دفتر چہارم: حکایت: 40
قصّۂ یاری خواستنِ حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا از بتاں، چوں عقیبِ فطام مصطفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ را گم کرد، و لرزیدنِ بتان، و بسجدہ افتادن
دائی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کے بتوں سے مدد چاہنے کا قصّہ، جب انکے پاس سے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم دودھ چھڑانے کے بعد گم ہو گئے، اور بتوں کا کانپنا، اور سجدے میں گرنا
1
قصّۂ راز حليمہ گوئمت
تا زداید داستانِ او غمت
ترجمہ: (دائی) حلیمہ (سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا) کے قصّہ کا راز تم کو سناتا ہوں۔ تاکہ اسکی داستان تمہارے غم کو دور کرے۔
2
مصطفیؐ را چوں ز شیرِ او باز کرد
بر کفش برداشت چوں ریحان و ورد
ترجمہ: جب اس نے حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم کا دودھ چھڑایا۔ تو انکو گلاب و ریحان کی طرح ہاتھ میں اٹھا لیا۔
3
مے گریزانیدش از ہر نیک و بد
تا سپارد آں شہنشہ را بجد
ترجمہ: وہ آپکو ہر نیک و بد سے بچاتی تھی۔ تاکہ ان شہنشاہ کو (انکے) دادے کے حوالے کر دے۔
مطلب: یہ اس قصّہ کی طرف اشارہ ہے کہ مائی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو دودھ چھڑانے کے بعد بھی اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی، کیونکہ آپکے دیدار کو وہ موجبِ برکت سمجھتی تھی، اور واقعی آپکی بدولت اسکے گھر میں بہت سی برکات کا ظہور ہوا تھا۔ ان ایام میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، اس وقت جبریل علیہ السّلام آئے آپ کو پکڑ کر زمین پر لٹایا، اور سینہ مبارک کو شق کر کے قلب نکالا۔ پھر قلب کو شق کرکے اس میں سے منجمد خون کا ایک ٹکڑا نکال ڈالا، اور کہا یہ آپکے شیطان کا حصہ ہے، پھر قلب مبارک کو ایک سنہری طشت میں رکھ کر دھویا، اسکے بعد زخم کو سی دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھا کہ حضور کے سینے میں اس زخم کی سلائی کا نشان دکھائی دیتا تھا۔ جب لڑکوں نے یہ حادثہ دیکھا تو دائی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا کے پاس دوڑے گئے، اور کہا کہ تیرے فرزند کو جنّات نے غیب سے آ کر مار ڈالا، دائی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا دوڑی آئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھا تو گود میں اٹھا لیا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا رنگ متغیّر ہو رہا تھا۔ اس دن سے اسکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی طرف سے اندیشہ رہنے لگا، اور وہ آپکی بہت حفاظت کرتی تھی، کہ کسی کی نظر آپ پر نہ پڑے، اور اس نے چاہا کہ آپکو جلدی آپکے دادا کے سپرد کردے، کہ مبادا پھر کبھی آپکو گزند نہ پہنچے۔ (بحر العلوم)
4
چوں ہمی آورد امانت را ز بیم
شد بكعبہ و آمد او اندر حطیم
ترجمہ: جب فکر و اندیشہ سے وہ (اس) امانت کو لا رہی تھی تو کعبہ کی طرف گئی، اور حطیم میں پہنچی۔
مطلب: حطیم کعبہ کے پاس کسی قدر اونچی دیوار بنی ہوئی ہے، جو کعبہ کی مسقّف عمارت سے باہر واقع ہے۔ اسکی اصلیّت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خدا کے حکم سے کعبہ شریف کی تعمیر، خاص طول و عرض کے رقبے میں کی تھی۔ مدت کے بعد سیلاب کی وجہ سے اس عمارت کو نقصان پہنچا، تو متولّیانِ کعبہ نے اسکو از سر نو تعمیر کرنا چاہا، مگر سامانِ تعمیر کی قلّت سے، عمارت ایک طرف سے ہٹا کر چھوٹی کردی۔ چونکہ کعبہ کے طواف میں اس ساری جگہ پر چکّر لگانا فرض ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی تعمیر سے محدود تھی، اور اس آخری تعمیر میں کچھ جگہ چھوٹ گئی تھی، جسکے باہر رہ جانے سے طواف صحیح نہ ہو سکتا تھا۔ اس لئے کعبہ کی اس جانب جدھر سے وہ جگہ چھوٹ گئی تھی، سابقہ تعمیر کی بنیاد پر ایک چھوٹی سی دیوار بنا دی گئی، تاکہ طواف اسکے اوپر سے کیا جائے۔ اسی دیوار نما نشان کو حطیم کہتے ہیں۔ اسکے بعد خلفائے نامدار، اور سلاطینِ کبار اپنے اپنے وقت میں کعبہ کی تعمیر میں، وہ جدّت اور عمدگی تو بڑھاتے گئے جس سے وہ عجائباتِ عالم میں شمار ہوتا ہے، مگر حطیم کے حصے کو شامل کر کے ابراہیمی تعمیر کی تجدید کوئی نہ کر سکا، کیونکہ جتنے رقبے پر اب کعبہ بنا ہوا ہے، اس کو بھی ہزارہا سال گزر چکے، اب اسکی تعمیر موجبِ فتنہ ہے۔ کعبہ اور حطیم کے درمیان کا مقام، بہت متبرّک اور موجبِ قبول دعا ہے۔ اس لئے مائی حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا اس جگہ آئی ہوں گی۔
5
از ہوا بشنید بانگے کاے حطیم
تافت بر تو آفتابے بس عظیم
ترجمہ: تو اس نے غیب سے ایک آواز سنی کہ اے حطیم! تجھ پر ایک بہت بڑے آفتاب نے پَرتو ڈالا ہے۔
6
اے حطیم امروز آید بر تو زود
صد ہزاراں نور از خورشیدِ جود
ترجمہ: اے حطیم! آج تجھ پر بہت جلد۔ آفتابِ کرم کے لاکھوں نور، نچھاور ہوں گے۔
7
اے حطیم امروز آرد در تو رخت
محتشم شاہے کہ پیکِ اوست بخت
ترجمہ: اے حطیم! آج تجھ میں وہ ذیشان بادشاہ ڈیرا لارہا ہے، کہ خوش نصیبی اسکا قاصد ہے۔
8
اے حطیم امروز بیشک از نوے
منزلِ جانہائے بالائی شوے
ترجمہ: اے حطیم! آج تو بیشک از سر نو۔ (ملائکہ و) ارواحِ عالمِ بالا کے نزول کی جگہ ہوگا۔
9
جانِ پاکاں طلب طلب و جوق جوق
آیدت از ہر نواحی مستِ شوق
ترجمہ: پاک لوگوں کی روحیں، جماعت جماعت، اور گروہ گروہ بن کر۔ ہر طرف سے شوق میں مست ہو کر آئیں گی۔ (”طلب“ معرب ہے ”تلب“ بتائے مثناۃ کا بمعنٰی جماعت۔)
10
گشتہ حیران آں حلیمہ زاں صدا
نے کسے درپیش نے سوئے قفا
ترجمہ: حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا اس صدا سے حیران ہو رہی تھی۔ نہ کوئی سامنے (نظر آتا تھا) نہ پیچھے کی طرف۔
11
شش جہت خالی ز صورت ویں ندا
شد پیا پے آں ندا را جاں فدا
ترجمہ: چھ کی چھ طرفیں (آدمِ) صورت سے خالی (ہیں) اور یہ آواز بار بار آئی، اس ندا کے قربان جائیے۔
12
مصطفٰیؐ را بر زمین بنہاد او
تا کند آں بانگِ خوش را جستجو
ترجمہ: (آخر دائی) حلیمہ سَلَامُ اللہِ عَلَیْہَا نے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کو زمین پر بٹھادیا۔ تاکہ اس اچھی آواز والے کی تلاش کرے۔
13
چشم می انداخت آندم سُوبسُو
کہ کجاست آں شہِ اسرار گو
ترجمہ: وہ اس وقت ہر طرف نظر ڈالتی تھی۔ کہ وہ بڑی ہستی بھید (کی بات) کہنے والی کہاں ہے؟
14
ایں چنیں بانگ از چپ و راست
مے رسد یا رب رساننده کجاست
ترجمہ: ایسی اونچی آواز دائیں بائیں طرف سے آرہی ہے۔ الٰہی (آواز) دینے والا کہاں ہے؟
15
چوں ندید او خیره و نومید شد
جسم لرزاں ہمچو شاخِ بید شد
ترجمہ: جب اس نے (آواز دینے والا) نہ دیکھا تو حیران، اور نا امید ہوگئی۔ اور (دہشت سے اسکا) بدن بید کی شاخ کی طرح کانپنے لگا۔
16
باز آمد سوئے آں طفلِ رشید
مصطفٰیؐ را در مکانِ خود ندید
ترجمہ: (پھر) وہ اس شریفُ الطبع بچے کی طرف واپس آئی۔ تو مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم کو اپنی جگہ میں نہ پایا۔
17
حیرت اندر حیرت آمد بر دلش
گشت بس تاریک از غم منزلش
ترجمہ: (اس واقعہ سے) اسکے دل پر حیرت پر حیرت طاری ہو گئی۔ وہ جہاں تھی وہاں غم سے اس پر تاریکی چھا گئی۔
18
سوئے منزلہا دوید و بانگ داشت
کہ کہ بر دُرِّ دانہ ام غارت گماشت
ترجمہ: وہ گھروں کی طرف دوڑی اور چّلانے لگی۔ کہ کون میرے موتی کے دانے کو لوٹ لے گیا؟
19
مکّیاں گفتند ما را علم نیست
ما ندانستیم کانجا کودکے ست
ترجمہ: اہل مکہ نے کہا ہم کو کوئی علم نہیں۔ ہم کو تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہاں (حطیم میں) کوئی بچہ (بیٹھا) ہے۔
20
ریخت چنداں اشک و کرد او بس فغاں
کہ بر اُو گریاں شدند آں مکیاں
ترجمہ: اس نے اس قدر آنسو بہائے اور بے حد فریاد کی۔ کہ اس پر اہلِ مکہ (بھی) رو دیئے۔
21
سینہ کوباں آنچناں بگریست خوش
کاخراں گریاں شدند از گریہ اش
ترجمہ: وہ چھاتی پیٹ پیٹ کر اس زور سے روئی۔ کہ اس کے رونے پر ستارے بھی رو دیئے۔