دفتر 4 حکایت 35: ظاہر فرمانا حضرت سلیمان علیہ السّلام کا کہ (اے بلقیس!) خاص اللہ کے حکم سے تیرے ایمان کے لئے کوشش ہے، مجھے اک ذرہ بھی غرض تیرے نقش و نگار میں نہیں ہے، نہ تیرے حُسن میں، نہ تیرے ملک میں، جب تیری روحانی آنکھ کھلے گی تو خود دیکھ لے گی

دفترِ چہارم: حکایت: 35

ظاہر گردانیدنِ سلیمان علیہ السّلام کہ ”خَالِصًا لِاَمْرِ اللہِ“ جہدست در ایمانِ تو، یک ذرّہ غرضے نیست مردانہ در نقشِ تو، و نہ در حُسنِ تو، و نہ در ملکِ تو، چوں چشمِ جانت باز شود خود بینی

ظاہر فرمانا حضرت سلیمان علیہ السّلام کا کہ (اے بلقیس!) خاص اللہ کے حکم سے تیرے ایمان کے لئے کوشش ہے، مجھے اک ذرہ بھی غرض تیرے نقش و نگار میں نہیں ہے، نہ تیرے حُسن میں، نہ تیرے ملک میں، جب تیری روحانی آنکھ کھلے گی تو خود دیکھ لے گی

1

ہیں بیا کہ من رسولم دعوتی

چوں اجل شہوت کُشم نے شہوتی

ترجمہ: ہاں (اے بلقیس!) چلی آ کہ میں (ایمان کی) دعوت (دینے والا) پیغمبر ہوں۔ موت کی طرح شہوت کو فنا کرنے والا ہوں، نہ کہ شہوت والا (شہوت سے خواہشِ نفس، و شہوتِ نساء دونوں مراد ہو سکتی ہیں۔)

2

ور بود شہوت امیرِ شہوتم

نے اسیرِ شہوت و روے بُتم

ترجمہ: اور اگر مجھ میں شہوت ہو (بھی) تو میں شہوت پر حکمران ہوں۔ نہ کہ شہوت کا قیدی، اور کسی حسین کا دلدادہ۔

3

بت شکن بودست اصلِ اصلِ ما

چوں خلیلِ حقّ و جملہ انبیاءؑ

ترجمہ: ہمارے بزرگوں کے بزرگ بتوں کو توڑنے والے گزرے ہیں۔ مثلاً حضرت خلیل الله اور (باقی) تمام انبیاء علیہ السّلام (اسی طرح پر ہم سب شہوت کے بت کو بھی توڑنے والے ہیں۔)

4

گر در آئیم اے رہی در بت کده

بت سجود آرد بما در معبدہ

ترجمہ: اے کنیز! اگر ہم بت خانہ میں داخل ہوں۔ تو بت بھی عبادت گاہ میں ہم کو سجدہ کرے۔

مطلب: عبادت گاہ کی قید سے یہ فائدہ ہے کہ وہاں بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہیں، جو بتوں کے لئے اور بھی نخوت و غرور کا مقام ہونا چاہیے، مگر بایں ہمہ وہ ہمارے آگے جھکنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح دیوِ شہوت بھی ہمارے تابع ہے۔

5

احمدؐ و بوجہل در بت خانہ رفت

زیں شدن تا آں شدن فرقے ست زفت

ترجمہ: (چنانچہ) حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلّم اور ابوجہل (دونوں اپنے اپنے موقع پر) بُت خانہ میں گئے۔ مگر اِس (ابوجہل کے) جانے اور اُس (آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے تشریف لے) جانے میں بڑا فرق ہے۔

6

ایں در آمد سر نہند او را بتاں

آں در آید سر نہد چوں امّتاں

ترجمہ: یہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلّم) تشریف لاتے ہیں تو بُت آپ کے لئے جھکتے ہیں۔ (جیسے کہ فتحِ مکہ میں ہوا) وہ آتا ہے تو (خود بتوں کے آگے) امّتیوں کی طرح، سر رکھتا ہے (جیسے کہ اسکا روز کا شیوہ تھا۔)

7

ایں جہانِ شہوتی بت خانہ ایست

انبیاءؑ و کافراں را لانہ ایست

ترجمہ: یہ شہوت سے لبریز دنیا کا ایک بُت خانہ ہے۔ (جس میں جا بجا خواہشاتِ نفسانیہ کے بُت موجود ہیں، اور شہوت پرست انکے پجاری ہیں اور) وہ انبیاء علیہم السّلام اور کافروں کا گھر ہے۔

8

لیک شہوت بندهٔ پاكاں بود

زر نسوزد زانکہ نقدِ کاں بود

ترجمہ: لیکن شہوت کا (بُت) پاک لوگوں کا غلام ہے۔ (اسکا جادو تو کافروں پر ہی چلتا ہے) عمده (و خالص) سونا (آگ میں) نہیں جلتا کیونکہ وہ کان کا اصل سرمایہ ہے۔ (آگ میں کھوٹ ہی جلتی ہے۔)

9

کافراں قلب اند و پاکاں ہمچو زر

اندریں بوتہ درند ایں دو نفر

ترجمہ: کافر لوگ کھوٹے سکّے ہیں، اور پاک لوگ گویا (خالص) سونا ہیں۔ (اس شہوت کدہ دنیا کی) کٹھالی میں یہ دونوں جماعتیں داخل ہیں۔

10

قلب چوں آمد سیہ شد در زماں

زر در آمد زریِ او شد عیاں

ترجمہ: کھوٹا سکہ جب (کٹھالی میں) آیا تو فوراً سیاہ ہو گیا۔ سونا آیا تو اسکی عمدگی ظاہر ہوگئی۔ (شہوت کے امتحان میں صالحین کی پاک سیرتی، اور فاسقین کی بدفطرتی ظاہر ہو جاتی ہے۔)

11

دست و پا انداخت اندر بوتہ زر

در رُخِ آتش ہمے خندد چو خور

ترجمہ: (چنانچہ) سونے نے کٹھالی میں (اپنے) ہاتھ پاؤں ڈال دیئے۔ اور وہ آگ کے سامنے آفتاب کی طرح ہنس رہا ہے۔ (خالص سونا آگ کی بھٹی میں پڑکر بھی متغیّر نہیں ہوتا، بلکہ آفتاب کی طرح دمکتا ہے۔ اسی طرح صالحین شہوت کی آگ سے بالکل متاثّر و متغیّر نہیں ہوتے۔)

12

جسم ما روپوش باشد در جہاں

ما چو دریا زیر ایں گہ در نہاں

ترجمہ: (اے بلقیس!) ہمارا جسم دنیا میں ہمارے (حقائقِ عالیہ کے) لئے نقاب بنا ہوا ہے۔ ہم (ایک) دریا کی مثال ہیں، جو اس (جسمانی) گھانس پھونس کے نیچے مخفی ہے۔ (لوگ ہمارے جسم و صورت کو عامہ بشر کی طرح جانتے ہیں، اور ہمارے روحانی کمالات کو نہیں دیکھتے۔ آگے مولانا کا قول شروع ہوتا ہے جس میں اگلا بیان بھی شامل ہے:)

13

شاہِ دیں را منگر اے نادان بطیں

کیں نظر کرده است ابلیسِ لعیں

ترجمہ: اے بے وقوف! دین کے بادشاہ ( نبی و ولی) کو مٹی (کا مجسمہ ہونے کے لحاظ) سے نہ دیکھ۔ کیونکہ ابلیسِ لعین نے (حضرت آدم علیہ السّلام کو) اسی نظر سے دیکھا تھا، اس لئے مردود ہوگیا)۔

14

کے تواں اندود ایں خورشید را

با کفے گِل تو بگو آخر مرا

ترجمہ: بھلا آفتاب کو ایک مٹھی بھر مٹّی کے ساتھ کب آلوده (و روپوش) کر سکتے ہیں؟ ذرا مجھے بتاؤ تو سہی!

15

گر بریزی خاک و صد خاکسترش

بر سرِ نور او بر آید بر سرش

ترجمہ: اگر تم (اسکے) نور پر مٹی اور سو قسم کی راکھ ڈالو۔ تو وہ (نور) انکے اوپر سے (بھی) نمایاں ہوگا۔

مطلب: یعنی اگر تم آفتاب پر مٹی اور راکھ کی سینکڑوں تہیں بھی جما دو، تو انکا نور ان تہوں سے چھن چھن کر، جوں کا توں نمایاں ہوگا۔اسی طرح اہلُ اللہ کے کمالات چھپائے چھپتے نہیں۔ اگر برسرشکی ضمیر کو خاک ریزکی طرف راجع قرار دیا جائے۔ اگرچہ شروع شعرمیں وہ خاک زیرِ مخاطب ہے، تاہم آخر شعر میں بطريقِ التفات اسکا ذکر غائبانہ تسلیم کیا جائے، تو پھر معنٰی اور عمدہ ہو جاتے ہیں۔ یعنی اے مخاطب اگر تو سورج کے نور پر سو مرتبہ خاکِ دھول پھینکو، تو وہ ہر مرتبہ وہ پھینکنے والے کے سر پر آئے گییعنی اہلُ اللہ کا طاعن، خود مطعون ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ یہ کہاوت چاند پر تھوکا منہ پر آیا۔

16

کَہ کہ باشد کہ بپوشد روے آب

طین کہ باشد کہ بپوشد آفتاب

ترجمہ: گھاس پھوس کیا ہوتا ہے جو پانی کی سطح کو ڈھانک سکے؟ مٹی کون ہوتی ہے جو آفتاب کو چھپا سکے؟

17

خیز بلقیسا چو ادھمؒ شاہ وار

دور ازیں ملکِ دو سہ روزه برآر

ترجمہ: اے بلقیس (کی طرح محجوب و غافل لوگو!) اٹھو سلطان ابراہیم بن ادهم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح۔ اس چند روزہ جاہ و اقبال کو درہم برہم کر ڈالو (اور مائل بحق ہو جاؤ۔)

مطلب: ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ یہاں سے مولانا کا مقولہ چلتا ہے۔ چنانچہ یہ شعر بھی مولانا کے مقولہ میں داخل ہے، اور بلقیسسے مراد وہ لوگ ہیں جنکو تائیدِ غیب، راہِ ہدایت پر لارہی ہے، مگر وہ اس راستہ کو اختیار کرنے میں جھجھکتے ہیں۔ بلقیس کے لفظ سے یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کا مقولہ ہے، جو بلقیس سے خطاب فرما رہے ہیں، کیونکہ ادھمؒ“ کے ذکر کا صاف قرینہ موجود ہے، جو اس احتمال کا مانع ہے یعنی حضرت سلیمان علیہ السّلام ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کیونکر کرسکتے تھے؟ جو ان سے قرنہا قرن بعد میں پیدا ہونے والے تھے۔