دفتر 4 حکایت 34: حضرت سلیمان علیہ السّلام کا بلقیس کی طرف تہدید (آمیز پیغام) بھیجنا کہ شرک پر اصرار نہ کر، اور (آنے میں) دیر نہ لگا کیونکہ دیر کرنے میں آفتیں ہیں

دفتر چہارم: حکایت: 34

تہدید فرستادنِ سلیمان علیہ السّلام پیشِ بلقیس کہ اصرار میندیش بر شرک، و تاخیر مکن کہ ”فِی التَّاخِيْرِ اٰفَاتٌ“

حضرت سلیمان علیہ السّلام کا بلقیس کی طرف تہدید (آمیز پیغام) بھیجنا کہ شرک پر اصرار نہ کر، اور (آنے میں) دیر نہ لگا کیونکہ ”دیر کرنے میں آفتیں ہیں“

1

ہیں بیا بلقیس ورنہ بد شود

لشکرت خصمت شود مُرتد شود

ترجمہ: (حضرت سلیمان علیہ السّلام نے کہلا بھیجا کہ) ہاں اے بلقیس! چلی آؤ، ورنہ اچھا نہ ہوگا۔ تیرا لشکر (خود) تیرا دشمن ہو جائے گا اور (تیری اطاعت سے) پھر جائے گا۔

2

پرده دارِ تو درت را برکند

جانِ تو با تو بجاں خصمی کند

ترجمہ:(پھر) تیرا دربان (بھی) تیرا دروازہ اکھیڑ ڈالے گا۔ (خود) تیری جان تیرے ساتھ (دل و) جان سے دشمنی کرے گی۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں کہ تمام کائنات اللہ کی افواج ہیں، کوئی انکی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔)

3

جملہ ذرّاتِ زمین و آسمان

لشکرِ حق اند گاہِ امتحان

ترجمہ: زمین و آسمان کے تمام ذرات آزمائش کے وقت، حق تعالٰی کی افواج ہیں (جن سے وہ اپنے دشمن کے خلاف کام لیتا ہے۔)

4

باد را دیدی کہ با عاد آں چہ کرد؟

آب را دیدی کہ در طوفاں چہ کرد؟

ترجمہ: تم نے (پہلے لوگوں کے احوال میں) دیکھ لیا ہے کہ ہوا نے قوم عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ﴿وَ اَمَّا عَادٌ فَاُہۡلِکُوۡا بِرِیۡحٍ صَرۡصَرٍ عَاتِیَۃٍ (الحاقۃ: 6) اور جو عاد کے لوگ تھے، انہیں ایک ایسی بےقابو طوفانی ہوا سے ہلاک کیا گیا۔ پھر فرمایا: ﴿وَ اَغۡرَقۡنَا الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا﴾ ”اور ان سب لوگوں کو غرق کردیا جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا۔“ (اعراف: 64)

5

آنچہ بر فرعون زد آں بحر کیں

و آنچہ با قارون نمودست ایں زمیں

ترجمہ: اور وہ (بھی دیکھ لیا) جو اس غضب کے دریا نے فرعون پر حملہ کیا تھا۔( جیسے فرمایا: ﴿فَغَشِیَہُمۡ مِّنَ الۡیَمِّ مَا غَشِیَہُمۡ﴾ (طٰہ: 78) تو سمندر کی جس (خوفناک) چیز نے انہیں ڈھانپا، وہ انہیں ڈھانپ کر ہی رہی۔) اور وہ (بھی دیکھ لیا) جو اس زمین نے قارون کے ساتھ کیا ہے۔ (جیسے فرمایا: ﴿فَخَسَفۡنَا بِہٖ وَ بِدَارِہِ الۡاَرۡضَ﴾ (القصص: 81) ”پھر ہوا یہ کہ ہم نے اسے اور اسکے گھر کو زمین میں دھنسا دیا“)

6

و آنچہ آں ابابیل با آں پیل کرد

و آنچہ پشہ کلۂ نمرود خورد

ترجمہ: اور وہ (بھی دیکھ لیا) جو ابابیلوں نے اس ہاتھی (والوں) کے ساتھ کیا۔ (جو کعبہ کو ڈھانے آئے تھے، انکے متعلق فرمایا: ﴿فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ﴾ (الفیل: 5) چنانچہ انہیں ایسا کر ڈالا، جیسے کھایا ہوا بھوسا) اور وہ (بھی دیکھ لیا) کہ مچھر نمرود کی کھوپڑی کو کھا گیا۔

7

و آنکہ سنگ انداخت داؤدے بدست

گشت سہ صد پاره و لشکر شکست

ترجمہ: اور وہ (بھی دیکھ لیا) کہ داؤد علیہ السّلام نے ایک پتھر اپنے ہاتھ سے (جالوت بادشاہ پر) پھینکا۔ تو اسکے تین سو ساٹھ ٹکڑے ہو گئے اور (دشمنوں کی) فوج کو شکست دے دی۔

8

سنگ مے بارید بر اعدائے لوطؑ

تاکہ در آبِ سیہ خوردند غُوط

ترجمہ: حضرت لوط علیہ السّلام کے دشمنوں پر پتھر برسے۔ حتّٰی کہ انہوں نے (عذاب کے) کالے پانی میں غوطے کھائے۔

9

گر بگویم از جماداتِ جہاں

عاقلانہ یاریِ پیغمبراں

ترجمہ: اگر میں دنیا کی بے جان اشیاء کا (عقلمندی کی کے ساتھ، پیغمبروں کی طرح مدد کرنا (مفصّل) بیان کروں۔

10

مثنوی چنداں شود کہ چل شتر

گر کشد عاجز شود از بار پُر

ترجمہ: (تو یہ) مثنوی اس قدر (ضخیم) ہو جائے کہ اگر (اسکو) چالیس اونٹ (بھی) اٹھالیں۔ تو (اسکے) بھاری بوجھ سے عاجز آ جائیں۔ (آگے پھر خدائی فوج کا ذکر فرماتے ہیں:)

11

دست بر کافر گواہی مے دہد

لشكرِ حق مے شود سر مے نہد

ترجمہ: (قیامت کے روز) ہاتھ کافر کے خلاف گواہی دے گا۔ وہ بھی اللہ کے لشکر کا سپاہی بن جائے گا (اور اسکے حکم پر) سرِ تسلیم خم کر دے گا۔

12

اے نمودِ ضدِ حق در فعل و درس

درمیانِ لشکرِ اوئی بترس

ترجمہ: اے قول و فعل میں حق تعالٰی کی مخالفت کرنے والے! (یاد رکھ) تو اسکے لشکر میں (گھرا ہوا) ہے، کچھ خوف کر۔

13

جزوِ جزوت لشکرِ او در وفاق

مر ترا اکنوں مطيع اند از نفاق

ترجمہ: تیرے جوڑ جوڑ بالاتفاق اسکی فوج (میں شامل) ہیں۔ اور بناوٹ سے تیرے مطیع بن رہے ہیں (وہ حکم دے تو یک دم تجھ سے برگشتہ ہو جائیں)

14

گر بگوید چشم را کو را فشار

دردِ چشم از تو بر آرد صد دمار

ترجمہ: (چنانچہ) اگر وہ آنکھ کو حکم دے کہ اسکو تنگ کر۔ تو آنکھ کا درد سو مرتبہ تجھے ہلاکت کے قریب پہنچا دے۔

15

گر بدنداں گوید او بنما وبال

پس بہ بینی تو ز دنداں گوشمال

ترجمہ: اگر وہ دانت کو حکم دے کہ تکلیف محسوس کرا دے۔ تو پھر تم دانت سے (دردِ دنداں کی) سزا پاؤ گے۔

16

باز کن طب را بخواں بابُ العِلَل

تا بہ بینی لشکرِ تن را عمل

ترجمہ: فنِ طب (کی کتاب) کو کھولو (اور) اسبابِ (امراض) کا باب پڑھو۔ تاکہ تم جسم (کے اندر) کی (خدائی) فوجوں کا کام معلوم کر لو (کہ وہ کس طرح مختلف امراض کی صورت میں بندوں کو سزا دینے پر لگی ہوئی ہیں۔)

17

چونکہ جانِ جان ہر جزوت ویست

دشمنی با جانِ جاں آساں کے است

ترجمہ: چونکہ وه (حق تعالٰی) تیرے ہر جوڑ کی جانِ جان ہے۔ (پس) جان کی جان کے ساتھ دشمنی (کرنا) کب آسان ہے؟ (یعنی ہر چیز کی حیات حق تعالٰی کی حیات سے ہے۔ آگے پھر حضرت سلیمان علیہ السّلام کا قول چلتا ہے جو بلقیس سے خطاب فرماتے ہیں:)

18

خود رہا کن لشکرِ دیو و پری

کز میانِ جان کنندم صفدری

ترجمہ: (خیر ہماری) دیو و پری کی افواج کو جانے دو۔ کیونکہ (مخالف کا سر کچلنے کے لئے اور بھی غیبی افواج موجود ہیں، جو امراض و عوارض کی صورت میں انکی) جان کے اندر سے (اٹھ کر) ہمارے لئے (انکی) صفوں کو تہ و بالا کر دیں۔

19

ملک را بگذار بلقیس از نخست

چوں مرا یابی ہمہ ملک آن تست

ترجمہ: اے بلقیس بادشاہی کو سرے سے چھوڑ ہی دو۔ (کیونکہ) جب تم مجھے پاؤ گی تو تمام (باطنی) بادشاہی تمہاری ہے (کہ نبی کے وسیلے سے خدا کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔)

20

خود بدانی چوں بر من آمدی

کہ تو بے من نقشِ گرمابہ بُدی

ترجمہ: جب تم میرے پاس آجاؤ گی، تو خود تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کہ میرے (فیضِ صحبت کے) بغیر تم حمام کی تصویر (یعنی بے روح و بے جوہر) تھی۔

21

نقش اگر خود نقشِ سلطانِ غنی است

صورتست از جاں خود او بے چاشنی ست

ترجمہ: تصویر اگر ایک دولت مند بادشاہ کی بھی ہو، آخر تصویر ہے۔ روح کے ذوق سے محروم ہے، (اسی طرح ایمان سے خالی رہنے والا ایک جسم بے روح ہے۔)

22

زینتِ او از برائے دیگراں

باز کرده بیہده چشم و دہاں

ترجمہ: اسکی سجاوٹ دوسروں کے (دیکھنے کے لئے) ہے۔ (خود اسکو کوئی روحانی حلاوت حاصل نہیں) اس نے بیہودہ طور سے منہ اور آنکھ کھول رکھی ہے۔

مطلب: یہی کفّار کا حال ہے کہ وہ دیکھنے میں انسان ہیں مگر ان میں روحِ ایمان نہیں۔ اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ اِنۡ تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی لَا یَسۡمَعُوۡا ؕ وَ تَرٰىہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ وَ ہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ (الاعراف: 189)اور اگر تم انہیں صحیح راستے کی طرف بلاؤ تو وہ سنیں گے بھی نہیں۔ وہ تمہیں نظر تو اس طرح آتے ہیں جیسے تمہیں دیکھ رہے ہوں، لیکن حقیقت میں انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ وہ دیکھتے خاک بھی نہیں، آگے مولانا فرماتے ہیں:

23

اے تو در پیکار خود را باختہ

دیگراں را تو ز خود نشناختہ

ترجمہ: اے (غافل انسان!) جو جنگ و جدل (وغیرہ بیہودہ مشاغل) میں اپنے آپ کو مصروف کر رکھا ہے۔ تو نے دوسرے لوگوں کا تعلق اپنے ساتھ نہیں سمجھا (کہ کیا ہے۔)

مطلب :تیرے تمام کام ہوائے نفس کے ماتحت سر انجام پاتے ہیں۔ اگرچہ طاعت و عبادت ہو یا زہد و ریاضت (بحر)

24

تو بہر صورت کہ آئی بیستی

کہ منم ایں وَاللہ آں تو نیستی

ترجمہ: تو جس صورت میں نمایاں ہوتا ہے (اسکی گرویدگی پر) قائم ہو جاتا ہے۔ کہ میں (بس) یہی ہوں، واللہ (حقیقت یہ ہے کہ) تو وہ نہیں ہے (جو سمجھتا ہے۔)

مطلب: تو دوسرے لوگوں کو اپنے سے جدا سمجھتا ہے۔ اپنے اجزا نہیں سمجھتا، اور تو جس صورت میں نمایاں ہوتا ہے، خواہ عابدوں و زاہدوں کی صورت میں یا کسی اور شکل میں تو دعویٰ کرتا ہے کہ میں ایسا ہوں، اور سب سے جدا ہوں، اور حق تعالٰی کی رضا و خوشنودی چاہتا ہوں، واللہ تو ایسا نہیں ہے۔ یہ محض تیرا وہم ہے، معبود کو کماحقّہٗ تو نے نہیں پہچانا۔

25

یک زمان تنہا بمانی تو ز خلق

در غم و اندیشہ مانی تا بحلق

ترجمہ: ایک لمحہ (بھی اگر) تو مخلوق سے جدا رہ جائے۔ تو غم و فکر (کے دریا) میں حلق تک ڈوب جائے۔

مطلب: تجھے گمان ہے کہ میں حق تعالٰی کے ساتھ مانوس ہوں، ہرگز نہیں۔ اس وصف کی تجھ میں بُو تک نہیں ہے، بلکہ تو مخلوق کے ساتھ اُنس رکھتا ہے، جسکا ثبوت یہ ہے کہ تو کسی وقت تنہا رہ جائے تو خیالاتِ باطن میں گرفتار ہو جائے گا، اور یہی چاہے گا کہ کوئی انسان ملے جو مونس و غم خوار ہو۔ (بحر)

26

ایں تو کے باشی کہ تو آں اوحدی

کہ خوش و زیبا و سرمستِ خودی

ترجمہ: تو ایسا کب ہو سکتا ہے؟ (جو تو نے سمجھ لیا ہے) بلکہ تو وہ ذاتِ واحد (کا مظہر) ہے۔ جو اچھا اور زیبا اور اپنے آپکا عاشق ہے۔

مطلب: ایسا کب ہو سکتا ہے جو تو گمان کرتا ہے کہ میں عابد اور ہوں، اور وہ معبود اور ہے، اور دونوں اپنی اپنی جگہ جدا اور مستقل وجود رکھتے ہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ تو ہی وہ واحد ہے جو ذاتِ حق ہے، کیونکہ حق تجھ میں اپنی وحدت کے ساتھ ظاہر ہے، اور ان تعینات و شیونات کی کثرت، اسکی وحدتِ ذاتیہ میں قادح نہیں ہے۔ غرض اے محبوب! اپنے اس اعتقادِ فاسد سے جو تو نے اپنے معبود کے حق میں کر رکھا ہے، دور ہو۔ اپنے معبود کو تمام مخلوقات میں ظاہر سمجھ، اور تسلیم کر لے کہ تمام مخلوقات اسکی شیون ہیں، تاکہ تیری عبادت بوجہ اکمل سر انجام پائے اور تجھ کو مقامِ مشاہدہ میں پہنچائیں۔

27

مرغِ خویشی صیدِ خویشی دامِ خویش

صدرِ خویشی فرشِ خویشی بامِ خویش

ترجمہ: تو اپنے آپکا مرغ ہے، اپنے آپکا شکار ہے، اپنے آپ کا جال ہے۔ اپنے آپکی مسند ہے، اپنے آپکا فرش ہے، اپنے آپکا محل ہے۔

مطلب: وہی ذاتِ واحد ہے جو مختلف شیون میں ظاہر ہوتی ہے، تُو اس ذات کا مظہر ہے۔ پس یہ سمجھ لے کہ مرغ، مرغ کا شکاری، شکاری کا جال، اور صدر، اور صدر نشین کا محل، سب کچھ میں ہی ہوں۔

کَمَا قَالَ الْعِرَاقِیْ ؎

خود کوزہ خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ

خود برسرِ آں کوزه خریدار برآمد بشکت رواں شد

28

جوہر آں باشد کہ قائم با خودست

آں عرض باشد کہ فرعِ او شدست

ترجمہ: جوہر وہ ہوتا ہے، جو بذاتِ خود قائم ہو۔ عرض وہ ہوتا ہے، جو اسکے تابع ہو۔

مطلب: حق تعالٰى قائم بنفسہٖ اور موجود بذاتہٖ ہے۔ وہی عین موجود ہے، اور باقی موجودات اسکی شیونات ہیں، اور اسکے ساتھ قائم ہیں۔ اسکی تحقیق یہ ہے کہ حق تعالٰی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تعینِ عمائی میں تھا جو تمام حقائقِ امکانیہ کا جامع ہے، اور یہ عما جوہر اور قائم بنفسہٖ ہے۔ پس یہ عما جوہر ہے، اور تمام موجودات اس جوہر کی اعراض ہیں، جو ہر لمحہ و ہر آن متبدّل ہیں، کہ: ”اَلْعَرْضُ لَا یَبْقَیْ زَمَانَيْنِ“ کا اصول مسلّمہ ہے، اور حدیث میں وارد ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے پوچھا کہ الله تعالی زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ نے فرمایا: ”فِىْ عَمَاءٍ وَ لَيْسَ فَوْقَہٗ هَوَاءٌ وَ لَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ“ (لم اجد) یعنی ”وہ عما میں تھا جسکے نہ اوپر ہوا ہے اور نہ نیچے ہوا ہے۔“ غرض وہ عما جوہر قائم بنفسہٖ ہے، اور تمام عالم اسکے اعراض ہیں (بحر ملخصًا)

29

گو تو آدم زاده چوں او نشین

جملہ ذرّات را در خود ببین

ترجمہ: اگر تو حضرت آدم علیہ السّلام کا فرزند ہے، تو انکی طرح (مطمئن و مسرور) بیٹھ۔ تمام (عالم) کے ذرّات کو اپنے اندر دیکھ۔

مطلب: حضرت آدم علیہ السّلام اگرچہ اکیلے تھے، کوئی انسان انکے ساتھ نہ تھا جسکے ساتھ وہ انس پکڑتے۔ بایں ہمہ وہ مطمئن و مسرور تھے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام ذرّاتِ عالم کو ہی اپنی ذات میں مشاہدہ کرتے تھے، کیونکہ انکی حقیقت تمام حقائقِ الٰہیہ و کونیہ کی جامع تھی، وہ ان حقائق کو اپنے اندر دیکھتے تھے۔ پس بنی آدم کو بھی چاہیے کہ یہ سرور و طمانیّت اپنے باوا سے بطور ورثہ حاصل کریں، نہ یہ کہ عالم کو اپنے سے جدا تصوّر کریں۔ اسکے ساتھ مانوس ہوں، اور عالم کا مشاہدہ اپنے اندر کریں، بلکہ اپنے سے باہر اور جدا اور مستقل الوجود سمجھیں۔(بحر)

30

چیست اندر خم کہ اندر نہر نیست

چیست اندر خانہ کاندر شہر نیست

ترجمہ: مٹکے کے اندر کون سی چیز (ایسی نفیس) ہے جو نہر میں نہیں؟ گھر میں کون سا ایسا متاعِ (گراں مایہ) ہے، جو شہر میں نہیں ہے؟

31

ایں جہاں خمّ ست و دل چوں جوئے آب

ایں جہاں حجرہ ست و دل شہرِ عجاب

ترجمہ: (مدّعا یہ ہے کہ) یہ جہان مٹکا ہے، اور دل پانی کی نہر کی مثل ہے۔ یہ جہان کوٹھڑی ہے، اور دل عجائبات کا شہر ہے۔

مطلب: اس بیت میں عالم کو مٹکے، اور گھر سے تشبیہ دی، اور قلبِ انسانِ کامل کو اسکی وسعت، جامعیّت کے لحاظ سے نہر، اور شہر کی مانند ٹھہرایا ہے۔ فرماتے ہیں مٹکے کے اندر جو چیز ہو گی وہ نہر کے اندر بمقدارِ کثیر ہوگی۔ گھر میں جو عجائبات کسی نے مہیّا کئے ہوں گے، وہ شہر میں بتعداد کثیر دستیاب ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح عالم کے تمام عجائبات بلکہ مع شئ زائد، انسانِ کامل کی نشأةِ انسانیہ میں موجود ہیں۔ یہ شئِ زائد وہ ہے جو عالم میں نہیں۔ انسانِ کامل کی نشأة میں ہے۔ وہ کیا؟ شیون و صفاتِ الٰہیہ میں سے ہر ایک کا انسانِ کامل کے مرتبہ میں، سب کے رنگ میں ظاہر ہونا، اور سب کے احکام سے رنگ پانا، دوسرے شیون و صفاتِ الٰہیہ، مرتبۂ جمعّیتِ الٰہیّہ میں مُجمل اور بالقوّہ ہیں، اور عالم کے مظاہرِ متفرقہ میں، مفصّل اور بالفعل ہیں، اور نشأة انسانیہ میں بَیْنَ الْاِجْمَالِ وَ التَّفْصِیْلِاور بَیْنَ الْقُوَّةِ وَ الْفِعْلِہیں، اور یہ وہ بات ہے جو عالم میں نہیں ؎

خاطر بیکے لطیفہ قاصر نشود

کاں از تو بروزگار ظاہر نشود

مجمل سخن اینست کہ تا عمرِ دراز

تفصيلِ کمالاتِ تو آخر نشود

(بحر)