دفتر 4 حکایت 22: اس حدیث کی شرح کہ میری امت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی سی ہے، جس شخص نے اسکا آسرا لیا، اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا ڈوب گیا

دفتر چہارم: حکایت: 22

تفسیر ایں حدیث کہ مَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ سَفِیْنَةِ نُوْحٍ مَّنْ تَمَسَّکَ بِهَا نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ غَرَقَ(لم اجد)

اس حدیث کی شرح کہ میری امت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی سی ہے، جس شخص نے اسکا آسرا لیا، اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا ڈوب گیا

1

بہر ایں فرمودہ پیغمبر کہ من

ہمچو کشتی ام بطوفانِ زمن

ترجمہ: اسی لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلّم) نے فرمایا ہے کہ میں زمانے کے طوفان میں (مع صحابہ، حضرتِ نوح علیہ السّلام کی) کشتی کی مانند ہوں۔ (قوسین کی عبارتِ مقدرہ میں یہ اشارہ ہے کہ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی تشبیہ حضرت نوح علیہ السّلام سے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی امت کی تشبیہ کشتی سے مقصود ہے۔)

2

ما و اصحابیم چوں کشتیِ نوح

ہر کہ دست اندر زند یابد فتوح

ترجمہ: ہم اور صحابہ کشتیِ نوح کی مانند ہیں۔ جو شخص (ہمارا) سہارا پکڑے گا، وہ نجات پائے گا۔

انتباہ: اس بیت سے معلوم ہوا کہ حدیث میں امّت سے صحابہ مراد ہیں، اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ اگر ساری امت مراد ہو تو پھر متمسّک کون ہو گا؟ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ صحابہ کی محبت فرض ہے۔ جس شخص کو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت نہیں، وہ نجات نہیں پائے گا۔ (بحر)

3

چونکہ با شیخی تو دور از زشتیی

روز و شب سيّاری و در کشتیی

ترجمہ: جب تجھ کو شیخ (مرشد) کی معیّت حاصل ہے، تو خرابی سے دور ہے۔ رات دن (منزلِ سلوک کے طے کرنے کے لئے) چل رہا ہے، اور کشتی کے اندر ہے۔

مطلب: یا تو یہاں سے شیخ کے اتّباع کی طرف انتقال ہے، یا شیخ کا ذکر اس لحاظ سے کیا ہے کہ شیخ خلیفۂ رسولُ صلی اللہ علیہ وسلّم ہونے کے اعتبار سے صحابہ میں شامل ہے، یا وہ واقعات میں رسولُ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زیارت سے بہرہ مند ہونے کی وجہ سے مثلِ صحابہ ہے۔

4

در پناہِ جان جاں بخشے توئی

کشتی اندر خفتۂ رہ میروی

ترجمہ: تو ایک روح بخشنے والی (پاک) روح کی پناہ میں ہے۔ کشتی میں سوتے راہ طے کر رہا ہے۔ (مرشد کی پناہِ ارشاد میں خطرات سے محفوظ، منزلِ سلوک طے کر رہا ہے۔)

5

مگسل از پیغمبر ایامِ خویش

تکیہ کم کن بر فن و بر گامِ خویش

ترجمہ: اپنے زمانے کے پیغمبر (یعنی مرشد) سے تعلق منقطع نہ کر۔ اپنی (ذاتی) تدبیر، اور قدم پر بھروسہ نہ کر۔

(چنانچہ کہا جاتا ہے: الشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَالنَّبِیِّ فِیْٓ اُمَّتِہٖ یعنی شیخ اپنی جماعت میں ایسا ہے جیسے نبی اپنی امّت میں)

6

گرچہ شیری چوں روی رہ بے دلیل

ہمچو روبہ در ضلالی و ذلیل

ترجمہ: اگرچہ تو (اپنے زعم میں) شیر ہے (مگر) جب تو رہنما کے بغیر راستہ طے کر رہا ہے۔ تو لومڑی کی طرح گمراہی میں ہے اور ذلیل ہے۔

7

ہیں مپر الّاکہ با پَرہائے شیخ

تا بہ بینی عونِ لشکرہائے شیخ

ترجمہ: خبردار (خود بخود) مت اڑ مگر شیخ کے پروں کے ساتھ (اڑ) تاکہ تو شیخ کی برکات سے فوجوں کی مدد دیکھ لے۔

8

یک زمانے موجِ لطفش بال تست

آتشِ قهرش دمے حمالِ تست

ترجمہ: کبھی اسکی مہربانی کی موج تیرا بازو ہے۔ کبھی اس کے قہر کی آگ تجھے (بلندی پر) اٹھا لے جانے والی ہے۔

