دفتر چہارم: حکایت: 24
کراماتِ شیخ عبداللّٰہ مغربی قُدِّسَ سِرُّہٗ
شیخ عبد اللہ مغربی قُدِّسَ سِرُّہٗ کی کرامات
1
گفت عبداللّٰہ شیخِ مغربی
شَصت سال از شب ندیدم من شبے
ترجمہ: حضرت عبد اللہ شیخ مغربی نے فرمایا، کہ میں نے ساٹھ سال سے، کسی رات کو رات نہیں دیکھا۔
2
من ندیدم ظلمتے در شصت سال
نے بروز و نے بشب از اعتدال
ترجمہ: میں نے (اپنے روحانی) اعتدال کی بدولت ساٹھ سال میں (مطلق) تاریکی نہیں دیکھی، نہ دن کو اور نہ رات کو۔
3
صوفیاں گفتند صدقِ قالِ او
نیم شب رفتیم در دنبال او
ترجمہ: صوفیوں نے بیان کیا کہ ہم انکے دعویٰ کی تصدیق کے لئے، آدھی رات کو انکے پیچھے گئے۔
4
در بیابانہائے پُر از خار و گو
او چو ماہِ بدر ما را پیش رو
ترجمہ: وہ ایسے جنگلوں میں جو کانٹوں اور گڑھوں سے پُر تھے۔ پورے چاند کی طرح ہمارے آگے چل رہے تھے۔
5
روئے پس نا کردہ میگفت او بشب
ہیں گو آمد میل کن بر دستِ چپ
ترجمہ: (انکے پیچھے چلنے والوں میں سے جب کوئی شخص کسی گڑھے کے قریب پہنچتا، تو) وہ رات (کی تاریکی) میں پیچھے منہ کئے بغیر فرماتے۔ دیکھنا! گڑھا آ گیا بائیں ہاتھ کو پِھر جاؤ۔
6
باز گفتے بعد یکدم سوئے راست
میل کن زیرا کہ خارے پیشِ ماست
ترجمہ: پھر ایک لمحہ کے بعد کہتے، دائیں طرف کو پھر جاؤ کیونکہ ایک کانٹا ہمارے سامنے ہے۔
7
روز گشتہ پائے بوسش کرده ما
زانکہ بودے پاکش از گِل ہر دو پا
ترجمہ: (غرض اسی طرح) دن چڑھ گیا تو ہم نے انکے پاؤں چومے۔ کیونکہ (انکی ایک کرامت مزید براں یہ تھی کہ) انکے دونوں پاؤں (رات بھر چلنے کے باوجود) مٹی سے پاک تھے۔
8
نے ز خاک و نے ز گِل بر وے اثر
نز خراشِ خار و آسیبِ حجر
ترجمہ: ان پر نہ مٹی کا اثر تھا نہ گارے گا۔ نہ کانٹے کی خراش کا، نہ پتھر کی چوٹ کا۔
9
مغربی را مشرقی کرده خدا
کردہ مغرب را چو مشرق نور زا
ترجمہ: خداوندتعالٰی نے (اس) مغربی کو (آفتابِ حقیقت کی) مشرق والا کردیا۔ مغرب کو مشرق کی طرح نور پیدا کرنے والا بنا دیا۔
10
نورِ ایں شمس شموسِ فارس ست
روز خاص و عام را او حارس ست
ترجمہ: یہ نورانی و تیز رو آفتاب بھی تو آخر نور ہے۔ (اور) وہ خاص و عام کے دن کا نگہبان ہے (یعنی اسکی بدولت دن کی روشنی قائم ہے۔)
11
چوں نباشد حارس آں نورِ مجید
کہ ہزاراں آفتاب آرد پدید
ترجمہ: تو وہ (آفتابِ حقیقت جو) بزرگ (ہے) کیوں کہ نہ نگہبان ہو؟ جو (ایسے ایسے) ہزاروں آفتاب پیدا کر سکتا ہے۔
12
تو بنورِ او ہمی رو در اماں
درمیانِ اژدہا و کژدماں
ترجمہ: تم (مغربی کی طرح) اسکے نور میں امن و امان کے ساتھ۔ اژدہوں اور بچھوؤں کے درمیان چلے جاؤ۔
13
پیش پیشت مے رود آں نورِ پاک
مے کند ہر رہزنے را چاک چاک
ترجمہ: وہ پاک نور تمہارے آگے چل رہا ہے۔ ہر رہزن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔
14
یَوْمَ لَا یُخْزِی النَّبِیَّ راست واں
نُوْرٌ يَسْعَىٰ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ بخواں
ترجمہ: ﴿یَوْمَ لَا یُخْزِیْ۔۔۔الخ﴾ (یعنی ”وہ دن جس میں اللہ پیغمبر کو رسوا نہ کرے گا“) کی آیت کو برحق سمجھو۔ ﴿نُوْرُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ﴾ (یعنی ”انکے ایمان کی روشنی انکے آگے آگے چل رہی ہوگی۔“) کو بھی پڑھ لو۔
مطلب: یہ اس آیت قرآنی کی طرف اشارہ ہے: ﴿یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗۚ نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا﴾ (التحریم: 8) ”اس دن جب اللہ نبی کو اور جو لوگ انکے ساتھ ایمان لائے ہیں انکو رسوا نہیں کرے گا۔ انکا نور انکے آگے اور انکی دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا۔ وہ کہہ رہے ہوں گے کہ: اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے اس نور کو مکمل کردیجیے اور ہماری مغفرت فرما دیجیے۔ یقینا آپ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔“
15
گرچہ گردد در قیامت آں فزوں
از خدا ایں جا بخواہید آزموں
ترجمہ: اگرچہ (آیت مندرجہ بالا کی رو سے) قیامت میں وہ (نور) زیادہ ہو جائے گا۔ (مگر) تم یہاں (دنیا میں بھی اپنے نفس کے) امتحان کے لئے خدا سے (اسکی زیادتی کی) التجا کرو۔ (تاکہ معلوم ہو جائے کہ نفس میں کہاں تک اسکی صلاحیت ہے۔)
16
کو بہ بخشد ہم بمیغ و ہم بماغ
نورِ جاں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالْبَلَاغْ
ترجمہ: کیونکہ وہ (آفتابِ حق تعالٰی شانہٗ) بادل اور کہر کو بھی روح کا نور بخشتا ہے (پھر تم کو کیوں نہیں بخشے گا؟) اور اللہ (اس نور کے) پہنچانے کو بہتر جانتا ہے۔
مطلب: ”بادل“ اور ”کہر“ دونوں ظلمت کے مظہر اور نورِ آفتاب کے مانع ہوتے ہیں، مگر حق تعالٰی نے انکو بھی وہ نور بخشا ہے کہ انکے فیضان سے نباتات، شگفتہ و شاداب، اور نورِ تازگی سے تر و تازہ ہو جاتیں ہیں، تم بھی امید رکھو کہ تمہاری طبیعت کی ظلماتی گھٹا سے باطنی نور کی شعاعیں بلند ہونے لگیں۔
آگے پھر وہی قصہ چلتا ہے: