دفتر چہارم: حکایت: 29
در دل گذرانیدنِ درویش کہ ایں زر بدیں ہیزم کَش دہم، کہ من روزیِ حلال یافتم، و رنجیدنِ ہیزم کش
درویش کا دل میں خیال کرنا کہ میں یہ (دو جُبّہ) بھر سونا اس لکڑہارے کو دے دوں، کیونکہ مجھے حلال روزی مل گئی ہے، اور (اس سے) لکڑہارے کا ناراض ہونا
1
آں یکے درویش ہیزم مے کشید
خستہ و ماندہ ز بیشہ مے رسید
ترجمہ: ایک درویش لکڑیاں لا رہا تھا۔ تھکا ماندہ جنگل سے آتا ہے۔
2
پس بگفتم من ز روزی فارغم
زیں سپس از بہرِ رزقم نیست غم
ترجمہ: تو میں نے دل میں کہا، میں روزی سے فارغ ہوں۔ اسکے بعد رزق کے لئے مجھے کوئی غم نہیں۔
3
میوہ مکروه بر من خوش شده است
رزقِ خاصے جسم را آمد بدست
ترجمہ: بے مزہ میوہ میرے لئے خوشگوار بن گیا ہے۔ خاص رزق جسم کی غذا کے لئے ہاتھ آ گیا۔
4
چونکہ من فارغ شدستم از گلو
حبۂ چندست من بدہم بدو
ترجمہ: چونکہ میں گلو (کے لقمے) سے فارغ ہو چکا ہوں۔ یہ چند رتّی جو باقی ہیں، اسکو دے دوں۔
5
بدہم ایں زر را بدیں تکلیف کش
تا دو سہ روزک شود از قُوْت خوش
ترجمہ: میں یہ (دو رتّی بھر) سونا اس محنت کش کو دے دو۔ تاکہ وہ دو تین دن تک خوراک سے مطمئن رہے۔
6
خود ضمیرم را ہمی دانست او
زانکہ شمعش داشت نور از شمعِ ہُو
ترجمہ: (ادھر) میرے دل کی بات کو وہ لکڑہارا بھی جانتا تھا۔ کیونکہ اس (كی ادراک) کی شمع کو، شمعِ الٰہی سے نور حاصل تھا۔ (یعنی وہ ایک ولی اللہ صاحبِ باطن تھا۔)
7
بود پیشش سرِّ ہر اندیشۂ
چوں چراغے در درونِ شیشۂ
ترجمہ: اسکے (سامنے دلوں) کے ہر خیال کا راز اس طرح نمایاں تھا۔ جس طرح ایک چراغ شیشے کے اندر (جو چھپ نہیں سکتا۔ اس طرح دلوں کے اندر کا راز اسکو معلوم ہو جاتا۔)
8
ہیچ پنہاں می نشد از وے ضمیر
بود بر مضمونِ دِلہا او خبیر
ترجمہ: دل کی کوئی بات اس سے مخفی نہ رہتی تھی۔ وہ دلوں کے مضمون سے واقف تھا۔
9
پس ہمی منکید با خود زيرِ لب
در جوابِ فکرتم آں بُوالعجب
ترجمہ: پس وہ عجیب حالت والا بندہ، میرے خیال کے جواب میں، خود بخود منہ ہی منہ میں یوں بڑبڑانے لگا۔ (کہ:)
10
چوں چنیں اندیش از بہرِ ملوک
کَیْفَ تَلْقَی الرِّزْقَ اِن لَّمْ یَرْزَقُوْک
ترجمہ :جب تو (اقلیمِ ولایت کے) بادشاہوں کے متعلق ایسا (تحقیر آمیز) خیال کرتا ہے۔ تو اگر وہ حضرات تجھ کو رزق نہ دیں تو تو کیونکر رزق پائے؟ (تو ہم کو اپنا محتاج سمجھتا ہے؟ حالانکہ تو ہمارا محتاج ہے۔ اور اگر ہم تیری اس تحقیر سے ناراض ہو گئے تو یاد رکھ بھوکا مرے گا۔)
11
من نمی کردم سخن را فہم نیک
بر دلم مے زد عتابش نیک نیک
ترجمہ: میں اسکی بات کو اچھی طرح نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن اسکے عتاب کا میرے دل پر بخوبی عکس پڑ گیا (اور میں سنے بغیر سمجھ گیا۔)
12
سوۓ من آمد بہیبت ہمچو شیر
تنگِ ہیزم را ز خود بنہاد زیر
ترجمہ: پھر وہ شیر کی طرح ایک ہیبت کے ساتھ میری طرف آیا۔ لکڑیوں کے گٹھے کو اپنے سر سے نیچے رکھ دیا۔
13
پرتوِ حالے کہ او ہیزم نہاد
لرزه بر ہفت عضوِ من فتاد
ترجمہ: اس حالت کی درخشانی سے جو اس نے لکڑیوں کو رکھا۔ میرے ساتوں جوڑوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔
14
گفت یا ربّ گر ترا خاصاں حیّ اند
کہ مبارک دعوت و فرّخ پے اندر
ترجمہ: کہا کہ اے پروردگار! اگر تیرے خاص بندے زندہ ہیں۔ جو مستجابُ الدّعوات اور مبارک قدم ہیں۔
15
لطفِ تو خواہم کہ مینا گر شود
ایں زماں ایں تنگِ ہیزم زر شور
ترجمہ: تو میں چاہتا ہوں کہ تیرا لطف اس وقت کیمیا گر بن جائے۔ اور لکڑیوں کا گٹھا سونا ہو جائے۔
16
در زماں دیدم کہ زر شد ہیزمش
ہمچو آتش بر زمیں می تافت خوش
ترجمہ: اسی وقت میں نے دیکھا کہ اسکی لکڑیاں سونا ہوگئیں۔ (اور) زمین پر (پڑی) آگ کی طرح خوب چمک رہی تھیں۔
17
من دراں بیخود شدم تا دیرگہ
چونکہ با خویش آمدم من از ولہ
ترجمہ: میں اس (کرامت کے مشاہدہ) میں دیر تک بے خود رہا۔ جب حیرت سے (نکل کر) آپے میں آیا تو:
18
بعد ازاں گفت اے خدا گر آں کبار
بس غیورند و گریزاں ز اشتہار
ترجمہ: اسکے بعد اس بزرگ نے دعا کی کہ الٰہی! اگر وہ بڑے لوگ بہت غیرت مند اور شہرت سے بچنے والے ہیں تو:
19
باز ایں را بندِ ہیزم ساز زود
بے توقّف ہم براں حالیکہ بود
ترجمہ: تو پھر جلدی بلا توقّف، اسکو اسی حالت پر جیسے کہ پہلے تھا، لکڑیوں کا گٹھا بنا دے۔
20
در زماں ہیزم شد آں اغصانِ زر
مست شد در کارِ او عقل و نظر
ترجمہ: تو اسی وقت وہ سونے کی شاخیں لکڑیاں بن گئیں۔ اسکے کام میں عقل و فکر مست ہو (کر رہ) گئے۔
21
بعد ازاں برداشت ہیزم را و رفت
سوئے شہر از پیشِ من او تیز و تفت
ترجمہ: اسکے بعد اس نے لکڑیاں اٹھائیں، اور میرے سامنے شہر کی طرف تیز و گرم چل دیا۔
22
خواستم تا در پئے آں شہ روم
پرسم از وے مشکلات و بشنوم
ترجمہ: میں نے چاہا کہ اس (اقلیمِ ولایت کے) بادشاہ کے پیچھے جاؤں۔ (اور) اس سے (طریقت کے) مشکل مسائل پوچھوں اور سنوں۔
23
بستہ کرد آں ہیبتِ او مر مرا
پیشِ خاصاں رہ نباشد عامہ را
ترجمہ: (تو) اسکی اس ہیبت نے مجھ کو روک دیا۔ (کیونکہ) خاص لوگوں کے پاس عام لوگ باریاب نہیں ہو سکتے۔
انتباه: اس ہیزم کش بزرگ کے حالات سے چھ باتوں کے قیمتی سبق ملتے ہیں اور وہ باتیں خاصانِ حق کی صفات میں داخل ہیں: (1) قناعت۔ کہ ہیزم کشی سے جو کچھ ملتا ہو گا اسی کو کافی سمجھا۔ (2) کسبِ رزق۔ رزق کمانے کے لئے محنت و مشقت اختیار کی کیونکہ اختیارِ اسباب سنتُ اللہ کا اتباع ہے، ورنہ وہ بزرگ جو از راہ کرامت سونا بنا سکتے ہیں، محنت کے محتاج نہیں تھے۔ اگر کوئی سنّت کے خلاف چلے تو پھر اس میں بزرگی بھی نہ رہے، نہ وہ کسی کرامت کا مظہر ہو سکے۔ (3) نفرتِ مال و زر۔ چنانچہ ان بزرگ نے سونا بنی ہوئی لکڑیوں کو بھی سونے کی شکل میں رہنے دینا گوارا نہ کیا کیونکہ اس سے نفرت تھی۔ (4) اخفائے کمال لکڑیوں کو پھر لکڑیاں بنانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ انکی یہ کرامت منظرِ عام پر نہ آ جائے جس سے شہرت کا احتمال تھا، اور شہرت جمعیّت اور اخلاص کے لئے آفت ہے۔ اسی بناء پر اس بزرگ نے اپنے کمالات کو ہیزم کشی کے شغل میں چھپا رکھا تھا۔ (5) غیرت مندی۔ چنانچہ اس درویش کے دل میں ہر چند ایک ہمدردانہ و خیر خواہانہ خیال گزرا تھا کہ اس غریب لکڑہارے کی امداد کی جائے، مگر ان بزرگ کی غیرت نے کسی کے منّت کش ہونا گوارا نہ کیا۔ (6) تواضع و خاکساری۔ چنانچہ دعا میں بھی اپنی شخصیّت کو نمایاں نہیں کیا، بلکہ دعا میں دونوں مرتبہ اپنا ذکر غائبانہ کیا۔ آگے مولانا بطور نصحیت فرماتے ہیں:
24
ور کسے را رہ شود گو سر فشاں
کاں بود از رحمت و از جذبِ شاں
ترجمہ: اور اگر کسی کو (انکی بارگاہ میں باریاب ہونے کا) راستہ مل جائے تو کہو کہ وہ اپنا سر قربان کر دے۔ کیونکہ وہ (باریابی) انہی بزرگوں کی مہربانی اور جذب سے ملی ہے۔
25
پس غنيمت دار آں توفیق را
چوں بیابی صحبتِ صدّیق را
ترجمہ: پس جب تم کسی دوست (حق) کی صحبت پاؤ۔ تو اس توفیق کو غنیمت سمجھو۔
26
نے چوں ابلہ کہ یابد قربِ شاه
سہل و آساں درفتد آں دم ز راه
ترجمہ: نہ کہ اس بے وقوف کی طرح جو بادشاہ کا قرب پائے۔ تو اسی وقت سرسری طور سے بآسانی گمراہ (ہو کر قرب سے محروم) ہو جائے۔
27
چوں ز قربانی دہندش بیشتر
پس بگوید رانِ گاؤست ایں مگر
ترجمہ: جب اسکو ذرا زیادہ تقرّب عطا کیا جائے۔ تو کہے گا کہ شاید یہ گائے کی ران ہے۔
مطلب: کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے بہت سی موٹی تازی بکریاں ذبح کر کے انکا گوشت فقراء کو تقسیم کیا۔ ایک فقیر کو بکری کی ران جو ملی، اس نے ایسی موٹی مچرب اور پُر گوشت ران کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے یہ تو گائے کی ران معلوم ہوتی ہے۔ احمق نے یہ نہ سوچا کہ یہ بادشاہ کا عطیہ ہے جو بہترین مال کی قسم سے ہوتا ہے، بلکہ اسکو ایک ادنٰی مال کی قسم میں داخل کیا، یعنی ران کی موٹائی اور لحومت کو بادشاہ کی عطا سے معلل نہ کیا، بلکہ اسکو گائے کی ران ہونے پر محمول کیا، جو اس فقیر کی خست، دناءت اور نا اہلیت کی دلیل ہے۔ شعر کے الفاظ میں اسی قصّے کی طرف تلمیح ہے، یعنی جب کسی کو اہل اللہ کی صحبت میں باریاب ہونے کا موقع ملے، تو اتنا نہ سمجھے کہ یہ محض ان بزرگوں کی کمالِ ذرّہ نوازی و بندہ پروری ہے، جس نے مجھ جیسے ہیچ میرز کو اپنی نظر کیمیا کے اثر سے شرفِ قبول بخشا، بلکہ الٹا یہ سمجھتا ہے کہ شاید مجھ میں کوئی ایسا سرخاب کا پَر لگا ہوا ہے، جس نے ان بزرگوں کو میرا مشتاق بنا دیا ہے۔
28
نیست ایں از رانِ گاؤ اے مفتری
ران گاوت می نماید از خری
ترجمہ: اے جھوٹے! یہ گائے کی ران نہیں۔ تجھے بے وقوفی سے گائے کی ران نظر آتی ہے۔ (بزرگوں کی نظرِ عنایت محض انکے کرم سے ہے، اور کسی وجہ سے نہیں، تو اپنی بے وقوفی سے مختلف وجوه قائم کر رہا ہے۔)
29
بذلِ شاہانست ایں بے رشوتے
بخششِ محض ست ایں از رحمتے
ترجمہ: یہ بادشاہوں کا انعام ہے (جو) بلا رشوت (ملتا ہے۔) یہ خالص بخشش ہے، (جو) مہربانی سے حاصل ہوتی ہے۔