مطلب: کیونکہ مشائخ اپنے مریدوں کو کبھی صفتِ جمال کے ساتھ تربیّت دیتے ہیں، اور کبھی صفتِ جلال کے ساتھ۔ پہلی قسم کی تربیّت سے تازگی و نعومت پیدا ہوتی ہے، اور دوسری قسم سے تواضع و مسکنت (منہج) اس سے ظاہر ہے کہ پیر کا قہر مضر نہیں بلکہ مفید ہے۔ اس لئے فرماتے ہیں:

9

قہرِ او را ضدِّ لطفش کم شمر

اتّحادِ ہر دو بیں اندر ثمر

ترجمہ: اسکے قہر کو اسکی مہربانی کی ضد نہ سمجھو۔ نتیجہ میں دونوں کا اتحاد دیکھ لو (یعنی قہر سے بھی مرید کی اصلاح و تربیّت ہی مقصود ہے۔)

10

یک زماں چوں خاک سبزت میکند

یک زماں پر باد و گبرت میکند

ترجمہ: ایک وقت وہ تمہیں (قہر سے) خاک کی طرح (متواضع اور فضائلِ اخلاق سے) سبز کر دیتا ہے۔ ایک وقت وہ (مہربانی سے) تم کو ذی شان اور عالی قدر بنا دیتا ہے۔

11

جسمِ عارف را دہد وصفِ جماد

تا برو روید گل و نسرینِ شاد

ترجمہ: (شیخ اپنے مرید) عارف کے جسم کو زمین کی صفت عطا فرما دیتا ہے۔ حتّٰی کہ اس پر (کمالات کے) شاداب گلاب اور سیوتی کے پھول اُگ پڑتے ہیں۔

12

لیک او بیند نہ بیند غيرِ او

جز بمغزِ پاک ندہد خُلد بُو

ترجمہ: لیکن (مرید کی اس روحانی شادابی کو) وہ (شیخ ہی) دیکھتا ہے۔ اسکے سوا (اور کوئی) نہیں دیکھتا۔ چنانچہ بہشت پاک مغز کے سوا کسی کو خوشبو نہیں دیتا۔

13

مغز را خالی کن از انکارِ یار

تاکہ ریحاں یابد از گلزارِ یار

ترجمہ: (اپنے) مغز کو (اس عالی قدر) دوست کے انکار سے خالی کرو۔ تاکہ وہ (اس) دوست کے گلزار (کمالات) کی خوشبو محسوس کرے۔ (شیخ کا انکار اور عدم اعتقاد مانعِ فیض ہو جاتا ہے۔)

14

تا بیابی بوئے خُلد از یار من

چوں محمدؐ بوئے رحمٰن از یمن

ترجمہ: تاکہ تم میرے دوست کے ذریعے بہشت کی خوشبو پاؤ۔ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے یمن سے رحمٰن کی خوشبو (پائی۔)

مطلب: یہ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے قصّے کی طرف اشارہ ہے، جو رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانے میں یمن میں رہتے تھے، بڑے درجے کے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم تھے، مگر خاص مجبوریوں سے حاضر نہ ہو سکے۔ تاہم انکی کیفیّتِ عشق کو رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم صدہا میل کی مسافت سے محسوس فرما رہے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ الرَّحْمٰنَ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ (لم اجد) یعنی میں یمن کی طرف سے رحمٰن کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ یہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی خوشبو تھی۔ آگے فرماتے ہیں کہ شیخ کی معیّت حصولِ کمال کا بہترین ذریعہ ہے:

15

در صف معراجیاں گر بیستی

چوں بُراقت پر کشاید نیستی

ترجمہ: اگر تم (کمالاتِ باطن کے) معراج والوں کی صف میں کھڑے ہو جاؤ۔ (یعنی انکی صحبت اختیار کرو) تو فنا (فی اللہ کا درجہ) براق کی طرح تمہارے لئے پر کھول دے۔ (اور تم اسکی مدد سے مقام مقصود تک پہنچ جاؤ۔)

16

نے چوں معراجِ زمینی تا قمر

بلکہ چوں معراجِ کلکے تا شُکر

ترجمہ: وہ (معراج) ایک زمین والے کے آسمان تک چڑھ جانے کا سا نہیں۔ بلکہ ایک گنے کے شکّر (بننے) تک کی ترقّی سے مشابہ ہے۔ (پیر کی صحبت مرید کو گنّے سے مصری بنا دیتی ہے۔)

16

نے چو معراج بخارے تا سما

بل چو معراج جنینے تا نُہا

ترجمہ: (وہ معراج) ایک ابخرے کے آسمان تک چڑھنے سے مشابہ نہیں۔ بلکہ ایک پیٹ کے بچے کے (حصولِ) عقل (و شعور) تک ترقّی کرنے سے مشابہ ہے (پیر کی تربیّت سے بے کمال با کمال بن جاتا ہے۔)

