دفتر 4 حکایت 27: حضرت سلیمان علیہ السّلام کا قاصدوں کی دلداری اور عزت افزائی کرنا اور انکے دل سے پریشانی و تکلیف کو دور کرنا اور ہدیہ کو قبول نہ فرمانے کا عذر کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 27

دلداری کردن و نواختنِ سلیمان علیہ السّلام مر رسولاں را، دفعِ وحشت و آزار از دلِ ایشان و عذرِ قبول نا کردنِ ہدیہ

حضرت سلیمان علیہ السّلام کا قاصدوں کی دلداری اور عزت افزائی کرنا اور انکے دل سے پریشانی و تکلیف کو دور کرنا اور ہدیہ کو قبول نہ فرمانے کا عذر کرنا

1

اے رسولاں مے فرستم تاں رسول

ردِّ من بہتر شما را از قبول

ترجمہ: اے قاصدو! (اب) میں تم (ہی) کو (اپنا) قاصد (بنا کر بلقیس کے پاس) بھیجتا ہوں۔ میرا تم کو (ہدیہ سمیت) واپس کر دینا (اسکے) قبول کر لینے سے اچھا ہے۔ (کہ یہ لوگوں کی ہدایت کا باعث ہو گا۔)

2

پیشِ بلقیس آنچہ دیدید از عجب

باز گوئید از بیابانِ ذہب

ترجمہ: (ملکہ) بلقیس کے سامنے اس عجیب صحرائے طلا کا ذکر کرو جو تم نے دیکھا ہے۔

3

کہ چہل منزل بروئے زر بدید

وز چنیں ہدیہ خجل چوں میشدید

ترجمہ: کہ تم چالیس منزلوں کے سونے (کی سطح) پر (چلتے رہے) تھے۔ اور (اپنے) ایسے ہدیہ سے تم کس طرح شرمندہ ہوئے۔

4

تا بداند کہ بزر طامع نہ ایم

ما زر از زر آفریں آورده ایم

ترجمہ: تاکہ اسکو معلوم ہو جائے کہ ہم سونے کے حریص نہیں ہیں۔ ہم سونا پیدا کرنے والے سے کافی سونا لے آئے ہیں۔

5

آنکہ گر خواہد ہمہ خاکِ زمین

سر بسر زر گردد و دُرِّ ثمین

ترجمہ: وہ (سونا پیدا کرنے والا) کہ اگر وہ چاہے، تو ساری زمین کی مٹی سونا اور قیمتی موتی بن جائے۔

6

حق برائے آں کند اے زر گزیں

روزِ محشر ایں زمین را نقره گیں

ترجمہ: اے سونے کے طالب! اسی لئے تو حق تعالٰی قیامت کے روز، اس زمین کو چاندی کی سی بنا دے گا۔(تاکہ سب کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ اللّٰہ کے لئے مشکل نہیں۔)

7

فارغیم از زر کہ ما بس پر فنیم

خاکیاں را سر بسر زرّیں کنیم

ترجمہ: ہم سونے (کی حرص) سے فارغ ہیں، کیونکہ ہم بہت سے کمالات رکھتے ہیں۔ (جنکے آگے سونے کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ چنانچہ ہم چاہیں تو بحکمِ خدا) اہل زمین کو سراسر سونے سے بنے ہوئے کر دیں۔

8

از شما کے گدیۂ زر میکنیم

ما شما را کیمیا گرے کنیم

ترجمہ: ہم تم سے کب سونے کی بھیک مانگتے ہیں؟ ہم (چاہیں تو) تم کو کیمیا گر بنا دیں (کہ تم خود جتنا چاہو سونا بنالو۔)

9

ترک آں گیرید کہ ملکِ سباست

کہ بُروں از آب و گل بس ملکہاست

ترجمہ: اس (ملک) کو جو ملک سبا ( کہلاتا) ہے چھوڑ دو۔ کیونکہ (دنیا کے) آب و گل سے باہر بہت سے (عجیب و غریب معنوی) ممالک ہیں۔ (انکو حاصل کرنے کا قصد کرو۔)

10

تختہ بندست آنکہ تختش خواندۂ

صدر پنداری و بر در ماندۂ

ترجمہ: جس کو تم تخت کہتے ہو، وہ ایک قید ہے جس کو تم خاص نشست کی جگہ سمجھتے ہو، وہ دروازے پر پڑا رہنا ہے۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

11

بادشاہی نیست بر ریشِ خود

بادشاہی چوں کنی بر نیک و بد

ترجمہ: تیری حکومت اپنی ڈاڑھی پر (تو چلتی) نہیں کہ اسکو سفید ہونے سے باز رکھے۔ پھر تو (تمام) بھلے برے لوگوں پر کیا حکومت کرے گا؟

12

بے مرادِ تو شود ریشت سفید

شرم دار از ریشِ خود اے کژ امید

ترجمہ: چنانچہ تیری خواہش کے خلاف تیری ڈاڑھی سفید ہو جاتی ہے۔ اے خام خیال! اپنی ڈاڑھی سے شرم کر۔

13

مالکُ الملک ست ہر کش سر نہد

بے جہان خاک صد ملکش دہد

ترجمہ: (بادشاهت کا حقیقی مالک تو وہ ہے کہ) جو شخص اسکی بارگاہ میں عجز و خاکساری سے سر رکھ دے۔ وہ اسکو دنیائے خاک کے علاوه سینکڑوں باطنی بادشاہیاں عطا فرماتا ہے۔

14

لیک ذوقِ سجدۂ پیشِ خدا

خوشتر آید از دو صد دولت ترا

ترجمہ: لیکن خدا کی بارگاہ میں سر رکھنے کا وہ لطف ہے۔ کہ تجھ کو دو سو بادشاہیوں سے بھی بہتر نظر آئے گا۔

15

پس بنالی کہ نخواہم ملکہا

ملک آں سجدہ مسلّم کن مرا

ترجمہ: پھر تو رو (کر دعا) کرےگا کہ الہٰی میں بادشاہیوں کا آرز ومند نہیں۔ مجھے تو وہ سجدہ کی بادشاہی عطا فرما دے۔

16

بادشاہانِ جہاں از بد رگی

بُو نبردند از شرابِ بندگی

ترجمہ: سلاطینِ عالم نے اپنی بدطینتی سے۔ بندگی کی شراب سے بُو بھی نہیں پائی (کہ غرورِ سلطنت نے انکا سر خاکِ تضرّع پر جھکنے نہیں دیا۔)

17

ورنہ ادہم وار سرگردان و دنگ

ملک را برہم زدندے بے درنگ

ترجمہ: ورنہ وہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح حیران و سرگرداں ہو کر۔ بلا تامّل اپنی سلطنت کو پٹخ کر چل دیتے۔

18

لیک حق بہرِ ثباتِ ایں جہاں

مُہرِ شاں بنہاد بر چشم و زبان

ترجمہ: (لیکن حق تعالٰی کی اس میں بھی حکمت ہے۔) چنانچہ اس نے اس جہان کو قائم رکھنے کے لئے۔ ان (سلاطین) کی آنکھوں اور زبانوں پر مہر لگا دی۔

19

تا شود شیریں بر ایشاں تخت و تاج

تا ستانند از جہانداراں خراج

ترجمہ: تاکہ انکو تخت و تاج پُر لطف (محسوس) ہو۔ (یہ آنکھوں پر مہر لگنے کا نتیجہ ہے اور) تاکہ وہ ما تحت بادشاہوں سے خراج وصول کریں۔ (ادائے خراج کا حکم دینا، زبان پر مہر لگنے کا اثر ہے۔)

20

از خراج ار جمع آری زر چو ریگ

آخر آں از تو بماند مردہ ریگ

ترجمہ: (اے زر پرست پادشاه!) اگر تو خراج کی وصولی سے ریت کی طرح بکثرت سونا جمع بھی کر لے۔ تو آخر وہ تیرے مرنے کے بعد بے کار رہ جائے گا (یعنی تو اسے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔)

21

ہمرہِ جانت نگردد ملک و زر

زر بدہ سرمہ ستاں بہرِ نظر

ترجمہ: (چنانچہ وہ) بادشاہی اور سونا تیری روح کے ہمراہ نہیں جائے گا۔ (پس خدا کی محبت میں) سونا دے ڈال (اور اسکے عوض میں خدا سے) اصلاحِ بصیرت کے لئے سرمہ حاصل کر (جسکی بدولت تیری آ نکھ سے اس مہر کا اثر دور ہو جائے گا جس نے تیری نظر کو متغیّر کردیا ہے۔)

22

تا بہ بینی کایں جہاں چاہے ست تنگ

یوسفانہ آں رسن آری بچنگ

ترجمہ: تاکہ (اس سرمہ مصلحِ بصیرت کی برکت سے) تو دیکھ لے کہ یہ جہان ایک تنگ کنواں ہے۔ (اور تو اس میں کنویں سے نکلنے کے لئے) حضرت یوسف علیہ السلام (کو کنویں سے نکالنے والے کی طرح طاعات و عبادات کی) وہ رسی مہیا کرلے، جو اس کنوئیں سے نجات دلا سکتی ہے۔

مطلب: حضرت یوسف علیہ السّلام کے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہے: ﴿وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ﴾ (یوسف: 19) اور (دوسری طرف جس جگہ انہوں نے یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا، وہاں) ایک قافلہ آیا۔ قافلے کے لوگوں نے ایک آدمی پانی لانے کے لیے بھیجا، اور اس نے اپنا ڈول (کنویں میں) ڈالا تو ( وہاں یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر) پکار اٹھا: لو خوشخبری سنو! یہ تو ایک لڑکا ہے۔ اور قافلے والوں نے انہیں ایک تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا، اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، اللہ کو اسکا پورا علم تھا۔“ مدّعا یہ ہے کہ جسطرح اہلِ قافلہ کے رسّی ڈالنے سے حضرت یوسف علیہ السّلام کنویں سے باہر نکل آئے تم بھی طاعات و عبادات کی رسی کے ذریعے دنیا کے چاہِ غفلت و غرور سے باہر نکل آؤ گے اور تمہاری روح کو حقیقی مسرت حاصل ہو گی۔ چنانچہ:

23

تا بگوید چوں ز چہ آئی ببام

جاں کہ يَا بُشْـرٰى لَنَا هٰذَا غُلَامْ

ترجمہ: تاکہ جب تو (غفلت و غرور کے) کنوئیں (کی گہرائی) سے نجات کے محل پر چڑھ جائے۔ تو روح پکارے کہ آہا یہ تو لڑکا ہے۔

24

ہست درجہ انعكاساتِ نظر

کمتریں آنکہ نماید سنگِ زر

ترجمہ: (اس دنیاوی غفلت و غرور کے) کنوئیں میں (حریصانہ) نظر کے (دلفریب) عکس نظر آتے ہیں۔ (جنکا انسان دلدادہ ہو جاتا ہے۔) انکا کم از کم نمونہ یہ ہے کہ پتھر سونا دکھائی دیتا ہے۔

25

وقتِ بازی کودکاں را ز اختلال

می نماید آں خزفہا زرّ و مال

ترجمہ: (جس طرح) کھیل کے وقت بچوں کو عقل کے خلل سے۔ ٹھیکریاں زر و مال نظر آتی ہیں۔

26

عارفانش کیمیاگر گشتہ اند

تا کہ شد کانہا بر ایشاں نژند

ترجمہ: (بخلاف اسکے) اللّٰہ تعالٰی کے عارف ایسے کیمیاگر بن چکے ہیں۔ (جو ایک ہی نظر کی تاثیر سے پہاڑ کو سونا بنا دیں) حتٰی کہ سونے کی کانیں انکی نظر کے سامنے حقیر ہو گئیں۔

مطلب: جیسے ایک بزرگ کا حال منقول ہے کہ کوئی کیمیا گر فرطِ عقیدت سے انکے پاس حاضر ہوا اور بڑے خلوص سے عرض کیا۔ اگر حضور پسند کریں تو میں کیمیا کا نسخہ آپ کو بتا دوں۔ یہ بزرگ اس وقت ڈھیلے سے استنجا کر رہے تھے۔ جب ڈھیلے کو استعمال کر چکے تو اسے ایک پتھر پر دے مارا جو پاس ہی پڑا تھا، پتھر فوراً سونا بن گیا۔ ساتھ ہی فرمایا، ہمیں تو یہ کیمیا آتی ہے۔ اگر تم پسند کرو تو تم کو سکھا دیں۔ آگے اس بات کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے کہ دنیاوی مال و زر اہل دنیا کی نظر میں بڑا قابل قدر اور عزیز سونا ہے، مگر اہل اللّٰہ کی نگاہ میں وہ ہیچ و نا چیز ہے۔