دفتر چہارم: حکایت: 31
سببِ ہجرتِ ابراہیم ادھمؒ و ترکِ ملکِ خراسان
حضرت ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ کے وطن سے نکلنے اور خراسان کی بادشاہی چھوڑ دینے کا سبب
1
خفتہ بود آں شہ شبانہ بر سریر
حارساں بر بام اندر دار و گیر
ترجمہ: وہ بادشاہ (ابن ادھم) رات کو تخت پر سورہے تھے۔ پہریدار محل کے اوپر نوکری پر تھے۔
2
قصد شاه از حارساں آنہم نبود
کہ کند زاں دفعِ دزداں و رنود
ترجمہ: بادشاہ کا مقصود (ان) پہریداروں سے یہ نہ تھا۔کہ اس سے چوروں اور مفسدوں کو دفع کرے۔
3
او ہمی دانست کاں کو عادلست
فارغ ست از واقعہ ایمن دلست
ترجمہ: (کیونکہ) وہ جانتے تھے کہ جو بادشاه عادل ہو۔ وہ ہر حادثہ سے مطمئن اور خاطر جمع ہے۔
4
عدل باشد پاسبانِ کامہا
نے بشب چوبک زناں بر بامہا
ترجمہ: (بادشاه کا) انصاف (ہی اسکی) مرادات کا محافظ ہوتا ہے۔ نہ کہ رات کے وقت محلات (شاہی) پر ڈنڈے بجانے والے۔
مطلب: عادل بادشاہ کا کوئی دشمن نہیں ہوتا، جو اسکو نقصان پہنچانے کے درپے ہو اور اسکے ملازم بڑے وفادار و جانثار ہوتے ہیں، جو کبھی غدّاری کا قصد نہیں کرتے۔ اس لئے خود اسکا عدل ہی گویا اسکا پاسبان ہوتا ہے جس سے تمام چوروں مفسدوں اور دشمنوں کے خطرات مٹ جاتے ہیں۔ لہذا ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے نوبت بجانے والے نقارچیوں، اور ڈنڈے بجانے والے پہریداروں کی تعیناتی کوئی اپنی حفاظت کے لئے نہیں کی تھی، بلکہ اسکا مقصد اور ہی تھا جسکا ذکر آگے آتا ہے۔
5
لیک بُد مقصودش از بانگِ رباب
ہمچو مشتاقاں خیال آں خطاب
ترجمہ: لیکن (پہریداروں کے اس) ساز آواز سے انکا مقصود۔ مشتاقوں کی طرح اس خطاب: ﴿اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡۖ﴾ کی یاد آوری تھی (جو حق تعالٰی نے یومِ میثاق میں بنی آدم سے فرمایا تھا۔)
6
نالہ سرنا و تہدیدِ دُہُل
چیز کے ماند بداں ناقورِ كل
ترجمہ: (ساز کے ذریعہ عہدِ الست کی یاد آوری اس لئے ہوتی ہے کہ) نفیری کی فریاد اور ڈھول کی دھمکی۔ کسی قدر اس بڑے صور (کی آواز سے ملتی ہے۔ (جسکو حضرت اسرافیل بجائیں گے)
مطلب: مولانا بحرُ العلوم فرماتے ہیں کہ سماع کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عارف کو عہدِ الست کی یاد آوری کا موقع ملتا ہے۔ نقل ہے کہ سلطانُ المشائخ حضرت نظامُ الدّین قُدِّسَ سِرُّہٗ نے فرمایا: میں نے ﴿اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡۖ﴾ کے سوال کو پوربی راگنی میں سنا تھا، اور سلطان موصوف زیادہ تر پوربی راگنی سنتے تھے۔ سیّد جعفر قُدِّسَ سِرُّہٗ جو سلطانُ المشائخ کے ایک خلیفہ ہیں، فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم نے جو یمن سے نفسںِ رحمٰن کو محسوس فرمایا تو یہ آواز یمن میں راگنی میں سنی تھی۔ (انتہٰی) سماع کا مسئلہ سب سے بڑے مختلف فیہٖ مسائل میں سے ہے۔ علمائے شریعت خصوصاً اہلِ ظواہر اسکے سخت مخالف ہیں، اور صوفیہ خصوصاً حضراتِ چشتیہ اسکے مجوّز بلکہ قائل باستحسان ہیں۔ صوفیہ میں سے قادریہ و نقشبندیہ جماعتیں عموماً اسکے خلاف ہیں۔ خصوصاً نقشبندیہ حضرات جنکا اقدام اتباعِ سنّت میں زیادہ راسخ ہے۔ اس سے سخت مجتنب و محتاط ہیں۔ باستثنائے بعض اکابرِ طریقت مثل حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ باقی عام نقشبندیہ متقدّمین سے لے کر متاخرین تک، اس سے محترز رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو سماع، قوالی کی شکل میں راگ، اور مزامیر کے ساتھ مروّج ہے، اسکی نظیر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانے میں نہیں ملتی۔ نہ آپ کے بعد خیر القرون میں اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے، اور نہ صوفیہ متقدّمین کے حالات میں، جن میں سے بعض حضرات ایک دو واسطہ سے تبعِ تابعین سے مستفید ہوئے ہیں اسکا ذکر آتا ہے۔ مگر صوفیۂ متاخّرین میں اسکا بہت چرچا پایا جاتا ہے، اور اسکو بمنزلۂ حیاتِ روح و غذائے قلب سمجھا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسکو جائز رکھنے والے حضراتِ صوفیہ میں بڑے بڑے علمائے شریعت، آئمۂ وقت، محدثین، فقہا، غوث و قطب شامل ہیں، لہذا اگر شریعت کی ظاہری تعلیمات، اور نظائرِ احکام میں اسکے جواز کا بیّن ثبوت نہیں ملتا، تو ان اعلٰی پایہ کے اعیانِ امت و بزرگانِ ملّت کے عمل کو دیکھتے ہوئے اسکو مطلقاً حرام اور موجبِ فسق کہنے کی بھی جرأت نہیں ہوسکتی، جیسے کہ اہلِ ظواہر کا شیوہ ہے۔ اسی لئے متاخّرین نے اسکے جواز و عدمِ جواز کی مختلف شقوق نکالی ہیں، اور خاص شرائط و قیّود کے ساتھ اسکو جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ بعض اصحاب نے لکھا ہے کہ سماع کے جواز کے لئے تین شرطیں ہیں: (1) زبان (2) مکان (3) اخوان۔ یعنی سماع ایسے وقت میں ہو جبکہ اہلِ سماع میں اسکی اہلیت پیدا ہو جائے۔ عدمِ اہلیّت کے وقت یہ مضر، بلکہ منجرب بفسق ہوتا ہے۔ اور ایک محفوظ و محدود مقام میں ہو، شارع عام اور کھلے مکان میں سماع عوام کے لئے مضر، اور موجبِ فتنہ ہو گا۔ حاضرینِ سماع سب اہلِ مشرب ہوں، اور ایک بزرگ صاحبِ تصرّف کے زیرِ نگرانی سماع ہو۔ اغیار و اجانب کا اس میں شامل ہونا باعثِ خرابی ہے۔ پھر اگر ان شرائط کے ساتھ سماع ہو تو اس میں مضائقہ نہیں، مگر افسوس کہ آج کل ان شرائط کی بالکل پروا نہیں کی جاتی۔ عوام کالانعام جن پر طریقت کی ایک چھینٹ نہیں پڑی، وہ بھی اکابرِ صوفیہ کی نظیر سے سند پکڑ کر، محفلِ قوالی میں ناچنے کودنے کو ایک کارِ ثواب ٹھہرا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے اعمال سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ سماع کے فوائدِ خصوصیّہ سے بالکل محروم و نا بلد ہیں۔ انہوں نے اسکو محض ایک کھیل کا سامان کر رکھا ہے، جو بالاتفاق حرام ہے۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے جو نقشبندی المشرب اور حضرت مرزا جانجاں مظہر قُدِّسَ سِرُّہٗ کے خلیفۂ مجاز ہیں۔ اس موضوع پر ایک فیصلہ کن مستقل رسالہ لکھا ہے، جسکے کچھ اقتباسات ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ چونکہ راگ کی حلّت و حرمت میں متعارض نصوص آئی ہیں۔ اس لئے امام اعظم ابوحنيفہ رحمۃ الله علیہ نے احتیاطاً اسکی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ اب جیسا کہ اصول کا قاعدہ ہے کہ دلائل کے تعارض کے وقت، حرمت کو اباحت پر مقدم رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے ولیمہ میں بھی گانا جائز نہیں رکھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حرمتِ سرود کی احادیث کو اس گانے پر محمول کیا جو محض کھیل اور دل لگی کے لئے ہو، یا اس میں فتنہ کا خوف ہو۔ اور جو گانا بجانا کسی غرض صحیح پر مبنی ہو مثلاً نکاح کے اعلان یا کسی اور ایسے ہی امر پر، تو اسکو جائز ٹھہراتے ہیں۔
حجّۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ الله علیہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں۔کہ راگ کی حرمت میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں، وہ اس گانے پرمحمول ہیں جو شہوت اور عشقِ مجازی سے، دل کی شیطانی مرادیں پوری کرتا ہے، لیکن جو گانا خدا کی محبت پیدا کرتا ہے، وہ محبوب ہے یعنی عبادت ہے اور جو گانا نہ شیطان کی مرادیں پوری کرتا ہے، نہ خدا کی محبت پیدا کرتا ہے، وہ بذات خود مباح ہے۔ خزانہ اور کافی میں لکھا ہے: ”حُرْمَةُ الْغِنَاءِ وَ غَيْرُھَا مُقَیَّدٌ بِاللَّهْوِ فَمَا يَكُوْنُ بِغَيْرِ اللَّهْوِ بِغَرَضٍ كَمَا فِی الْعُرُوْسِ وَ الْوَلَيْمَةِ وَ اِسْتِعْدَادِ الْغَزَاةِ لِلْقَافِلَةِ وَ لِحُصُوْلِ رِقَّةِ قُلُوْبِ عِبَادِ اللهِ الْمَرْضِيَّةِ عِنْدَ اللهِ لَا تَكُوْنُ حَرَاماً عَلٰى مَذْهَبِ الْحَنْفِيَةِ“ یعنی ”گانے بجانے وغیره کی حرمت، لہو کے ساتھ مقیّد ہے۔ پس جو گانا بجانا لہو کے بغیر کسی اور غرض کے لئے ہو، جیسے نکاح کے وقت، اور ولیمہ میں، اور مجاہدین کی تیاری یا قافلہ کے کوچ کے وقت، اور بندگانِ خدا (یعنی صوفیہ صالحین) کے دل کو رقّت میں لانے کے لئے، جن سے خدا راضی ہے، حنفیہ کے مذہب پر حرام نہیں ہے۔“
امتناع میں ہے کہ: ”اِنَّ السِّمَاعَ یَحْصِلُ بِہٖ رِقَّةُ الْقَلْبِ، وَالْخُشُوْعُ، وَ اِثَارَةُ لِقَاءِ اللهِ تَعَالٰى، وَالْخَوْفُ مِنْ سَخَطِہٖ وَ عَذَابِہٖ، وَمَا يُفْضِیْ اِلٰى ذَالِکَ قُرْبَةٌ، وَ اِذَا كَانَ السِّمَاعُ هٰكَذَا فَكَيْفَ يَكُوْنُ فِيْهِ شَائِبَةُ اللَّهْوِ وَاللَّعْبِ؟“ یعنی ”راگ سننے سے رقّتِ قلب، اور خشوع، اور وصالِ الہٰی کے شوق کا جوش، اور اسکے قہرِ و عذاب کا خوف پیدا ہوتا ہے، اور جس امر کا نتیجہ یہ ہو، وہ ایک عبادت ہے۔ اور جب گانا سننا ایسا ہو تو اس میں کھیل اور بیہودگی کا کیا دخل؟“ حضرت شیخ شہاب الدّین سہروردی رحمۃ الله علیہ جو اکابر علمائے ظاہر سے ہیں، اور اولیا اللہ کے رئیس ہیں۔ عوارف المعارف میں فرماتے ہیں کہ: ”اَلسِّمَاعُ یَسْتَجْلِبُ الرَّحْمَۃَ مِنَ اللہِ الْکَرِیْمِ“ یعنی ”سماع خداوند کریم کی رحمت لاتا ہے۔“ حضرت خواجہ خواجگان عالی شان خواجہ بہاؤالدّین نقشبند رحمۃ الله علیہ نے سماع کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ”انکار میکنم و نہ ایں کار میکنم“ یعنی ”نہ میں انکار کرتا ہوں اور نہ یہ کام کرتا ہوں۔“ چونکہ انکے طریقے کی بناء کمالِ اتّباعِ سنت پر ہے، اور یقین ہے کہ گانا سننا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا دستور نہ تھا۔ اس لئے انہوں نے فرمایا کہ: ”نہ ایں کار میکنم“ اور چونکہ انکے نزدیک سماع کی حرمت ثابت نہیں تھی۔ اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ: ”نہ انکار میکنم“ اگر وہ اسکو حرام سمجھتے تو ضرور انکار کردیتے، اور ایک گناہ سے ضرور منع فرما دیتے۔ مزامیر کی حرمت کو تسلیم کر لینے کی تقدیر پر حرمتِ قطعی کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ دلیلِ قطعی صرف محکم آیت، یا متواتر حدیث، یا اجماعِ امت سے ہوتی ہے۔ اور اگر وہ حرام ہے تو اسکی حرمت احادیثِ اِحاد سے ہے، اور احادیثِ احاد ظنّی ہیں۔ (انتہی) قاضی صاحب کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ جو سماع لہو و لعب کی غرض سے ہو، اور اس سے شیطانی خیالات و جذبات نشو و نما پائیں، وہ حرام ہے۔ اور جس سماع سے محبتِ الٰہی جوش میں آئے، وہ جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اور حضرت خواجہ نقشبند کا اس سے انکار فرمانا اس پر مبنی ہے کہ وہ مطلقاً حرام نہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ یہ اربابِ صلاحیّت، اور اہلِ حال کے لئے ہی مناسب ہے۔ عوامُ النّاس جن میں سے اکثر لوگ ہوا و ہوس سے مغلوب، اور شیطانی ترغیبات سے متأثر ہوتے ہیں۔ انکے لئے سماع کے فائدے سے اسکے ضرر کا زیادہ احتمال ہے، اور فتویٰ میں خواص کی بجائے عوام کی حالت کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے۔ عوام کے لئے موسیقی کے مضرِ اخلاق، اور محرّکِ فواحش ہونے کے دلائل، مفتاح العلوم کی جلد ہفتم میں درج ہو چکے ہیں، مگر مولانا روم خواص سے ہیں۔ اس لئے آپ یہاں انکی مدح فرما رہے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں:
7
پسں حکیماں گفتہ اند ایں لحنہا
از دُوارِ چرخ بگرفتیم ما
ترجمہ: جبھی تو (راگ کو ایجاد کرنے والے) حکیموں نے کہا ہے۔ کہ یہ راگ ہم نے آسمان کی گردش سے اخذ کئے ہیں۔
مطلب: سماعِ ترنّم سے عہدِ میثاق کی یاد آوری اس بات کی دلیل ہے کہ انکا تعلق کسی بڑے نشانِ قدرت کے ساتھ ہے۔ چنانچہ حکمائے موسیقی کہتے ہیں کہ ہم نے اس فن کو آسمان کی حرکت سے اخذ کر کے ایجاد کیا ہے۔ چنانچہ منہج میں لکھا ہے کہ موسیقی کے بارہ مقام ہیں۔ سات آوازیں، چوبیس شعبے، اور اڑتالیس ترکیبیں۔ پسں مقامات، بارہ برج کے مقابلے میں ہیں۔ آوازیں، سبع سیارہ کے مطابق شعبے، 24 (چوبیسں) گھنٹوں کی تعداد پر۔ اور ترکیبیں، سال بھر کے ہفتوں کی گنتی کے موافق ہیں۔ (انتہیٰ) بحرالعلوم میں لکھا ہے کہ یہ قول حکیم فیثاغورث وغیرہ کا ہے، جنکے نزدیک آسمانوں کے درمیان ہوا موجود ہے، اور اس سے مختلف آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ اشراقیہ کہتے ہیں کہ اجرامِ فلکیہ میں ہوا کے بغیر آواز پیدا ہوتی ہے۔ (انتہٰی)
8
بانگِ گردشہائے چرخ است اینکہ خلق
مے سرایندش بطنبور و بحلق
ترجمہ: یہ آسمان کی گردشوں کی آواز ہے۔ جسکو لوگ طنبور پر، اور (اپنے) گلے میں گاتے ہیں۔
9
مومناں گویند کآثارِ بہشت
نغز گردایند ہر آواز زشت
ترجمہ: (وہ تو حکما کا دعویٰ تھا، ادهر) اہلِ ایمان کہتے ہیں (کہ راگ کی ایجاد کا اصلی سبب یہ ہے) کہ بہشت (کی نہروں کے چلنے، درختوں کے جھو منے، غلمانوں اور حوروں کے گانے) کی تاثیرات نے (ہماری) ہر بری آواز کو اچھی بنا دیا۔ (یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تم بہشت میں کہاں تھے، جو وہاں سے راگ کی تعلیم پا کر آ گئے۔ آگے اسکا جواب دیتے ہیں:)
10
ما ہمہ اجزائے آدمؑ بوده ایم
در بہشت آں لحنہا بشنوده ایم
ترجمہ: (اگرچہ بہشت میں صرف ہمارے باوا آدم ہی تھے مگر) ہم سب بھی تو حضرت آدم علیہ السلام کے (جسم کے) جز تھے۔ (پس کسی نہ کسی وجود میں ہم بھی ان کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ اس لئے) ہم نے بہشت میں وہ راگ سنے ہیں (جو وہاں گائے جاتے تھے۔ انہی راگوں کا اثر ہماری آوازوں میں ہو گیا۔)
11
گرچہ بر ما ریخت آب و گِل شکے
يادِ ما آید ازانہا اندکے
ترجمہ: اگرچہ (اب عناصر کے) مٹی گارے نے (بہشتی احوال کے متعلق) ہم پر شک (کا پردہ) ڈال دیا۔ (تاہم) ان (راگوں) سے ہم کو کچھ کچھ یاد آ ہی جاتا ہے۔
12
لیک چوں آمیخت با خاکِ کرب
کے دہد ایں زیر و ایں بم آں طرب
ترجمہ: لیکن جب وہ (سنے سنائے بہشتی راگ یہاں) غم کی مٹی میں مل گئے۔ تو یہ نیچے اونچے سرود مزا کہاں دیتے ہیں؟ (جو بہیشتوں میں دیتے ہیں۔)
13
آب چوں آمیخت با بول و کمیز
گشت ز آمیزش مزاجش تلخ و تیز
ترجمہ: (اسکی مثال یہ ہے کہ) جب (پاک و صاف) پانی پیشاب اور گندگی ساتھ مل جائے۔ تو (اس) آمیزش سے اس (پانی) کا مزاج تلخ و تند (یعنی ناپاک و نجس) ہوجاتا ہے۔
مطلب: جب جنت کے الحانِ لطیفہ جو پانی کی طرح ظاہر و طیّب تھے، وجودِ انسان میں داخل ہوئے اور عنصری جسم کے آلاتِ صوت اور مختلف مزامیر سے انکا ظہور ہوا، تو گویا پانی پیشاب کے ساتھ مل گیا۔ اس آمیزش سے ان الحانوں کی وہ حلاوت و لطافت قائم نہ رہی، جو جنت میں تھی بلکہ ایک نجاست کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے ظاہر ساز و سرود کو حرام قرار دیتے ہیں، مگر بایں ہمہ یا (بقول انکے) ناپاک و نجس گانا بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ جسطرح پیشاب بھی فائدے سے خالی نہیں ہوتا، آگے یہی فرماتے ہیں:
14
چیزکے از آب ہستش در جسد
بول ازاں رو آتشے را میکُشد
ترجمہ: پیشاب کے وجود میں کسی قدر آبی جز موجود ہے۔ اس لئے وہ آگ کو بجھا سکتا ہے۔
مطلب: پیشاب ہر چند ایک ناپاک اور گندی چیز ہے، مگر اس سے بھی اس قدر فائدہ ضرور ہے کہ وہ آگ جیسی ہولناک بلا کو، فَرو کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ اسکے اندر کسی قدر پانی کا جز موجود ہے، جو آگ کا دشمن ہے۔ اسی طرح یہ مروّجہ گانا بجانا، سماع، قوالی وغیره اگرچہ اہل اللہ کے نزدیک ممنوع و محذور ہے، اور فی الحقیقت احادیث و آثار پر نظر کرنے سے یہ محلِ اشتباہ ہو بھی جاتا ہے، مگر یہ آتشِ غم کے فرو کرنے اور یادِ محبوب سے دل کو تسکین دینے کا اعلٰی ذریعہ ہے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ اسکے اندر بہشتی الحان و اصوات کا اثر شامل ہے، جو مزيلِ غم، مسکنِ قلب، اور مفرحِ روح ہونے کی خاص تاثیر رکھتا ہے۔ آگے یہی ارشاد ہے:
15
گر نجس شد آبِ ایں طبعش بماند
کاتشِ غم را بطبعِ خود نشاند
ترجمہ: اگر (بہشتی الحان و نغمات کا) پانی (انسان کے وجود میں آ کر) ناپاک ہو گیا۔ (تاہم اسکی یہ طبعی خاصیّت (باقی) رہ گئی۔ کہ وہ غم کی آگ کو اپنی طبیّعت سے فرو کرسکتا ہے۔ (آگے اس دلیل کا نتیجہ ارشاد فرماتے ہیں:)
16
پس غذائے عاشقاں آمد سماع
کہ درو باشد خیالِ اجتماع
ترجمہ: پس سماع عاشقوں کی غذا(ئے روح) ہے۔ کیونکہ اس میں وصل (محبوب) کا تصوّر (پیدا) ہوتا ہے۔
17
قوّتے گیرد خیالاتِ ضمیر
بلکہ صورت گردد از بانگِ صفیر
ترجمہ: (سماع کی بدولت) دل کے خیالات (جو یادِ محبوب کے متعلق ہوتے ہیں) قوی ہو جاتے ہیں۔ بلکہ راگ کی آواز سے تصوّرات) مجسم ہو جاتے ہیں۔
18
آتشِ عشق از نواہا گشت تیز
آں چنانکہ آتشِ آں جوز ریز
ترجمہ: عشق کی آگ (راگ کی) آوازوں سے تیز ہوتی ہے۔ جس طرح اس اخروٹ گرانے والے کی (پیاس کی) آگ (پر انکے گرنے کی آواز کا اثر پڑتا ہے۔)
مطلب: آگے ایک شخص کا قصّہ آئے گا جو ایک گہرے پانی کے کنارے پر کھڑا تھا، پانی تک پہنچنا ناممکن تھا۔ ناچار اخروٹ کے ایک درخت پر چڑھ گیا، جو پاس ہی کھڑا تھا، اور اخروٹ توڑ توڑ کر پانی میں گرانے لگا، تاکہ اخروٹوں کے پانی میں گرنے کی آواز سے ہی دل کو لطف آئے۔ مولانا کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح راگ کی آواز بھی آتشِ عشق پر اپنا خاص اثر کرتی ہے۔
اس مقام پر مولانا بحر العلوم نے سماع کے متعلق ایک بحث حوالۂ قلم فرمائی ہے جو فائدہ سے خالی نہیں۔ فرماتے ہیں کہ نغمات کا سماع طبیعت میں نرمی و رقّت پیدا کرتا ہے، اور دل کو ان خیالات کی جانب کشش کرتا ہے، جنکا وہ پہلے مشتاق ہو۔ پس جس شخص کے دل میں حق تعالٰی کا خیال جا گزیں ہے، اسکو وہ حق کی طرف کھینچتا ہے، اور اسکی آتشِ عشق تیز ہو جاتی ہے۔ اور جس شخص کے دل میں خوبصورت عورتوں اور لڑکوں کی پسندیدگی کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ اسکو فسق و فجور پر آمادہ کرتا ہے۔ اہلِ دنیا کو لذّاتِ شہوانیہ کی ترغیب دیتا ہے۔ صوفیہ خصوصاً چشتیہ فرماتے ہیں کہ سماع اہل کے لئے حلال ہے، اور نا اہل کے لئے حرام ہے۔ لیکن شیخ اکبر قُدِّسَ سِرُّہٗ فتوحات مکیّہ کے باب ایک سو بیاسی میں نقل فرماتے ہیں کہ شیخ ابو مسعود قُدِّسَ سِرُّہٗ سے کسی نے سماع کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا: ”ھُوَ عَلَی المُبْتَدِیْ حَرَامٌ وَ المُنْتَھِیْ لَا یَحْتَاجُ اِلَیْهِ“ یعنی ”وہ مبتدی کے لئے حرام ہے، اور منتہی کو اسکی ضرورت نہیں۔“ پھر پوچھا کس کے لئے وہ مناسب ہے؟ ”قَالَ لِقَوْمٍ مُتَوَسِّطِیْنَ مِنْ اَصْحَابِ الْقُلُوْبِ“ ”فرمایا متوسط لوگوں کے لئے جو اہلِ دل ہیں۔“ شیخ اکبر ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ”فَھُوَ اِنْ كَانَ مُبَاحاً فَالتَّبْرِیَةُ عِنْدَ الْاَکَابِرِ اَوْلٰی وَ کَانَ اَبُوْ یَزِیْدِ الْبُسْطَامِیُّ یَکْرَھُہٗ وَ لَا یَقُوْلُ بِہٖ“ یعنی ”سماع اگرچہ مباح ہو، تاہم اکابر کے نزدیک اس سے بچنا اچھا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہٗ اسکو مکروہ سمجھتے تھے، اور اسکے قائل نہ تھے۔ پھر فرمایا: ”اَمَّا مَذْهَبُنَا فِيْهِ فَاِنَّ الرَّجُلَ الْمُتَمَکِّنَ مِنْ نَفْسِہٖ لَا یَسْتَدْعِیْهِ، وَ اِذَا حَضَرَ لَا یُخْرَجُ بِسَبَبِہٖ، وَ ھُوَ مُبَاحٌ عِنْدَنَا عَلَى الْاِطْلَاقِ لِاَنَّہٗ لَا يَثْبُتُ فِیْ تَحْرِیْمِہٖ شَیْءٌ مِن رَّسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاِنْ کَانَ الرَّجُلُ مَنْ لَّا یَجِدُ قَلْبَہُ مَعَ رَبِّہٖ اِلَّا فِيْهِ، فَوَجَبَ عَلَیْہِ تَرْکُہٗ اَصْلًا، فَاِنَّہُ مَکْرٌ اِلٰھِیٌّ خَفِیٌّ، ثُمَّ اِنْ کَانَ یَجِدُ قَلْبَہٗ فِیْہِ وَ ِفیْ غَيْرِهٖ وَعَلٰى كُلِّ حَالٍ وَ لٰكِن يَّجِدُ فِی النَّغْمَاتِ اَکْثَرَ، فَحَرَامٌ عَلَيْهِ حُضُوْرُہٗ“ یعنی ”ہمارا مذہب سماع میں یہ ہے کہ جو اپنے نفس میں صاحبِ تمکین ہو وہ سماع کی خواہش نہ کرے، اور اگر سماع میں حاضر ہو تو اسکے سبب مجلس سے باہر نہ نکلے۔ اور وہ ہمارے نزدیک مطلقاً مباح ہے کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم سے سماع کی حرمت میں کوئی حکم ثابت نہیں۔ پھر اگر کسی کی حالت یہ ہو کہ اسکو سوائے سماع کے اپنے پروردگار کی معیّت حاصل نہ ہو سکے، تو اس پر بالکل اسکا ترک کر دینا واجب ہے، کیونکہ وہ ایک گہرا مکر الٰہی ہے۔ پھر اگر کسی کی یہ حالت ہو کہ وہ سماع میں بہرحال اپنے پروردگار کی معیّت میں پاتا ہے، مگر سماع میں زیادہ پاتا ہے، تو اسكا سماع میں شریک ہونا حرام ہے۔ پھر اسی کتاب کے باب پانسو اٹھاون میں فرماتے ہیں: ”وَقَدْ ذَمَّ قَوْماً اِتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَهْواً وَّلَعِباً، وَ ھُمْ فِیْ هَذٰا الزَّمَانِ اَصْحَابُ السِّمَاعِ وَ اَهْلُ الدَّفِّ وَ الْمِزْمَارِ، مَا الدّيْنُ بِالدِّفِّ وَ الِْمزْمَارِ وَ اللَّعْبِ، وَلٰكِنَّ الدِّیْنُ اَلْقُرْاٰنُ وَالْاَدَبُ۔“ ”یعنی اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے، جنہوں نے دین کو کھیل اور دل لگی بنا رکھا ہے، اور اس زمانے میں یہ لوگ اہلِ سماع اور باجے گاجے والے ہیں۔ دین باجے گاجے کے ساتھ نہیں، دین تو قرآن اور ادب کے ساتھ ہے۔“ اس سے ظاہر ہوا کہ سماعِ مزامیر، دف وغیرہ حرام ہے بلاشبہ۔ اور جو سابقاً مذکور ہوا کہ سماع فلاں شرائط سے مباح ہے، تو اس سے اشعار کا خوش آوازی کے ساتھ گانا مراد ہے۔ خلاصہ یہ کہ سماع بغنا اس شخص کو جو متمکن بالنفس ہو، مباح ہے۔ خصوصاً جسکا حال سماع و غیر سماع میں یکساں ہو، اور اسکو بھی اسکا ترک اولٰی ہے لیکن سماع بمزامیر، دف وغیرہ مطلق حرام ہے۔ یہ ہے مذہب شیخ اکبر کا جو قدوہ مواحدان و عارفان ہیں۔ (انتہیٰ) آگے اخروٹ پھینکنے والے پیاسے کی کہانی چلتی ہے: