دفتر چہارم: حکایت: 20
قصۂ آغازِ خلافتِ عثمان رضی اللّٰہ عنہ و خطبۂ وے در بیان آنکہ ناصح فعّال بفعل بہ از ناصح بقول
حضرت عثمان رضی اللّٰه عنہ کی خلافت کے آغاز کا قصہ اور آپ کا خطبہ اس بیان میں کہ اپنے عمل کے ذریعہ نصیحت کرنے والا زبانی نصیحت کرنے والے سے اچھا ہے
(حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے الفاظ یہ تھے: ”وَأَنْتُمْ إِلٰى إِمَامٍ فَعَّالٍ أَحْوَجُ مِنْكُمْ إِلٰى إِمَامٍ قَوَّالٍ“ (بهجة المجالس وأنس المجالس) ”یعنی تم لوگ ایک کار گزار امام کے زیادہ محتاج ہو باتونی امام سے“)
1
قصّۂ عثمان کہ بر منبر برفت
چوں خلافت یافت بشتابید تفت
ترجمہ: (یہ) حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا قصہ (ہے) جو منبر پر چڑھے۔ جب خلافت پائی تو مستعدی کے ساتھ ساعی ہوئے۔
2
منبرِ مہترؐ کہ سہ پایہ بدست
رفت بوبکر و دوم پایہ نشست
ترجمہ: (حضور) سرورِ (عالم صلی اللہ علیہ وسلّم) کا منبر جو تین زینوں کا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (اپنے ایّامِ خلافت میں خطبہ پڑھنے کے لئے اس منبر کی طرف) گئے اور دوسرے زینے پر بیٹھ گئے۔
3
بر سوم پایہ عمرؓ در دورِ خویش
از برائے حرمتِ اسلام و کیش
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ (اپنے دورِ خلافت) میں اسلام اور مذہب کی عزت کے لئے، تیسرے زینے پر (بیٹھے۔)
4
دورِ عثمانؓ آمد و بالائے تخت
بر شد و بنشت آں مسعود بخت
ترجمہ: پھر حضرت عثمان رضی اللّٰه عنہ کا دور (خلافت) آیا، اور وہ خوش نصیب منبر کے اوپر چڑھے، اور (بالائی زینے پر) بیٹھ گئے۔
5
پس سوالش کرد مردے بُوالفضول
کاں دو ننشستند بر جاۓ رسولؐ
ترجمہ: تو ایک بے ہودہ گو آدمی نے آپ سے سوال کیا۔ کہ وہ دونوں (خلیفے) رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی جگہ پر نہیں بیٹھے۔
6
پس تو چوں جستی بر ایشاں سروری
چوں برتبت تو ازیشان کمتری
ترجمہ: پس تم نے ان پر بلندی کیوں اختیار کی؟ جبکہ تم ان سے کم رتبہ ہو۔
7
گفت اگر جایم سوم پایہ بدے
وہمِ مثلیِ عمرؓ تاں می شدے
ترجمہ: (آپ نے) فرمایا، اگر میرا مقام تیسرے زینے پر ہوتا۔ تو تم لوگوں کو (میری طرف سے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی برابری (کرنے) کا وہم ہو جاتا۔
8
ور دوم پایہ شدم من جائے جو
گفتنی مثلِ ابوبکر ست او
ترجمہ: اور اگر میں دوسرے زینے پر جگہ لیتا۔ تو وہ (معترض) حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کی برابری کا اعتراض کرنے والا تھا۔
9
ہست ایں بالا مقامِ مصطفٰے
وہمِ مثلی نیست با آں شہ مرا
ترجمہ: یہ اوپر (کا زینہ) مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم کا مقام ہے۔ (جس پر بیٹھنے سے مجھ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا کیوں) ان شاہ (دو جہاں) کے ساتھ میری برابری کا وہم (ممکن ہی) نہیں۔
10
بعد ازاں بر جائے خطبہ آں ودود
تا بقربِ عصر لب خاموش بود
ترجمہ: اسکے بعد وہ مہربان (خلیفہ) خطبے کی جگہ پر۔ عصر کے وقت تک خاموش (کھڑے) رہے۔
11
زہرہ نے کس را کہ گوید ہیں بخواں
یا بروں آید ز مسجد آں زماں
ترجمہ: کسی کو یہ حوصلہ نہیں کہ کہے اجی پڑھو۔ یا (اس ترکِ خطبے سے بیزار ہو کر خود) اس وقت مسجد سے باہر آ جائے۔
12
ہیبتے بنشستہ بُد بر خاص و عام
پُر شده از نورِ یزداں صحن و بام
ترجمہ: خاص و عام پر ایک رعب چھا رہا تھا۔ خدا کے نور سے صحن اور بالاخانہ پُر تھا۔
13
ہرکہ بینا ناظرِ آں نور بود
کور را زاں تاب ہم گرمی فزود
ترجمہ: جو شخص آنکھوں والا تھا، وہ اس نور کو دیکھتا تھا۔ اندھے کو بھی اس چمک سے گرمی محسوس ہوتی تھی۔
14
تا ز گرمی فہم کر دے آں ضریر
کہ بر آمد آفتابے بس منیر
ترجمہ: حتٰی کہ وہ اندھا گرمی سے سمجھ جاتا تھا۔ کہ نہایت روشن سورج طلوع ہو گیا ہے۔
15
لیک ایں گرمی کشاید دیده را
تا بہ بیند عین ہر بشنیدہ را
ترجمہ: لیکن یہ گرمی آنکھوں کو کھول دیتی ہے۔ تاکہ (بندہ) ہر سنی ہوئی بات کو (آنکھوں سے) دیکھ لے۔
مطلب: یہ گرمی نورِ یزادں کی تھی، جو اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ظاہر تھی اور وہ اسکے مظہر تھے۔ اس نور اور اسکی گرمی کی تاثیر یہ ہے کہ بے بصر آدمی کی بصیرت بھی اس سے روشن ہو جاتی ہے۔ پھر وہ مسموعات کو بعینِ مشاہدہ محسوس کرنے لگتا ہے، کیونکہ شمسِ حقیقت کے ادراک سے کوئی چیز باہر نہیں، اور وہ ہر وقت تاباں و درخشاں ہے۔
16
گرمیش را ضجرتے و حالتے
زاں تپش دل را کشادے فسحتے
ترجمہ: (اگرچہ) اس گرمی میں (حدّت کی وجہ سے) بے آرامی اور مستی ہے۔ مگر اس تپش میں (بھی) دل کو کشائش اور تفریح (محسوس ہوتی) ہے۔
17
کور چوں شد گرم از نورِ قدم
از فرح گوید کہ من بینا شدم
ترجمہ: اندھا جب (اس) نورِ قدیم سے گرم ہو جاتا ہے۔ تو یہ خوشی سے بول اٹھتا ہے کہ میں بینا ہو گیا۔
18
سخت خوش مستی ولے اے بُوالحسن
پاره راہ است تا بینا شدن
ترجمہ: اے (حافظ) ابوالحسن! تم (بھی) بڑے خوش مست ہو (کہ کسی قدر حرارتِ انوار پا کر لگے بغلیں بجانے) لیکن (ذرا اور صبر کے ساتھ کوشش کرو تاکہ پورے بینا ہو جاؤ کہ) بینا ہونے تک تھوڑا ہی سا راستہ باقی ہے۔ (یہ ان بے بصیرت لوگوں کو تنبیہ ہے، جو اپنے تھوڑے سے علم اور طاقت پر مغرور ہو جاتے ہیں۔ آگے ترقی نہیں کرتے۔)
19
ایں نصیبِ کور باشد ز آفتاب
صد چنیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ
ترجمہ: یہ (تھوڑی سی حرارت اور تاثيرِ) آفتاب (حقیقت) سے بے بصر رہنے والے کا حصہ ہے۔ (ابھی) اس سے سو گنا (حصہ مل جانا بھی ممکن ہے) اور اللّٰہ بہتر جانتا ہے۔
20
وانکہ او ایں نور را بینا بود
شرحِ او کے کارِ بوسینا بود
ترجمہ: اور جو شخص اس نور کو (آنکھوں سے) دیکھتا ہے۔ (اور نابیناؤں کی طرح صرف حرارت پر قانع نہیں) اس (کی حالت) کو بیان کرنا (شیخ) بُو (علی ابن) سینا کا کام کہاں ہے؟ (جو علوم ظاہر سے ایک قدم آگے نہیں بڑھا، اور یہ معاملہ باطنی ہے۔)
21
گر شود صد تو کہ باشد ایں زباں
کہ بجنباند بکف پردہ عیاں
ترجمہ: (ابنِ سینا جیسے حکمائے فلسفہ کی) یہ زبان اگر سو گنا بھی ہو جائے۔ تو اسکی قدرت ہی کیا ہے کہ (دلائل کے زور سے اس) پرده (مشاہدہ و) عیاں کو ہلا دے (اور اپنی یا دوسروں کی آنکھوں سے اسکو دور کر دے، یعنی اہل منطق و فلسفہ مشاہدہ و عیان کی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ درجہ اہل مجاہدہ و ریاضت کا ہے۔)
22
واے بر وے کو بساید پرده را
تیغِ الٰہی کند دستش جدا
ترجمہ: افسوس ہے اس شخص پر جو (دلائل فلسفہ سے اس پردہ کو ہٹانے کی کوشش کرے) (غیرتِ خدائی کی) تلوار، اسکے ہاتھ کو کاٹ ڈالے گی۔
23
دست چہ بود خود سرش را بر کند
آں سرے کز جہل شرہا مے کند
ترجمہ: (اجی) ہاتھ کیا ہوتا ہے اسکا سر ہی کاٹ ڈالے گی۔ وہ سر جو (اپنی) جہالت سے شرارتیں ظاہر کرتا ہے۔
مطلب: دلائل فلسفیہ اور افکارِ فکریہ سے پردہ حقیقت اٹھانے والا معتوب و معذّب ہو جاتا ہے، نفحات الانس میں مذکور ہے کہ شیخ مجدد الدّین فرماتے ہیں کہ میں نے مراقبہ میں رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زیارت کی، عرض کیا! ابن سینا کے بارے میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا: ”رَجُلٌ اَرَادَ اَنْ يَصِلَ اِلٰى اللّٰهِ بِلَا وَاسِطَتِىْ فَحَجَبْتُ بِیَدَیَّ هٰكَذَا فَسَقَطَ فِی النَّارِ“ یعنی ”یہ وہ شخص ہے جس نے میرے واسطے کے بغیر اللّٰہ سے واصل ہونا چاہا، تو میں نے اسکو یوں اپنے دونوں ہاتھوں سے روکا، تو وہ دوزخ میں جا گرا۔“ شاید بے واسطہ واصل ہونے کی کوشش سے یہ مراد ہو کہ وہ اتباعِ شرح محمدی کے بغیر، خود اپنے افکارِ فکریہ سے پہنچنا چاہتا تھا۔ (بحر)
کَمَا قِیْلَ؎
گر تو حکمت آموزی بدیوانِ محمدؐ رو
کہ بوجہل آں بود کہ خود بدانش بوالحکم گردد
24
ایں بتقديرِ سخن گفتم ترا
ورنہ خود دستش کجا و ایں کجا
ترجمہ: میں نے فرضی بات کی طرح تم سے کہہ دیا۔ ورنہ اسکا ہاتھ کہاں، اور وه (پردہ) کہاں (اتنی تاب رکھتا ہے کہ پردۂ حقیقت کا قصد کرے۔)
25
خالہ را خایہ بُدے خالو بُدے
ایں بتقدیر آمد ست ار او بُدے
ترجمہ: (فرضی بات کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ اگر) خالہ کے خُصیہ ہوتا تو وہ خالو بن جاتی۔ یہ (محض) فرضاً (بولنے میں) آتا ہے۔ (کہ) اگر یوں ہوتا (ورنہ حقیقت میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح دلائلِ فکریہ سے کشفِ حجاب ممکن نہیں۔ یہ صرف فرضاً کہا گیا۔)
26
از زباں تا چشم کو پاک از شک ست
صد ہزاراں سال گویم اندک ست
ترجمہ: (کشفِ حجاب کا مقام تو اس قدر دور ہے) کہ زبان (کے غائبانہ ذکر) سے آنکھ (کے مشاہدانہ نظاره) تک جو شک سے بالکل پاک ہے۔ اگر میں لاکھوں برس (کی مسافت) کہوں تو (یہ بھی) تھوڑی ہے۔ (پھر دلائلِ فکریہ والوں کو ادھر ہاتھ بڑھانے کی کیا تاب ہے؟)
27
ہیں مشو نوميد نورِ آسماں
حق چو خواہد میرسد در یک زمان
ترجمہ: (مگر ہاں مقامِ مشاہدہ کی اس قدر دوری دیکھ کر) تم نا امید (بھی) نہ ہو جانا، کیونکہ جب خداوند تعالٰی چاہتا ہے تو (توفيقِ الٰہی کا) آسمانی نور۔ ایک لمحہ میں آ پہنچتا ہے (اور وہ چراغ مشاہدہ بن جاتا ہے۔ آگے چند مثالوں میں بتاتے ہیں کہ بعض اجرامِ فلکی بہت بڑی مسافت سے زمین پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پھر توفیقِ الٰہی کے نورِ فلکی کو آتے کیا دیر لگتی ہے؟)
28
اخترِ گردوں ظلم را ناسخ ست
اخترِ حق در صفاتش راسخ ست
ترجمہ: آسمان کے ستارے (سورج، چاند وغیرہ ہزاروں میل کی مسافت سے، زمین کی) تاریکیوں کو زائل کر دیتے ہیں۔ (توفیقِ) حق کا ستاره ( تو) اپنی صفات (فیض بخشی، و نور افشانی) میں (اور بھی) مستحکم ہے۔
29
صد اثر در کانہا از اختراں
می رساند قدرتش در ہر زماں
ترجمہ: اس (قادرِ مطلق) کی قدرت (جواہرات کی) کانوں میں، ستاروں کے سینکڑوں اثر، ہر وقت پہنچاتی ہے (جن سے جواہرات پیدا ہوتے ہیں۔)
30
چرخ پانصد سالہ راہ اے مستعین
در اثر نزدیک آمد با زمین
ترجمہ: اے طالب مدد! آسمان پانسو برس کی مسافت پر۔ (اپنی) تاثیر کے لحاظ سے زمین کے قریب ہے۔
31
سہ ہزاراں سال و پانصد تا زحل
دم بدم خاصیتش آرد عمل
ترجمہ: (ستاره) زحل تک ساڑھے تین ہزار سال کی مسافت ہے۔ پھر بھی اسکی خاصیت دم بدم اثر کر رہی ہے۔
32
درہمش آرد چو سایہ در ایاب
طَول سایہ چیست پیشِ آفتاب
ترجمہ: (مگر حق تعالٰی کی بھی یہ طاقت ہے کہ) وہ (ستارہ زحل کی) اس آتی ہوئی (تاثير) کو (دم بھر میں) سایہ کی طرح درہم درہم کر دیتا ہے۔ (بھلا) سایہ کی تاب ہی کیا ہے (جو) آفتاب کے سامنے (ٹھہرے، تو کیا قدرتِ حق کو اس مسافت سے نورِ مشاہدہ عطا فرمانا کچھ مشکل ہے؟)
33
وز نفوسِ پاک اختروش مدد
سوئے اختر ہائے گردوں میرسد
ترجمہ: اور ستاروں کی طرح پاک ارواح سے آسمان کے ستاروں کی طرف سے مدد پہنچتی ہے۔
مطلب: جس طرح ستاروں کی تاثیرات اہلِ زمین پر پہنچتی ہیں۔ اسی طرح خود ستارے بھی اہل اللہ کی تاثیرات سے متاثر ہیں، یا نفوسِ پاک سے ملائکہ مراد ہوں جو بحکم حق ستاروں کی نقل و حرکت میں متصرّف ہیں، مگر پہلا احتمال مناسب مقام اور اگلے شعر سے مربوط ہے۔ پس ستارے جو اس قدر مسافت بعیدہ سے اثر انداز ہیں، نہ صرف قدرتِ حق کے آگے بے بس ہیں، بلکہ حق تعالٰی کی دوسری مخلوق کے سامنے بھی مغلوب ہیں۔ جب ان بے بس اور مغلوب اجرام میں، زمین پر اجالا پھیلانے کی طاقت ہے، تو توفیقِ حق کے لئے زمین پر نورِ آسمان برسا دینا کیا بڑی بات ہے؟ آگے پھر حضرات اہل اللّٰہ کا درجہ بمقابلہ کواکب بیان فرماتے ہیں:
34
ظاہرِ آں اختراں قوّامِ ما
باطنِ ما گشتہ قوّامِ سما
ترجمہ: ان ستاروں کا (اثرِ) ظاہر، ہمارے وجودِ عنصری کا باعث ہے۔ اور ہمارا (تصرّف) باطن آسمان کے لئے موجبِ بقا ہے۔
انتباہ: تاثیراتِ کواکب کا مسئلہ، مفتاح العلوم کی جلد اوّل میں، شرعی نقطہ نظر سے شرح و بسط حوالہ قلم ہو چکا ہے۔ اگلی فصل حضرات اہل اللّٰه کے علّوِ مرتبہ کی تائید میں ہے: