دفتر چہارم: حکایت: 30
تحریض کردنِ سلیمان علیہ السّلام رسولاں را بباز گشت، و ہجرتِ بلقیس
حضرت سلیمان علیہ السّلام کا قاصدوں کو بلقیس کے رجوع، اور ہجرت کے لئے ترغیب دینا
1
هم چنانکہ شہ سلیمانؑ در نبرد
جذبِ خیل و لشکرِ بلقیس کرد
ترجمہ: (اس بادشاہی انعام کی وہی مثال ہے) جیسے شاہ سلیمان علیہ السّلام نے جنگ (کا پیغام دینے) میں۔ بلقیس کی جماعت اور لشکر کو (مہربانی سے اپنی طرف) کھینچ لیا۔
مطلب: حضرت سلیمان علیہ السّلام نے قاصد سے فرمایا: ﴿اِرْجِعْ اِلَیْهِمْ فَلَنَاْتِیَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ﴾ (النمل: 37) یعنی ”(اے ایلچی!) انکے پاس واپس جاؤ، کیونکہ اب ہم انکے پاس ایسے لشکر لے کر پہنچیں گے جنکے مقابلے کی ان میں تاب نہیں ہوگی، اور انہیں وہاں سے اس طرح نکالیں گے کہ وہ ذلیل ہوں گے، اور ماتحت بن کر رہیں گے۔“ یہ صاف اعلان جنگ تھا مگر اس تہدید کی بجلی میں بھی ایک رحمت و رأفت کا جذبہ پنہاں تھا، جس نے فوراً بلقیس کو مع ارکانِ سلطنت حضرت سلیمان علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر کر دیا، اور انکی کشتی کو گردابِ تباہی سے نکال کر ساحلِ نجات پر پہنچا دیا۔
2
کہ بیائید اے عزیزان زُود زُود
کہ بر آمد موجہا از بحرِ جُود
ترجمہ: کہ اے عزیزو! جلدی جلدی چلے آؤ۔ کیونکہ بخشش کے سمندر میں موجیں اٹھنے لگیں۔
3
سوئے ساحل می فشاند بے خطر
جوشِ موجش ہر زمانے صد گُہر
ترجمہ: اس (سمندر) کی موج کا جوش، ہر وقت بلا توقف سینکڑوں موتی کنارے پر پھینک رہا ہے۔
4
اَلصَّلَا گفتیم اے اہلِ رشاد
کایں زماں رضوان درِ جنت کشاد
ترجمہ : اے ہدایت پانے والو! ہم نے تم کو دعوت دی۔ کہ اس وقت رضوان نے بہشت کا دروازہ کھول دیا۔ (یہاں تک حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف سے ایک باطنی و معنوی پیغام تھا۔ اب ظاہری و صوری پیغام آتا تھا۔)
5
پس سلیمانؑ گفت کاے پیکاں روید
سوئے بلقيس و بدیں دیں بگردید
ترجمہ : پھر حضرت سلیمان علیہ السّلام نے فرمایا اے قاصدو! بلقیس کی طرف جاؤ، اور اس دین کے معتقد ہو جاؤ (اور بلقیس کو بھی اسکی طرف مائل کرو۔)
6
پس بگوئیدش بیا ایں جا تمام
زود کہ اِنَّ اللّٰهَ يَدْعُوْا بِالسَّلَام
ترجمہ: پھر اسکو کہو کہ یہاں پوری (تیاری کے ساتھ) جلدی چلی آئے۔ کیونکہ ”اللّٰہ تعالٰی سلامتی کی طرف بلا رہا ہے۔“
7
ہیں بیا اے طالبِ دولت شتاب
کہ فتوح ست ایں زمان و فتحِ باب
ترجمہ: ہاں اے دولتِ (سعادت) کے طالب جلدی آ۔کیونکہ اس وقت (انعام) کی کشائش ہے، اور دروازۂ (انعام) کھلا ہے۔( آگے مولانا فرماتے ہیں:)
8
ایکہ تو طالب نۂ تو ہم بیا
تا طلب یابی ازاں یارِ وفا
ترجمہ: اے وہ (شخص) جو طالب نہیں ہے، تو بھی آ۔ تاکہ اس یارِ وفادار سے تو طلب پائے۔ (اور اس ذریعہ سے دولتِ سعادت کو پہنچ جائے۔)
9
ملک برہم زن تو ادھم ؒوار زُود
تا بیابی ہمچو او ملکِ خلود
ترجمہ: (ابراہیم بن) ادھم (رحمۃ اللہ علیہ) کی طرح جلدی بادشاہی کو پٹخ دے۔ تاکہ انکی طرح تو ابدی بادشاہی حاصل کرے۔