دفتر 4 حکایت 19: مسجدِ اقصٰی کا باقی ماندہ قصّہ اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کا اسکو تعمیر کرنا، اور انکو غیب سے امداد ملنا

دفتر چہارم: حکایت: 19

بقيہ قصّہ بنائے مسجد اقصٰی و بنا کردنِ سلیمانؑ آں را، و امداد رسیدنِ او را از غیب

مسجدِ اقصٰی کا باقی ماندہ قصّہ اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کا اسکو تعمیر کرنا، اور انکو غیب سے امداد ملنا

1

چوں سلیمانؑ کرد آغازِ بنا

پاک چوں کعبہ ہمایوں چوں منیٰ

ترجمہ: جب حضرت سلیمان علیہ السّلام نے (مسجد کی) تعمیر شروع کی۔ جو کعبہ شریف کی طرح پاک (اور مکہ مکرمہ کے مقام) منٰی کی طرح مبارک تھی۔

2

در بنایش دیده می شد کرّ و فر

نے فسرده چوں بناہائے دگر

ترجمہ: اسکی تعمیر میں ایک شان و شوکت نظر آتی تھی۔ وہ دوسری تعمیروں کی طرح افسردہ نہ تھی۔

3

در بنا ہر سنگ کز کُہ مے شکست

فاش سِیْرُوْا بِیْ ہمی گفت از نخست

ترجمہ: تعمیر (کے کام) میں جو پتھر پہاڑ سے اکھڑتا تھا۔ وہ پہلے ہی اعلانیہ پکارتا تھا کہ مجھے لے چلو۔

4

ہمچو از آب و گلِ آدم کده

نور ازاں کُہ پارہا تاباں شده

ترجمہ: مجسمۂ آدم کے آب و گل کی طرح۔ ان پہاڑ کے ٹکڑوں سے نور چمک اٹھا۔

5

سنگ بے حمال آئنده شده

واں در و دیوارہا زنده شده

ترجمہ: پتھر (کسی) اٹھانے والے (کی مدد) کے بغیر۔ (خود) آنے لگے، اور در و دیوار زندہ ہو گئے۔

مطلب: جب پتھر خود بخود چلے آتے ہیں تو ان میں زندگی کا ہونا ظاہر ہے۔ پھر جو دیواریں ان پتھروں سے بنی ہوں وہ کیوں نہ زندہ ہوں۔ اوپر پتھروں کا یہ قول نقل کیا تھا کہ ”سِیْرُوْا بِیْ“ یعنی مجھے لے چلو۔ وہ قول اس شعر کے لفظ بے حمّالکے منافی نہیں ہے، کیونکہ اس قول کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں خود نہیں چل سکتا۔ اس لئے مجھے حمّال کی ضرورت ہے بلکہ وہ ایک طرح اظہارِ شوق ہے، جسکے بعد وه پتھر خود چل پڑے۔ واضح ہو کہ پتھروں کے متعلق مولانا کا یہ بیان کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں هے، جمادات میں حیات کا ہونا محققین کے نزدیک مسلّم ہے۔ خود مولانا مثنوی میں کئی جگہ بڑے زور کے ساتھ اسکا اثبات کر چکے ہیں، اور جمادات کی حرکت بھی بتصرّفِ ملائکہ کوئی مستبعد نہیں۔ حضرت مولانا شاہ ولی اللّٰہ فرماتے ہیں: جیسے کوئی پتھر لڑھکایا جائے تو اس وقت اس میں ایک معزز فرشتہ اثر انداز ہوتا ہے، اور وہ زمین پر اس سُرعت سے چلتا ہے جو عادتًا نا قابل تصور ہے۔ (حجۃ البالغہ) آگے مولانا مسجدِ اقصٰی کی زنده و جاندار دیواروں کی تمثیل میں بہشت کا حال بیان فرماتے ہیں:

6

حق ہمی گوید کہ دیوارِ بہشت

نیست چوں دیوارہا بیجان و زشت

ترجمہ: (جیسے کہ) حق تعالٰی فرماتا ہے کہ بہشت کی دیواریں (دنیاوی مکانوں کی) دیواروں کی طرح بے جان و بدنما نہیں ہیں۔ (اشاره بآیت: ﴿وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ﴾ (العنکبوت: 64) ”بے شک آخرت کا گھر زندہ ہے۔“)

7

چوں در و دیوارِ تن با آگہی ست

زنده باشد خانہ چوں شاہنشہی ست

ترجمہ: (اور بہشت کی دیواریں زندہ کیوں نہ ہوں؟) جب (انسانی) بدن کے در و دیوار تک شعور رکھتے ہیں۔ تو (وہ) خانہ (عقبٰی بھی) زندہ ہونا چاہیے، جب کہ وہ شہنشاہ (حقیقی) کا ہے۔

8

ہم بہشت و میوہ ہم آبِ زلال

بںہشتی در حدیث و در مقال

ترجمہ: (چنانچہ) بہشت بھی اور (بہشت کے) میوے اور خاص پانی بھی، بہشتی کے ساتھ گفتگو اور بات چیت میں (مشغول ہوں گے۔)

9

زانکہ جنت را نہ ز آلت بستہ اند

بلکہ از اعمال و نیّت بستہ اند

ترجمہ: اس لئے کہ بہشت کو آلات (واسباب) سے مرتب نہیں کیا گیا۔ بلکہ (اسکو) اعمال (حسنہ) اور نیّت (صالحہ) سے قائم کیا گیا ہے۔

مطلب: اس شعر کا مضمون مولانا کے اس شعر کے مطابق ہے جو آپ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ:

از دہانت چوں بر آید حمدِ حق

مرغِ جنت سازدش رَبُّ الْفَلَقْ

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے طاعت ظہور میں آتی ہے۔ اسکے بعد جنّت کے محل بنائے جاتے ہیں۔ اسی کے مطابق شیخ اکبر نے فتوحات میں فرمایا ہے کہ جنت کا احاطہ پہلے سے بَن چکا ہے، لیکن اسکی تعمیرات ہر شخص کے اعمال سے، اور اسکے درخت، بندوں کی طاعات سے یوماً فیوماً پیدا ہوتے ہیں۔ (بحر)

10

ایں بنا ز آب و گل مردہ بُدست

واں بنا از طاعت زنده شُدست

ترجمہ: یہ (دنیاوی) تعمیر بے جان پانی اور مٹی سے بنی ہے۔ اور وہ (بہشت کی) تعمیر جاندار طاعت سے تیار ہوئی ہے۔

11

ایں باصلِ خویش ماند پر خلل

واں باصلِ خود کہ علم ست و عمل

ترجمہ: یہ (دنیاوی تعمیر) اپنے اصل (یعنی آب و خاک) سے مشابہ ہے جو پر خلل ہے۔ اور وہ (بہشتی تعمیر) اپنے اصل سے (مشابہ اور زندہ ہے) جو علم و عمل ہے۔

12

ہم سریر و قصر و ہم تاج و ثياب

با بہشتی در سوال و در جواب

ترجمہ: تخت و محل بھی اور تاج و پوشاک بھی۔ اہلِ بہشت سے سوال و جواب کریں گے۔

13

فرش بے فراش پیچیدہ شود

خانہ بے مکناس روبیده شود

ترجمہ: (بہشت کا) فرش کسی فرش بچھانے اور اٹھانے والے کے (فعل کے) بغير (خود بخود) تہہ ہو جاۓ۔ (کیونکہ اس میں جان موجود ہے) گھر جھاڑو کے بغیر (آپ سے آپ) صاف ہو جائے (کیونکہ وہ بھی) زندہ ہے۔

14

تختِ او سیّار بے حمّال شد

حلقہ و در مطرب و قوّال شد

ترجمہ: اسکا تخت کسی اٹھانے والے کے بغیر (خود بخود) چلنے لگے گا۔ زنجیر اور دروازہ (سرتال کے مطابق بجنے لگے اور) مطرب و قول بن جائے گا۔ (بہشت کے ذکر سے اب مولانا قلب کے ذکر کی انتقال فرماتے ہیں، اسکی حالت کو بہشت کی حالت پر چسپاں کرتے ہیں:)

15

خانۂ دل بیں ز غم ژولیده شد

بیکناس از توبہ روبیده شد

ترجمہ: (بہشت کے خود بخود صاف ہو جانے پر تم کیوں متعجب ہو؟ ذرا) قلب کے گھر کو تو دیکھو جو (گناہوں کے) غم سے الجھ رہا ہے۔ وہ توبہ کرنے سے جھاڑو کئے بغیر صاف ہو جاتا ہے۔

16

ہست در دل زندگی دَارُ الْخَلُوْد

بر زبانم چوں نمی آید چہ سود

ترجمہ: قلب میں بہشت کی (سی) زندگی (موجود) ہے۔ (مگر) جب (اسکی کیفیت) میری زبان پر نہیں آئی (یعنی اسکو ادا کرنے کے لئے کافی لفظ نہیں ملتے) تو (اسکے ذکر سے) کیا فائدہ۔ (لہٰذا اب مسجدِ اقصٰی کے قصّے کو چھیڑتے ہیں:)

17

چونکہ گشت آں مسجدِ اقصیٰ تمام

ز اہتماماتِ سلیماںؑ و السّلام

ترجمہ: جب وہ مسجدِ اقصی حضرت سلیمان علیہ السّلام کے اہتمام سے مکمل ہو گئی، اور (ان پر) سلام ہو۔

18

چوں سلیمان در شدے ہر با مداد

مسجد اندر بہرِ ارشادِ عباد

ترجمہ: (تو پھر) جب حضرت سلیمان علیہ السلام ہر صبح کو بندوں کی ہدایت کے لئے مسجد میں داخل ہوتے۔ (تو لوگوں کو:)

19

پندادے کہ بگفت و لحن و ساز

گہ بفعل اَعِنِّیْ رکوعِ با نیاز

ترجمہ: کبھی کلام بہ آواز اور ادا سے، اور کبھی فعل، یعنی نمازِ پر نیاز سے نصیحت دیتے۔ (مولانا اس ضمن میں فعل نصیحتیعنی نیک نمونہ دکھا کر کسی کو ہدایت کرنے کی تعریف فرماتے ہیں:)

20

پندِ فعلی خلق را جذّاب تر

کو رسد در جانِ ہر با گوش و کر

ترجمہ: فعلی نصیحت مخلوق کو (عمل کی طرف) بہت کھینچتی ہے۔ کیونکہ وہ ہر کانوں والے اور بہرے کے دلوں میں (یکساں) مؤثر ہوتی ہے۔ (اس لئے کہ اسکا تعلق سننے کے ساتھ نہیں بلکہ دیکھنے سے ہے۔ علاوہ اسکے اس میں ایک اور فائدہ بھی ہے، جو آگے آتا ہے:)

21

و اندراں وہمِ امیری کم بود

در چشمِ تاثیر آں محکم بود

ترجمہ: اور اس میں اپنی امیری کا زعم نہیں ہوتا۔ (جو زبانی نصیحت کے تحکّمانہ لہجہ میں ممکن ہے۔ اس لئے) اسکا اثر نوکروں (اور رعایا کے لوگوں) پر خوب ہوتا ہے۔ (جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بادشاہ سلامت یہ کام کر رہے ہیں، تو خود بخود انکے دل میں اسکی تقلید کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