دفتر 4 حکایت 38: ملکہ بلقیس کا بادشاہی (کی قید) سے آزاد ہو جانا، اور ایمان کے شوق سے اسکا مست ہونا، اور اسکی توجّہ کا تمام مُلک سے منقطع ہو جانا، سوائے تخت کے

دفتر چہارم: حکایت: 38

آزاد شدنِ بلقیس از ملک، و مست شدنِ او از شوقِ ايمان، و التفاتِ او از ہمہ ملک منقطع شدن، اِلّا از تخت

ملکہ بلقیس کا بادشاہی (کی قید) سے آزاد ہو جانا، اور ایمان کے شوق سے اسکا مست ہونا، اور اسکی توجّہ کا تمام مُلک سے منقطع ہو جانا، سوائے تخت کے

1

چوں سلیمانؑ سوئے مرغانِ سبا

یک صفیرے کرد و بست آں جملہ را

ترجمہ: جب حضرت سلیمان علیہ السّلام نے مرغانِ (اہلِ سبا) کی طرف ایک (پیغام کی) سیٹی بجائی اور ان سب کو (اپنے اعتقاد کی دلیل) میں جکڑ لیا۔

2

جز مگر مرغے کہ بد بے جان و پَر

یا چو ماہی گنگ بود از اصل و کر

ترجمہ: سوائے ایسے پرندے کے جو بے جان اور بے پَر تھا۔ یا مچھلی کیطرح گونگا، اور پیدائش سے بہرا تھا۔ (صرف ردیّ الفطرت لوگ انکے پیغام سے متاثّر نہیں ہوئے۔)

3

نے غلط گفتم کہ کر گر سر نہد

پیشِ وحیِ کبریا سمعش دہد

ترجمہ: نہیں (نہیں، یہ) میں نے غلط کہا (کہ وہ لوگ وحی کی دعوت سے متاثر نہ ہوئے) بلکہ اگر بہرا بھی حق تعالٰی کی وحی کے آگے سرِ (تسلیم) خم کر دے، تو وہ اسکو شنوائی بخش دیتی ہے۔ (پس یہ قصور وحی کی آواز کا نہیں، بلکہ خود بہرے کا ہے۔)

4

چونکہ بلقیس از دل و جاں عزم کرد

بر زمانِ رفتہ ہم افسوس خورد

ترجمہ: (اور) جب بلقیس نے (ملک و دولت سے دست بردار ہو کر، حضرت سلیمان علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا) دل و جان سے قصد کر لیا۔ (اور) گزشتہ زمانے پر بھی افسوس کیا (کہ میں نے پہلے یہ کام کیوں نہ کیا۔)

5

ترکِ مال و ملک کرد او آں چناں

کہ بترکِ نام و ننگِ آں عاشقاں

ترجمہ: تو اس نے مال و ملک کو یوں چھوڑ دیا۔ جیسے عاشق لوگ نام و ننگ کو چھوڑ دیتے ہیں۔

6

آں غلامان و کنیزانِ بناز

پیشِ چشمش ہمچو بوسیده پیاز

ترجمہ: وہ ناز پروردہ غلام اور لونڈیاں (اب) اسکی نظر میں۔ گلے (سڑے) پیاز کی سی تھیں۔

7

آں کسے کو بانگِ مرغاں بشنود

در ضمیرِ ہر یکے واقف بود

ترجمہ: (اور کیوں نہ ہو) جو شخص پرندوں (تک) کی بولیاں سنتا (سمجھتا) ہے۔ وہ ہر شخص کے ضمیر میں کھڑا ہوتا ہے۔

8

نالۂ مخفیِ موراں بشنود

ہم فغان سِرِّ دُوراں بشنود

ترجمہ: وہ چیونٹیوں کے مخفی رونے کو سنتا ہے۔ دور والوں کی چھپی فریاد کو بھی سنتا ہے۔

9

آنکہ گوید رمزِ قَالَتْ نَمْلَةٌ

ہم بداند رمزِ ایں طاقِ کہن

ترجمہ: جو شخص﴿قَالَتْ نَمْلَةٌ(چیونٹی نے کہا) کی رمز کہہ سکتا ہے۔ وہ اس پرانے طاق (فلک) کی رمز بھی جانتا ہے۔ (کہ دل را بدل رہیست)

مطلب: یہ اس آیت کی طرف تلمیح ہے: ﴿وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ - حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَوۡا عَلٰی وَادِ النَّمۡلِ ۙ قَالَتۡ نَمۡلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ - فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا وَ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰىہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ(نمل: 17 تا 19) ”اور سلیمان کے لیے انکے سارے لشکر جمع کردیے گئے تھے جو جنات، انسانوں اور پرندوں پر مشتمل تھے، چنانچہ انہیں قابو میں رکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور انکا لشکر تمہیں پیس ڈالے، اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔ اسکی بات پر سلیمان علیہ السلام مسکرا کر ہنسے، اور کہنے لگے: میرے پرورگار! مجھے اس بات کا پابند بنا دیجیے کہ میں ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں، اور وہ نیک عمل کروں جو آپکو پسند ہو، اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل فرمالیجیے۔“

10

دید از دورش کہ آں تسلیم کیش

تلخش آمد فرقتِ آں تختِ خویش

ترجمہ: انہوں نے دور سے معلوم کر لیا کہ اس تسلیم (و رضا) کے طریقہ والی (بلقیس) کو۔ اپنے تخت کی جدائی ناگوار گزری۔

11

گر بگویم آں سبب گردد دراز

کہ چرا بُودش بہ تخت آں عشق و ساز

ترجمہ: اگر میں اس سبب کو بیان کرنے لگوں، کہ اس کو (اس) تخت کے ساتھ وہ عشق و دل بستگی کیوں تھی؟ تو (یہ بیان) طویل ہو جائے گا۔ (یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلقیس کو تخت کے ساتھ کوئی جنسیت کا تعلّق تھوڑا تھا کہ اس قدر محبت ہوگئی؟ لہذا قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ اسکو تخت کی محبت نہ ہوتی۔ اسکا جواب دیتے ہیں:)

12

گرچہ ایں کلک و قلم خود بیحسے است

نیست جنسِ کاتب او را مونسے است

ترجمہ: (دیکھو) اگرچہ یہ کلک و قلم خود بے حسّ ہیں۔ (اور کاتب صاحبِ حسّ ہے، لہذا) وہ کاتب کی جنس نہیں ہیں (تاہم) وہ اسکے مونس ہیں (پس آخر کوئی تو وجہ انس کی ہوئی۔)

13

ہم چنیں ہر آلتِ پیشہ ورے

ہست بے جاں مونسِ ہر جانورے

ترجمہ: اسی طرح ہر اہلِ حرفہ کا اوزار، بے جان ہیں (مگر) وہ ہر جاندار (کارندہ) کا مونس ہے۔

14

ایں سبب را من معین گفتمے

گر نبودے چشمِ فہمت را نمے

ترجمہ: اس (انس) کے سبب کو میں خاص طور پر بیان کرتا۔ اگر تیری چشمِ (بصیرت ڈھلکے کے مرض سے) نمناک (یعنی ضعیفُ البصر) نہ ہوتی۔ (تجھ میں کچھ فہم کا مادہ ہوتا، تو میں سمجھا دیتا۔)

15

از بزرگی تخت کز حد می فزود

نقل کردن ہیچ نوع امکان نبود

ترجمہ: تخت کی لمبائی چوڑائی کی وجہ سے، جو حد سے بڑھی ہوئی تھی (اسکا) اٹھا لانا (بھی) کسی طرح ممکن نہ تھا۔

مطلب: منہج میں کتب تفاسیر سے منقول ہے کہ بلقیس کا تخت اسی ہاتھ لمبا، چالیس ہاتھ چوڑا، اور تیس ہاتھ اونچا تھا۔ سارا سونے چاندی کا بنا ہوا تھا، اور موتی، یاقوت، احمر، زبرجد، اور زمرد سے مرصّع تھا۔ اسکے پائے بھی جواہرات سے بنے تھے۔

16

خرده کاری بود تفریقش خطر

ہمچو اوصالِ بدن با یک دگر

ترجمہ: (تخت پر نہایت) باریک صنعتی کام (کیا گیا) تھا۔ (اس لئے) اسکے اجزاء (کو الگ) کرنا بھی خطرناک تھا۔ جسطرح بدن کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں (جدا نہیں کئے جا سکتے۔)

مطلب: حضرت سلیمان علیہ السّلام کو نیک دل و شائستہ فطرت، بلقیس کی خاطر منظور تھی۔ اس لئے آپکو خیال ہو گیا کہ اسکو اپنے تخت کی جدائی سے تکلیف نہ ہو، اس لئے آپ نے چاہا کہ اسکا تخت یہاں آ جائے جسکی دو ہی صورتیں تھیں یا تو سالم تخت اٹھا کر لایا جائے، یہ ناممکن تھا، یا اسکے اجزا الگ الگ کر کے لایا جائے، اس سے اسکی ساخت کا نقصان تھا۔ اس معاملہ میں حضرت سلیمان علیہ السّلام غور فرما رہے ہیں:

17

پس سلیمانؑ گفت گرچہ فِی الْاَخِيْر

سرد خواہد شد برو تاج و سریر

ترجمہ: پس حضرت سلیمان علیہ السّلام نے فرمایا: اگرچہ آخر میں بلقیس کے نزدیک، تاج و تخت قابل نفرت ہوجائیں گے۔

18

چوں ز وحدت جاں بروں آرد سرے

جسم را فرِّ او نبود فرے

ترجمہ: جب روحِ زم (فنا کے بعد بقاء ربانی کے ساتھ) وحدت (مطلقہ) سے نمودار ہوگی۔ تو جسم (و جسمانیات) کو اسکی شان کے مقابلے میں کوئی شان حاصل نہ ہو گی۔ (بلقیس کو اس درجہ پر فائز ہو کر تخت کا خیال بھی نہ رہے گا۔)

19

چوں برآید گوہر از قعرِ بحار

ننگری اندر خس و خاشاک و خار

ترجمہ: جب موتی سمندر کی گہرائی سے باہر آ گیا۔ تو تم جھاگ، اور (سطح آب کے) کوڑے کرکٹ کو نہیں دیکھو گے (اور روح جب دنیا سے بے تعلق ہو گئی، تو اسے اشیائے دنیا سے کیا سروکار؟)

20

سر برآرد آفتابِ با شرر

دُمِّ عقرب را کہ سازد مستقر

ترجمہ: (دمکتا) دہکتا ہوا آفتاب جب نکلتا ہے۔ تو بچھو کی دم میں کون ٹھکانہ بنانے لگا؟ (وحدتِ مطلقہ سے روح کا نمودار ہونا کمال شان رکھتا ہے۔ اس وقت دنیا کی اشیاء حقیرہ سے اسکو کیا وابستگی ہو سکتی ہے؟)

21

لیک خود با ایں ہمہ در نقدِ حال

جست باید تختِ او را انتقال

ترجمہ: لیکن ان ساری باتوں کے باوجود (بلقیس کی حالت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ یہ روحانی ترقّی کا درجہ تو اسکو کہیں دیر میں حاصل ہوگا، لہذا) اس ابتدائی حالت میں (اسکو) تخت (کی جدائی کا صدمہ نہ پہنچایا جائے بلکہ اس) کو یہاں منگوا دینا چاہیے۔

22

تا نگردد خستہ ہنگامِ لقا

کودکانہ حاجتش گردد روا

ترجمہ: تاکہ وہ ملاقات کے وقت آزردہ نہ ہو۔ بچوں کی طرح اسکی آرزو پوری کردی جائے۔

23

ہست بر ما سہل و او را بس عزیز

تا بود بر خوانِ حوراں دیو نیز

ترجمہ: تخت (کا منگا دینا) ہمارے لئے آسان ہے، اور (وہ) اسکے لئے بڑا عزیز ہے۔ (اس لئے کیوں نہ منگا دیا جائے) تاکہ (درگاہِ نبوت میں) حوروں کے دستر خوان پر ایک شیطان بھی (موجود) ہو۔

مطلب: یہ ترجمہ اس اعتبار سے ہے کہ سہلکے لفظ سے تخت کے لانے میں مانع کی نفی، اور عزیزکے لفظ سے اسکے لانے کے لئے امرمقتضیٰ کا وجود مدّنظر ہو، لیکن اگر سہل و عزیزکے لفظوں میں تقابل و تفریق ملحوظ ہو، تو ترجمہ کا رنگ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ پھر یوں کہہ سکتے ہیں ”وہ تخت منگوا ہی دیا جائے، کیونکہ وہ ہمارے نزدیک حقیر اور اسکے نزدیک بہت ہی قابلِ قدر ہے، تاکہ حوروں کے خوان پر ایک شیطان بھی موجود ہو“۔ پہلے ترجمہ کو ماسبق کے ساتھ، اور دوسرے ترجمہ کو مصرعہ ثانیہ کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ تخت جو سیم و طلا و جواہرات کا بہت بڑا مجموعہ ہونے کے لحاظ سے دنیائے دوں کے سامانِ غرور کا ایک بڑا نمونہ ہے۔ اسکا ناپاک وجود دربارِ نبوت میں ایک شیطان کی سی حیثیت رکھتا ہے، مگر اس دربار میں جو مصدرِ برکات اور ایک مخلوق کی استفاضہ گاه ہونے کے لحاظ سے گویا حوروں کا خوان ہے، اس پر شیطان کا موجود رہنا بھی خالی از حکمت نہیں۔ آگے وہ حکمت بیان فرماتے ہیں:

24

عبرتِ جانش بود آں تخت باز

ہمچو دلق و چارقے پیشِ ایاز

ترجمہ: (تاکہ) پھر وہ تخت اسکی روح کے لئے (باعثِ) عبرت رہے۔ جسطرح گدڑی اور جوتی ایاز کے سامنے (باعثِ عبرت) تھی۔

25

تا بداند در چہ بود آں مبتلا

از کجاہا در رسید او تا کجا

ترجمہ: تاکہ اسکو معلوم ہو کہ وہ ( ایامِ سلطنت میں) کس (فضول چیز کی محبت) میں مبتلا تھی۔ (اور اب) کن (ادنٰی) درجوں سے کہاں تک پہنچ گئی۔

مطلب: ماضی کی یادِ عبرت فی الحال، اور احتیاط فی المستقبل کی موجب ہے۔ اسی بنا پر ایاز نے اپنی پرانی جوتی اور کمبل سنبھال کر رکھی تھی، اور اسی حکمت کے لئے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے بلقیس کا تخت منگواکر رکھنا مناسب سمجھا۔ اس بیان کی مناسبت سے مولانا ایک اور عبرت آموز نصیحت فرماتے ہیں، جسکا خلاصہ یہ ہے کہ حق تعالٰی کا بندے کو اسکی آفرينش کے سابقہ تحولات کی یاد دلانا بھی اسی حکمت پر مبنی ہے کہ وہ موجودہ حالت میں غافل نہ ہو، اور اگلے عالم کے حشرِ اجساد سے منکر نہ ہو۔ مگر بیان کا پیرایہ یہ ذرا دقیق ہے، ناظرین غور کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ ہم ان شاء الله اسکو سلیس سے سلیس پیرایہ میں حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہ۔

26

خاک را و نطفہ را و مضغہ را

پیشِ چشم ما ہمے دارد خدا

ترجمہ: خداوند تعالٰی مٹی، نطفہ، اور گوشت کے لوتھڑے کو، ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔

27

کز کجا آوردمت اے بد نیّت

کے ازاں آید ہمے خفریقیت

(جس سے مدعا یہ ہے) کہ اے بدنیّت (انسان دیکھ) میں تجھ کو کس حالت سے (موجودہ صورت میں) لایا ہوں۔ جس سے تجھے (اب) ندامت آتی ہے۔

مطلب: قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔: ﴿وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ - ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ - ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ(مومنون: 12 تا 14) ”اور ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ٹپکی ہوئی بوند کی شکل میں ایک محفوظ جگہ پر رکھا۔ پھر ہم نے اس بوند کو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی، پھر اس جمے ہوئے خون کو ایک لوتھڑا بنا دیا، پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کردیا، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنایا، پھر اسے ایسی اٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑا ہوگیا۔ غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے۔“ اسی کی ہم مضمون آیت یہ ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمۡ(الحج: 5) ”اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں کچھ شک ہے تو (ذرا سوچو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر نطفے سے، پھر ایک جمے ہوئے خون سے، پھر ایک گوشت کے لوتھڑے سے جو (کبھی) پورا بن جاتا ہے، اور (کبھی) پورا نہیں بنتا تاکہ ہم تمہارے لیے (تمہاری) حقیقت کھول کر بتا دیں۔

28

تو بداں عاشق بدی در دورِ آں

منکرِ ایں فضل بودی آں زماں

ترجمہ: تو اس (سابقہ مکروہ حالت) کے دور میں اسی (حالت) کا (خوگر اور) دلدادہ تھا۔ اس فضل سے (جو انسانی وجود میں آنے کی صورت میں تجھ پر ہوا ہے) تو اس وقت منکر تھا۔

مطلب: جب تو مٹی تھا تو مٹی ر ہنے پر قانع (خوش) تھا۔ پھر جب نطفہ، علقہ، مضغہ، وغیرہ مختلف حالتوں میں آیا، تو انہی حالتوں سے مانوس ہوگیا۔ موجودہ حالت سے نکل کر اگلی ترقّی کی حالت میں جانے کا نہ تجھے شوق تھا نہ امید تھی، بلکہ اس سے تجھ کو انکار تھا۔ تو کہتا تھا کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں انسان بن جاؤں۔ ہاں یہ خیال رہے کہ یہاں جو انکار مٹی، یا نطفہ، یا مضغہ وغیرہ سے منسوب ہے، اور آگے بھی بار بار اسکا ذکر آئے گا، وہ انکار بزبانِ حال مراد ہے، نہ کہ بزبانِ قال۔

29

ایں کرم چوں دفعِ آں انکارِ تست

کہ میانِ خاک مے کردی نخست

ترجمہ: (خداوند تعالٰی کا) یہ کرم (جو تجھ کو انسان بنانے کی صورت میں ظہور پذیر ہوا) گویا تیرے اسی انکار کی تردید ہے۔ جو تو خاک (ہونے کی حالت) میں پہلے کر رہا تھا۔ (کہ میں انسان نہیں بن سکتا۔)

مطلب: خاک کہتی تھی کہ میں انسانی صورت میں نہیں آسکتی۔ مگر خداوند تعالٰی نے اپنی قدرت سے اسکو انسان بنا دیا، تو یہ خاک کے انکار کی تردید ہونا ظاہر ہے۔ ساتھ ہی یہ خدا کا فضل بھی ہے کہ اس نے خاکِ ذلیل کو انسانِ جمیل بنا دیا۔ ترجمہ میں ہم نے کلمہ چوںکو حرفِ تشبیہ قرار دیا ہے، مگر مولانا بحر العلوم کہتے ہیں کہ یہ حرف شرط ہے، اور جزا بقرینہ ابیاتِ لاحقہ مقدر ہے۔ انہوں نے ترجمہ یوں کیا ہے۔ چونکہ یہ کرم تجھ کو خاک اور نطفہ سے نکال کر انسانیت کے وجود میں لایا گیا ہے۔ اس انکار کے دفع کے لئے کیا گیا ہے، جو تو خاک و نطفہ ہونے کی حالت میں اس فضلِ خداوندی سے بہرہ ور ہونے کے متعلق کرتا رہا ہے۔ پس تجھکو چاہیے کہ حشر میں جو تیری پرانی ہڈیوں کے انسانی صورت میں آنے کی خبر دی گئی ہے، اس سے انکار نہ کرے۔

30

حجّتِ انکار شد انشارِ تو

از دوا بدتر شد ایں بیمار تو

ترجمہ: تیرا (خاک وغیرہ کی) حالت سے (انسانی) حالت میں آنا تیرے انکار کی تردید بن گیا۔ تیرا یہ بیمار دوا سے اور بھی بدتر (حالت میں مبتلا) ہو گیا۔

مطلب: تو نے خاک سے انسان بننے کا انکار کیا، اور سمجھا کہ اس انکار سے اب میں خاک کی ہستی میں ہی رہوں گا، انسان نہیں بنوں گا مگر قدرت کو تیرے انکار کی تردید منظور تھی، اور تردید کی یہی عملی صورت مستحسن تھی کہ تجھ کو انسان بنا دیا۔ پس جس انکار کو تو اپنے مدّعا کی تائید سمجھتا تھا، وہ تیرے مدّعا کی تردید بن گیا۔ گویا اپنے مریض کا جو علاج تو نے تجویز کیا، اس علاج سے مریض کی حالت بدتر ہوگئی۔ مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ فلاسفہ مشائین فرماتے ہیں کہ حشرِ اجساد ناممکن ہے، اور بو علی سینا اپنی کتاب مبدأ و معاد میں اسکی دلیل یوں دیتا ہے، کہ نطفہ میں یہ استعداد تھی کہ وہ نشو و نما پا کر صورت اختیار کرے، اور جب اس مجسمہ کے اجزا تکمیل کو پہنچ جائیں، تو اسکے ساتھ روح کا تعلق ہو جائے۔ چنانچہ اسی استعداد کے مطابق جسم میں روح پڑجاتی ہے، اور روح و جسم کے تعلق کا انقطاع، موت سے بایں وجہ ہوتا ہے کہ بدن میں اس تعلق کو قائم رکھنے کی استعداد نہیں رہتی، کیونکہ اگر یہ استعداد قائم رہے تو پھر موت عارض نہ ہو۔ پھر موت کے بعد بدن کے اجزا بکھر جاتے ہیں، اور ہرگز ان میں روح کے تعلق کی استعداد نہیں رہتی۔ پس ان اجزا کے ساتھ روح کا تعلق ڈالنا، اور انکا صورت اختیار کرنا محال ہے، کیونکہ اعضا کا متشکل ہونا اور روح کا تعلق پڑنا استعداد کے بغیر ناممکن ہے، مگر یہ دلیل بالکل بیہودہ و لغو ہے، کیونکہ یہ کہاں سے لازم آتا ہے کہ جسم کے منتشر اجزا میں صورت پکڑنے کی استعداد دوبارہ نہیں آسکتی، اور نفسِ ناطقہ یعنی روح میں یہ استعداد نہیں کہ اجزاء اعمال کے لئے وہ پھر انہی اجزائے بدن سے متعلق ہو جائے، نیز یہ سب اللہ تعالٰی کے قبضۂ قدرت میں ہے، اللہ تعالٰی مدّتِ معلومہ تک روح کو بدن کے ساتھ متعلق رکھتا ہے۔ پھر اس تعلق کو منقطع، اور اجزائے بدن کو منتشر کر دیتا ہے۔ پھر انکو جمع کر کے صورت بخشے گا، اور اس میں جان کو ڈال دے گا، اور یہ سب کام ان اجزا، اور نفسِ ناطقہ کے اعیانِ ثابت کی استعداد کے تقاضے سے ہیں، جن میں یہ استعداد ازل سے رکھی گئی ہے کہ اجزا اعضا کی صورت پاکر، جان کے ساتھ تعلق پکڑیں، اور نفسںِ ناطقہ کے عینِ ثابت کی استعداد یہ ہے کہ وہ ایک مدّتِ معینہ تک کے لئے ان اجزا سے متعلق ہو جائے۔ اسکے بعد ان اجزا میں بکھرنے کی اور نفس میں ان سے الگ ہو جانے کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے۔ اسکے بعد ان میں پھر اجتماع و تعلق کی استعداد پیدا ہو جائے گی، اور یہ کوئی محال و مستبعد نہیں۔ پس مولانا فرماتے ہیں کہ یہ انشار کہ نطفہ سے انسان بن گیا۔ حشرِ جسمانی کے جواز کی حجت ثابت ہوا، کیونکہ یہ بات بدیہی ہے کہ جو ذات نطفہ کو انسان بنا دینے پر قادر ہے، وہ ان اجزائے منتشرہ کو جمع کر کے ان میں جان ڈال دینے پر بطریق اولٰی قادر ہے۔ جب نطفہ اعضا بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو اعضا کے اجزائے منتشرہ کو بطریق اولٰی یہ صلاحیت حاصل ہوگی کہ وہ جمع ہوکر سابقہ صورت اختیار کر لیں۔ بے وقوف فلاسفہ اس نطفہ کے انسان بن جانے کو، حشرِ جسمانی محال ہونے کی دلیل ٹھہراتے ہیں۔ اپنے اس زعم باطل سے کہ اعضا کی صورت اختیار کرنے کی استعداد نطفے میں ہے۔ اجزائے منتشرہ جسم میں نہیں۔ پس جس دلیل کو انہوں نے دوا سمجھا، وہ انکے لئے مرض ثابت ہوا (انتہیٰ) مولانا نے حشرِ اجساد کے منکر کو ایک الزامی جواب دیا ہے۔ اب اس جواب کو ایک اور لطیف پیرایہ میں پیش فرماتے ہیں:

31

خاک را تصویرِ ایں کار از کجا

نطفہ را خصمی و انکار از کجا

ترجمہ: خاک کو اس کام کا تصور (کرنے کی توفیق) کہاں؟ کہ (میں کسی مسئلے میں بحث کروں) نطفہ کو (بھی) بحث و انکار کی لیاقت) کہاں؟ (کیونکہ وہ دونوں بے جان، بے حسّ، بے شعور محض ہیں۔)

32

چوں دراں دم بے دل و بے سر بُدی

فکرت و انکار را منکرِ بُدی

ترجمہ: چونکہ اس وقت (خاک یا نطفہ ہونے کی حالت میں) تو دل سے خالی، اور سر سے عاری تھا۔ تو (حشر کا انکار تو رہا الگ) تو (خود) فکر اور انکار سے (بھی) منکر تھا۔

مطلب: یہ کون کہتا ہے کہ خاک اور نطفہ نے اپنے انسان بننے سے جو انکار کیا، تو وہ انکا وہ انکار قولی اور متکلّمانہ تھا، جو انہوں نے سوچ سمجھ کر اور اپنے دل میں فیصلہ کر کے کیا، بلکہ اس وقت تو ان میں نہ دل تھا، جو قصد و ارادہ کا مقام ہے، نہ سر تھا، جس میں غور و فکر کے لئے دماغ ہوتا ہے، اور منہ میں بھی سر ہی کا ایک حصہ، جس میں انکار کے لئے زبان ہوتی ہے۔ بس وہ خاک و نطفہ بحث و انکار کیونکر کر سکتے تھے؟ بلکہ اسکا قصد و ارادہ بھی کیا کر سکتے تھے؟ وہ تو محض ایک جماد ہیں، پس انسان کا یہ انکار بزبانِ حال تھا۔

33

از جمادی چونکہ انکارت برست

ہم ازیں انکارِ حشرت شد درست

ترجمہ: جب جمادی (ہونے کی حالت) سے (بزبانِ حال) تیرا انکار پیدا ہوا۔ تو اسی انکار سے تیرا (قیامت میں) دوباره زندہ ہونا ثابت ہو گیا۔

مطلب: (1) تم بحالتِ جمادیّت انسان بننے سے منکر تھے، اس انکار کی تردید قدرت نے یوں کی ہے کہ تم کو انسان بنا کر چھوڑا۔ اب تم حشرِ اجساد سے منکر ہو تو تمہارا یہ انکار اس بات کی دلیل ہے کہ قدرت ضرور تم کو دوبارہ زندہ کر کے بھی چھوڑے گی۔ انسانیّت کے انکار نے آخر تم کو انسان بنایا۔ حشر کا انکار ضرور تمہارے حشر کا باعث ہو گا۔ (2) جب ایک بے حسّ، بے شعور، بے زبان، و ناقابل تکلّم مادہ، آخر ذی حسّ، باشعور، زبان آور اور متکلّم انسان بن گیا جسکی دلیل یہ ہے کہ اب وہ بڑا بحث طلب، جھگڑالو، اور منکرِ حشر ہے، تو اسکا یہ انکار ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اسکا حشر ضرور ہوگا، یعنی وہ مرنے کے بعد ضرور زندہ کیا جائے گا، کیونکہ جب ایسا مادہ، جو ناقابل تکلّم و انکار تھا متکلّم و منکر بننے کے قابل ہو گیا، تو پھر ان طاقتوں کے سلب ہونے کے بعد دوبارہ انکے ساتھ موصوف ہونا کیا مشکل ہے؟ جو قدرت کسی معدوم کو ایجاد کر سکتی ہے، اسکے لئے کسی مسلوب کا اعادہ کیا مشکل ہے؟ ناقابل تکلّم مادہ کو متکلّم بنانا، ایجادِ معدوم ہے، اور متكلّم ہستی کو فنا کے بعد، دوبارہ متکّلم کرنا اعادۂ مسلوب ہے۔ وہ زیادہ مشکل تھا، یہ کم مشکل ہے۔ کسی سفید زمین پر خاص نقشہ کا محل تعمیر کرنا، بے حد محنت، طاقت، خرچ اور توجّہ چاہتا ہے، لیکن بنے ہوئے مکان کو ڈھا کر اس ملبے کے ساتھ اسی نقشے پر دوبارہ بنا لینا اسکے مقابلے میں چنداں دشوار نہیں۔ غرض منکرِ حشر جب اسکا انکار کرتا ہے، تو اسکا انکار کے ساتھ تکلّم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کا مرنے کے بعد زندہ و متکلّم ہونا کچھ بڑی بات نہیں، کیونکہ جب وہ مشتِ خاک، اور قطرۂ منی سے ایک زندہ و متکلّم ہستی بنا سکتا ہے، تو مر کر دوبارہ زندہ و متکلّم ہوجانا کیا مشکل ہے؟ ہاں اگر وہ انکار کرتا یعنی بالکل بے حسّ و حرکت عادات کی طرح پڑا رہتا، اور ہم اسکو اینٹ پتھر کی جنس سے سمجھتے، تو پھر ہمارا یہ استدلال صحیح نہ ہوتا۔ اگرچہ دعویٰ صحیح ہے۔ آگے اسکی مثال دیتے ہیں کہ ایک شخص کسی بات کا انکار کرتا ہے، اور اسکا انکار الٹا اسی بات کا ثبوت و دلیل بن جاتا ہے جسکا وہ انکار کر رہا ہے:

34

پس مثالِ تو چو آں حلقہ زنے ست

کز درونش خواجہ گوید خواجہ نیست

ترجمہ: پس (اے منکرِ حشر) تیری مثال ایسی ہے، جیسے ایک کنڈی کھٹکھٹانے والا۔ (مالکِ خانہ کو بلاتا ہے) تو اندر سے مالک (خانہ) اسکو کہتا ہے کہ مالک (گھر میں) نہیں۔

35

حلقہ زن زیں نیز دریابد کہ ہست

پس ز حلقہ بر ندارد ہیچ دست

ترجمہ: کنڈی کھٹکھٹانے والا اس (انکار) سے بھی سمجھ لیتا ہے کہ وہ ( گھر ہی میں موجود) ہے۔ پس وہ کنڈی سے بالکل دست بردار نہیں ہوتا۔

مطلب: یہ قصّہ عموماً قرض خواہوں، اور زمینداروں کو پیش آتا ہے۔ قرض خواہ لالہ جی، صبح سویرے اشنان کر کے دھوتی کس کر ہاتھ میں چھڑی لے کر، اپنے بدنصیب قرض داروں کی طرف قضائے مبرم کی طرح چڑھائی کرتے ہیں۔ قرضدار مفلس و قلاش پہلے ہی موقع پہچانتا ہے۔ دروازے کو کنڈی دے کر چولہے کے آگے آگ تاپنے بیٹھ جاتا ہے۔ لالہ جی آ کر دروازہ کی باہر کی زنجیر کھٹکھٹاتے ہیں، اور آواز پر آواز دیتے ہیں۔ فتو ہوت! ادھر بچارے فتو کا سانس مارے دہشت سینے سے سمٹ کر گلے میں اٹک جاتا ہے، اور وہ آواز بدل کر جواب دیتا ہے۔ شاہ جی فتو تو گھر میں نہیں ہے۔ لالہ اسکی آواز پہچان کر لال پیلے ہوتے اور کڑک کر بولتے ہیں، سالا جورو کی گود میں بیٹھا بہانے بناتا ہے۔ حیف صد حیف! اس قسم کے ذلیل و بے عزت قرضداروں میں آج کل زیاده تعداد مسلمانوں کی ہے، جس قوم کے تموّل کا یہ حال تھا کہ اہلِ نصاب زرِ زکوۃ جھولی میں لئے پھرتے ہیں، اور شام تک انکو کوئی مستحقِّ زکوٰۃ نہیں ملتا۔ آج وہ پانچ پانچ، دس دس روپے کے قرض کے لئے لالہ لوگوں سے گالیاں سنتے، اور جوتیاں کھاتے ہیں۔ وَطَالَمَا اَلْجَأَ هٰؤُلآءِ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ إِيَّاهُمْ اِلٰى تَرْکِ دِیْنِهِمِ اَلْمَحْبُوْبِ، اَعَاذَنَا اللهُ مِنْہُ۔ اَللّٰهُمَّ ارْحَمْ اُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاغْفِرْ لَهَا وَ تَجَاوَزْ عَنْهَا غرض جسطرح کوئی گھر کے اندر سے اپنا نام لے کر کہے، وہ یہاں نہیں ہے اور اسکا یہ انکار، اسکے موجود ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ اسی طرح حشرِ اجساد کے منکر کا انکار اسکے ثبوت کی دلیل ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

36

پس ہم انکارت مبیّن می کند

کز جمادِ او حشرِ صد فن مے کند

ترجمہ: پس تیرا انکار ہی بتارہا ہے کہ وہ، (الله تعالٰی شانہٗ) جماد کا حشر سینکڑوں طرح سے کر سکتا ہے۔

37

چند صنعت رفت اے انکارتا

آب و گِل انکار زاد از ھَلْ اَتٰی

ترجمہ: اے (انکار کرنے والے غافل انسان) بہت سی صنعتیں (خداوند تعالٰی کی طرف سے) وقوع میں آئیں تب جا کر (انسان نوعی کمال کو پہنچا اور اس) مٹی پانی (سے بنی ہوئی مخلوق کے منہ سے) الله تعالٰی کا فرمان) ﴿ھَلْ اَتٰیکا انکار سرزد ہوا۔

مطلب: الله تعالٰی نے پانی کو مٹی، نطفہ کو علقہ و مضغہ، اور پھر انسان بنایا، تو اب یہ بوجھ بجھکڑ ان آیات کا انکار کرتا ہے جن میں الله تعالٰی نے اسکی اس تدریجی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ یہاں اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا - اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا(الدھر: 1تا2) ”انسان پر کبھی ایسا وقت آیا ہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا؟ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے اس طرح پیدا کیا کہ اسے آزمائیں۔ پھر اسے ایسا بنایا کہ وہ سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے۔“

38

آب و گِل مے گفت خود انکار نیست

بانگ میزد بے خبر کاخبار نیست

ترجمہ: (مگر خود) پانی اور مٹی (بزبانِ حال) کہہ رہی ہے کہ انکار (کی گنجائش) نہیں ہے۔ (جسطرح وہ گھر کے اندر سے اپنی موجودگی کا انکار کرنے والا، جو باہر والے کی فراست سے) بے خبر (تھا) آواز دیتا تھا (کہ فلاں یہاں نہیں ہے، اور سمجھتا تھا کہ) یہ میرا خبر دینا نہیں (حالانکہ وہ خود اپنی موجودگی کی خبر دے رہا ہے۔)

39

پس بگویم شرحِ ایں را صد طریق

لیک خاطر لغزد از گفتِ دقیق

ترجمہ: پھر بھی میں اس مسئلے کی توضیح سو طریقوں سے کرسکتا ہوں۔ لیکن تقریر سے (سامعین کا) دل شبہ میں پڑجاتا ہے۔

40

شرح آں را لب بہ بستم اے کیا

بہر نقلِ تختِ بلقیس از سبا

ترجمہ: اے دانش مند (اب) میں بلقیس کا تخت سبا سے لانے کے لئے، اسکی تفصیل سے (اپنے) لبوں کو بند کرتا ہوں۔