دفتر 4 حکایت 39: حضرت سلیمان علیہ السّلام کا شہر سبا سے بلقیس کا تخت منگانے کی تدبیر کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 39

چاره کردنِ سلیمان علیہ السّلام در احضارِ تختِ بلقیس از سبا

حضرت سلیمان علیہ السّلام کا شہر سبا سے بلقیس کا تخت منگانے کی تدبیر کرنا

1

پس سلیمانؑ گفت با لشکر عیاں

تختِ او را حاضر آرید ایں زماں

ترجمہ: پس حضرت سلیمان علیہ السّلام نے لشکر کو برملا حکم دیا۔ کہ اسکے تخت کو ابھی لاؤ۔

2

گفت عفریتے کہ تختش را بفن

حاضر آرم تا تو زیں بیرون شدن

ترجمہ: ایک دیو نے عرض کیا کہ میں اسکے تخت کو فن (سحر) سے۔ حضور کے (اپنی) مجلس سے اٹھنے تک لاسکتا ہوں۔ (جیسے فرمایا: ﴿قَالَ عِفۡرِیۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ(نمل: 39))

3

گفت آصف من باسمِ اعظمش

حاضر آرم پیش تو در یک دمش

ترجمہ: (حضرت سلیمان علیہ السّلام کے وزیر) آصف (بن برخیا) نے عرض کیا، میں اسم اعظم (کی برکت) سے۔ اسکو ایک دم میں آپکے سامنے حاضر کرتا ہوں۔ (جیسے فرمایا: ﴿قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّرۡتَدَّ اِلَیۡکَ طَرۡفُکَ(النمل: 40))

4

گرچہ عفریت اوستادِ سحر بود

لیک آں از نفخِ آصف رو نمود

ترجمہ: اگرچہ وہ دیو جادو میں استادِ (یگانہ) تھا۔ لیکن (اس مقابلے میں پست ہو گیا۔ چنانچہ) وہ (تخت) آصف کے (اسم اعظم پڑھ کر) دم (کرنے) سے (فوراً) آیا۔

5

حاضر آمد تختِ بلقیس آں زماں

لیک ز آصف نز فنِ عفريتیاں

ترجمہ: (غرض) بلقیس کا تخت اسی وقت حاضر ہو گیا۔ لیکن آصف (کے دم) سے (حاضر ہوا) نہ کہ دیوؤں کے فن (سحر) سے (اس میں فنِّ سحر کی تحقیر و تذلیل، اور غیر مشروعیت بلکہ حرمت کا اشارہ ہے۔ فَافْہَمْ)

6

گفت حَمْدَ اللہ بریں و صد چنیں

کہ بدیدستم ز ربُّ العٰلمین

ترجمہ: تو (حضرت سلیمان علیہ السّلام نے) کہا اللہ کا شکر ہے، اس (کرم) پر اور ایسے سینکڑوں (فضل و کرم) پر۔ جو مجھے پروردگار عالم سے حاصل ہو چکے ہیں۔

7

پس نظر کرد آں سلیمانؑ سوئے تخت

گفت آرے گول گیری اے درخت

ترجمہ: پھر حضرت سلیمان علیہ السّلام نے (اس) تخت کی طرف نظر کی تو فرمایا۔ ہاں اے (تخت! جو فی الوقع سونے چاندی کا ایک بڑا) درخت (ہے، بے شک) تو (دنیادار لوگوں کو) بے وقوف بنانے والا ہے۔ (اس بیان سے مولانا اس ذکر کی طرف انتقال فرماتے ہیں کہ بعض اوقات، بتوں سے بھی عجائبات کا ظہور ہو جاتا ہے۔)

8

پیش چوب و سنگ نقش کنند

اے بسا گولاں کہ سرہا مے نہند

ترجمہ: (اسی طرح) لوگ جب لکڑی اور پتھر پر کوئی تصویر بنا لیتے ہیں۔ تو بہت سے بے وقوف (بت پرست) ایسے ہیں (جو اسکے آگے سجدے میں) سر رکھنے لگتے ہیں۔

9

ساجد و مسجود از جان بے خبر

دیده از جاں جنبشے و اندک اثر

ترجمہ:(مگر) سجدہ کرنے والا، اور (بت) جسکو سجدہ کیا جاتا ہے (دونوں اس) روح (یعنی حق تعالٰی) سے بے خبر ہیں۔ ( سجدہ کرنے والے نے بت میں اس) روح (تعالٰی شانہٗ کی قدرت) سے کسی قدر حرکت، اور ذرا سا کرشمہ دیکھ لیا (اور وہ بت کا معتقد ہوگیا۔)

مطلب: حق تعالٰی کو جان اس لحاظ سے کہا ہے کہ عالمِ حیات اسکی حیات کے ساتھ وابستہ ہے۔ بت پرست تو خدا سے بے خبر ہے ہی کہ وہ بت کو خدا سمجھتا ہے، مگر بت خدا سے بے خبر نہیں۔ اس لئے کہ تمام مخلوق حتّٰی کہ اینٹ پتھر تک کو خدا کا علم ہے۔ پس یہاں مسجود کے بے خبر ہونے سے یہ مراد ہے کہ بت کو یہ خبر نہیں کہ اس کمبخت نے مجھ کو خدا سمجھ رکھا ہے، یعنی وہ نہ اسکی پرارتھنا کو سنتا سمجھتا ہے، نہ اسکے عقیدے کی اسکو کچھ خبر ہے۔ اسی لئے بُت قیامت کے روز بُت پرستوں کی تکذیب کریں گے کہ یہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے رہے، غلط ہے۔ ہم نہ معبود تھے، نہ ہماری عبادت کی گئی۔ (بکذا فی البحر العلوم)

10

دیده در وقتے کہ شد حیران و دنگ

کہ سخن گفت و اشارت کرد سنگ

ترجمہ: (کافر نے) جب کہ وہ حیران و دنگ تھا، دیکھا۔ کہ ایک پتھر نے گفتگو کی اور اشارہ کیا (اسی بنا پر وہ اسکو اپنا خدا سمجھنے لگا۔ اب بَت کے اشارہ و کلام کی وجہ سن لو:)

11

نزد خدمت را چو نا موضع بباخت

شیرِ سنگی را شقی شیرے شناخت

ترجمہ: جب بدبخت (بُت پرست) نے عبادت کی بازی بے جا لگادی۔ اور پتھر کے شیر کو (سچ مچ کا) شیر سمجھ لیا (یعنی پتھر کے باطل خدا کو حقیقی خدا سمجھ لیا۔)

12

از کرم شیرِ حقیقی کرد جُود

استخوانے سوئے سگ انداخت زود

ترجمہ: تو حقیقی شیر (سے ناراض ہو گیا، تاہم اس) نے (اپنے) کرم سے (اتنی) بخشش کی (کہ) فوراً (اس) کتّے کی طرف ایک ہڈی پھینک دی (مگر وہ اعلٰی اجر سے محروم رہا۔)

13

گفت گرچہ نیست آں سگ بر قوام

لیک ما را استخواں لطفے ست عام

ترجمہ: (اور) کہا اگرچہ وہ کتّا عبادت کرنے میں استقامت (یعنی راہِ راست پر نہیں۔) لیکن ہماری ہی طرف سے ہڈی (کی عطا) عام بخشش ہے (جو گنہگاروں تک کو ملتی ہے۔)

مطلب: بتوں سے اشارات و گفتگو تک ظہور پذیر ہونا قدرتِ الٰہیہ پر مبنی ہے۔ بت پرست اسکو اپنی پوجا کے صواب اور کارِ ثواب ہونے پر حمل کرتا ہے مگر وہ اسکے لئے استدراج ہوتا ہے۔ آگے اسکی ایک نظیر بیان فرماتے ہیں کہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی دودھ پلانے والی دائی حلیمہ سعدیہ سلام اللہ علیہا کی ایک مشکل کے وقت، بتوں سے جنبش اور تکلّم کا ظہور ہوا۔