دفتر 4 حکایت 37: اہل سبا کا بقیہ قصّہ اور سلیمان عليہ السّلام کا بلقیس کی رعایا کو ہدایت دینا، کہ ہر شخص اپنے اندر اور مشکلاتِ دین میں نظر کرے، اور ہر مرغ کو اسی جنس کے مرغوں کی آواز سے شکار کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 37

بقیہ قصّہ اہلِ سبا و ارشادِ سلیمان علیہ السّلام مر آلِ بلقیس را، کہ ہر یکے اندر خود و مشکلاتِ دین دیدہ کشایند، و صید کردن ہر مرغ را بصفیرِ ہماں جنسِ مرغاں

اہل سبا کا بقیہ قصّہ اور سلیمان عليہ السّلام کا بلقیس کی رعایا کو ہدایت دینا، کہ ہر شخص اپنے اندر اور مشکلاتِ دین میں نظر کرے، اور ہر مرغ کو اسی جنس کے مرغوں کی آواز سے شکار کرنا

1

قصہ گویم از سبا مشتاق وار

چوں صبا آمد بسوئے لالہ زار

ترجمہ: میں ایک مشتاق کی طرح سبا کا قصّہ سناتا ہوں۔ (کہ) جب (حضرت سلیمان علیہ السلام کی ہدایت) بادِ صبا (کی طرح سبا) کے لالہ زار کی طرف آئی (حضرت سلیمان علیہ السّلام کے پیغامِ ہدایت کو بادِ صبا کے ساتھ تشبیہ اس لحاظ سے دی ہے کہ جس طرح بادِ صبا سے لالہ زار کو تازگی ہوتی ہے، اسی طرح وہ پیغام جو وحیِ حق تھا قلوب کی زندگی کا باعث تھا۔)

2

لَاقَتِ الْاَشْبَاحُ يَوْمَ وَصْلِهَا

عَادَتِ الْاَوْلَادُ صَوْبَ اَصْلِهَا

ترجمہ: تو عاشقوں کے بدنوں نے اپنے وصل کا دن پایا۔ بچے، اپنے ماں باپ کی گود میں چلے گئے (یعنی دلوں نے مراد پائی، اور انکو روحانی مسرّت حاصل ہوگئی۔)

3

اُمَّةُ الْعِشْقِ الْخَفِيِّ فِی الْاُمَم

مِثْلَ جُوْدٍ حَوْلَهٗ لَوْمُ السَّقَم

ترجمہ: مخفی عشق والے لوگ (عام) لوگوں میں۔ (اس طرح گھرے ہوئے ہیں) جسطرح سخاوت (والوں) کے گرد، بخل (والے جو بمنزلۂ) مرض (ہے۔)

مطلب: عاشقانِ حق اپنی دُھن میں مست ہیں، مگر دنیا دار لوگ انکو مجنوں و احمق، ناکارہ، آوارہ وغیرہ دل آزار لقبوں سے یاد کرتے تھے، جسطرح بخیل و لئیم لوگ اہلِ سخاوت کو مختلف طعن دیتے ہیں۔ چونکہ مولانا کی طبیعت پر عشق کا غلبہ ہے۔ اس لئے بات بات پر آپکے کلام سے عشق کا جوش ٹپکتا رہتا ہے۔ اس قصّے کے ساتھ ذکرِ عشق کا جوڑ شاید یوں ہوسکتا ہے، کہ اہلِ سبا پر جو حضرت سلیمان علیہ السّلام کے پیغام نے خاص اثر کیا اور انکے دل میں عشقِ الٰہی کی ایک لَو لگا دی، تو دیگر ممالک کے امراء و اقوام انکے اس حال پر طعنہ زن تھے۔ چونکہ عشق الٰہی تقاضائے روح ہے، اور جسم کو اس سے مناسبت نہیں۔ اس لئے آگے جسم پر روح کا شرف بیان فرماتے ہیں:

4

ذِلَّةُ الْاَرْوَاحِ مِنْ اَشْبَاحِهَا

عِزَّةُ الْاَشْبَاحِ مِنْ اَرْوَاحِھَا

ترجمہ: روحوں کی ذلت، انکے جسموں کی وجہ سے ہے۔ (کیونکہ لذّاتِ جسمانیہ کی آلودگی روح کو ترقّی و عروج سے روکتی ہے، اور) جسموں کی عزت انکی روحوں سے ہے (کہ وہ روح کے کمالات سے مستفید ہوتے ہیں حتّٰی کہ جسم میں روحانی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔)

5

اَيُّهَا العُشَّاقُ اَلسُّقْيَا لَكُمْ

اَنْتُمُ البَاقُوْنَ وَالْبُقْیَا لَكُمْ

ترجمہ: اے عاشقو! (شرابِ محبت) پینے کا حق تمہارے لئے ہے۔ تم زندہ (جاوید) ہو (اور) ابدی زندگی تمہارے لئے ہے۔

6

اَيُّهَا السَّالُوْنَ قُوْمُوْا وَاعْشِقُوْا

ذَاکَ رِیْحُ يُوْسُفَ فَاسْتَنْشِقُوْا

ترجمہ: اے بے عشق لوگو (تم بھی) اٹھو، اور عشق اختیار کرو۔ وہ حضرت یوسف کی خوشبو آئی، سونگھو (حضرت یوسف علیہ السّلام کی خوشبو سے حضرت یعقوب کی بینائی لوٹ آئی تھی۔ عشق تمہارے لئے بمنزلہ ریحِ حضرت یوسف علیہ السّلام ہے، جس سے تم کو بصیرتِ باطن حاصل ہو گی۔)

7

مَنْطِقَ الطَّیْرِ سلیمانی بیا

بانگِ ہر مرغے کہ مے آید سرا

ترجمہ: اے! حضرت سلیمان علیہ السّلام کی مَنْطِقَ الطَّیْرِ! (ادھر) آ۔ جو پرنده آتا جائے اسکی بولی بول۔

مطلب: مَنْطِقَ الطَّیْرِکے معنٰی پرندوں کی بولی۔ پرندوں کی ہر نوع کی بولی الگ ہے، جس سے وہ باہم گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو یہ سب بولیاں اللّٰہ تعالٰی نے سکھا دی تھیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السّلام کا قول مذکور ہے کہ: ﴿عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ﴾ (النمل: 16) یعنی ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔ یہاں مولانا تشبیہ کے طرز میں اپنے آپکو، یا ہر داعیِ حق کو کہتے ہیں کہ وعظ و نصیحت اور اِفہام و تلقین کے میدان میں آؤ، اور جس لیاقت اور جس پایہ کا آدمی دیکھو۔ اسکے مطابق اس سے گفتگو اور سلوک کرو۔

8

چوں بمرغانت فرستادست حق

لحنِ ہر مرغے بدادستت سبق

ترجمہ: جب حق تعالٰی نے تم کو پرندوں کی طرف بھیجا ہے۔ (اور) ہر پرندے کی بولی کا سبق پڑھایا ہے۔

9

مرغِ جبری را زبان جبر گو

مرغِ پَر اِشکستہ را از صبر گو

ترجمہ: تو تم جبری پرندے کو مسئلہ جبر کی فہمائش کرو۔ پَر شکستہ پرندے کو، صبر کی ہدایت کرو۔

مطلب: جب اللہ تعالٰی نے تم کو لوگوں کی ہدایت کا منصب عطا فرمایا ہے، اور تمام اصنافِ خلق کے ساتھ انکے مناسب حال گفتگو کرنے کی لیاقت بخشی ہے، تو تم کو لازم ہے کہ جو لوگ جبرِ مذموم کے اعتقاد سے اپنے آپکو بالکل معطّل، اور مطلقاً مسلوبُ الْاِختیار سمجھتے ہیں جسکا نتیجہ اسقاطِ تکلیف، اور تعطيلِ شرائع اور ترکِ طاعات ہے۔ انکو جبرِ محمود کی تعلیم دو، یعنی بتاؤ کہ بندہ خالقِ افعال نہیں، وہ اتنی حد تک تو مجبور ہے، لیکن کسبِ افعال کا اختیار رکھتا ہے، اس میں مجبور نہیں۔ اسی لئے وہ اپنے افعال کا جوابدہ ہے۔ پر شکستہپرندے سے مراد وہ شخص ہے، جو جبرِ مذموم کے عقیدے کی بنا پر اپنے اعضاء و جوارح، اور حواس و قوٰی کو معطّل رکھے، اور کارِ ثواب میں مصروف نہ کرے۔ اسکو ہدایت کرو کہ اِستقلال کے ساتھ عمل کئے جاؤ۔

