دفتر 4 حکایت 23: ملکۂ بلقیس کا شہر سبا سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف ہدیہ بھیجنے کا قصّہ

دفتر چہارم: حکایت: 23

قصّہ ہدیہ فرستادنِ بلقیس از شہرِ سبا، بسوئے سلیمان علیہ السّلام

ملکۂ بلقیس کا شہر سبا سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف ہدیہ بھیجنے کا قصّہ

1

ہمچو آں ہدیہ کہ بلقیس از سبا

بر سلیمان مے فرستاد اے کیا

ترجمہ: اے صاحب! اس ہدیہ کی طرح جو بلقیس نے شہرِ سبا سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف بھیجا (مگر انہوں نے واپس بھیج دیا۔ اہل اللہ بھی آسمان کے نچھاور کے محتاج نہیں، وہ خود آسمان کے لئے مفید ہے۔ (یہ قصّہ مفتاح العلوم کی آٹھویں جلد میں مفصّل درج ہو چکا ہے۔) یہاں مولانا اسکا ذکر فرماتے ہیں:)

2

ہدیہ بلقیس چل اشتر بُدست

بار آنہا جملہ خشت زر بُدست

ترجمہ: (ملکہ) بلقیس کا ہدیہ چالیس اونٹ تھا۔ ان سب پر سونے کی اینٹیں لدی تھیں۔

3

چوں بصحرائے سلیمانی رسید

فرش آں را جملہ زرِ پختہ دید

ترجمہ: جب (ہدیہ لے جانے والا) حضرت سلیمان علیہ السّلام کے علاقہ میں پہنچا۔ تو انکا سارا فرش خالص سونے کا پایا۔

4

بر سرِ زر تا چہل منزل براند

تاکہ زر را در نظر آبے نماند

ترجمہ۔ چالیس منزلوں تک سونے کی سطح پر چلتا رہا۔ حتٰی کہ (اسکی) نظر میں سونے کی آبرو نہ رہی۔

5

بارہا گفتند زر را وا بریم

سوئے مخزن ما چہ پیکار اندریم

ترجمہ: بارہا انہوں نے (آپس میں) کہا کہ ہم (اس) سونے کو واپس خزانے کی طرف لے جائیں۔ ہم کس (فضول) جھگڑے میں مشغول ہیں۔

6

عرصہ کش خاک زرِّ دہ دہی ست

زر بہدیہ بردنِ آنجا ابلہی ست

ترجمہ: جس میدان کی مٹی خالص سونا ہو۔ وہاں سونا بطور ہدیہ لے جانا حماقت ہے۔

7

اے ببرده عقل ہدیہ تا اِلٰہ

عقل آنجا کمترست از خاکِ راه

ترجمہ: اے عقل کا ہدیہ خدا تک لے جانے والے (یہی حال تیرا ہے) عقل تو وہاں راستے کی خاک سے بھی کمتر ہے۔ (اسی طرح خدائی حالات میں اپنی عقل کو دخیل کرنا بھی حماقت ہے۔ یہ بات مولانا نے ضمناً بطور نظیر فرما دی۔)

8

چوں کسادِ ہدیہ آنجا شد پدید

شرمساری شاں ہمی واپس کشید

ترجمہ: جب ہدیہ کی ناقدری وہاں ظاہر ہوگئی۔ تو شرمندگی نے انکو واپس لٹا دیا۔

9

باز گفتند از کساد و از روا

چیست بر ما بنده فرمانیم ما

ترجمہ: پھر انہوں نے (آپس میں) کہا، ہم پر اس ہدیہ کے نا قدر یا قابلِ قدر ہونے کا کیا الزام ہے۔ ہم تو حکم کے تابع ہیں۔

10

گر زر و گر خاک ما را بردنی ست

امر فرماں دہ بجا آوردنی ست

ترجمہ: اگرچہ سونا ہو یا مٹی، ہم کو لے جانا چاہیے۔ حاکم کا حکم بجا لانا چاہیے۔

11

گر بفرمایند کہ واپس برید

ہم بفرماں تحفہ را باز آورید

ترجمہ: اگر (حضرت سلیمان علیہ السّلام) حکم دیں گے کہ واپس لے جاؤ۔ تو حکم کے مطابق اس تحفہ کو واپس بھی لے آؤ۔ (یعنی حکم کے ساتھ لائے ہیں حکم سے واپس بھی لے آئیں گے۔)

12

امر و فرماں را ہمی باید شنید

تا بدانجا ہدیہ را باید کشید

ترجمہ: حکم و ارشاد کو سننا چاہیے۔ وہاں تک ہدیہ کو لے جانا چاہیے۔

13

پس رواں گشتند ہدیہ آوراں

تا بہ تختِ آں سلیمانِؑ جہاں

ترجمہ: پس ہدیہ لانے والے ان جہان کے (بادشاہ) حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرف روانہ ہو گئے۔

14

خندش آمد چوں سلیماںؑ آں بدید

کز شما من کے طلب کردم مزید

ترجمہ: جب حضرت سلیمان علیہ السّلام نے وہ (ہدیہ) دیکھا تو انکو ہنسی آئی۔ (اور کہا) کہ میں نے تم سے کب فضول (مال) طلب کیا تھا؟

15

من نمی گویم مرا ہدیہ دہید

بلکہ گفتم لائق ہدیہ شوید

ترجمہ: میں نہیں کہتا کہ مجھے ہدیہ دو بلکہ میں کہتا ہوں کہ تم ہدیہ (دینے) کے لائق بنو۔

مطلب: ہم نے تو بلقیس کو یہ پیغام دیا کہ: ﴿وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِيْنَِ(النمل: 31) یعنی ”تم مسلمان ہو کر ہمارے پاس حاضر ہو جاؤ“۔ یہ ہم نے کب کہا تھا کہ ہم کو مال و زر سے راضی کرنے کی کوشش کرو؟ بلکہ ہمارا مقصد تو یہ تھا کہ تم بندگانِ حق کے زمرہ میں شامل ہو کر اسلام کی برادری کے ایک فرد بن جاؤ۔ پھر تمہارا ہدیہ دینا بھی موزوں ہو گا۔

16

کہ مرا از غیب نادر ہدیہاست

کہ بشر آں را نیارد نیز خواست

ترجمہ: کیونکہ مجھ کو غیب سے (علوم و معارف یا حکومت انس و جن کے) وہ نادر تحفے (ملے) ہیں۔ کہ (کوئی دوسرا) انسان انکی آرزو بھی نہیں کر سکتا۔ (چہ جائیکہ انکو حاصل کرے۔)

17

مے پرستید اختر کو زر کند

رُو باد آرید کو اختر کند

ترجمہ: تم (سونے کی محبت سے) ستارے کو پوجتے ہو، کہ وہ (کان کے اندر اپنی تاثیر سے) سونے کی تربیّت کرتا ہے۔ (ستارے کو چھوڑ کر) اس (ذاتِ پاک) کی طرف متوجّہ ہو جاؤ جو ستارے کو پیدا کرتا ہے۔

18

مے پرستید آفتابِ چرخ را

خوار کرده جانِ عالی نرخ را

ترجمہ: تم آسمان کے آفتاب کو پوجتے ہو۔ اپنی عالی قدر روح کو (اس پرستش سے) ذلیل کر لیا۔ (جسکو خداوند تعالٰی نے تمام مخلوقات پر برتری بخشی ہے۔ اس عقیدے کے بطلان کی کئی دلیلیں ہیں۔)

19

آفتاب از امرِ حق طبَّاخِ ماست

ابلہی باشد کہ گویم او خداست

ترجمہ: (پہلی دلیل) سورج خدا کے حکم سے ہمارا باروچی ہے۔ (جو ہماری کھیتیاں پکاتا ہے۔ پس جب وہ حکمِ خدا کا تابع ہے، تو خدا کیونکر ہو سکتا ہے؟) ہمارا اسکو خدا کہنا (صاف) بے وقوفی ہے۔

20

آفتابت گر بگیرد چوں کنی

آں سیاہی زو تو چوں بیروں کنی

ترجمہ: (دوسری دلیل) تیرے (معبود) سورج کو اگر گہن لگ گیا تو پھر تو کیا کرے گا؟ اس گہن کی سیاہی کو اس سے کیونکر دور کرے گا؟

21

نے بدرگاهِ خدا آری صُداع

کہ سیاہی را ببر وا دِہ شُعاع

ترجمہ: تو کیا (پھر) تو خدا کی درگاہ (ہی) کی طرف یہ مشکل پیش نہیں کرے گا؟ کہ (الٰہی! (سورج کی) سیاہی کو دور کر دے۔ (اور) اسکی روشنی واپس دے دے۔ (پس ایسی بے بس مخلوق، جو تمہاری دعا کی محتاج ہے۔ خدا کیونکر ہو سکتی ہے؟)

22

گر کشندت نیم شب خورشید کو

تا بنالی یا اماں یابی ازو

ترجمہ: (تیسری دلیل) اگر آدھی رات کو تجھ پر قاتلانہ وار کیا جائے (جبکہ سورج حاضر نہیں ہوتا) تو پھر سورج کہاں ہے؟ تاکہ (اسکے حضور میں تو) فریاد کرے، یا اس سے امن پائے۔ (خدا ہی ہے نا پھر سورج کس مرض کی دوا ہوا، جسکو خدا بنا رکھا ہے؟)

23

حادثات اَغلب بہ شب واقع شود

آں زماں معبودِ تو غائب شود

ترجمہ: (قتل، چوری، شب خوں وغیرہ کے) واقعات غالباً رات کے وقت واقع ہوتے ہیں۔ (اور) اس وقت تمہارا معبود غائب ہوتا ہے۔ (ایسا معبود اختیار کرو، جو ہر وقت اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔)

24

سوئے حق گر راستانہ خم شوی

وا رہی از اختراں محرم شوی

ترجمہ: اگر تو صدقِ (دل) سے حق تعالٰی کی طرف جُھک جائے۔ تو ستاروں (کی عبادت) سے چھوٹ جائے (اور اسرارِ الٰہیّہ) کا محرم ہو جائے۔

25

چوں شوی محرم کشایم با تو لب

تا بہ بینی آفتابِ نیم شب

ترجمہ: جب تو محرم ہو جائے تو پھر میں تیرے سامنے (ان اسرار پر) لب کشائی کروں۔ تاکہ تو آدھی رات کے سورج (یعنی حق تعالٰی) کا مشاہدہ کرے (یعنی وہ ذات پاک ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر ہے۔)

26

جز روانِ پاک او را شرق نے

در طلوعش روز و شب را فرق نے

ترجمہ: سوائے پاک روح کے اسکا مشرق نہیں۔ اسکے طلوع میں دن اور رات کی تفاوت نہیں۔ (یعنی روحِ پاک اسکا مظہر ہے، اور اسکے طلوع میں سورج کے طلوع کی طرح، کبھی دن اور کبھی رات کی آمد و رفت نہیں، بلکہ وہ ہر وقت درخشاں ہے۔)

27

روز آں باشد کہ او شارق شود

شب نماند چونکہ او بارق شود

ترجمہ: (یہ آسمانی آفتاب کے طلوع کا دن کیا چیز ہے؟) دن (تو) وہ ہے جب وہ (آفتاب، افقِ قلب پر) طلوع کرے۔ (اور) جب وہ درخشاں ہو تو اسکی تجلّیات میں رات نہیں ٹھہرتی (یعنی رات کے وقت بھی سالک کے قلب پر اسکی تجلّی ہو، تو رات، رات نہیں رہتی۔)

28

چوں نماید ذره پیشِ آفتاب

خور چناں باشد دراں انوار و تاب

ترجمہ: (اس آفتابِ حقیقت کی تابش انوار کا یہ عالم ہے کہ) جس طرح ذرّه آفتاب کے سامنے (حقیر) دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح آفتاب اس انوار و درخشانی میں (ناچیز محسوس) ہوتا ہے۔

29

آفتابے را کہ رخشاں می شود

دیده پیشش کند و حیراں میشود

ترجمہ: وہ آفتاب (جو اس قدر روشن ہے) کہ جب وہ درخشاں ہوتا ہے۔ تو آنکھ اسکے آگے چُندھیا جاتی اور حیران ہو جاتی ہے۔

30

ہمچو ذرّه بینیش در نورِ عشق

پیشِ نورِ بے حدِ موفورِ عشق

ترجمہ: اسکو (بھی) تم (آفتابِ) عشق کے نور میں (یعنی اس) بے حد و کثیر نور کے آگے، ایک ذرہ کی طرح (ناچیز) پاؤ گے۔

31

بینیش مسکین و خوار و بے قرار

دیده را قوّت شده از کردگار

ترجمہ: تم اس (آفتابِ فلکی) کو (اس آفتابِ عشق کے سامنے) مسکین و خوار اور بے قرار دیکھو گے۔ (شاید تم پوچھو گے کہ اس قدر پُر نور آفتاب کو آنکھیں کیونکر دیکھ سکتی ہیں جب کہ وہ اس فلکی آفتابِ کو دیکھنے سے بھی عاجز ہیں؟ سو) آنکھوں کو خداوند تعالٰی سے یہ) قوّت (حاصل) ہو جاتی ہے۔

32

کیمیائے کہ ازو یک ماثرے

بر دُخاں افتاد و گشت آں اخترے

ترجمہ: (آفتابِ حقیقت) وہ (کیمیا ہے) کہ اسکا ایک (ہی) اثر، دھوئیں پر پڑا اور وہ ستارہ بن گیا۔

مطلب: شیخ اکبر قُدِّسَ سِرُّہٗ نے تحقیق کی ہے کہ ساتوں آسمان دھوئیں سے پیدا ہوئے ہیں، اور ستارے بھی دھوئیں سے بنے ہیں۔ چنانچہ یہ آیت اسکی تحقیق کی مؤید ہے: ﴿ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَـهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاۖ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَـآئِعِيْنَ۔ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمٰوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا (فصلت: 11-12) ”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا اور اس سے اور زمین سے کہا: چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی۔ دونوں نے کہا: ہم خوشی خوشی آتے ہیں۔ چنانچہ اس نے دو دن میں اپنے فیصلے کے تحت انکے سات آسمان بنا دئیے اور ہر آسمان میں اسکے مناسب حکم بھیج دیا اور ہم نے اس قریب والے آسمان کو چراغوں سے سجایا اور اسے خوب محفوظ کردیا۔“

33

نادِر اکسیرے کہ از وے نیم تاب

بر ظلامے زو بکردش آفتاب

ترجمہ: (آفتابِ حقیقت) وہ عجیب اکسیر ہے کہ اسکی آدھی چمک، تاریکی (نما دھوئیں) پر پڑی تو اسکو آفتاب بنا دیا۔ ( کیا تم اسی آفتاب کو خدا سمجھتے ہو جو دیگر کواکب کی طرح دھوئیں سے پیدا ہوا ہے؟)

34

بُوالعجب مینا گرے کز یَک عمل

بست چندیں خاصیت را بر زحل

ترجمہ:۔ (آفتابِ حقیت) وہ عجیب کیمیا گر ہے (جس نے) ایک ہی عمل سے (ستاره) زحل میں اس قدر خاصیتیں پیدا کر دیں۔

35

باقی اخترہائے گوہرہائے جاں

ہم بدیں مقیاس اے طالب بداں

ترجمہ: اے طالب! باقی ستاروں اور روح کے موتیوں (کے حال) کو اسی پر قیاس کر لو (کہ وہ اسی آفتابِ حقیقت کی قدرت و حکمت کے نمونے ہیں۔)

36

دیدهٔ حسّی زبونِ آفتاب

دیدهٔ ربّانی جو و بیاب

ترجمہ: حسِّ (باصرہ) کی آنکھ (کو کافی نہ سمجھو جو) آفتاب سے مغلوب (ہو جاتی) ہے۔ خدائی آنکھ کی تلاش کرو اور (اسے) حاصل کرو (وہ آفتابِ حقیقت کا مشاہدہ بھی کر سکتی ہے۔)

37

کاں نظر نوری و ایں ناری بود

نار پیشِ نور بس تاریک بود

ترجمہ: کیونکہ وہ نظر نورانی اور یہ (نظر) آتشی ہو جاتی ہے۔ آگ نور کے سامنے بالکل تاریک ہوتی ہے۔

39

تا زبوں گردد بہ پیشِ آں نظر

شعشعاتِ آفتابِ با شرر

ترجمہ: تاکہ اس نظر کے آگے اس چنگاریوں والے (آسمانی) آفتاب کی شعاعیں، مغلوب ہو جائیں۔ (آگے آفتابِ حقیقت کے نور سے منوّر ہونے والی آنکھ کے ثبوت میں، ایک بزرگ کا واقعہ سناتے ہیں:)