دفتر چہارم: حکایت: 33
در بیانِ تحمّل کردن از ہر بے ادبی، و طريقِ رفق سپردن
ہر بے ادب سے بردباری کرنے، اور نرمی کا طریقہ اختیار کرنے کے بیان میں
1
آں یکی نائی کہ خوش نے مے زدست
ناگہاں از مقعدش بادے بجست
ترجمہ: ایک بانسری بجانے والا جو خوب بنسری بجاتا تھا۔ اچانک اسکی مقعد سے ہوا خارج ہو گئی۔
2
نائے بر مقعد نہاد او کہ ز من
گر تو بہتر مے زنی بستاں بزن
ترجمہ: اس نے بانسری کو مقعد پر رکھ دیا، اور بولا کہ اگر تو مجھ سے بہتر بجا سکتی ہے تو لے بجا لے۔
مطلب: اس حکایت سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ (1) اکابر کے کلام پر مؤاخذه کرنے والا گندہ فطرت انسان ہوتا ہے، جیسے کہ اس حکایت میں تمثیل دی گئی ہے۔ (2) اسکے اعتراضات کی وہی حیثیت ہوتی ہے جیسے بادِ مخالف کی، یا جیسے کسی باکمال کو اراذل و سفهاء ہدفِ طعن بنائیں، تو ان سے معارضہ و مباحثہ کرنا شانِ کمال کے خلاف ہے۔ ایسے وقت میں اپنی ہار مان لینی چاہیے جیسے کہ نے نواز کی تمثیل میں اشاره موجود ہے۔ اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا﴾ (الفرقان: 63) ”اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔“ منہاج القویٰ میں لکھا ہے کہ مولانا کے کلامِ ہزل کو ظاہر پر محمول نہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
بیتِ من بیت نیست اقلیمے ست
ہزلِ من ہزل نیست تعلیمے ست
آگے فرماتے ہیں کہ جب بے ادب معارضہ و مباحثہ پر آمادہ ہوتا ہے، تو یہی عمل کرنا چاہیے کہ یہی شانِ کمال ہے:
3
اے مسلماں خود ادب اندر طلب
نیست اِلَّا حمل از ہر بے ادب
ترجمہ: اے مسلمان! (راہِ) طلب میں، ادب اسکے سوا نہیں ہے کہ ہر بے ادب سے تحمّل سے پیش آئیں (بلکہ کسی سے شکایت تک بھی نہ کریں۔)
4
ہر کرا بینی شکایت می کند
کاں فلاں کس راست طبع و خوے بد
ترجمہ: تم جس شخص کو (اس قسم کی) شکایت کر کے دیکھو کہ فلاں شخص کی طبیعت اور خصلت بری ہے۔
5
ایں شکایت گوید آں کہ بدخویست
کہ مر آں بدخوئے را او بدگویست
ترجمہ: (تو) یہ شکایت وہی شخص کرتا ہے جو (خود) بدخو ہے۔ کیونکہ وہ اس بدخوئی کی بدگوئی کرتا ہے۔
6
زانکہ خوش خو آں بود کو در خمول
باشد از بدخو و بدطبعاں حمول
ترجمہ: لیکن نیک خو وہ ہوتا ہے جو گوشہ نشینی میں بدخصلت و شریرُ الطّبع لوگوں سے بُرد باری کر نے والا ہو۔ (گوشہ نشینی کی شرط سے یہ فائدہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے جھگڑنے کے لئے میدانِ نزاع میں نہیں آتا۔)
7
لیک در شیخ ایں گلہ از مر خداست
نے پئے خشم و ممارات و ہواست
ترجمہ: لیکن شیخِ (طریقت) میں یہ گلہ (کرنے کی عادت) خدا کے حکم سے ہے۔ غصے اور مقابلہ اور نفسانیّت (کے تقاضے) سے نہیں۔
مطلب: اوپر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر گلہ و شکایت کرنا بُرا ہے، تو پھر مشائخ اپنے مریدوں اور طالبوں کی شکایت کیوں کیا کرتے رہتے ہیں؟ یہ اسکا جواب ہے، یعنی انکی شکایت کرنا بتقاضائے نفس نہیں، بلکہ بحکمِ خدا ہے کہ اس سے مریدوں کی اصلاح مقصود ہے، اور شریعت میں اسکی اجازت ہے۔ جیسے کہ فقہا کہتے ہیں کہ اہلِ معاصی کی غیبت جائز ہے، تاکہ لوگ انکی صحبت سے بچیں، اور وہ خود اسکو سن کر عبرت پکڑیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
8
آں شکایت نیست ہست اصلاحِ جاں
چوں شکایت کردنِ پیغمبراں
ترجمہ: وہ شکایت نہیں بلکہ (طالبوں کی) روحانی اصلاح ہے۔ جیسے پیغمبروں کا (کفّار کی) شکایت کرنا (تاکہ لوگ کافروں کے کفر و شرک سے متنفر ہو کر ایمان پر قائم رہیں۔)
9
نا حمولیِ انبیاءؑ از امر داں
ورنہ حمّال ست بَد را حِلم شاں
ترجمہ: پس انبیاء علیہم السّلام کے عدمِ تحمّل کو (خدا کے) حکم سے سمجھو۔ ورنہ انکا (کمالِ) حلم بدسلوکی کو بہت برداشت کرنے والا ہے۔
10
طبع را کشتند در حملِ بدی
نا حمولی گر بود ہست ایزدی
ترجمہ: انہوں نے بدسلوکی کے برداشت کرنے میں، اپنی طبیعت کو فنا کر لیا ہے۔ (پھر بھی) اگر (ان سے) عدمِ تحمّل (ظاہر) ہو، تو وہ خدائی (حکم سے) ہے۔ (اس جواب کے بعد پھر حمل و تحمل کی تاکید فرماتے ہیں:)
11
اے سلیمان درمیانِ زاغ و باز
حلمِ حق شو با ہمہ مرغاں بساز
ترجمہ: اے سلیمان! (ولی اللہ) کوّے اور باز (یعنی ہر قسم کے لوگوں) میں اللہ تعالٰی کا حلمِ (مجسم) بن جاؤ۔ اور سب پرندوں (یعنی لوگوں) کے ساتھ نباہ کر لو۔
مطلب: حضرت سلیمان علیہ السّلام تمام طیور و وحوش پر بھی حکمران تھے، اور منطقُ الطّیر یعنی پرندوں کی بولی، اللّٰہ تعالٰی نے انکو سکھائی تھی۔ اس مناسبت سے ولی اللہ یعنی شیخِ طریقت کو سلیمان سے، اور ہر قسم کے نیک و بد لوگوں کو، پرندوں سے تشبیہ دی ہے۔ اوپر فرمایا تھا کہ شیخِ طریقت کا گلہ و شکایت کرنا موردِ اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ مبنی بر مصلحت ہوتا ہے، مگر چونکہ شیخ، آخر بشر ہے، اور بتقاضائے بشریّت ممکن ہے کہ اس سے خلافِ مصلحت بھی کسی کی غیبت و شکایت ہو جاتی ہو۔ اس لئے اب اسکو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ آپ شیخِ وقت ہیں۔ آپکو ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ نباہ کرنا لازم ہے کہ یہ شیوہ پیغمبری ہے۔ جیسے قرآن میں فرمایا: ﴿فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ﴾ ( آل عمران: 159) ”ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جسکی بنا پر (اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتّر بتّر ہوجاتے۔“
12
بلبلِ بسیار گو را پَر مکن
باز را و کبک را برہم مزن
ترجمہ: زیادہ بولنے والی بلبل کے پر نہ نوچ۔ باز اور کبک کو مت پٹخو (یعنی لوگوں کی شوخیوں سے ناراض ہو کر انکو سزا نہ دو۔)
13
اے دو صد بلقیس حلمت را زبوں
کہ اِهْدِ قَوْمِیْ اِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
ترجمہ: اے (ولی اللہ! تم کو ایسا حلیمُ الطّبع ہونا چاہیے) کہ دو سو بلقیسیں تمہارے حلم کے آگے ہیچ ہوں۔ (اور جب تم سے کوئی بدسلوکی کرے، تو یہی کہو) کہ ”(الٰہی) میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ بے خبر ہیں۔“
مطلب: بلقیس چونکہ ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے بلقیس سے یہاں وہ لوگ مراد ہیں، جو اسلام یا طریقت و سلوک پر مائل ہوں، مگر ابھی اسکے آداب سے واقف نہ ہوں۔ ایسے لوگوں سے بہت سی خلافِ ادب اور ناشائستہ حرکات کا واقع ہونا ممکن ہے۔ اس بنا پر فرماتے ہیں کہ تمہارے حِلم کے آگے ایسے ایسے صدہا لوگ، کالعدم ہونے چاہئیں۔ نہ یہ کہ تم ہی بے ادب کے بے ادبانہ افعال سے برہم ہوجاؤ، بلکہ انکے لئے دعا کرو کہ اللہ ان نادانوں کو ہدایت دے۔ یہ دعا رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے جنگِ احد میں کفّار کے لئے فرمائی تھی، جبکہ ان نالائقوں کے حملے سے آپکے دو دانت مبارک شہید ہو گئے، آپکا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔ چنانچہ وہ دعا یہ تھی: ”الٰہی میری قوم کو ہدایت دے کہ یہ لوگ میرے رتبے کو نہیں جانتے۔“ آگے پھر بلقیس کا قصّہ چلتا ہے: