دفتر چہارم: حکایت: 41
حکایتِ آں پیر کہ دلالت کرد، حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا را بر استعانت از بتاں
اس بڈھے کی حکایت کہ جس نے حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کو بتوں سے مدد لینے کا مشورہ دیا
1
پیر مردے پیشش آمد با عصا
کاے حلیمہ چہ فتاد آخر ترا
ترجمہ: ایک بوڑھا آدمی انکے پاس لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا۔ (اور بولا) کہ اے حلیمہ! تجھے کیا (مصیبت) پیش آئی؟
2
کہ چنیں آتش ز دل افروختی
ویں جگرہا را ز ماتم سوختی
ترجمہ: کہ ایسی آگ تو نے اپنے دل میں بھڑکا رکھی ہے۔ اور ان (لوگوں کے) کلیجوں کو ماتم سے جلادیا۔
3
گفت احمدؐ را رضیعم معتمد
پس بیاوردم کہ بسپارم بجد
ترجمہ: وہ بولی میں احمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی با اعتماد دودھ پلانے والی ہوں۔ لہذا میں انکو لائی تھی، تاکہ (انکے) دادا کے سپرد کر دوں۔ (”معتمد“ کی قید میں یہ اشارہ ہے کہ بچے کی ماں اور دادے کو میری حفاظت، اور نگہداشت پر بڑا اعتماد تھا۔ افسوس وہ اعتماد آج مٹی میں مل رہا ہے کہ بچہ میرے ہاتھوں گم ہو گیا۔ مولانا کا کوئی لفظ بے نکتہ نہیں ہوتا۔)
4
چوں رسیدم در حطیم آوازہا
مے رسید و مے شنیدم از ہوا
ترجمہ: جب میں حطیم میں پہنچی، تو غیب سے آوازیں آئیں۔ اور میں نے ہوا میں سے سنیں۔
5
من چو آں الحاں شنیدم از ہوا
طفل را بنہادم آنجا زاں صدا
ترجمہ: جب میں نے وہ آوازیں ہوا سے سنی۔ تو اس صدا کی وجہ سے بچے کو وہاں بٹھا دیا۔
6
تا بہ بینم ایں صد آواز کیست
کہ ندائے بس لطيف و بس شہی است
ترجمہ: تاکہ دیکھوں یہ صدا کس کی آواز ہے؟ کیونکہ بڑی لطیف، اور پسندیدہ آواز ہے۔
7
نز کسے دیدم بگردِ خود نشاں
نہ ندائے منقطع شد یک زماں
ترجمہ: نہ میں نے کسی کا نشان (تک) اپنے پاس پایا۔ (اور) نہ ندا ایک لمحہ کے لئے بند ہوتی تھی۔
8
چونکہ وا گشتم ز حیرتہائے دل
طفل را آنجا ندیدم وائے دل
ترجمہ: جب میں دل کی حیرت و پریشانی سے واپس آئی۔ تو بچے کو وہاں نہ پایا، ہائے (میرا) دل۔
9
گفتش اے فرزند تو اندہ مدار
کہ نمایم من ترا یک شہریار
ترجمہ: (بڈھے نے) اسکو کہا بیٹی! غم نہ کر۔ کیونکہ میں تجھے ایک بادشاه کا پتہ بتاتا ہوں۔
10
کہ بگوید گر بخواہد حالِ طفل
او بداند منزل و ترحالِ طفل
ترجمہ: جو (ایسا باکمال ہے کہ) اگر تو چاہے (ابھی تیرے) بچے کا حال سنا دے۔ وہ بچے کے ٹھکانے، اور کوچ کو (بخوبی) جانتا ہے۔
11
پس حلیمہ گفت اے جانم فدا
مر ترا اے شیخ خوب و خوش ندا
ترجمہ: پس حلیمہ نے کہا، آہا، اچھے اور مبارک بول والے بزرگ! میری جان تم پر قربان ہو۔
12
ہیں مرا بنمائے آں شاهِ نظر
کش بود از حالِ طفلِ من خبر
ترجمہ: ہاں ہاں، اس شاہِ نظر کی مجھے زیارت کراؤ۔ جسکو میرے بچے کے حال کی خبر ہو۔
13
برد او را پیشِ عُزّٰی کایں صنم
ہست در اخبارِ غیبی مغتنَم
ترجمہ: (بڈها) اسکو عزّٰی (بُت) کے پاس لے گیا (اور بولا) کہ یہ بُت۔ غیب کی خبر دینے میں غنیمت ہے۔
14
ما ہزاراں گم شده زو یافتیم
چوں بخدمت سوئے او بشتافتیم
ترجمہ: ہم نے جب کبھی حُسنِ عقیدت سے اسکی طرف رجوع کیا، تو اسکی بدولت ہزاروں گمشدہ (اشخاص و اشیاء) ہم کو مل گئیں۔
15
پیر کرد او را سجود و گفت زود
اے خداوندِ عرب وے بحرِ جود
ترجمہ: (اسکے بعد) بڈھے نے اسکو سجدہ کیا اور فوراً پکارا۔ اے عرب کے خدا! اور اے بخشش کے دریا!
16
گفت اے عُزّٰی تو بس اکرامہا
کرده تا رستہ ایم از دامہا
ترجمہ: (اور) کہا، اے عزٰی تو نے (ہم پر) بڑی مہربانیاں کیں۔ حتّٰی کہ ہم (مشکلات کے) پھندوں سے چھوٹ گئے۔
17
بر عرب حق است از اکرامِ تو
فرض گشتہ تا عرب شد رامِ تو
ترجمہ: اہل عرب پر تیری مہربانی کا حق ہے۔ جو (ان پر) فرض ٹھہرا حتّٰی کہ عرب تیرا مطیع ہو گیا۔
18
ایں حلیمہ سعدی از امیدِ تو
آمد اندر ظلِّ شاخِ بيد تو
ترجمہ: یہ (غریب) حلیمہ سعدیہ (سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا) تیری مہربانی کی امید پر۔ تیری شاخِ بید کے سائے میں آئی ہے۔
19
کہ ازو فرزند طفلے گمشده است
نام آں کودک محمدؐ آمده است
ترجمہ: کیونکہ اسکا ایک ننھا بیٹا گم ہو گیا ہے۔ اس لڑکے کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلّم) ہے۔
20
چوں محمدؐ گفت آں جملہ بتاں
سرنگوں گشتند ساجد آں زمان
ترجمہ: جونہی اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کہا، تمام بت۔ اسی وقت سجدہ کرتے ہوئے جھک گئے۔
21
کہ برو اے پیر ایں چہ جستجوست
آں محمد را کہ عزلِ ما ازوست
ترجمہ: (جس میں یہ اشارہ تھا) کہ اے بڈھے! اس محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی تلاش (کی) یہ کیا (ضرورت) ہے؟ جسکی بعثت سے ہماری کسمپرسی (کا وقت آنے والا) ہے (اسکو گمشده ہی رہنے دو۔)
22
ما نگوں و سنگسارانیم ازو
ما کساد و بے عیارانیم ازو
ترجمہ: ہم اسکی وجہ سے اوندھے اور توڑے جانے والے ہیں۔ ہم اسکی وجہ سے بے رونق اور کھوٹے ہیں۔
مطلب: یعنی جس شخص کی آمد ہمارے زوال کا باعث ہے۔ اسکو کیوں تلاش کرتے ہو؟ اور ہم سے اسکی تلاش میں کیوں مدد طلب کرتے ہو؟ بھلا ہم اپنے دشمن کی تلاش میں مدد دے سکتے ہیں؟ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کی تلاش عبث ہے، جسکی آمد میں اس قدر عظیم انقلاب آنے والے ہیں۔ وہ کوئی عام حیثیت کا انسان نہیں جو یوں سرسری طور سے گم ہو جائے، وہ ہرگز گم ہونے والا نہیں کیونکہ اسکی ذات سے بڑے بڑے واقعات، مثل کسرِ اصنام، و ترقیِ اقوام وابستہ ہیں، مگر یہاں مراد پہلے معنٰی ہیں، کیونکہ آئندہِ مضمون اسی کا مؤید ہے۔
23
آں خیالاتے کہ دیدندے ز ما
وقتِ فَترت گاه گاه اہلِ ہوا
ترجمہ: وہ خیالی کرشمے، جو بد عقیدہ لوگ، توقّفِ وحی کے زمانے میں کبھی کبھی ہم سے دیکھ لیتے تھے۔
24
گم شود چوں بارگاہِ او رسید
آب آمد مر تیمّم را درید
ترجمہ: اسکی عملداری کے آنے پر گم ہوجائیں گے۔ پانی آ گیا تو اس نے تیمم کے پَرخچے اڑا دیئے۔
مطلب: کفّارِ عرب ایامِ جاہلیّت میں بتوں سے بعض خاص کرشمے دیکھتے تھے۔ جنکے محرّک شیاطین ہوتے تھے۔ کبھی بُت کے اندر سے آواز سنتے تھے، جو شیطان کی آواز ہوتی تھی، بت پرست خیال کرتے کہ بت بول رہا ہے۔ اسی لئے یہاں ”خیالات“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد شیاطين کے تصرّفات کم ہو گئے، اور ان باتوں کی قوّت اس سے سلب ہو گئی۔ اسی لئے بتوں کے یہ کرشمے بھی ناپید ہو گئے۔ مولانا بحر العلوم میں فرماتے ہیں کہ اہلِ حدیث سے کتبِ تواریخ میں منقول ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فتح مکہ کے روز حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک بت توڑنے کے لئے بھیجا، جب وہ بت کو توڑ کر واپس آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے پوچھا، تم نے کوئی بات دیکھی؟ انہوں نے عرض کیا، میں نے کچھ نہیں دیکھا، فرمایا تو پھر تم نے بت کو نہیں توڑا۔ وہ پھر گئے اور دیکھا کہ بت بدستور قائم ہے، پھر اسے توڑ کے واپس آئے، اسی طرح کئی بار یہ واقعہ ہوا۔ بالآخر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ گئے، انہوں نے بت کو توڑا، تو اس سے کھلے سر، اور پریشان بالوں والی، ایک عورت نکلی، جو نوحہ کرتی تھی اور کہتی تھی،”آہ ذَھَبَ وَقْتِیْ“ یعنی ”ہائے میرا وقت جاتا رہا“ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوراً تلوار نکالی اور اسکا سر کاٹ ڈالا، واپس آ کر یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کو عرض کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا، اب وہ بت ٹوٹا۔(انتہٰی) (کتاب حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین۔ جو مصر کے ایک گرامی قدر عالم شیخ یوسف بن اسماعیل النہانی کی تالیف ہے، اس میں اس قسم کے بہت سے تاریخی واقعات لکھے ہیں۔) ایک دلچسپ واقعہ ذیل میں درج کرتے ہیں، جو اس مقام کے مناسب ہے۔ لکھا ہے کہ ایک شخص ابو عبد اللہ بن ذہاب نامی، جوانی کے زمانہ سے شکار کا دلدادہ تھا۔ اسکا کنبہ ایک خوبصورت بُت کی پرستش کرتا تھا جسکا نام قراض تھا۔ ابو عبد اللہ جو شکار لاتا اسکو بت کے قدموں میں ذبح کر کے، اسکے خون کو بت کے رخسار پر بطور غازه ملتا۔ ایک مرتبہ ابو عبد اللہ نے بت کے سامنے اپنے شکاری جانوروں کی شکایت کی کہ وہ شکار کے مارنے میں پوری مدد نہیں دیتے، اور عرب کے عام قاعدے کے موافق اسکی التجاء فی البدیہہ اشعار میں تھی:
فَرَّاضُ اَشْکُوْ نَكَدَ الْجَوَارِحٖ
مِنْ طَائِرٍ ذِیْ مِخْلَبٍ وَّ نَابِحٖ
ترجمہ: اے قراض! میں شکاری جانوروں کی کجروی کا شاکی ہوں، جن میں باز، شکرا، اور کتّا داخل ہیں۔
وَ اَنْتَ لِلْاَمْرِ الشَّدِيْدِ الْفَادِحٖ
فَافْتَحْ فَقَدْ اَسْهَلْتَ الْمَفَاتِحٖ
ترجمہ: اور سخت دشوار کام کے لئے تو ہی ہے۔ پس اس مشکل کو حل کر، تو پہلے بھی مشکلیں حل کرتا رہا ہے۔
معاً بُت کے جوف سے آواز آئی:
دُوْنَکَ کَلْباً جَارِحاً مُبَارَکاً
اُعِدَّ لِلْوُحُوْشِ سَلَاحاً شَابِکاً
يَفْرِ حَزُوْنَ الْاَرْضِ وَ الدَّكَادِکَا
ترجمہ: لو ایک شکاری کتا تم کو مبارک ہو، جو جنگلی جانوروں کے لئے ایک چلتا ہوا ہتھیار بنایا گیا ہے، جو دشوار و ہموار ہر قسم کی زمین میں جنگ آزمائی کرے گا۔“
ابو عبد الله خوشی خوشی اپنے خیمے میں آیا، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک مہیب و ہولناک جانور کھڑا تھا، جسکے سر، گردن، دم اور پنجوں پر غور کرنے سے معلوم ہوا، کہ کتّے کی قسم کا جانور ہے، ورنہ اسکی متوحّش صورت، اسکے چہرے پر کانٹوں کی طرح کھڑے ہوئے بال، کالی اور بھیانک تھوتھنی کے اندر خونی رنگ کی ڈراؤنی مونچھیں، اور خارا شگاف کچلیاں، صاف بتارہی تھیں کہ غیر مرئی دنیا کی کوئی خبیث ہستی مجسّم ہو کر آ گئی ہے۔ وہ جانور دم ہلاتا ہو ابو عبد الله کی طرف یوں دوڑا جیسے اسی کے انتظار میں کھڑا تھا، اور آتے ہی اسکے ہاتھ چاٹنے لگا۔ شکاری نے اسے پیار کیا اور اپنے بُت کے نام کے وزن پر اسکا نام حیاض رکھا۔ بہادر حیاض کا قاعدہ تھا کہ جونہی کسی ہرن کو دیکھتا تو ایک ہی چھلانگ میں جا دبوچتا۔ کسی گاؤ دشتی کو پاتا، تو ایک ہی جست میں جا دبوچتا۔ ایک دن عبد اللہ کے گھر کوئی مہمان آیا۔ جس نے ام القریٰ (مکہ) کے کچھ تازہ اور عجیب حالات کا ذکر کیا۔ سادہ مزاج بدوی ابو عبد اللہ کے کان تو معلوم نہیں اس تازہ خبر سے آشنا ہوئے یا نہیں، مگر بے زبان حیاض کی آنکھیں اس نووارد کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے تھیں، جو ایک ایک لفظ غور سے سن رہا تھا۔ آخر اس پر ایسی افسردگی چھائی کہ پھر سر نہ اٹھایا۔ ابو عبد اللہ نے اسے باہر جنگل میں لے جا کر ایک شتر مرغ دیکھایا، وہی حیاض جو شکار کو دیکھتے ہی برقِ خاطف بن جاتا تھا، آج گویا شکار سے ڈرتا تھا۔ پھر اسکو ایک ہرنی کے بچے کی طرف اکسایا، تو چار قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر ایک کچھوے کی طرف اشارہ کرکے سیٹی دی، مگر وه حیاض ہی نہ تھا۔ بچارا شکاری سر پیٹ کر بولا:
اَلَا مَا لِحَيَّاضٍ یَحِیْدُ کَاَنَّمَا
رَأَی الصَّیْدَ مَمْنُوْعًا بُزُوْقَ اللَّهَازِمِ
”ہائے حیاض کو کیا ہوگیا وہ اس طرح کترا رہا ہے، گویا شکار کے سامنے رخ کرنا بھی ممنوع سمجھتا ہے۔
معاً غیب سے آواز آئی:
یُحِیْدُ لِاَمْرٍ لَوْ بَدَالَکَ عَیْنُہٗ
لَکُنْتَ صَفُوْحًا عَاذِلاً غَیْرَ لَآئِم
ترجمہ: وہ ایک ایسے سبب سے کترا رہا ہے، اگر تجھ کو معلوم ہو جائے۔ تو یقیناً تو اسکو معاف رکھے، معذور سمجھے، اور کچھ نہ کہے۔
رات کو ابو عبد الله کیا تماشہ دیکھتا ہے کہ حیاض کی سی شکل و صورت کا ایک اور جانور آیا، اور اس نے آہستہ سے حیاض کے کان میں کہا، کیا بیٹھے ہو؟ بھاگو، دوڑو، جنات کی اکثر بستیاں مکے کے نئے پیغمبر کے دائرۂ ارادت میں داخل ہوچکی ہیں، اور وہ دن رات شیاطین کی جماعتوں پر مار دھاڑ کررہے ہیں۔ میں جان بچا کر جزائرِ ہند کی طرف جا رہا ہوں۔ اتنے میں ابو عبد اللہ نے کروٹ بدل کر نظر کی تو وہاں نہ حیاض تھا نہ اسکا مشیر۔ صبح اٹھ کر اس نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا، اور ساری داستان انکے آگے بیان کی۔ پھر صاف کہہ دیا کہ میں تو مکے کے پیغمبر کا معتقد ہوچکا ہوں۔ لوگوں نے اسکی بات کو مجذوب کی بڑ سمجھا، آخر اس نے ناچار ہو کر اپنے وطن کو خیرباد کہا، اور قراض کے پیکر کو پاش پاش کرکے مدینے کی راہ لی۔(انتہیٰ) غرض وہ بت بڈھے کو کہہ رہے ہیں:
25
دور شو اے پیر فتنہ کم فروز
ہیں ز رشکِ احمدی ما را مسوز
ترجمہ: دور ہوجا، اے بڈھے! سوتے فتنے نہ جگا۔ ارے ہم کو احمد صلی اللہ علیہ وسلّم کے رشک سے نہ جلا۔
26
دور شو بہرِ خدا اے پیر تو
تا نسوزی ز آتشیں تقدیر تو
ترجمہ: اے بڈھے خدا کے لئے دور ہو، تاکہ تو بھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے) تقدیر کی آگ میں نہ جل جائے (کیونکہ بت پرستوں کا یہی حشر ہونے والا ہے۔)
27
اینچہ دُمِّ اژدہا افشردنست
ہیچ دانی خبر آوردنست
ترجمہ: (ارے دیکھ تو سہی، کہ تیری) یہ (طلب و تجسس) کس قدر (خطرناک ہے) گویا اژدہے کی دم (کو پکڑ کر) دبایا ہے؟ کچھ تجھے معلوم بھی ہے کہ یہ خبر لانا کیسا (پُر خطر) ہے؟
28
زیں خبر خوں شد دلِ دریا و کاں
زیں خبر لرزاں شود ہفت آسماں
ترجمہ: اس خبر سے دریا، اور کان کے دل خون ہو گئے۔ (کہ اس موتی کے آگے اب انکے موتیوں اور جواہرات کی قدر نہ رہے گی) اس خبر سے تو ساتوں آسمانوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ (کہ اس آفتابِ رسالت کے آگے مہر و ماه ماند پڑجائیں گے۔)
29
چوں شنید از سنگہا پیر ایں سخن
پس عصا انداخت آں پیرِ کہُن
ترجمہ: جب بڈھے نے پتھروں سے یہ بات سنی۔ تو اس بڈھے ضعیف نے (خوف و دہشت کے مارے) لاٹھی پھینک دی۔
30
پس ز لرز و خوف و بیمِ آں ندے
پیر دندانہا بہم بر می زدے
ترجمہ: تو اس آواز کے لرزہ، اور خوف اور ڈر سے بڈھے کے دانت بجنے لگے۔
31
آنچناں کاندر ز مستاں مرد عور
او ہمی لرزید و مے گفت اے ثبور
ترجمہ: وہ بڈھا اس طرح کانپتا تھا، جس طرح موسمِ سرما میں ننگا آدمی ( کانپتا ہو) اور کہتا تھا، ہائے ہلاکت۔
32
چوں در آں حالت بدید آں پیر را
پا و سر گم کرد زن تدبیر را
ترجمہ: جب (بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا) نے بڈھے کو اس حالت میں دیکھا۔ تو تدبیر کے پاؤں اور سر کھو بیٹھی۔
33
گفت پیرا گرچہ من در محنتم
حیرت اندر حیرت اندر حیرتم
ترجمہ: بولی بڑے میاں! اگرچہ میں (اس وقت اپنی) مصیبت میں (مبتلا) ہوں (مگر پے درپے، مختلف عجائبات کو دیکھ کر) حیرت در حیرت میں غرق ہوں (چنانچہ:)
34
ساعتے بادم خطیبی میکند
ساعتے سنگم ادیبی میکند
ترجمہ: کبھی ہوا، مجھے تقریر سناتی ہے۔ کبھی پتھر، میرے آگے زبان دانی (کا اظہار) کرتے ہیں۔ (یا سر بسجود ہو کر، ادب بجالاتے ہیں۔)
35
باد با حرفم سخنہا میدہد
سنگ و کوہم فہمِ اشیاء میدہد
ترجمہ: ہوا مجھ کو با حروف باتیں پہنچاتی ہے۔ پتھر اور پہاڑ مجھ کو معاملات سمجھاتے ہیں۔
36
گاه طفلم را ربوده غیبیاں
غیبيانِ سبز پوشِ آسماں
ترجمہ: کبھی غیبی (فرشتے) میرے بچے کو لے جاتے ہیں۔ وہ غیبی جو آسمان کے (رہنے والے) سبز پوش ہیں۔
37
از کہ نالم با کہ گویم ایں گلہ
من شدم سودائی اکنوں صد دلہ
ترجمہ: کس (کے ظلم) سے فریاد کروں، اور کس کے پاس یہ شکایت کروں؟ کہ میں اب دیوانی (اور) مضطرب ہوں۔
38
غیرتش از شرحِ غیبم لب بہ بست
ایں قدر گویم کہ طفلم گم شده است
ترجمہ: اس (بچے) کی رازداری نے، غیبی باتوں کو بیان کرنے سے میرے لب بند کر دیئے (جن سے اسکے کمالات کا راز ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا) میں اس قدر کہتی ہوں کہ میرا بچہ گم ہو گیا۔
مطلب: ”رازداری“ کو غیرت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، یعنی غیبی حالات و اشارات سے اس بچے کے جو فضائل و کمالات مجھے معلوم ہو چکے ہیں، انکو ابھی بصیغۂ راز میں محفوظ رکھنا داخلِ مصلحت ہے، کیونکہ وہ فضائل و کمالات اپنے وقت پر ظاہر ہو کر، خود دنیا کو اپنا گرویدہ کرلیں گے۔ اب میں ایک ننھے بچے کے کمالات بیان کرنے لگوں تو لوگ کب تسلیم کریں گے؟ بلکہ الٹا میرا مضحکہ اڑائیں گے، اور مجھے دیوانی کہیں گے۔ چنانچہ کہتی ہے:
39
گر بگویم چیزِ دیگر من کنوں
خلق بندندم بزنجیرِ جنوں
ترجمہ: اگر میں اب (اسکے سوا) کچھ اور کہہ بیٹھوں۔ تو لوگ مجھے دیوانگی کی زنجیر میں جکڑ دیں گے۔
40
گفت پیرش کائے حلیمہ شاد باش
سجدهٔ شکر آر و رُو را کم خراش
ترجمہ: بڈھے نے اس سے کہا، اے حلیمہ! خوش ہو، شکر کا سجدہ ادا کر اور (اپنا) منہ نہ نوچ۔
41
غم مخور یاوَه نگردد او ز تو
بلکہ عالم یاوه گردد اندرو
ترجمہ: غم نہ کرو، وہ تجھ سے گم نہ ہوگا۔ بلکہ دنیا (کی عقل) اس (کا معاملہ سمجھنے میں) گم ہو جائے گی۔
42
ہر زمانش از رشک و غیرت پیش و پس
صد ہزاراں پاسبانست و حرس
ترجمہ: ہر وقت ( مخالفین) کی رقابت، اور غیرت کی وجہ سے۔ اسکے آگے، اور پیچھے لاکھوں محافظ و نگہبان (مامور) ہیں۔
مطلب: محافظوں سے مراد ملائکہ ہیں جو رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلّم کی ہمیشہ حفاظت کرتے تھے، اور اسی بنا پر آپکو الله تعالٰی نے بذریعہ وحی ارشاد فرمایا: ﴿وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدہ: 67) یعنی ”اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا۔“ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو مدینہ کے یہود، اور منافقین کی سازشوں سے گزند پہنچنے کا اندیشہ رہتا تھا۔ اس لئے دو آدمی ہمیشہ مامور رہتے تھے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے دروازہ پر پہرہ دیتے۔ جس رات یہ آیت نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ان دونوں پہرہ داروں کو حکم دیا، کہ جاؤ آرام کرو، تمہاری ضرورت نہیں، الله تعالٰی خود میرا محافظ ہے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ کیسے کیسے نازک و پُرخطر واقعات میں اللہ نے آپکو بال بال بچایا، اور منصوبہ گر، دشمن ہمیشہ اپنی ہی چالوں میں الجھے، بچھڑتے، گرتے مرتے، اور فنا ہوتے چلے گئے۔ فرمایا: ﴿وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ﴾ (الصف: 8) یعنی ”حالانکہ اللہ اپنے نور کی تکمیل کر کے رہے گا، چاہے کافروں کو یہ بات کتنی بری لگے۔“ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک بُت پرست بڈھے کو یہ پتے کی بات کیونکر سوجھ گئی؟ کہ لاکھوں ملائکۂ غیب اس بچے کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اسکا جواب یہ ہے کہ بڈھے نے یہ بات یا تو بنائے نقل کہی، یا بقیاسِ عقل، یعنی یا تو اسنے پرانے لوگوں سے آسمانی کتابوں کی پیشگوئیوں کی بنا پر سنا ہوا ہوگا، کہ آخری زمانے میں ایک پیغمبر مبعوث ہوگا، جسکے آگے بت سرنگوں ہوجائیں گے، اور خداوند تعالٰی خود اسکا محافظ ہوگا، اور بتوں کے سرنگوں ہونے سے اس نے سمجھ لیا کہ یہی لڑکا وہ پیغمبر بننے والا ہے۔ اسی لئے سنی ہوئی روایت کی بنا پر، حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کو بشارت دے دی، یا اس نے خود اپنی عقل سے سمجھ لیا، کہ جس پاک ہستی کے رعب سے بت بھی جھکتے ہیں، کیا وه کہیں عام ہستیوں میں شمار ہونے کے قابل ہوسکتی ہے کہ غیب سے اسکے لئے حفظ و حراست کے سامان نہ ہوں؟ ضرور فرشتوں کی صفیں تیغِ بکف اسکی نگہبانی کا فرض ادا کر رہی ہیں۔ اسکی یہی ہیبت و شوکت بتوں کو لرزہ براندام کر رہی ہے، اور یہی توجیہِ ثانی، اس بڈھے کے قول کے ساتھ زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے:
43
آں ندیدی کاں بتانِ ذو فنون
چوں شدند از نامِ طفلت سرنگوں
ترجمہ: کیا تو نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ بت جو عجائبات کے مظہر ہیں، بچے کے نام سے کس طرح سرنگوں ہو گئے۔
44
ایں عجب قرنے ست بر روئے زمینپیر گشتم من ندیدم جنسِ ایں
ترجمہ: یہ عجیب دور ہے (جو) زمین پر (آنے والا ہے۔) میں بڈھا ہو گیا (مگر اس قسم کا دور) نہیں دیکھا۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)
45
زیں رسالت سنگہا چو نالہ داشت
تا چہ خواہد بر گنہگاراں گماشت
ترجمہ: اس رسالت (کی آمد) سے جب پتھر (بھی) چلّا اٹھے۔ (تو خیال کرو) کہ گنہگاروں پر کیا مسلط کرے گی؟
46
سنگ بے جرمست در معبودیش
تو نۂِ مضطر کہ بندہ بودیش
ترجمہ: پتھر اپنے معبود ہونے میں بے قصور ہیں (کیونکہ وہ معبود بننے کے خواہاں نہیں۔ اے بُت پرست) تو مجبور نہیں کہ اس (بُت) کی عبادت کرے (تو خود اس کے آ گے سر رگڑتا ہے۔)
47
آنکہ مضطر ایں چنیں ترساں شدست
تاکہ بر مجرم چہا خواہند بست
ترجمہ: (جب) وہ (بے قصور و) مجبور (پتھر) اس قدر ڈر رہا ہے۔ تو قصور وار (بااختیار) پر کیا کچھ فردِ جرم نہیں لگائی جائے گی؟
انتباه: اس بیان کے خاتمہ پر ایک اشتباہ کی گرہ کھول دینی مناسب ہے۔ وہ یہ کہ عنوان میں لکھا ہے ”قصّۂ یاری خواستن حلیمہ از بتاں“ یعنی ” بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کے بتوں سے مدد مانگنے کا قصّہ“ جس سے بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کا بُت پرست ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پھر آ گے یہ بیان ہے کہ وہ بتوں کے پاس گئی۔ اسکی آرزو کے موافق بتوں سے رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا پتہ، نشان پوچھا گیا، جو عنوان کے اجمال کی تفصیل ہے۔ مگر یہ بیان اس مشہور عقیدہ کے خلاف ہے کہ بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کا دامنِ عمل بت پرستی کی آلائش سے پاک تھا، کیونکہ حکمتِ ربّانی کا تقاضا یہی ہونا چاہیے، کہ جو رسولِ پاک دنیا کو عبادتِ اصنام کی آلودگی سے پاک کرنے آئے گا، جسکے جسمِ پاک کا تعذیہ و تربیّت کسی ایسی بی بی کے دودھ سے ہو، جسکو بت پرستی کی ہوا بھی نہ چھوئی ہو۔ جس قادرِ مطلق نے آپکی ذاتِ اطہر کو تمام آلائشوں سے بچایا، حتّٰی کہ آپکے جسم مبارک پر مکھی تک کو بیٹھنے نہ دیا۔ کیا وہ آپکے جسم کی پرورش ایسی عورت کے دودھ سے ہونا پسند فرماتا، جسکی چھاتی بجائے نورِ ایمان کے کبائر یعنی شرک سے ظلمت کدہ ہوتی؟
اسکا جواب یہ ہے کہ فی الواقع مولانا کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا شرک کی آلائش سے پاک تھی۔ پس عنوان میں ”یاری خواستن“ کا تعلق بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کے ساتھ مجازاً و صورۃً ہے، نہ کہ حقیقتاً و معناً کیونکہ در حقیقت بتوں سے جو گفتگو کی، اور اِلتجائے اعانت کی، وہ بڈھے نے کی، بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا خاموش رہیں، مگر چونکہ وہ استدعائے مدد، محض بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کے لئے، اور اسی کی حلِّ مشکل کی غرض سے تھی، اس لئے اس فعل کو مجازاً بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ باقی رہی یہ بات کہ بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا بتوں کی طرف گئی کیوں؟ یا اگر وہ مولانا کے عقیدہ میں بت پرستی سے پاک تھیں، تو انہوں نے اس کا بتوں کی طرف جانا کیونکر صحیح تسلیم کر لیا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کو کچھ معلوم نہ تھا کہ بڈھا بت پرست ہے، اور بتوں سے اِلتجا کرنے کا مشورہ دے رہا ہے، اور اب مجھے بتوں کی طرف لے جارہا ہے۔ وہ محض اتنا سمجھیں، کہ وہ کسی عالی پایہ اہلِ علم انسان کا پتہ بتارہا ہے، جو اپنے علم و بصیرت اور فہم و فراست سے میری مشکل حل کرے گا، مگر جب اسکو بتوں کے سامنے لاکر کھڑا کردیا گیا، تو بجائے بت کو سجدہ کرنے، یا خود اِلتجا کرنے کے چپ چاپ کھڑی رہی، یہ حرکتیں صرف بڈھے نے کیں، بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کھڑی اسکا تماشہ دیکھتی رہی۔ ہمارے اس بیان کی تصدیق مثنوی کے سابقہ اشعار سے کر لو۔ دیکھو بڈھا کہتا ہے کہ ”نمایم من ترا یک شہریار“ یہاں اسنے بت کا نام تک نہیں لیا، وہ بت کو ”شہر یار“ کہتا ہے، اور بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا ”شہریار“ سے کوئی ذی جاہ انسان سمجھتی ہے۔ چنانچہ بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کہتی ہیں۔ ”ہیں مرا بنماۓ آں شاہِ نظر“ جس سے بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کے اس نقطۂ نگاہ کا صاف پتہ چلتا ہے، کہ اسکو بت کا تصوّر تک نہ تھا، حتّٰی کہ ”برد او را پیش عزّیٰ کیں صنم الخ“ آگے جو کچھ کہا گیا، اور جو کچھ کیا گیا، وہ سب بڈھے کے اقوال و افعال ہیں۔ بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا نے یہ سارا تماشہ دیکھ کر، اگر کچھ کہا، تو صرف یہی کہا ”حیرت اندر حیرتم“ جس سے اس شبہ کی گنجائش نہیں رہتی، کہ بی بی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا بُت پرست تھی؟ یا مولانا اسکو بت پرست سمجھتے تھے؟ فَالْحَمْدُ لِلہِ