح کیا ہے۔ اوپر والا ترجمہ (کذا مختار بحر العلوم) باقی دو ملاحظہ کریں: (2) اے اچھی خاک! چونکہ تیرے ظاہر و باطن جنگ اور کشمکش میں ہیں۔ (پس تیرے آفتاب کو زوال نہ ہوگا کیونکہ) جو حق تعالٰی (کی رضا) کے لئے، خود اپنے ساتھ جنگ کرے حتّٰی کہ اسکا باطن (ظاہری) رنگ و بو کو مغلوب کر لے، (اور) اسکی ظلمت اسکے نور کے ساتھ مصروفِ جنگ ہو، تو اسکے آفتاب کو زوال نہیں ہوتا۔ (کذا مختار شیخ ولی محمد رحمۃ اللہ علیہ) (3) اے اچھی خاک! چونکہ تیرے ظاہر و باطن جنگ اور کشمکش میں ہیں۔ (پس تیرا باطن یقیناً ظاہری رنگ و بُو کو مغلوب کرلے گا، کیونکہ) جو شخص حق تعالٰی (کی) رضا کے لئے خود اپنے ساتھ جنگ کرے، تو ضرور اسکا باطن (ظاہری) رنگ و بُو کو مغلوب کر لیتا ہے۔ (اور) اسکی ظلمت اسکے نور کے ساتھ جنگ کرتی ہے (اور) اسکے آفتاب کو زوال نہیں ہوتا (مختار بعض دیگر شراح)

41

ہر کہ کوشد بہرِ ما در امتحاں

پشت زیرِ پاش آرد آسماں

ترجمہ: جو شخص ہمارے لئے امتحان (دینے) میں کوشش کرے۔ آسمان (اپنی) پشت اسکے پاؤں کے نیچے لاتا ہے۔ (یعنی وہ شخص آسماں پر چڑھ جاتا ہے جو اسکے عروج و ترقّی کی دلیل ہے۔)

42

ظاہرت از تیرگی افغاں کناں

باطنِ تو گلستان در گلستاں

ترجمہ: تیرا ظاہر تاریکی کی وجہ سے فریادی ہے۔ (مگر تیرا باطن، اپنے انوار کی بدولت) باغ باغ ہے۔

43

قاصداً چوں صوفیانِ رُو تُرش

تا نیا میزند باہر نور کش

ترجمه: (1) (وہ امتحان دینے والا اپنے ظاہر کو) بالاراده (خراب رکھتا ہے) تُرش رو صوفیوں کی طرح۔ (اور وہ صوفی ترش روئی اس لئے اختیار کرتے ہیں) تاکہ (انکو ہر ایسے شخص) کی صحبت کا موقع نہ ہو، جو باطنی نور کو بجھا دے۔ (2) تُرش رو صوفیوں جیسے (حضرات) کے قریب آؤ (جنکی ترش روئی خاص مصلحت پر مبنی ہوتی ہے) تاکہ۔۔۔الخ

(3) تُرش رو صوفیوں کی طرح، خاردار (بن کر آؤ)۔الخ

مطلب: تیسرے ترجمے کی اگرچہ قواعدِ لغت پوری مساعدت نہ کرسکیں، مگر وہ مابعد کے مضمون کے لئے نہایت مناسب ہے۔ مطلب یہ ہے صوفی لوگ جو خُلقِ مجسم اور سراپائے رحمت و رأفت ہوتے ہیں، بتقاضائے مصلحت بد خلق، درشت خو، اور تند طبع بن جاتے ہیں۔ اور مصلحت اس میں یہ ہوتی ہے کہ صرف اہلِ اخلاق، اور صادقُ الارادہ لوگ ان سے مستفید ہوں، جو انکی تُرش روئی سے گھبرانے اور پیچھا چھوڑنے والے نہیں ہوتے۔ بخلاف انکے جو لوگ غیر مخلص اور ضعیفُ الاعتقاد ہوتے ہیں۔ وہ ان حضرات کی بد مزاجی سے بد دل ہو کر پیچھا چھوڑ جاتے ہیں، اور ایسے فاسد نیّت و غرض پرست لوگوں کا ہجوم، ان حضرات کے پاس رہنا اہلِ طریقت کی بدنامی اور انکے اوقاتِ گرامی کی اضاعت، اور انکے باطن کی کدورت کا باعث ہے۔ اس لئے انکو ٹالنا ضروری ہوتا ہے۔حافظ ؎

نخست موعظت میکده ای بود

کہ از مجالس نا جنس احتراز کنید

44

عارفانِ رو ترش چوں خار پشت

عیش پنہاں کرده در خارِ درشت

ترجمہ: تُرش رو عارفوں کی مثال، جنگلی چوہے (یا سیہہ) کی سی ہے۔ کہ وہ (اپنی بدخلقی کے نمائشی) تیز کانٹوں (کے حجاب) میں (کمالات کی) عیش کو چھپائے ہوئے ہیں (جنگلی چوہا جب گولا سا بن جاتا ہے، تو اسکا منہ پیٹ وغیرہ تمام اعضا کانٹوں کی پناہ میں چُھپ جاتے ہیں۔ اسی طرح عارف کے تمام کمالات، اسکی نمائشی بدخلقی کے حجاب میں پنہاں ہوتے ہیں۔)

45

باغ پنہاں کرده گل واں خار فاش

کائے عدوّ دُزد ازیں در دُور باش

ترجمہ: (گویا) باغ نے پھول کو چھپا لیا ہے، اور کانٹا ظاہر کر رکھا ہے۔ (جس سے یہ اشارہ مقصود ہے) کہ اے دشمن چور اس دروازے سے دور ہو۔ (صوفیہ کی تند مزاجی سے مقصود یہ ہے کہ بد اعتقاد لوگ ان سے دور رہیں۔)

46

خارپشتا خار حارس کردهٔ

سر چوں صوفی در گریباں بردۂ

ترجمہ: ( گویا) اے خار پشت (تیرا بھی یہی حال ہے کہ) تو نے کانٹے کو اپنا نگہبان بنا رکھا ہے۔ (اور) تو (مراقبہ کرنے والے) صوفی کی طرح گریبان میں اپنا منہ ڈالے ہوئے ہے۔

47

تا کسے در چار دانگِ عیشِ تو

کم شود زیں گلرخانِ خار خُو

ترجمہ: تاکہ ان پھول کی سی صورت، اور کانٹے کی سی خصلت والے (ظاہر آراستہ و باطن پراگندہ) لوگوں میں سے، کوئی تمہارے عیش فراواں میں داخل نہ ہو۔ (جو تہمارے لئے حارجِ وقت، اور مخلِ جمعیّت ہو۔ آگے پھر ہاتفِ غیب عبدالمطلب سے مخاطب ہوتا ہے:)

48

طفلِ تو گرچہ کہ کودک خو بدست

ہر دو عالم خود طفيلِ او بدست

ترجمہ: اے عبد المطلب! تمہارا بچہ اگرچہ بچوں کی سی خصلتوں والا ہے۔ مگر دونوں عالم اسکی بدولت (پیدا) ہوئے ہیں۔

49

ما جہانے را بدو زنده کنیم

چرخ را در خدمتش بندہ کنیم

ترجمہ: ہم ایک جہان کو اسکی بدولت (حیاتِ ایمان کے ساتھ) زندہ کریں گے۔ آسمان کو اسکی اس خدمت میں غلام بنائیں گے۔