دفتر 4 حکایت 36: حضرت ابراہیم بن ادھم کا باقی قصّہ، الله تعالٰی انکی روح کو راحت بخشے

دفتر چہارم: حکایت: 36

بقیہ قصّہ ابراہیم ادھم رَوَّحَ اللهُ رُوْحَہٗ

حضرت ابراہیم بن ادھم کا باقی قصّہ، الله تعالٰی انکی روح کو راحت بخشے

1

بر سرِ تختے شنيد آں نیک نام

طقطقے و ہائے و ہوئے شب ز بام

ترجمہ: ایک رات اس نیک نام (بادشاہ) نے تخت پر( لیٹے لیٹے) شاہی محل کے اوپر آہٹ اور شور و غُل سنا۔

2

گام ہائے تند بر بامِ سَرا

گفت با خود ایں چنیں زہرہ کرا

ترجمہ: محل کی چھت پر زور زور سے ڈگ (بھرنے کی آواز سنی۔ تو) اپنے دل میں کہا، یہ جرأت کس کو (ہوئی؟)

3

بانگ زد بر روزنِ قصر او کہ کیست؟

ایں نباشد آدمی مانا پریست

ترجمہ: انہوں نے محل کے دریچہ پر (آ کر) آواز دی کہ کون ہے؟ یہ آدمی نہیں ہوسکتا شاید جن ہو۔

4

سر فرو کردند قومے بوالعجب

ما ہمی گردیم شب بہرِ طلب

ترجمہ: تو ایک عجیب مخلوق نے سر جھکا (کر جواب) دیا۔ کہ ہم رات کے وقت تلاش کے لیے پھرتے ہیں۔

5

ہیں چہ مے جوئید گفتند اشتراں

گفت اُشتر بام بر کہ جست ہاں

ترجمہ: (ابن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا) ارے! یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ وہ بولے اونٹوں کو، کہا میاں (ہوش کی دوا کرو) اونٹ محل پر کیونکر چڑھ گئے؟

6

پس بگفتندش کہ تو بر تختِ جاه

چوں ہمی جوئی ملاقاتِ الٰہ؟

ترجمہ: پس انہوں نے (جو رجالُ الغیب یا ملائکہ تھے) انکو (الزاماً) کہا تم بھی بادشاہی و تخت پر۔ خداوند تعالٰی کی ملاقات کے طالب کیونکر ہو؟ (اگر محل پراونٹ نہیں ملتے، تو تخت پر خدا بھی نہیں ملتا۔)

7

خود ہماں بد دیگر او را کس ندید

چوں پری از آدمی شد ناپدید

ترجمہ: بس یہی (واقعہ انکی ترکِ بادشاہی کا باعث) تھا۔ پھر کسی نے انکو نہ دیکھا۔ وہ آدمی سے (چھپنے والی) پری کی طرح ناپید ہو گئے۔

8

معنیش پنہاں و او درپیشِ خلق

خلق کے بینند غیرِ ریش و دلق

ترجمہ: انکا باطن ( اور باطنی کمالات) مخفی (تھے) اور وہ (اپنے ظاہر وجود میں) لوگوں کے سامنے تھے۔ (ظاہر میں) لوگ ڈاڑھی اور گدڑی کے سوا کیا دیکھ سکتے تھے؟

9

چوں ز چشمِ خویش و خلقاں دور شد

ہمچو عنقا در جہاں مشہور شد

ترجمہ: جب وہ اپنی اور مخلوق کی آنکھ سے دور ہو گئے۔ تو عنقا کی طرح دنیا میں مشہور ہو گئے۔

مطلب: اپنی آنکھ سے دور ہونا، بوجہ شدّتِ استغراق ہے کہ انکو سوئے محبوبِ حقیقی کے اور کچھ نظر نہ آتا تھا، حتّٰی کہ اپنے وجود کو بھی بھلادیا۔ یا اس لحاظ سے کہ انکے کمالات سے نہ صرف لوگ بے خبر تھے، بلکہ وہ خود بھی بوجہ کسرِ نفسی ان سے بے پروا تھے۔ اس ترکِ شہرت، اور گمشدگی کا نتیجہ عنقا کی طرح ہوا کہ وہ دنیا سے ناپید ہیں، مگر اسکے ذکر سے تمام ادبیات کے دفتر لبریز ہیں۔ اسی طرح ابراہیم بن ادهم رحمۃ اللہ علیہ اگر بادشاہ رہتے، تو آج دوسرے بادشاہوں کی طرح، انکا تاریخی ذکر بھی طاقِ نسیان کی زینت ہوتا، مگر انہوں نے جب بادشاہی کے دفترِ شہرت سے اپنا نام اٹھا لیا، تو قدرت نے انکی شہرت کو چار چاند لگا دیے، کہ آج تصوف، اخلاق، زہد، ریاضت، شریعت، طریقت کے تمام دفاتر انکے نام سے منوّر ہیں۔

10

جانِ سی مرغے کہ آمد سوئے قاف

جملۂ عالم ازو بافند لاف

ترجمہ: سی مرغ کی (طرح جو) جان (قریبِ حق کے کوہ) قاف کی طرف آ گئی۔ تمام جہان اسکا چرچا (اور تذکرہ کرتا ہے۔) (آگے پھر ملکۂ بلقیس کا ذکر چھڑتا ہے:)

11

چوں رسید اندر سبا آں نورِ شرق

غلغلے افتاد در بلقیس و خلق

ترجمہ: (الغرض) جب وہ مشرقِ (ہدایت) کا نور (یعنی حضرت سلیمان علیہ السّلام کا پیغام) شہر سبا میں پہنچا۔ تو (ملکۂ) بلقیس (کے دربار) اور رعایا میں شور برپا ہو گیا۔

12

رُوحہائے مردہ جملہ پر زدند

مُردگاں از گورِ تن سر بر زدند

ترجمہ: تمام مردہ روحیں پرواز کرنے لگیں۔ مردوں نے جسم کو قبر سے نکالا (یعنی اہلِ سبا کی مردہ طبائع میں ہدایت کی جان سی پڑ گئی۔)

13

یک دگر را مژده می دادند ہاں

نک نداۓ می رسید از آسماں

ترجمہ: وہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے تھے۔ کہ دیکھو (خدا کی طرف سے) آسمانی دعوت پہنچی ہے۔

14

زاں ندا دينہا ہمی کردند گبز

شاخ و برگِ دل ہمی کردند سبز

ترجمہ: اس دعوت سے (اثرپذیر ہو کر) ان لوگوں نے اپنے دین مضبوط کر لیے۔ دل کی شاخ پتوں کو سرسبز کر لیا۔

15

از سلیمانؑ آں نفس چوں نفخِ صور

مُردگاں را مے رہانید از قبور

ترجمہ: حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف سے وہ کلمات نفخِ صور کی طرح۔ (روحانی) مردوں کو (غفلت و بے دینی) کی قبروں سے نجات دلاتے تھے۔

16

مرترا بادا سعادت بعد ازیں

غم گذشت وَاللہُ اَعْلَمُ بِالْیَقِیْن

ترجمہ: (ہر مردے کو یہ بشارت مل گئی کہ) اسکے بعد تجھ کو خوش نصیبی (مبارک) ہو۔ غم یقیناً جاتا رہا۔ اور اللہ تعالٰی یقیناً بہتر جانتا ہے۔