10

مرغِ صابر را تو خوش دار و معاف

مرغِ عنقا را بخواں اوصافِ قاف

ترجمہ: صبر والے پرندے کو خوش رکھو، اور معاف کرو۔ پرندہ عنقا کو قاف کا پتہ بتادو۔

مطلب: جو شخص جبرِ محمود کے عقیدہ کے ساتھ اپنے آپ کو تصرّفِ حق کا مورد اور کَالْمَیِّتِ فِیْ یَدِ الْغَسَّالِ سمجھے، اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے، وہ مرد صبر و رضا ہے، اور قابلِ عفو ہے۔ اور جو شخص حق تعالٰی کے عشق میں گوشہ گزیں ہونا چاہتا ہے، اسکو مقاماتِ معرفت کی طرف رہنمائی کرو۔

11

مر کبوتر را حذر فرما ز باز

باز را از حلِم گوے و احتراز

ترجمہ: کبوتر کو باز سے بچنے کی ہدایت کرو۔ باز کو حِلم اور پرہیزگاری کی تعلیم دو۔

مطلب: مومن طالبِ حق کو شیطان بالنّفس کی طرف سے محتاط رہنے کی ہدایت کرو۔ ظالم لوگوں کو حِلم و تقویٰ کا درس دو۔

12

واں خفاشے را کہ ماند او بے نوا

مے کنش با نور جفت و آشنا

ترجمہ: چمگادڑ جو روشنی سے تہی دست رہ گئی، اسکو نور کے ساتھ رفیق و مانوس کر دو۔

مطلب: جو لوگ غلبۂ نفس، اور اغوائے شیطانی کے باعث، قلب کی روشنی سے محروم ہیں، انکو اس روشنی سے بہره مند کرو۔ عقائدِ باطلہ والوں کی اصلاحِ عقائد کرو۔

13

کبکِ جنگی را بیاموزاں تو صلح

مرخروساں را نما اَشراطِ صبح

ترجمہ: جنگجو چکور کو صلح سکھاؤ۔ مرغوں کو صبح کی علامات بتاؤ۔

مطلب: متعصّب لوگوں کو وسعتِ نظر، اور رواداری سکھاؤ، کہ کسی کو اپنے مسلک کے خلاف پا کر سیخ پا نہ ہو جایا کریں، اور اپنے صحیح مسلک کے زعم میں، باقی لوگوں پر گمراہی و ضلالت کا فتوی نہ جڑ دیا کریں۔ جو لوگ حق شناس نہیں، انکو ظہورِ حق کی علامات بتا دو۔

14

ہمچنیں مے روز ہُدہُد تا عقاب

رہنما وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ

ترجمہ: اسی طرح ہُدہُد سے لے کر عقاب تک چلے جاؤ۔ (اور سب کو) ہدایت دو، اور اللہ بہتر جانتا ہے۔

انتباہ: عنوانِ فصل سے معلوم ہوا تھا یہاں دو باتیں مذکور ہوں گی۔ ایک حضرت سلیمان علیہ السّلام کا اہلِ سبا کو خود شناسی کی ہدایت فرمانا۔ دوسرے حضرت سلیمان علیہ السّلام کو لوگوں سے انکے حسبِ حیثیت گفتگو کرنا، مگر یہاں بیان ہوئی صرف عشق کی تعریف، اور کچھ دعاۃِ حق کو مولانا کی یہ ہدایت کہ لوگوں کے حسبِ حال گفتگو کیا کریں۔ یہ ایک شُبہ ہے جو ناظرین کے دل میں یہاں پیدا ہو سکتا ہے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ یا تو یہ عنوان ایک وسیع پیمانہ پر کیا گیا ہوگا جو اگلے عنوانوں پر بھی حاوی ہو، اور مولانا کا خیال ہو گا کہ یہ مضمون آگے چل کر بیان فرمائیں گے، یا وہ باتیں اشارۃً اسی فصل میں بیان ہوچکی ہیں، یعنی عشق کے ذکر میں خود شناسی مراد ہے، اور دعاۃِ حق کی ہدایت کی گئی ہے۔ وہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تکلّم بقدرِ عقولُ الناس کی طرف اشارہ ہے، یعنی حضرت سلیمان علیہ السّلام کا بھی یہی قاعدہ تھا۔ اسی لئے انہی کی حالت کی تشبیہ میں یہ ہدایت کی گئی ہے۔