دفتر چہارم: حکایت: 26
قصۂ عطّارے کہ سنگِ ترازوئے او از گلِ سرشوئے بود، و دزدیدنِ مشتری گِل خوارہ ازاں گِل ہنگام سنجیدن
اس عطار کا قصّہ جسکی ترازو کا بٹّا ملتانی مٹی کا تھا، اور مٹی کھانے والے خریدار کا وزن کرتے وقت اس میں سے کسی قدر چرا لینا
1
پیشِ عطّارے یکے گِل خواره رفت
تا خرد ابلوج قندے خاص زفت
ترجمہ :ایک عطّار کے پاس کوئی مٹی کھانے والا گیا۔ تاکہ سفید قند، خالص عمدہ (قسم کی) خریدے۔
2
پس بر عطّارِ طرّارِ دو دل
موضع سنگِ تر ازو بود گِل
ترجمہ: تو (اس) قریبی (اور) منافق عطّار کے پاس۔ بٹے کی بجائے مٹی کا ڈھیلا تھا۔
3
گفت عطّارے جواں ابلوجِ من
ہست نیکو بے تکلّف بے سخن
ترجمہ: عطّار نے کہا اے جوان! میری شکّر تو بلا مبالغہ، اور لا كلام عمدہ ہے۔
4
لیک گل سنگِ ترازوے من ست
گر ترا میلِ شکر بخریدن ست
ترجمہ: لیکن میری ترازو کا بٹّا مٹی کا ہے۔ اگر تم کو خریدنے کی خواہش ہے (تو حاضر ہے۔)
5
گفت ہستم در مہمّے قند جو
سنگِ میزان ہر چہ باشد باش گو
ترجمہ: اس نے کہا، میں ایک اہم موقع کے لئے شکّر تلاش کر رہا ہوں۔ ترازو کا بٹّا جو کچھ بھی ہو، ہو۔
6
گفت با خود پیش آ نکہِ گل خورست
سنگ چہ بود گِل نکو تر از زرست
ترجمہ: (پھر) اس نے اپنے دل میں کہا، اس شخص کے آگے جو مٹی کھانے والا ہے۔ (بٹے کے لئے) پتھر کیا چیز ہے؟ مٹی تو سونے سے بھی اچھی ہے۔
7
ہمچو آں دلّالہ کو گفت اے پسر
نو عروسے یافتم بس خوب تر
ترجمہ: (میری اور عطّار کی وہی مثال ہے) جیسے وہ دلّالہ جس نے (کسی دلہن کے طالب کو) کہا تھا اے لڑ کے! مجھے ایک نہایت خوبصورت نئی دلہن مل گئی۔
8
سخت زیبا لیک ہم یک چیز ہست
کاں ستیرہ دخترِ حلوا گرست
ترجمہ: خوبصورت تو بہت ہے لیکن ایک بات اور بھی ہے۔ کہ وہ پردہ نشین حلوائی کی بیٹی ہے۔ (اس بات کو شاید تم پسند نہ کرو۔)
9
گفت بہتر ایں چنیں خود گر بود
دخترِ او چرب و شیریں تر بود
ترجمہ :(لڑکا) بولا اگر ایسی بات ہے تو یہ اور بھی بہتر بات ہے۔ اسکی لڑکی چکنی اور میٹھی ہوگی۔
مطلب: جس طرح دلّالہ نے حلوائی زادگی کو عیب سمجھا، مگر یہ بات لڑکے کے لئے اور بھی باعثِ پسندیدگی تھی۔ اسی طرح عطّار نے مٹی کے بٹےّ کا عذر کیا، مگر وہ تو میری عین مراد ہے۔
10
گر نداری سنگ و سنگت از گل ست
ایں بہ و بہ گِل مرا میوۂ دل ست
ترجمہ: اگر تیرے پاس پتھر نہیں، اور تيرا بٹّا مٹی کا ہے تو یہ خوب و بہتر ہے۔ مٹی میرے لئے دل کا میوہ ہے۔
11
اندراں کفّہ ترازو ز اعتداد
او بجائے سنگ آں گل بر نہاد
ترجمہ: غرض اس (عطّار) نے اس پلڑے میں پتھر کے بجائے اس مٹی کو تیار کر کے رکھ دیا۔
12
پس برائے کفّہ دیگر بدست
ہم بقدرِ آں شکر را مے شکست
ترجمہ: پھر دوسرے پلڑے میں ڈالنے کے لئے اسکی مقدار پر شکّر کو ہاتھ سے توڑنے لگا۔ (جو بوری میں جم رہی ہو گی۔)
13
چوں نبودش تیشۂ او دیر ماند
مشتری را منتظر آنجا نشاند
ترجمہ: چونکہ اسکے پاس تیشہ نہ تھا (جس سے جلدی شکّر کو نکال لیتا اسکے لئے) وہ دیر تک (اگلی کوٹھڑی میں بیٹھا ہاتھوں سے شکّر کو کریدتا) رہا۔ (اور) خریدار کو وہاں منتظر بٹھا دیا۔
14
رویش آں سو بود گِل خور ناشگفت
گِل ازو پوشیده دزدیدن گرفت
ترجمہ: تاہم بنظر (احتیاط) اسکا رخ ادھر تھا۔ (چنانچہ اسکو معلوم ہو گیا کہ) مٹی کھانے والا بے صبر اس سے چھپا کر مٹی چرانے لگا ہے۔
15
ترس ترساں کہ نیاید ناگہاں
چشمِ او بر من فتد از امتحان
ترجمہ: (مگر) ڈرتا ڈرتا چراتا تھا) کہ (کہیں دکاندار) ناگہاں نہ آ جائے۔ (اور پھر) اسکی آنکھ بطور آزمائش مجھ پر پڑ جائے۔
16
دید عطّار آں و خود مشغول کرد
کہ فزوں تر دزد ہاں اے شیر مرد
ترجمہ :عطّار نے اس (کارستانی) کو دیکھ لیا، اور اپنے آپکو (یہاں اور بھی) مشغول کر لیا (جس سے یہ مقصد تھا) کہ ہاں اے بہادر! اور چرا لے۔
17
گر بدزدی از گِل من مے بری
رو کہ ہم از پہلوے خود مے خوری
ترجمہ: اگر تو چوری کر رہا ہے اور میری مٹی سے کچھ اڑا رہا ہے۔ تو جا (مزے کر) کہ خود اپنا ہی نقصان کر رہا ہے (کیونکہ مٹی کم ہو جائے گی تو شکّر بھی کم چڑھے گی۔ قیمت پوری، سودا کم۔ مٹی ارزاں ہے اور شکّر گراں۔ اس میں خود خریدار کا نقصان اور دکاندار کو فائدہ ہے۔)
18
تو ہمی ترسی ز من لیک از خری
من ہمی ترسم کہ تو کمتر خوری
ترجمہ: تو مجھ سے ڈرتا ہے لیکن (تیرا ڈرنا) بیوقوفی سے (ہے۔) میں ڈرتا ہوں کہ تو (مٹی) تھوڑی چرائے گا (زیادہ چرائے تو اچھا ہے۔)
19
چوں بہ بینی تو شکّر را آزمود
پس بدانی احمق و عاقل کہ بود؟
ترجمہ: جب تو شكّر کو وزن کر کے دیکھے گا کہ (پانچ سیر کی بجائے چار سیر ہی پلے پڑی، تو) پھر تجھے معلوم ہوگا (کہ) احمق (کون تھا) اور عقلمند کون تھا؟
20
گرچہ مشغولم چناں احمق نیم
کہ شکر افزوں کشی تو از تنم
ترجمہ: اگرچہ میں (یہاں) مصروف ہوں (مگر) ایسا بے وقوف نہیں ہوں۔ کہ تو زیادہ شکّر میرے وجود سے مار لے جائے۔ (دکاندار تو گاہکوں کو بے وقوف بنایا کرتے ہیں۔ اسی طرح جال کا دانہ مرغ سے مغلوب نہیں ہوتا، بلکہ مرغ اسکی طمع میں خود مغلوب ومقیّد ہو جاتا ہے۔ چنانچہ:)
21
مرغ ازاں دانہ نظر خوش میکند
دانہ ہم از دور راہش میزند
ترجمہ: پرنده اس دانے سے اپنی نگاه کو تفریح دیتا ہے۔ دانہ بھی دور سے اس پر رہزنی کرتا ہے۔ (مرغ کی اس نظر کے وبال سے، اب فاسقانہ بد نظری کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)
22
زنائے چشم حظّے مے بری
نے کباب از پہلوے خود مے خوری
ترجمہ: اگر آنکھ کی نظر بازی) کے زنا سے تو لطف اٹھاتا ہے۔ تو کیا اپنے پہلو سے کباب نہیں کھائے گا۔
مطلب: جس طرح مٹی کھانے والا گل خواری کے لطف میں، اپنی شکّر کا نقصان کر بیٹھا۔ اسی طرح حسینوں کے دیدار سے نظر سینکنے والا اپنے آپکو تیغِ عشق سے گھائل اور آتشںِ ہجر میں کباب کر لیتا ہے۔ تھوڑے سے لطف کی طمع میں عمر بھر کی بے لطفی کا وبال خرید لیتا ہے۔ ”زنائے چشم“ اس حدیث کی بنا پر کہا ہے: ”اَلْعَيْنَانِ تَزْنِيَانِ، وَالْيَدَانِ تَزْنِيَانِ، وَالرِّجْلَانِ تَزْنِيَانِ، وَالْفَرْجُ يَزْنِيْ“ (الجامع الصغیر) یعنی ”دونوں آنکھیں (نظربازی سے) زنا کرتی ہیں، اور دونوں ہاتھ (نامحرم عورت کے چھونے سے) زنا کرتے ہیں، اور دونوں پاؤں (محل زنا کی طرف چلنے سے) زنا کرتے ہیں، اور شرمگاه زنا کرتی ہے۔“
23
ایں نظر از دور چوں تیرست و سم
عشقت افزوں میشود صبرِ تو کم
ترجمہ: یہ دور سے (حسینوں پر) نظر کرنا، تیر اور زہر کی مانند ہے۔ (اس سے) تمہارا عشق ترقّی کرتا ہے، اور تمہارا صبر کم (ہوتا جاتا ہے۔)
مطلب: حدیث شریف میں آیا ہے: ”إِنَّ النَّظْرَةَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ إِبْلِيْسَ مَسْمُومٌ“ (رواه الحاكم، والطبراني) یعنی ”بیشک نظر بازی، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔“ نامحرم عورت کی طرف نظر کر نے کی کئی صورتیں ہیں۔ اگر معالج بغرض علاج، اسکے چہرے وغیرہ اعضاء کو دیکھے بشرطیکہ غلبۂ شہوت اور وقوع فی الفتنہ سے مامون ہو تو جائز ہے، اور اگر کوئی شخص نکاح کے لئے اپنا اطمينان کرنے کی غرض سے عورت کی شکل و صورت دیکھنی چاہے تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن اگر محض حظِّ نفس کے لئے کسی نامحرم عورت کی طرف نظر بازی کرے تو حرام ہے۔ رسول اللہ صلی صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”لَعَنَ اللهُ النَّاظِرَ وَ الْمَنْظُوْرَ اِلَیْهِ“ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان) یعنی ”اللہ تعالٰی (ستر کے) دیکھنے والے اور دکھانے والے پر لعنت کرے۔“ اس قسم کی نظر پہلے گناہِ صغیرہ ہوتی ہے لیکن جب اس سے ہوس ترقّی پاکر زنا تک پہنچا دیتی ہے، تو پھر وہی نظر صغیرہ گناہ سے کبیرہ گناہ بن جاتی ہے۔ اگر اتفاقاً بلا ارادہ کسی عورت پر نظر پڑ جائے تو یہ معاف ہے، پھر حکم ہے کہ دوبارہ نظر نہ کرے، فورًا اپنی آنکھ پھیر لے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت علی کرم اللہ و جہہ سے فرمایا: ”يَا عَلِيُّ! لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُوْلٰى، وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ“ (الترمذي: 2777) یعنی ”اے علی ایک مرتبہ نظر پڑجانے کے بعد دوبارہ نظر نہ کرو۔ پہلی نظر تم کو معاف ہے، دوسری معاف نہیں۔“ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے ناگہانی نگاه پڑ جانے کے متعلق عرض کیا: تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نگاہ پھیر لیا کروں۔
رخِ زیبا اگر دیکھو بتقدیر
مٹا دو جلد دل سے اسکی تصویر
نہ تصویروں میں وقفِ لہو ہونا
نہ ہرگز مبتلائے سہو ہونا
طلسمِ جان گزار ہیں یہ خیالات
نہ ہو جانا گرفتارِ طلسمات
اب پھر حضرت سلیمان علیہ السّلام کا قول چلتا ہے، جس میں وہ سیم و زر وغیرہ مالِ دنیا کی مذمت، اور توشۂ عقبٰی کی تعریف فرماتے ہیں:
20
مالِ دنیا دامِ مرغانِ ضعیف
ملکِ عقبٰی دامِ مرغانِ شریف
ترجمہ: دنیا کا مال ضعیفُ (الایمان) پرندوں کا جال ہے۔ آخرت کا مالک عالی مرتبہ پرندوں کا جال ہے۔ (اہلِ دنیا فوائدِ دنیویہ پر مرتے ہیں، اہل اللہ آخرت کے دلدادہ ہیں۔)
25
تا بدیں ملکے کہ او دامے ست ژرف
در شکار آیند مرغانِ شگرف
ترجمہ: حتٰی کہ اس ملک (عقبٰی) میں جو ایک گہرا (اور زبردست) جال ہے۔ اچھے اچھے (ذی مرتبہ) پرندے شکار ہوتے ہیں۔
26
من سلیمانؑ مے نخواہم ملکِ تاں
بلکہ من برہانم از هر ہُلکِ تاں
ترجمہ: میں سلیمان (علیہ السّلام) تمہارا ملک نہیں چاہتا۔ کہ میں تم کو ہر ہلاکت سے چھڑاتا ہوں۔
27
کایں زماں ہستید خود مملوکِ ملک
مالکِ ملک آنکہ او بجہد ز ہُلک
ترجمہ: کیونکہ اس وقت تم خود حکومت کے غلام ہو۔ حکومت کا مالک وہ ہے جو ہلاکت سے بچ نکلے۔
28
باز گونہ اے اسیرانِ جہاں
نامِ خود کردید امیرانِ جہاں
ترجمہ: اے دنیا کے قیدیو! الٹا تم نے اپنا نام امیرانِ جہاں رکھ لیا۔
29
اے تو بندۂ ایں جہاں محبوسِ جاں
چند گوئی خویش را خواجۂ جہاں
ترجمہ: ارے تو اس جہان کا غلام مقیّد جان والا ہے۔ (پھر) اپنے آپکو مالکِ جہاں کب تک کہے گا؟