دفتر 4 حکایت 32: اس پیاسے آدمی کی کہانی جو اخروٹ کے درخت پر سے اخروٹ اس پانی میں گراتا تھا جوپانی کہ گڑھے میں تھا، کیونکہ وہ خود پانی میں پہنچ نہ سکتا تھا، تاکہ اخروٹ کے گرنے سے پانی کی آواز سنے، اور اسکو پانی کی آواز کا سننا وجد میں لاتا تھا

دفتر چہارم: حکایت: 32

حکایتِ آں مردِ تشنہ کہ از سرِ جوز بُن جوز در آب مے ریخت، کہ در گو بود و در آب نمی رسید، تا بافتادنِ جوز بانگِ آب بشنود، و او را چوں سماعِ بانگِ آب در طرب می آورد

اس پیاسے آدمی کی کہانی جو اخروٹ کے درخت پر سے اخروٹ اس پانی میں گراتا تھا جوپانی کہ گڑھے میں تھا، کیونکہ وہ خود پانی میں پہنچ نہ سکتا تھا، تاکہ اخروٹ کے گرنے سے پانی کی آواز سنے، اور اسکو پانی کی آواز کا سننا وجد میں لاتا تھا

1

در نُغولے بود آب آں تشنہ راند

بر درختِ جوز و جوزے مے فشاند

ترجمہ: ایک (گہرے) گڑھے میں پانی تھا (ایک پیاسا آدمی پانی تک پہنچ نہ سکا، ناچار) وہ پیاسا اخروٹ کے درخت پر چڑھ گیا، اور اخروٹ گرانے لگا۔

2

مے فتاد از جوز بُن جوز اندر آب

بانگ مے آمد ہمی دید او حباب

ترجمہ: اخروٹ کے درخت سے اخروٹ پانی میں گرتے تھے (اور) آواز آتی تھی۔ وہ شخص بُلبلے (نکلتے) دیکھتا تھا۔

3

عاقلے گفتا کہ بگذر اے فتٰی

جوزہا خود تشنگی آرد ترا

ترجمہ: ایک عقلمند نے (اسکو دیکھ کر) کہا اے جوان! (یہ کیا کر رہا ہے؟) اخروٹ (ختم ہو کر) تو تجھے (اور) محتاج کر دیں گے۔ (اس عقلمند کو اس شخص کی پیاس کا حال معلوم نہ تھا۔ اس نے سمجھا کہ یہ اخروٹ جمع کرنے کے لئے گرا رہا ہے۔ اس لئے وہ اسکو نصیحت کرتا ہے کہ تو اس طرح سارے اخروٹ ختم کر دےگا۔)

4

بیشتر در آب مے افتد ثمر

آب در پستی ست از تو دور تر

ترجمہ: اکثر پھل پانی میں جا گرتے ہیں۔ (اور) پانی گہرائی میں تجھ سے بہت دور ہے۔ (جس میں سے تو انکو نکال نہیں سکے گا۔)

5

بیشتر در آب می افتد ببیں

می برد آبش ترا چہ سود ازیں

ترجمہ: دیکھ اکثر (اخروٹ) پانی میں جا گرتے ہیں۔ پانی انکو غرق کر لیتا ہے، تجھے اس سے کیا فائدہ؟

6

تا تو از بالا فرود آئی بزیر

آب جوزت برده باشد اے دلیر

ترجمہ: اے بہادر! (جب تک تو انکو اٹھانے اور جمع کرنے کے لئے) اوپر سے نیچے اترے گا۔ پانی تیرے اخروٹوں کو غرق کر چکا ہوگا۔

7

گفت قصدم زیں فشاندن جوز نیست

تیز تر بنگر بریں ظاہر مایست

ترجمہ: (پیاسا) بولا، اس گرانے سے مجھے اخروٹ مقصود نہیں۔ (جیسا کہ تو نے سمجھا ہے) غور سے دیکھ، اس ظاہرِ (حال) پر قائم نہ رہ۔

8

قصدِ من آنست کاید بانگِ آب

ہم بہ بینم بر سرِ آب ایں حباب

ترجمہ: میرا مقصود تو یہ ہے کہ پانی سے آواز نکلے (اور میں اسے سنوں۔ ساتھ ہی میں) پانی کے اوپر یہ بُلبلے بھی دیکھوں۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

9

تشنہ را خود شغل چہ بود در جہاں

گردِ پائے حوض گشتن جاوداں

ترجمہ: دنیا میں پیاسے کا کام ہی کیا ہوتا ہے؟ (یہی) ہمیشہ حوض کے گرد گھومنا۔

10

گردِ جوئے و گردِ آب و بانگِ آب

ہمچو حاجی طائفِ کعبہ صواب

ترجمہ: (اور) نہر کے گرد، اور پانی، و پانی کی آواز کے گرد (گھومنا۔ تاکہ اس سے لذّت پائے) جیسے کعبہ صواب (یعنی مرشد کامل) کا طواف کرنے والا حاجی (یعنی مرید، اسکے گرد گھومتا ہے، تاکہ اس سے روحانی طمانیّت حاصل کر لے۔)

11

ہمچنیں مقصودِ من زیں مثنوی

اے ضیاء الحق حسامُ الدّین توئی

ترجمہ: اسی طرح اے ضیاء الحق حسام الدین! اس مثنوی کی (تصنیف) سے میرا مقصود تم ہو۔

12

مثنوی اندر اصول و در ابتدا

جملہ آن تست و کردستی قبول

ترجمہ: مثنوی اپنے بنیادوں (جزء و کل) اور ابتدا (لفظی و معنوی) حیثیت میں۔ ساری کی ساری تمہاری ہے، اور تم نے اسکو قبول کر لیا ہے۔ (زہے عزّ و شرف)

13

التجا بر تُست و بر اِمدادِ تو

تکیہ بر اشفاق و بر اِسعاد تو

ترجمہ: (اس تصنیف کی مہم میں) تم سے التجا ہے، اور تمہاری امداد پر، تمہاری شفقت پر، اور تمہاری اعانت پر بھروسہ ہے۔

14

مثنوی اندر اصول و در فروع

می کند زیرِ لوائے تو رجوع

ترجمہ: مثنوی اپنے اصول و فروع میں۔ تمہارے (ہی) جھنڈے کی طرف رجوع کرتی ہے۔ (لیکن تمہاری زیرِ نگرانی تکمیل کو پہنچنا چاہتی ہے۔)

15

مثنوی اندر اصول و ابتدا

جملہ بہر تست و بر تست انتہا

ترجمہ: مثنوی اپنی بنیاد، اور ابتدا سے۔ بالکل تمہارے لئے ہے، اور تمہارے نام پر ختم ہو گی۔

16

در قبولِ تست عزّ و مقبلی

زانکہ شاهِ جان و سلطانِ دلی

ترجمہ: تمہارے قبول کر لینے میں (ہی مثنوی کی) عزّت اور قبولیت ہے۔ کیونکہ تم روح کے بادشاہ اور قلب کے تاجدار ہو۔ (لہذا اسکو قبول کر لو! کیونکہ:)

17

در قبول آرند شاہاں نیک و بد

چوں قبول آرند نبود ہیچ رَد

ترجمہ: بادشاہ (اپنے کرم سے) ہر بھلی بری چیز کو قبول فرما لیتے ہیں۔ جب وہ قبول کر لیں تو پھر (وہ چیز) کبھی رَد نہیں ہوتی۔

18

چوں نہالے کاشتی آبش بده

چوں کشادش دادۂ بکشا گرہ

ترجمہ: جب تم نے ایک پودا بُویا ہے، تو اسے پانی دو۔ جب تم نے اسکو کشادگی دی ہے، تو اسکی مشکلات کی گرہ کھولو (یعنی مثنوی کی تحریک کی ہے، تو اب مستعدّی سے اسکی تکمیل پر آمادہ رہو۔)

19

قصدم از الفاظِ او رازِ تو است

قصدم از انشاش آوازِ تو است

ترجمہ: اس (مثنوی کے) الفاظ سے میرا مقصود، تمہارا راز (بیان کرنا) ہے۔ اسکو تصنیف کرنے سے میرا مقصود، تمہاری آواز (سن کر محظوظ ہونا) ہے۔

مطلب: یعنی جسطرح وہ اخروٹ گرانے والا پانی کی آواز سے محظوظ ہوتا ہے۔ اسی طرح میں تمہاری آواز سے محظوظ ہوتا ہوں۔ مولانا مثنوی کے اشعار فی البدیہہ بولتے، اور حسامُ الدّین لکھتے جاتے تھے، پھر وہ مسودہ پڑھ کر سناتے ہوں گے، یہاں یہی آواز مراد ہے۔ یا آواز سے شہرت مقصود ہے، یعنی اسکی تصنیف سے مقصود یہ ہے کہ تمہاری نیک شہرت ہر جگہ پہنچ جائے۔

20

پیشِ من آوازت آوازِ خداست

عاشق از معشوق حاشا کے جداست

ترجمہ: میرے نزدیک تمہاری آواز خدا کی آواز ہے۔ توبہ توبہ، عاشق معشوق سے جدا کہاں ہے؟

مطلب: تم ظاہر و باطن میں متّصف بصفات اللہ ہو۔ اسکے انوار تمہارے تمام اعضاء پر محیط ہیں۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ(الحدید: 4) ”اور تم جہاں کہیں ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے۔“ مگر خالق کی معیّت بندے کے ساتھ معنوی ہے۔ جسکو عقل ادراک نہیں کر سکتی اور فرمایا: ﴿وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ﴾ (ق: 16) ”اور ہم اسکی شہ رگ سے بھی زیادہ اسکے قریب ہیں۔ ”یہ قرب بھی عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ اسی طرح بندے کی زبان سے کہلوایا: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَہٗ۔اور فرمایا: ﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى﴾ (الانفال: 17) اور فرمایا: ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى﴾ (النجم:3) (منہج) عارف کو جب قربِ فرائض حاصل ہو جاتا ہے، تو فاعلِ فعل حق تعالٰی ہوتا ہے، اور بندہ اسکا آلۂ فعل ہوتا ہے۔ پس جب بندہ تکلّم کرتا ہے، تو وہ حق تعالٰی کا تکلّم ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلم شریف کی روایت ہے: اَلْحَقُّ یَنْطِقُ بِمَا يَنْطِقُ عُمَرُ”یعنی عمر کے کلام میں حق تعالٰی بولتا ہے اور ایک اور حدیث میں آیا ہے: یَقُوْلُ اللہُ بِلِسَانِ عَبْدِہٖ سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہْ“ یعنی ”اللہ تعالٰی اپنے بندے کی زبان سے کہتا ہے، اللہ نے اس بندے کی حمد سن لی جو اس نے کی ہے۔“ اس بیت میں یہ اشارہ ہے کہ حضرت حسّام الدّین رحمۃ اللہ علیہ کو یہ درجہ حاصل ہے کہ حق تعالٰی انکی زبان سے تکلّم فرماتا ہے۔ (بحر) حضرت حسّام الدّین رحمۃ اللہ علیہ کے خطاب کے بعد، اب قرب و معیّت کو بیان فرماتے ہیں:

21

اتصالے بے تکیُّف بے قياس

ہست رب النّاس را با جانِ ناس

ترجمہ: لوگوں کے پروردگار کو لوگوں کے ساتھ، بے کیف اور بے قیاس اتصال (ملاپ) ہے (یعنی عقل اسکو وحی و الہام کے بغیر ادراک نہیں کرسکتی۔)

22

لیک گفتم ناس من نسناس نے

ناس غیرِ جانِ جاں اِشناس نے

ترجمہ: لیکن میں نے (اس قرب و اتصال سے بہرہ مند ہونے والا) ناس (یعنی انسان) کہا ہے، نسناس نہیں کہا (اور) انسان وہی ہے، جو روحِ روح (یعنی حق تعالٰی) کو پہچاننے والا ہو۔

23

ناس مردم باشد و کو مردمے

تو سرّ مردم ندیدستی دمے

ترجمہ: لوگ (شکل و صورت میں) انسان ہوتے ہیں، اور انسانیّت کہاں؟ (وہ کسی میں شاذ و نادر ہی ہوتی ہے) تم نے ایک لمحہ کے لئے بھی انسان (کامل) کا راز نہیں دیکھا۔

24

مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ خواندۂ

لیک جسمی و تحرّی ماندہ

ترجمہ: تم نے (قرآن میں) ﴿مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَپڑھ (تو) لیا ہے۔ مگر (چونکہ) تم ایک جسم (بے روح) ہو (اس لئے اس راز کو نہ سمجھ سکے اور) اٹکل بازی میں رہ گئے۔

25

ملکِ جسمت را چو بلقیس اے غبی

ترک کن بہرِ سلیمانِؑ نبی

ترجمہ: اے کم عقل! تو اپنے جسم کی سلطنت سے بلقیس کی طرح دست بردار ہو جا۔ (جو) حضرت سلیمان علیہ السّلام نبی اللہ کے لئے (اپنی سلطنت سبا سے، دستبردار ہوگئی۔)

مطلب: جس طرح بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے تخت و تاج سے دستبردار ہو کر کہا: ﴿اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ(النمل: 44) اسی طرح تو بھی حق تعالٰی کے لئے اپنی جسمانیت، اور اسکے مقتضيات سے دست بردار ہو کر، روحانیت اختیار کر پھر: ﴿وَمَا رَمَیْتَ(الانفال: 17) کا راز سمجھ جائے گا۔ یہاں پہنچ کر مولانا کو بذریعہ کشف، بعض حاسدین و منکرین کے باطن کا حال معلوم ہو جاتا ہے، جو مثنوی پر نکتہ چینی کرتے ہیں یا کرنے والے ہیں۔ اب انکے متعلق فرماتے ہیں:

26

میکنم لَاحَوْلَ نے از گفتِ خویش

بلکہ از وسواسِ آں اندیشہ کیش

ترجمہ: میں لَاحَوْلَ پڑھتا ہوں مگر اپنے کلام سے نہیں۔ بلکہ اس شبہ کی عادت والے (حاسد و منکر) کے وسواس سے۔

27

کو خیالے میکند در گفتِ من

در دل از وسواس و انکارات و ظن

ترجمہ: جو میرے کلام کے متعلق وساوس، اور انکار، اور بدگمانی کی وجہ سے (اپنے) دل میں (طرح طرح) کے (معترضانہ) خیالات لا رہا ہے۔ (معترض کے غائبانہ ذکر کے بعد، اب اس سے خطاب فرماتے ہیں:)

28

می کنم لَاحَوْلَ یعنی چاره نیست

چوں ترا در دل بضدّم گفتنی ست

ترجمہ: میں (جو) لَاحَوْلَ پڑھتا ہوں (تو اس سے) مراد یہ ہے کہ کوئی علاج نہیں۔ جبکہ تیرے دل میں میرے خلاف باتیں (پیدا ہو رہی) ہیں۔

مطلب: لَاحَوْلَکے معنٰی یہ ہیں کہ اللّٰہ کے سوا کسی میں طاقت و قوّت نہیں۔ اس لئے عموماً کسی معاملہ میں اپنی بے بسی محسوس کرنے کے موقع پر لَاحَوْلَ پڑھا کرتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ مثنوی کے خلاف تیرے دل میں جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں، وہ تیری فطرتی کجی کے سبب سے لاعلاج ہیں۔ اس لئے میں لَاحَوْلَ پڑھتا ہوں۔

29

چونکہ گفتِ من گرفتت در گلو

من خمش گردم تو زیں بس خود بگو

ترجمہ: جب میرا کلام (ناپسندیدگی کی وجہ سے) تیرے گلے میں اٹک (کر ره) گیا، تو میں چپ ہو جاتا ہوں۔ اسکے بعد تو (جو کچھ بولنا چاہتا ہے) بول لے (اسکی تمثیل میں مولانا ایک ظریفانہ لطیفہ سناتے ہیں:)