دفتر 4 حکایت 28: ایک درویش کا مشائخ کی ایک جماعت کو خواب میں دیکھنا، اور ان سے حلال روزی کی درخواست کرنا کہ میں روزی کمانے کے شغل میں عبادت سے قاصر رہتا ہوں، اور انکا اسکو کڑوے اور کھٹے میوے کھانے کا حکم دینا، اور (ان میووں کا) شیریں ہو جانا مشائخ کے انکو عطا فرمانے سے

دفتر چہارم: حکایت: 28

دیدنِ درویشے جماعتِ مشائخ را در خواب، و درخواست کردن روزیِ حلال از ایشاں کہ بمشغول شدنِ کسب از عبادت میمانم، و ارشادِ ایشاں او را بمیوہائے تلخ و ترش و شیریں شدن، بدادنِ مشائخ آنہا را

ایک درویش کا مشائخ کی ایک جماعت کو خواب میں دیکھنا، اور ان سے حلال روزی کی درخواست کرنا کہ میں روزی کمانے کے شغل میں عبادت سے قاصر رہتا ہوں، اور انکا اسکو کڑوے اور کھٹے میوے کھانے کا حکم دینا، اور (ان میووں کا) شیریں ہو جانا مشائخ کے انکو عطا فرمانے سے

1

آں یکے درویش گفت اندر سحر

خضریاں را من بدیدم خواب در

ترجمہ: ایک درویش نے صبح کے وقت بتایا۔ کہ میں نے خضری المشرب اولیاء (یعنی ابدالوں) کو دیکھا۔ (خضری المشرب وہ اولیاء ہیں جنکو علمِ لدّنی حاصل ہے اور وہ امورِ تکوینی میں خلقِ خدا کے کام انجام دیتے پھرتے ہیں۔ یہی منصب حضرت خضر علیہ السّلام کا ہے۔)

2

گفتم ایشاں را کہ روزیِ حلال

از کجا نوشم کہ آں نبود وبال

ترجمہ: میں نے ان سے عرض کیا کہ حلال روزی، جو (میرے اوقاتِ عبادت کے لئے) وبال نہ ہو، کہاں سے کھاؤں؟

3

مر مرا سوئے کہستاں راندند

میوہا زاں بیشہ نے افشاندند

ترجمہ: تو وہ مجھ کو کوہستان کی طرف لے گئے۔ اس (پہاڑی) جنگل سے (کڑوے کسیلے) میوے جھاڑ دیتے تھے، (میں کھا لیتا تھا)۔

مطلب: شروع کے شعر میں لفظ ”گفت اندر سحر“ سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ جس صبح کو یہ قصہ سنایا گیا، یہ واقعہ اسی رات کا ہے، حالانکہ یہ واقعہ بہت پہلے کا ہے جیسے کہ سیاقِ قصّہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ پس سحرکے لفظ سے صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ درویش نے جب یہ حال سنایا تو اتفاق سے صبح کا وقت تھا۔

4

کہ خدا شیریں بکرد آں میوه را

در دہانِ تو بہمّتہائے ما

ترجمہ: (کڑوے کسیلے میوے عطا فرمانے سے انکا مطلب یہ تھا) خداوند تعالٰی نے ہماری دعا سے میوے کو، تیرے منہ کے لئے میٹھا کر دیا۔

5

ہِیں بخور پاک و حلال و بے حسیب

بے صداع و نقل بالا و نشیب

ترجمہ: ہاں ہاں یہ پاک، اور حلال، اور بے حساب روزی کھاؤ۔ (جو کمانے کی) درد سری، اور اونچے نیچے مقامات کی نقل و حرکت کے بغیر حاصل ہو گی۔

6

پس مرا زاں رزق لطفے رو نمود

ذوقِ گفتِ من خردہا مے ربود

ترجمہ: پس اس (غیب کی) روزی سے مجھے ایک عجیب کیفیّت حاصل ہوئی (اور وہ میری قوّتِ ناطقہ بڑھ گئی۔ چنانچہ) میری تقریر کی لذّت لوگوں کی عقلوں کو دنگ کر دیتی تھی۔

7

گفتم ایں فتنہ ست یا ربّ در جہاں

بخششے دہ از ہمہ خلقاں نہاں

ترجمہ: میں نے دعا کی کہ الٰہی! (تقریر کی شہرت بھی) دنیا میں ایک فتنہ ہے۔ (جس سے صاحبِ تقریر میں خود پسندی و غرور پیدا ہو جاتا ہے۔) لہذا مجھے وہ انعام عطا فرما، جو تمام مخلوق سے پوشیدہ ہو۔

8

شد سخن از من دلِ خوش یافتم

چوں انار از ذوق مے بشگافتم

ترجمہ: میری دعا مقامِ اجابت پر گئی (اور قبول ہو گئی۔ چنانچہ) مجھے مطمئن قلب مل گیا۔ (میں اندر ہی اندر ذوقِ) طمانیت سے انار کی طرح کھلا جاتا تھا۔

9

گفتم ار چیزے نباشد در بہشت

غیر ایں شادی کہ دارم در سرشت

ترجمہ: میں نے (دل میں) کہا، اگر بہشت میں (اس خوشی کے سوا) اور کوئی نعمت نہ هو۔ جو اس وقت مجھے اپنی طبیعت میں حاصل ہے، (تو مجھے کسی دوسری نعمت کی آرزو نہ ہو گی۔)

10

ہیچ نعمت آرزو ناید دگر

زیں نپردازیم بخوردِ نیشکر

ترجمہ: میں اس (لذّت) سے بے نیاز ہو کر۔ گنّے کی لذّت میں مشغول نہ ہوں گا۔

11

ماند بود از کسب یک دو حبّہ ام

دوختہ در آستينِ جُبَّہ ام

ترجمہ: میری کمائی سے ایک دو حبّہ (نقد) باقی تھے۔ جو میرے چوغہ کی آستین میں سِلے ہوئے تھے۔