18

خوش براقے گشت خنگِ نیستی

سوئے ہستی آردت گر نیستی

ترجمہ: فنا (فی اللہ) کا گھوڑا خوب براق ہے (جو تمہیں بقاء باللہ) کی طرف لاتا ہے۔ اگر تم فنا فی اللہ ہو چکے ہو۔ (یہ سیر عروجی کے بعد سیر نزولی ہے، جس میں سالک بقاء بعد الفناء کے ساتھ اپنی ہستی میں آ جاتا ہے۔)

19

کوہ و دریاہا سمش مس میکند

تا جہانِ حسّ را پس میکند

ترجمہ: (براق نیستی کی پرواز کا یہ عالم ہے کہ) پہاڑ اور دریا، اسکے سُموں سے چھوتے ہیں۔ حتّٰی کہ وہ (ان سب کو طے کرتا ہوا) حسّی دنیا کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ (جو سالک فنا فی اللہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے، وہ دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ آگے پھر اسی مضمون کی طرف رجوع فرماتے ہیں۔ چونکہ با شیخی تو دور از زشتی)

20

پا بکش در کشتی و مے رو رواں

چوں سوئے معشوق جاں جانِ رواں

ترجمہ: کشتی میں چڑھ جاؤ اور چلے چلو، جیسے جان محبوب کی طرف (جاتی ہے) جو جان کی جان ہے۔

21

دست نے و پائے نے رو تا قدم

آنچنانکہ تاخت جانہا از عدم

ترجمہ: ہاتھ اور پاؤں کے بغیر مرتبۂ قدامت کی طرف چلے جاؤ۔ جسطرح ارواح عدم سے (وجود کی طرف) چلی آئیں۔ (ارشاد مرشد کی کشتی میں ہاتھ پاؤں ہلائے بدوں عالمِ معنٰی کی طرف چلو۔)

انتباہ: آگے مولانا اپنی مندرجہ بالا تقریر کی اہمیّت پر توجّہ دلاتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ وہ کس قدر گرانقدر و بے بہا اِسرار پر مشتمل تھی۔

22

بر دریدے در سخن پردهٔ قیاس

گر نبودے سمعِ سامع را نُعاس

ترجمہ: (اے دل) تو نے (اس) تقریر میں (صاف گوئی سے) قیاس کے پردہ کو چاک کر دیا۔ اگر سننے والے کی قوّتِ شُنوائی پر اونگھ (غالب) نہیں (تو اب کوئی بات مخفی نہیں رہی۔)

مطلب: قیاس سے کسی بات کے دریافت کرنے کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں وہ بات مخفی ہو، لیکن جب وہ بات آنکھوں کے سامنے ہی آ جائے تو گویا قیاس بیکار ہو گیا اور اسکا پردہ چاک کر دیا گیا۔

23

اے فلک بر گفتِ او گوہر ببار

از جہانِ او جہانا شرم دار

ترجمہ: اے آسمان تو اس (کہنے والے) کی بات پر موتی برسا۔ (کیونکہ وہ نہایت قابل قدر ہے) اے عالم (دنیا) تو اس (بات) کے عالم (معنٰی کی کیا ریس کر سکتا ہے؟ اس) سے شرم کر۔

مطلب: معرفت کی باتیں قابلِ قبول و تحسین ہیں، اور ان سے معارضہ کرنا شیوۂ جاہلین ہے۔

24

گر بباری گوہرت شش تا شود

جامدت گوئنده و بینا شود

ترجمہ: اے (آسمان) اگر تو (اس پر اپنے موتی) برسا دے تو تیرے موتی چھ گنا ہو جائیں۔ تیری بے جان مخلوق اہلِ نطق اور صاحبِ بصیرت ہو جائے۔

25

پس نثارے کرده باشی بہرِ خود

چونکہ ہر سرمایۂ تو صد شود

ترجمہ : تو تیرا یہ ایثار خود اپنے لئے ہوگا۔ جبکہ تیرا ہر سرمایہ سو گنا ہو جائے گا۔

مطلب: اس سے ظاہر ہے کہ اہلُ اللہ کے ساتھ حُسنِ اعتقاد رکھنے سے اعمال کا اجر سو گنا ملتا ہے۔ پس ”نثارے کردہ باشی بہرِ خودکا مطلب یہ ہے کہ یہ ایثار خود تمہارے اپنے کام آئے گا، اہل اللہ اسکے محتاج نہیں۔ اس مناسبت سے مولانا ملکہ بلقیس کے ہدیہ کا قصّہ ارشاد فرماتے ہیں جو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے قبول نہیں فرمایا اور واپس کر دیا: