دفتر 4 حکایت 25: حضرت سلیمان علیہ السّلام کا ملکہ بلقیس کے قاصدوں کو ہدیوں سمیت جو وہ لائے تھے بلقیس کی طرف لوٹا دینا، اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا انکو ایمان لانے اور بت پرستی کے چھوڑ دینے کی دعوت دینا

دفتر چہارم: حکایت: 25

باز گردانیدنِ سلیمان علیہ السّلام رسولانِ بلقیس را

با آں ہدیہا کہ آورده بودند سوئے بلقیس، و دعوتِ سلیمان ایشان را بایمان و ترکِ بت پرستی کردن

حضرت سلیمان علیہ السّلام کا ملکہ بلقیس کے قاصدوں کو ہدیوں سمیت جو وہ لائے تھے بلقیس کی طرف لوٹا دینا، اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا انکو ایمان لانے اور بت پرستی کے چھوڑ دینے کی دعوت دینا

1

باز گردید اے رسولانِ خجل

زرِ شما را دل بمن آرید دل

ترجمہ: (حضرت سلیمان علیہ السّلام نے فرمایا) اے قاصدو! جو (اپنے ہدیہ سے) شرمندہ ہو اپنے سونے کو واپس لے جاؤ۔ میرے پاس قلبِ (سلیم) لاؤ قلبِ (سلیم۔ اسکی ضرورت ہے، سونے کی نہیں۔)

مطلب: یہ اس بناء پر فرمایا کہ الله تعالٰی کا ارشاد ہے: ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(الشعراء: 88-89) یعنی ”جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد۔ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اسکو نجات ملے گی)۔ اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَ لٰکِنْ اِنَّمَا یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ اَعْمَالِکُمْ“ (مسند احمد) یعنی ”اللّٰہ تعالٰی تمہاری صورتوں کو اور تمہارے مال و دولت کو نہیں دیکھے گا، بلکہ تمہادے دلوں اور عملوں کو دیکھے گا۔“ قلب کو پیش کرنے کا حکم اس لئے فرمایا تاکہ وہ تعلیماتِ نبویہ سے مستفیض ہو۔)

2

ایں زرِ من بر سرِ آں زر نہید

کورئے تن فرجِ استر را دہید

ترجمہ: (ا۔ مطابق شرح منہج القویٰ) میرے اس (بے پایاں) سونے کو (اپنے اس سونے پر (لے جا کر) رکھ دو۔ (تاکہ وہ زیادہ ہوجائے، اور تمہاری حرص کی بھوک تسکین پائے۔ ارے تم لوگ کیوں) جسمانی تاریکی میں گرفتار ہو؟ اسکو کسی ذلیل جگہ پر ڈال دو (کہ وه اسی قابل ہے۔)

(2۔ مطابق بحر العلوم) میرے اس (معرفت کے) سونے کو (اپنے) اسی (قلب کے) سونے پر رکھو۔ (اور دیکھو کہ اسے کیا بصیرت حاصل ہوتی ہے؟ پھر) اپنی (جسم) کی بے بصیرتی کو کسی ذلیل جگہ میں ڈال دو (کہ وہ اسی قابل ہے۔)

3

فرجِ استر لائقِ حلقۂ زرست

زرِّ عاشق روے زرد و اصفر ست

ترجمہ: خچر کا اندام نہانی (ہی اپنی ذلّت و ناپاکی کی وجہ سے) سونے کے حلقہ کے لائق ہے۔ عاشقِ (حق کی پاک کلائیاں اسکے لائق نہیں۔ اس) کا سونا تو پیلا زرد چہرہ ہے۔

4

کہ نظرگاہِ خداوندست آں

کہ نظر اندازِ خورشید ست کاں

ترجمہ: کیونکہ وہ خداوند تعالٰی کا منظور نظر ہے۔ (سونے کی) کان، آفتاب کے نگاہ ڈالنے کی جگہ ہے۔

5

کو نظرگاہِ شعاعِ آفتاب

کو نظرگاہِ خداوندِ لباب

ترجمہ: کہاں شعاع آفتاب کی نظر پڑنے کی جگہ؟ (اور) کہاں باطن کے مالک کی نظر پڑنے کی جگہ۔

6

از گرفت من ز جاں اسپر کنید

گرچہ اکنوں ہم گرفتارِ منید

ترجمہ: (1) میری (اس) تکلیف (بالایمان) کو (دل و جان سے، اپنی حفاظت کی) ڈھال بنالو۔ (تاکہ عدمِ ایمان کی آفت سے بچ جاؤ) اگرچہ اب بھی تم میرے سامنے مکلّف (و مجبور) ہو۔

(2) میری گرفت (و مؤاخذہ) سے اپنی جان کو ڈھال بنالو (جس پر تیر و شمشیر کے زخم پہنچیں۔) اگرچہ اب بھی تم میرے گرفتار (اور نشانۂ حرب و ضرب) ہو۔

مطلب: پہلے ترجمہ کا مطلب یہ ہے کہ اے اہلِ سبا ہمارے پیش کردہ ایمان کو قبول کرو، جو تمہارے لئے موجبِ امن ہوگا۔دوسرے ترجمہ کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے حملہ کا صدمہ سہنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ اگرچہ دوسرا ترجمہ مضمونِ آیات کے مطابق ہے، مگر پہلا ترجمہ اَولٰی معلوم ہوتا ہے۔ آگے ”گرفتارِ منید“ کی تائید فرماتے ہیں:

7

مرغ فتنۂ دانہ بر بام ست او

پر کشادہ بستۂ دام ست او

ترجمہ: دانہ سے دھوکا کھانے والا پرندہ کوٹھے پر ہے۔ (جال کے اندر نہیں، حتٰی کہ) وہ پَر کھولے ہوئے (اڑنے پر آمادہ ہے، مگر درحقیقت وہ) جال میں گرفتار ہے۔ (کیوں؟)

8

چوں بدانہ داد او دل را بجاں

تا گرفتہ مر ورا بگرفتہ داں

ترجمہ: (اس لئے کہ) جب اس نے اپنے دل کو جان سے، دانہ کے حوالہ کر دیا۔ تو اسکو عدمِ گرفتاری میں بھی گرفتار سمجھو۔

9

آں نظر کہ سوئے دانہ میکند

آں گرہ داں کو بپا بر میزند

ترجمہ: جو نظر وہ دانہ کی طرف کرتا ہے، اسکو گرہ سمجھو، جسکو وہ (اپنے) پاؤں پر ڈالتا ہے۔

10

دانہ گوید گر تو مے دزدی نظر

من ہمے دزدم صبر و مقر

ترجمہ: دانہ کہتا ہے اگر تو مجھ سے آنکھ بھی چرالے۔ تو میں تجھ سے تیرا صبر و قرار بھی اڑالوں گا۔ (تجھے ٹلتے بھی پھانس لوں گا۔)

11

چوں کشیدت آں نظر اندر پیم

پس بدانی کز تو من غافل نیم

ترجمہ: جب اس نظر نے تجھ کو میرے پیچھے لگا دیا ہے۔ تو سمجھ لے کہ میں تجھ سے غافل نہیں ہوں۔(تیری گرفتاری کے درپے ہوں)

مطلب: مرغ اپنے آپ کو بڑا شاطر و چالاک سمجھتا ہے، اور زعم میں دانہ پر لپکتا ہے کہ ابھی اسے اپنی چابک دستی سے اڑا لوں گا۔ ادھر دانہ خود اسکی تاک میں ہے، کہ وہ آئے اور میں اسے دام گلوگیر کے سپرد کردں۔ آگے اسکی تائید میں ایک حکایت ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک خریدار اپنی دانست میں دکاندار کو فریب دے رہا تھا، مگر اسکا فریب اسی کے لئے باعثِ فریب بن رہا تھا: