دفتر 4 حکایت 21: اس بات کے بیان میں کہ حکماء (اشراقیین) کہتے ہیں کہ آدمی عالمِ صغیر ہے، اور حکمائے الٰہی (یعنی صوفیہ) کہتے ہیں کہ آدمی عالمِ کبیر ہے، کیونکہ اُن حکماء کا علم آدمی کی ظاہری حیثیت پر موقوف تھا، اور اِنکا علم (اسکے) باطن پر 

دفتر چہارم: حکایت: 21

در بیان آنکہ حکماء گویند آدمی عالمِ صغیر است، و حکمائے الٰہی گویند آدمی عالمِ کبیر است، زیرا کہ علمِ آں حکماء بر صورتِ آدمی متصوّر بود، و علمِ اینہا بر باطن

اس بات کے بیان میں کہ حکماء (اشراقیین) کہتے ہیں کہ آدمی عالمِ صغیر ہے، اور حکمائے الٰہی (یعنی صوفیہ) کہتے ہیں کہ آدمی عالمِ کبیر ہے، کیونکہ اُن حکماء کا علم آدمی کی ظاہری حیثیت پر موقوف تھا، اور اِنکا علم (اسکے) باطن پر

مطلب: حکمائے یونان دو قسم کے ہیں۔ ایک اشرقیین جن کو اشراق یعنی قلبی نورانیّت کا دعویٰ ہے، اور وہ بعض حقائق صرف تنویرِ قلب سے معلوم کرتے تھے۔ مثلا حکیم افلاطون وغیره۔ دوسرے مشائیین جو مطالب نظریہ کو دلائلِ فلسفہ سے دریافت کرتے تھے، جنکا سر کردہ ارسطو مانا گیا ہے، اور حکمائے اسلام میں شیخ بو علی سینا کو رئیس المشائیین کہتے ہیں۔ پس انسان کو عالمِ صغیر کہنے والے حکمائے اشراقیین ہیں نہ کہ حکمائے مشائیین، کیونکہ وہ تو انسان کے عالم ہونے کے ہی منکر ہیں۔ چنانچہ بو علی سینا انکو من گھڑت بتاتا، اور کہتا ہے کہ بے دلیل بات قابلِ قبول نہیں۔ مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ حکمائے اشراقیین کی نظر انسان کے ظاہر پر پڑی، اور اسی پر انکا علم موقوف رہا۔ انہوں نے اپنے اشراق کے زور سے انسان میں ہر نوع کے خواص مشاہدہ کئے۔ اس لئے حکم کیا کہ وہ عالمِ صغیر ہے۔ (یعنی تمام کائناتِ عالم کے نمونوں کا ایک چھوٹا سا مجموعہ ہے، اور عارف لوگوں کا مسلک اور ہے، جنکو عنوان میں حکمائے الٰہی لکھا ہے، اور جن سے اکابر صوفیہ مراد ہیں۔ جب انکا علم انسان کی حقیقت تک پہنچا، تو انہوں نے اسکو عالمِ کبیر قرار دیا۔ نیز انہوں نے معلوم کیا کہ عالم پر افاضہ حقیقتِ انسانیہ سے ہے۔ پس اس لحاظ سے انکی تحقیق میں انسان عالمِ کبیر ٹھہرا۔(انتہٰی) اس تقریر کو ذہن نشین رکھو تو نیچے کے اشعار کا حل آسان ہو جائے گا۔

1

پس بصورت عالمِ اصغر توئی

پس بمعنٰی عالمِ اکبر توئی

ترجمہ: پس تو (حکمائے اشراقیین کے قول پر) از روئے صورت، عالمِ صغیر ہے۔ پھر (صوفیہ کی تحقیق کے مطابق) بلحاظ باطن، تو عالمِ کبیر ہے۔

2

ظاہرًا آں شاخ اصل میوه است

باطنًا بہرِ ثمر شد شاخ ہست

ترجمہ: (اشراقیین کے اصول پر) ظاہراً وہ شاخ (جس پر میوه لگا ہے) میوہ کی اصل ہے۔ (اور صوفیہ کی تحقیق کے بموجب) شاخ در حقیقت میوہ کے لئے (ہی) وجود میں آئی۔ (اس لئے میوہ اصل ہے۔)

مطلب: اس میں عالمکو شاخ اور انسانکو میوہ سے تشبیہ دی گئی ہے، جس طرح میوہ شاخ سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان عالم سے پیدا ہوا ہے، اور جسطرح شاخ کا وجود (میوہ کی غرض سے ہے، اسی طرح عالم کا وجود انسان کے لئے ہے۔ اسی لئے وہ اشرفُ المخلوقات کہلاتا ہے۔ حکماء نے عالم کو اصل ٹھہرایا کیونکہ انسان اس سے پیدا ہوتا ہے۔ صوفیہ انسان کو اصل ٹھہراتے ہیں۔ اس لحاظ سے کہ عالم اسکے لئے پیدا ہوا۔ فَافْہَمْ

خلاصہ یہ کہ انسان ایجادِ عالم سے مقصود ہے، کہ یہ حقیقتِ جامعہ ہے۔ پس وہ وجودِ عالم کا سبب ہے، اور عالم اس سے متولّد ہوا ہے۔ اس لئے اگرچہ وہ از روئے صورت عالمِ صغیر ہے، لیکن چونکہ تولیدِ عالم اس سے ہوئی، اس لئے وہ عالمِ کبیر ہے۔)

3

گر نبودے میل و امیدِ ثمر

کے نشاندے باغباں بیخِ شجر

ترجمہ: اگر میوے کی خواہش اور امید نہ ہوتی۔ تو (شاخ تو شاخ رہی) باغبان درخت کی جڑ (ہی) کب جماتا۔ ( یہ ساری زحمت میوے ہی کے لئے ہی تو اٹھائی۔ پس میوہ اصل ہے۔)

4

پس بمعنٰی آں شجر از میوه زاد

گر بصورت از شجر بودش نہاد

ترجمہ: پس حقیقت میں وہ درخت میوہ سے پیدا ہوا۔ (کیونکہ وہ میوہ کی غرض سے لگایا گیا) اگرچہ بظاہر اس میوه کا وجود درخت سے (پیدا) ہوا۔

مطلب: ”آں شجر از میوہ زاد“ سے یہ مغالطہ نہ ہو جائے کہ یہاں اس درخت کا میوہ گٹھلی سے پیدا ہونا مراد ہے۔ اگرچہ درخت کا گٹھلی سے پیدا ہونا صحیح ہے، مگر یہاں یہ مقصود نہیں، بلکہ حرف ”از“ اجلیہ ہے۔ جیسے ظہوری کے اس شعر میں ؎

ز گل چینان باغش فصل ثمر داد

شگفتہ غنچہا از جنبش باد

یعنی برائے گل چیناں۔ پس یہاں درخت کا میوے کے لئے پیدا ہونا مقصود ہے۔ آگے اسکی تائید میں رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیدائش کا ذکر فرماتے ہیں۔ اس لئے کہ آپ کی ذاتِ اطہر باعثِ آفرینشِ دارین ہے:

5

مصطفٰے زیں گفتم کآدم و انبیاءؑ

خلفِ من باشند در زیرِ لواء

ترجمہ: اسی لئے رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے کہ (حضرت) آدم علیہ السّلام اور (باقی تمام) انبیاء علیہم السّلام میرے جھنڈے کے نیچے میرے پیچھے ہوں گے۔

مطلب: ترمذی شریف کی ایک طویل حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِيْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِيْ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ (الترمذی: 3148) یعنی ”قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈ نہیں ہے، میرے ہاتھ میں حمد (و شکر) کا پرچم ہوگا، اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم علیہ السّلام اور آدم علیہ السّلام کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں، سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جسکے لیے زمین پھٹے گی (اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔“

6

بہر ایں فرموده است آں ذو فنون

رمز نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ السَّابُِقوْن

ترجمہ: اسی لئے ان جامع کمالات (صلی اللہ علیہ وسلّم) نے یہ اشارہ فرمایا ہے، کہ ہم (پیدائش میں) پیچھے آنے والے ہیں، اور درجے میں (سب سے) مقدّم رہنے والے ہیں۔

مطلب: یہ صحیح حدیث کے الفاظ ہیں۔ بعض علمائے ظاہر اسکے معنٰی یوں کرتے ہیں: کہ میں اور میری امت، تمام پہلے انبیاء علیہ السّلام اور انکی امتوں پر، درجہ میں مقدّم ہیں۔“ مگر صوفیاء کے نزدیک یہ معنٰی ہیں کہ میری حقیقت تمام حقائق پر سابق ہے، اور ہر حقیقت میری حقیقت کے افاضہ سے ہے۔“ اور یہ ظاہر ہے کہ حقیقتِ محمدیّہ تمام حقائق سے سابق ہے۔ پس ”نَحْنُ“ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ اطہر ہے، اور صیغہ جمع تعظیم کے لئے آیا ہے۔ مولانا نے سبقت کے لئے یہ معنٰی لئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ مبارک غایت و مقصود ہے، اور علّتِ غائی بنظرِ حقیقت مقدّم ہوتی ہے۔ اگرچہ وجودِ خارجی میں مؤخر ہو۔ جیسے ابیاتِ سابقہ و تالیہ اس پر ناطق ہیں۔ (بحر)

7

گر بصورت من ز آدم زاده ام

من بمعنٰی جدِّ جد افتاده ام

ترجمہ: اگرچہ بظاہر میں آدم علیہ السلام سے پیدا ہوا ہوں۔ لیکن درحقیقت میں دادے کا دادا واقع ہوا ہوں۔ (اس بنا پر کہ حقیقتِ آدم علیہ السّلام کا ظہور حقیقتِ محمدیہ سے ہوا ہے۔)

8

کز برائے من بُدش سجدۂ ملک

وز پئے من رفت بر ہفتم فلک

ترجمہ: کیونکہ میرے لئے ہی انکو فرشتوں نے سجدہ کیا۔ اور میرے لئے وہ ساتویں آسمان پر گئے۔ (وہ مسجود اس لئے ہوئے کہ نورِ محمدی انکی صلب میں تھا۔ ساتویں آسمان پر معراج اس لئے کیا کہ نورِ محمدی سے فیض حاصل کرنا مطلوب تھا۔)

9

پس ز من زائيد در معنٰی پدر

پس ز میوه زاد در معنٰی شجر

ترجمہ: پس حقیقت میں باپ مجھ (بیٹے) سے پیدا ہوا۔ پس حقیقت میں درخت میوے سے پیدا ہوا۔ (اب انکی تقدیم و تاخیر کی تمام مثالوں کی اصولی وجہ بیان فرماتے ہیں:)

10

اوّل فکرِ آخر آمد در عمل

خاصۂ فکرے کاں بود وصفِ ازل

ترجمہ: تجویز میں پہلے آنے والی چیز وجود میں پیچھے آتی ہے۔ خصوصاً وہ تجویز جو ازل کی صفت ہو۔

مطلب: عادتِ الٰہیہ یوں جاری ہے کہ وجود میں آنے والی ہر چیز کا فکر اور تصوّر مقدّم ہوتا ہے، اور اسکا وجودِ خارجی مؤخّر۔ چنانچہ گھر کی تعمیر سکونت کے لئے، اور درخت کا لگانا میوے کے لئے ہوتا ہے۔ ان دونوں کی علّتِ غائیہ، سکونت اور ثمر کے وجود ہیں۔ جو گھر اور درخت کے وجود میں آنے سے پہلے ذہن میں پیدا ہو چکے ہیں، مگر انکے وجودِ خارجی گھر، اور درخت کے وجود سے مؤخّر ہیں، یعنی گھر بن جائے گا تو پھر سکونت ہو گی، اور درخت وجود میں آئے گا تو پھر اس میں میوہ لگے گا، خصوصاً فکر و تصور جو ازل سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم ارادۂ الٰہیہ کے بمنزلۂ علّتِ غائیہ ہیں۔ پس آپکے علوِّ شان کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ (منہج) اور پھر اسی ارشاد کی طرف عود فرماتے ہیں کہ ہیں مشو تو ز آسمانیعنی تم مقام مشاہدہ کی دوری معلوم کر کے نا امید نہ ہو۔ ضمنی مباحث کے بعد پھر اسی مضمون پر آ گئے ہیں:

11

حاصل اندر یک زماں از آسماں

مے رود مے آید ایدر کارواں

ترجمہ: الغرض اب ایک لمحہ میں آسمان سے قافلہ آتا جاتا ہے۔ (ايدریعنی اکنوں)

مطلب: اگر قافلہ سے مراد موالید ہوں جو عالَم کا نتیجہ ہے، اور ایک آن میں انکی آمد و رفت سے مراد انکا جسمانی و روحانی تجدّد امثال ہے تو معنٰی صاف ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آسمان سے مراد اللہ تعالٰی کا علم ہو جو تمام اشیاء پر محیط ہے اور قافلہ سے مراد افرادِ عالم ہوں۔ پس جسطرح ظاہری آسمان کے مواليد صورِ اجسام ہیں، جو ہر لمحہ اشعہ کواکب اور فطرتِ باران کی طرح آتے جاتے ہیں اور موجود و معدوم ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح آسمان علمی اور فلک معنوی ہر چیز کو وجود و حیات عطا کرتا ہے، اور اسکو بطریق تجدّد امثال لاتا لے جاتا ہے، کیونکہ افرادِ عالم کا وجود ہر وقت کبھی معدوم و فانی، اور کبھی موجود و زندہ ہوتا رہتا ہے، جسکا ادراک على الدّوام فیض الٰہی کی سرعت اور دوام سے ہوتا ہے۔ کمالات الٰہیہ اور کلمات ربّانیہ کا دور اللّٰه کی طرف سے اللہ ہی کی طرف جاری ہے اور اسکی دلیل: ﴿اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی(العلق: 8) اور ﴿اِلَيْهِ تُرْجَعُوْن(البقرۃ: 28) سے ملتی ہے، اور مرجع و معاد عین ہدایت ہے، جسکا دور دائمی ہے، اور وہ ایک قافلۂ الٰہیہ ہے جو آسمان سے زمین پر، اور غیب سے عین کی طرف آتا جاتا رہتا ہے۔ (منہج)

12

نیست بر ایں کارواں ایں رہ دراز

کے مفازه زفت آید با مفاز

ترجمہ: اس (آسمانی) قافلے کے لئے یہ راستہ طویل نہیں ہے۔ کامیابی (کی دھن) میں جنگل کا طے کرنا کب گراں (گزرتا) ہے۔ (سالک رہرو ہزاروں برس کا راستہ ایک لمحہ میں طے کر لیتا ہے۔)

13

دل بکعبہ می رود در ہر زماں

جسم طبعِ دل بگیرد ز امتناں

ترجمہ:(جس طرح) دل ہر لمحہ کعبہ کی طرف جاتا ہے۔ (اور اسکے ساتھ) جسم (بھی خداوند تعالٰی کی) مہربانی سے دل کی خاصیت حاصل کر لیتا ہے (اور طَیُّ الارض کی کرامت سے کعبہ کی طرف ایک لمحہ میں چلا جاتا ہے، اسی طرح کاروانِ فلک کی آمد و رفت بھی کیا بعید ہے؟)

14

ایں دراز و کوتہی مر جسم راست

چہ دراز و کوتہ آنجا کہ خدا ست

ترجمہ: (کیونکہ) یہ درازی اور کوتاہی تو جسم کے لئے (مخصوص) ہے۔ جہاں خدا ہے وہاں دراز کوتاہ کا کیا کام؟

مطلب: راستے کی لمبائی اور کوتاہی جسم کے لئے ہے، جو خود طول و عرض و عمق سے مخصوص ہے۔ روح نورِ مجرّد ہے جو ان اوصاف سے پاک ہے۔ پس یہ سیر و سفر اور بعد و قرب اور آمد و رفت جسم سے منسوب ہے، ورنہ انسانی روح تو اب تک اپنے مبدا سے منقطع نہیں ہوا، اور جب خداوند تعالٰی کی مہربانی ہوتی ہے تو جسم کو بھی روح کی سی لطافت حاصل ہو جاتی ہے۔ پس تم بھی طبیعتِ جسم کی تبدیلی کے لئے کوشش کرو۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنکبوت: 69) ”اور جن لوگوں نے ہمارے دین کے کام میں کوششیں کیں، ہم بھی انکو ضرور اپنے راستے دکھائیں گے۔“ اور بارگاہِ الٰہی میں راستے کی درازی و کوتاہی نہیں ہے، کیونکہ حق تعالٰی شانہٗ زمان و مکاں کی نسبت سے پاک ہے۔ (منہج)

15

چوں خدا مر جسم را تبدیل کرد

رفتنش بے فرسخ و بے میل کرد

ترجمہ: جب خداوند تعالٰی نے جسم کو تبدیل (کر کے موصوف باوصافِ روح) کیا۔ تو اسکی سیر کو کوس اور میل سے بے نیاز کر دیا۔ جیسے فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِيْ أَسْرَىٰ بِعَبْدِہٖ۔۔۔الخ(بنی اسرائیل: 1)

16

صد امید ست ایں زماں بردار گام

عاشقانہ اے فَتٰی خَلِّ الْکَلَامْ

ترجمہ: (غرض) اے جوان (منزل مقصود تک پہنچنے کی) بڑی امید ہے۔ اسی وقت عاشقوں کی طرح (ذوق و شوق کے ساتھ) چل پڑو، (اور) باتیں چھوڑ دو۔

17

گرچہ پیلہ چشم برہم میزنی

در سفینہ رفتہ رہ مے کنی

ترجمہ: (اس سیر و سفر میں) اگرچہ تو آنکھوں کی پلکیں بند کر لے۔ (کوئی اندیشہ نہیں، کیونکہ تو رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم یا مرشد کامل کی) کشتی میں سوار ہے (اور اس سے) راستہ (طے) کر رہا ہے۔