دفتر 4 حکایت 18: اس (آیت) کی تفسیر کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں

دفتر چہارم: حکایت: 18

شرحِ ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ(الحجرات: 10) و اَلْعُلَمَآءُ کَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ، خَاصّۃً اتّحادِ داؤدؑ و سلیمانؑ و سائر انبیاءؑ کہ اگر یکے ازیشاں را منکر شوی ایمانِ تو بہیچ نبی درست نباشد و ایں علامتِ اتّحاد ست، کہ یکے خانہ ازاں ہزار خانہ ویران کنی آں ہمہ ویران شود، و یک دیوار قائم نماند کہ ﴿لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهٖ(البقرۃ: 285) و ”الْعَاقِلُ تَكْفِيْهِ الْاِشَارَۃُ“ و ایں از اشارت ہم گذشت

اس (آیت) کی تفسیر کہ ”مسلمان بھائی بھائی ہیں“، اور (اس حدیث کی شرح کہ) ”علماء ایک وجود کی مثل ہیں“، خصوصاً حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السّلام اور باقی تمام انبیاء علیہم السّلام کا اتّحاد کہ اگر تم ان میں سے کسی ایک کا انکار کر دو، تو کسی نبی پر تمہارا ایمان درست نہ ہو گا، اور یہ علامت (انکے) اتّحاد کی ہے، کہ ان ہزار گھروں میں سے ایک گھر کو ویران کر دو تو سارے ویران ہو جائیں، اور ایک دیوار بھی قائم نہ رہے گی (کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کا ارشاد ہے:) ﴿لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهٖ﴾ (البقرۃ: 285) ہم کسی ایک رسول میں بھی فرق نہیں کرتے اور عاقل کو اشارہ کافی ہے، اور یہ بات تو اشارے سے بھی آگے بڑھ گئی

1

پس خطاب آمد بداؤدؑ از خدا

کاے گزیں پیغمبرِ نیکو لقا

ترجمہ: پھر خداوند تعالٰی کی طرف سے حضرت داؤد علیہ السّلام کو خطاب آیا۔ کہ اے برگزیده و نیک دیدار پیغمبر!

2

دل مدار اندر تفکّر زیں خبر

ره مده در دل ملال و غم مخور

ترجمہ: اس خبر سے (کہ تم بیتُ المقدس کی تعمیر نہیں کر سکتے) اپنے دل کو متفکّر نہ کرو، دل میں ملال کو داخل نہ ہونے دو، اور غم نہ کھاؤ۔

3

گرچہ بر ناید بجہد و زورِ تو

لیک مسجد را بر آرد پُورِ تو

ترجمہ: اگرچہ مسجدِ (اقصیٰ) تمہاری کوشش اور طاقت سے نہیں بنے گی۔ لیکن تمہارے فرزند (سلیمان علیہ السّلام) اسکو قائم کریں گے۔

4

گرچہ بر ناید بجہدت ایں مقام

لیک پورِ تو کند آں را تمام

ترجمہ: اگرچہ یہ مکان تمہاری کوشش سے قائم نہ ہوگا۔ لیکن تمہارا فرزند اسکو مکمل کرے گا۔

5

کردۂ او کردۂ تست اے حکیم

مومنان را اتصالے داں قدیم

ترجمہ: اے دانا! اُنکا کام تمہارا ہی ہے۔ مومنوں میں قدیم سے (باہم) اتّحاد سمجھو۔

6

مومناں معدود لیک ایماں یکے

جسمِ شاں معدود لیکن جاں یکے

ترجمہ: مومن (بظاہر الگ الگ) شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ایمان (ان سب کا) ایک ہے۔ انکے جسم متعدد ہیں، مگر روح ایک ہے۔ (آگے مولانا روحِ انسانی کی تعریف فرماتے ہیں:)

7

غیر فہم و جان کہ در گاؤ و خرست

آدمی را عقل و جانِ دیگرست

ترجمہ: شعور اور روح (حیوانی) کے علاوه، جو (نہ صرف انسان بلکہ) بیل گدھے (وغیرہ تمام بہائم) میں (بھی) ہے۔ انسان میں عقل، اور ایک دیگر قسم کی روح (بھی) ہے۔

8

باز غیرِ عقل و جانِ آدمی

ہست جانے در نبی و در ولی

ترجمہ: پھر آدمی کی جان اور عقل کے علاوہ۔ نبی اور ولی میں اور (طرح کی) روح ہے۔

مطلب: تمام حیوانات جن میں انسان، درندے، چرندے، طیور و وحوش وغیرہ شامل ہیں، شعور اور روح حیوانی میں مشترک ہیں۔ شعور کے معنٰی ہیں اپنے فائدے اور نقصان اور راحت و زحمت کا احساس۔ اور روحِ حیوانی وہ ہے جس سے جسم زندہ رہے، اور اسکے تصرّف سے وظائفِ جسم پورے ہو رہے ہیں۔ پس یہ دونوں چیزیں انسان و غیر انسان تمام حیوانات میں پائی جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ عقل اور روحِ انسانی، خاص انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ باقی حیوان اس سے بہرہ مند نہیں۔ عقل کے خواص میں سے ایک ادراکِ کلیّات، اور حصولِ معارف بھی ہے، جس سے باقی حیوانات کو مطلق تعلق نہیں۔ (اس نکتہ کو ہم نے مفتاح العلوم کی آٹھویں جلد میں علمِ انسان و علمِ حیوان میں فرق کے عنوان سے ایک عجیب پیرایہ میں لکھا ہے۔ فَمَنْ شَآءَ فَیَرْجِعْ اِلَیْہِ) پھر انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کی روح و عقل اور بھی اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہے، جو مہبطِ انوارِ الٰہیہ ہونے کے لحاظ سے باقی تمام انسانوں کی روح و عقل سے ممتاز ہے۔ اب مولانا یہ فرمائیں گے کہ شعور و روحِ حیوانی اگرچہ انسان یا غیر انسان باقی تمام حیوانات میں ہو، وہ ذریعۂ اتّحاد نہیں، بلکہ روحِ انسانی اور عقل ذریعۂ اتّحاد ہے، اور انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کی روح و عقل تو واثق ترین ذریعۂ اتّحاد ہے۔ اسکے برابر عام انسان کی روح بھی متّحد نہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

9

جانِ حیوانی ندارد اتّحاد

تو مجو ایں اتّحاد از روحِ باد

ترجمہ: روحِ حیوانی اتّحاد نہیں رکھتی۔ تم روحِ ہوائی سے اتّحاد کی امید نہ رکھو۔

مطلب: روح حیوانی سے یہاں وہ روح مراد ہے جسکا ذکر طب میں آتا ہے۔ اور اسکی تعریف یوں کی گئی ہے کہ وہ ایک جسمِ لطیف بخاری ہے جو غذاؤں سے متولّد ہوتا ہے۔ اسی کو مولانا نے یہاں روحِ باد کہا ہے۔ اس لحاظ سے کہ اسی کی بقاء سانس اور ہوا پر موقوف ہے۔ یہ روح انسان، بہائم، سباع، طیور، حشرات وغیرہ تمام جاندار میں موجود ہے۔ روحِ انسانی اس سے الگ اور برتر چیز ہے، جو خاص انسان میں پائی جاتی ہے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ روحِ حیوانی اتّحاد نہیں رکھتی، اتّحاد جو ہے وه روحِ انسانی میں ہے۔ مگر مولانا بحر العلوم کے نزدیک یہ صحیح نہیں کیونکہ اتّحاد سے اگر اتّحاد بنظرِ حقیقت مراد ہے، تو روحِ حیوانی بھی ہر انسان میں متّحد بالحقیقت ہے۔ اس لئے کہ انسان کی روحِ حیوانی ایک ہی نوع سے ہے۔ انکے نزدیک صحیح یہ ہے کہ روحِ حیوانی روحِ انسانی کا مظہر ہے، اور وہ تمام بدن میں جاری ہے۔ یہی روح متلذّذ و معذّب ہوتی ہے۔ اور روحِ انسانی جو ایک لطیفۂ الٰہیہ ہے اور اس روح میں متعیّن ہے، ان تاثرات سے بری ہے مگر باعتبار اسکے کہ وہ اس میں متعین ہے۔ حاصل یہ ہے کہ روحِ حیوانی افرادِ انسان میں اتّحاد نہیں رکھتی، بلکہ ہر فردِ انسانی میں مختلف ہے، اور مختلف بکمال ہے، اور یہ روح ہوا کی طرح ایک جسمِ لطیف ہے، اسی لئے اسکو روحِ باد کہہ دیا۔ اسکے بعد کے دو شعروں میں اس اختلاف کو بیان فرماتے ہیں:

10

گر خورد ایں ناں نگردد سیر آں

ور کشد بار ایں نگردد آں گراں

ترجمہ: اگر یہ ایک فرد روٹی کھائے تو وہ (دوسرا فرد) سیر نہیں ہوتا۔ اور اگر یہ (ایک فرد) بوجھ اٹھائے تو وہ (دوسرا) بوجھ محسوس نہیں کرتا۔

مطلب: اكل و شرب، مشی و جلوس وغیرہ تمام جسمانی افعال اسی روح کے تصرّف سے وقوع پاتے ہیں۔ اس لئے ان افعال کا تعلّق روحِ حیوانی کے ساتھ ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک ذی روح کا فعل جو اسکے خود اپنے جسم تک محدود رہے، دوسرے ذی روح پر کوئی اثر نہیں کرتا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ روحِ حیوانی میں اتّحاد نہیں بلکہ اسکا اختلاف و تباین بھی مخالف و تضاد تک پہنچا ہوا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

11

بلکہ ایں شادی کند از مرگ آں

از حسد میرد چو بیند برگ آں

ترجمہ: بلکہ یہ (ذی روح) اس (دوسرے ذی روح) کی موت پر خوشی مناتا ہے۔ (اور جب) اسکے سروسامان کو دیکھتا ہے تو حسد سے مر جاتا ہے (کیوں نہ ہو آخر حیوانی روح جو ہوئی۔)

12

جانِ گرگاں و سگاں از ہم جداست

متّحد جانہائے شیرانِ خداست

ترجمہ: (چنانچہ تمام حیوانات مثلاً) بھیڑیوں اور کتّوں کی روح ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ہاں خدا کے شیروں (یعنی انبیاء علیہم السّلام و اولیاء) کی ارواح متّحد ہیں۔

مطلب: انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کو شیرانِ خدا بطورِ تشبیہ کہہ دیا، جسمیں وجہ تشبيہ علوِ نفس، شرافتِ ذات و بلندیِ صفات ہے، ورنہ شیر بھی منجملہ حیوانات ہے۔ وہ بھی صرف روحِ حیوانی کا مالک اور بھیڑیے اور کتّے کی طرح اپنے بنی نوع سے غیر متّحد ہے۔ غرض بنی نوع سے اتّحادِ تام و اتفاقِ کامل رکھنا انسانوں میں پایا جاتا ہے، خصوصاً مؤمنین اور ان سے بڑھ کر اولیاء کرام و انبیاء علیہم السّلام کا خاصّہ ہے۔ جیساکہ فرمایا: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلمُؤْمِنُوْنَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ إِنِ اشْتَكیٰ عَيْنُهٗ اِشْتَكیٰ كُلُّهٗ وَإِنِ اشْتَكیٰ رَأْسُهٗ اِشْتَكیٰ كُلُّهٗ(مسلم) ”آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ سب مؤمن ایک جسم کے مانند ہیں کہ اگر اسکی آنکھ میں تکلیف ہو تو اسکے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اسکے سر میں تکلیف ہو تو اسکے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔“ دوسری حدیث میں ہے: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرَی المُؤْمِنِيْنَ فِيْ تَراَحُمِهِمْ وَ تَوَادِّهِمْ وَتَعـَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكیٰ عُضْوًا تَدَاعَیٰ لَہٗ سَائِرِ جَسَدِہٖ بِالسَّھَرِ وَ الْحُمّٰی“ (البخاري: 6011) ”فرمایا رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے تم ایمان والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رحم، دوستی، اور مہربانی سے پیش آنے میں، ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب ایک جوڑ کو تکلیف ہوتی ہے، تو سارا جسم اسکے ساتھ بے خوابی اور بخار میں شامل ہو جاتا ہے۔“ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ متعدد اشیاء متّحد ہو کر تو ایک ہو جاتیں ہے، لہذا ان شیرانِ خدا کی ارواح کو بوجۂ اتّحاد، روح کہنا چاہیے تھا یہاں انکو ارواح کیوں کہا؟ اسکا جواب دیتے ہیں:

13

جمع گفتم جانہا شاں من باسم

کاں یکے صد جاں بود نسبت بجسم

ترجمہ: میں نے انکی ارواح کو اسم جمع کے ساتھ ذکر کر دیا ہے۔ اس لئے کہ وہ ایک روح متعدد اجسام کے ساتھ منسوب ہو کر سینکڑوں کی تعداد میں (نمایاں) ہو گئی ہے (ورنہ روح ایک ہی ہے۔)

مطلب: ہم جو احمد، محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیهم السّلام الگ الگ نام لیتے ہیں تو اس لئے کہ انکے اجسام کا تعیّن مقصود ہے، ورنہ انکی روح باعتبار حقیقت، ایک ہی نورِ بسیط اور جوہر فرد ہے۔ (منہج) آگے اسکو ایک حسّی مثال سے واضح فرماتے ہیں:

14

ہمچو آں یک نور خورشیدِ سما

صد بود نسبت بصحنِ خانہا

ترجمہ: جیسے آسمانی آفتاب کی روشنی (یعنی دھوپ ایک سو) گھروں کے صحنوں سے منسوب ہو کر سو (کی تعداد میں ظاہر) ہو جاتی ہے۔

15

لیک یک باشد ہمہ انوار شاں

چونکہ برگیری تو دیوار از میاں

ترجمہ: لیکن اگر تم درمیان سے دیواریں اٹھا دو، تو ان صحنوں کی تمام دھوپیں ایک ہو جائیں گی۔ (اسی طرح ان حضرات کے جسمِ ظاہری قطع نظر کرو تو سب کی روح ایک ہی ہے۔)

16

چوں نماند خانہا را قاعدہ

مومنان مانند نفسِ واحده

ترجمہ: جب گھروں (کے احاطوں) کی کوئی بنیاد (باقی) نہ رہے۔ تو (سب کی دھوپ ایک ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر) اہل ایمان (کے وجودِ ظاہری سے قطع نظر کرو، تو وہ بلحاظِ ارواح) ایک شخص ہیں۔

17

فرق و اشکالات آید زیں مقال

لیک نبود مثل ایں باشد مثال

ترجمہ: اس (تمثیلی) بات سے (روح اور روشنی میں بہت کچھ) فرق (محسوس ہوتا ہے) اور شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن (یہ) مثل نہیں (کہ اصل مدّعا کو ہو بہو ظاہر کر دیتی، بلکہ) یہ مثال ہے (جس سے مدّعا کا صرف مطلوبہ پہلو دیکھنا چاہیے، باقی پہلوؤں پر نظر نہ کرنی چاہیے۔)

18

فرقہا بے حد بود از شخصِ شیر

تا بہ شخص آدمی زاد دلیر

ترجمہ: (اور تمثیلات میں فرق ضرور ہوتا ہے۔ چنانچہ) شیر کے وجود میں، اور بہادر آدمی کے وجود میں، بڑا فرق ہے۔ (یہ انسان ہے، وہ حیوان۔)

19

لیک در وقتِ مثال اے خوش نظر

اتّحاد از روئے جانبازی نگر

ترجمہ: لیکن اے نیک نظر (مخاطب!) ان کی مثال دیتے وقت، بہادری میں (ان) کا اتّحاد ملحوظ رکھو، (باقی صفات میں نہیں۔ اگر ایسا کرو گے، تو پھر شبہات پیدا نہ ہوں گے۔)

20

کاں دلیر آخر مثالِ شیر بود

نیست مثلِ شیر در جملہ حدود

ترجمہ: کیونکہ وہ بہادر آدمی آخر شیر کی مثال ہی تو تھا۔ وہ تمام تعريفات میں تو شیر کی مِثل نہیں۔

مطلب: چنانچہ وہ درندہ نہیں‘ چوپایہ نہیں‘ غیر ذی عقل نہیں۔ اسکی ایال نہیں، دم نہیں وغیرہ۔ یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اپنا مطلب سمجھانے میں مثال پیش کرنے کا ناقص طریقہ کیوں اختیار کیا گیا؟ کوئی مِثل پیش کر کے سمجھانا تھا، تاکہ شکوک و شبہات پیدا ہی نہ ہوتے۔ آگے اسکا یہ جواب دیتے ہیں کہ موجوداتِ عالم کی بناوٹ ہی اس قسم کی ہے کہ ان میں کوئی چیز دوسری کی مثل نہیں، جو پیش کی جاسکے، لہٰذا مجبوراً مثال سے کام لینا پڑتا ہے۔

21

متّحد نقشے ندارد ایں سرا

تاکہ مثلے وا نمائم من ترا

ترجمہ: یہ عالم (دنیا کی مخلوقات کی) کوئی متّحد صورت نہیں رکھتا۔ تاکہ میں کوئی مِثل تم کو دکھا سکوں۔ (چنانچہ ہر جنس کے اندر انواع مختلف ہیں، اور ہر نوع کے افراد کی شکل و صورت، اور خصلت و عادت، مختلف ہیں)

22

ہم مثال ناقصے دست آورم

تا ز حیرانی خرد را وا خرم

ترجمہ: (اگرچہ مثالوں سے پوری توضیح نہیں ہوتی) پھر بھی ایک اور مثال (کہ وہ بھی) ناقص (ہی ہوگی) پیش کرتا ہوں۔ تاکہ (تمہاری) عقل کو حیرانی سے بچاؤں (اس سے روحِ حیوانی کی کیفیّت کسی حد تک ظاہر ہو گی:)

23

شب بہر خانہ چراغے می نہند

تا بنورِ آں ز ظلمت می رہند

ترجمہ: (دیکھو) رات کو ہر گھر میں چراغ رکھتے ہیں۔ کہ اسکی روشنی کی بدولت تاریکی سے نجات پاتے ہیں۔ (اب چراغ کی مثال کو روح کی حالت پر چسپاں فرماتے ہیں:)

24

آں چراغ ایں تن بود نورش چو جاں

ہست محتاجِ فتیل و این و آں

ترجمہ: وہ چراغ، یہ بدن ہے (اور) اسکی روشنی روح (حیوانی) کی مثل ہے۔ جو بتّی اور فلاں فلاں (چیزوں) کی محتاج ہے۔

25

ایں چراغِ شش فتیلہ ایں حواس

جملگی بر خواب و خور دارد اساس

ترجمہ: ان حواس کو چھ بتیوں والا چراغ سمجھ (جو) بالکل سونے اور کھانے پر (اپنی) بنیاد رکھتا ہے۔

مطلب: شش فتیلہسے مراد حواس ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ حواس صرف پانچ ہی ہیں، یعنی باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ، لامسہ، لہٰذا شش فتیلہ کو پورا کرنے کے لئے ایک حسّ اور چاہیے، شاید حواسِ باطنی کو بحیثیتِ مجموعی چھٹا فتیلہ سمجھ لیا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وجودِ انسانی کا چراغ، روحِ حیوانی لَوکے ساتھ روشن ہے، اور یہ لَوحواسِ ستّہ کی بتیوں پر درخشاں ہے۔ ان حواس کی سلامتی، اور جسم و روح کا ارتباط، اس بات پر موقوف ہے کہ انسان اپنا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، دفعِ فضلات، نقل و حرکت با قاعدہ رکھے۔ اگر ان وظائفِ جسم میں بے قاعدگی ہوئی، تو حواس کی تباہی، اور جسم و روح کے انقطاعِ تعلّق کا اندیشہ ہے، مگر یہ تعلّق بھی ایک خاص میعاد تک کے لئے ہے۔ جب وہ میعاد گزر جاتی ہے، تو پھر وہ وظائفِ جسم یعنی سونا، کھانا وغیره مفید نہیں رہتے۔ ایک کھاتا پیتا انسان بھی میعاد زندگی پوری کرتے ہی مرجاتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

26

بے خور و بے خواب نزید نیم دم

با خور و با خواب نزید نیز ہم

ترجمہ: (انسان ) کھائے اور سوئے بدوں، آدھا لمحہ بھی جی نہیں سکتا۔ (ہاں زندگی کی میعاد پوری ہونے پر) کھانے اور سونے کے با وجود بھی نہیں جیتا۔

27

بے فتیلہ و روغنش نبود بقا

با فتیل و روغن او ہم بے وفا

ترجمہ: (حواس کی) بتّی اور (تاب و تواں کے) تیل کے بغیر اسکی زندگی (ممکن) نہیں۔ (مگر) وہ بتّی اور تیل کے باوجود بھی نا قابلِ اعتبار ہے۔

28

زانکہ نورِ علتی اش مرگ جوست

چوں زیَد کہ روزِ روشن مرگ اوست

ترجمہ: کیونکہ اسکا نور (یعنی روحِ حیوانی) جو نشانۂ علّت (و مرض) ہے، موت کا مقتضی ہے۔ وہ (ہمیشہ) کیونکر جئے؟ جبکہ (عالمِ برزخ کے) روشن دن (کا طلوع) اسکی موت ہے۔

مطلب: مرض جسم پر عارض ہوتا ہے، روح پر نہیں۔ روح کو علّت، یا نشانۂ علّت کہنے سے مراد یہ ہے کہ مرض روح و جسم میں تفرقہ ڈال دیتا ہے، اور موتسے روح کا بدن سے نکل جانا مراد ہے، کیونکہ روح مرتی نہیں، جسم فنا ہو جاتا ہے، روح قائم رہتی ہے۔ تینوں شعروں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح چراغ، تیل اور بتّی کے بغیر، روشن نہیں ہو سکتا، اسی طرح انسان خواب و خور کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن چراغ، رات کے گزرنے پر تیل اور بتّی کے با وجود بھی بُجھ جاتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی اپنی میعادِ زندگی کے اختتام پر خواب و خور کے باوجود مر جاتا ہے۔ روحِ حیوانی کے انتقال کا ذکر کرنے کے بعد اب روحِ انسانی کے متعلق فرماتے ہیں:

29

جملہ حسہائے بشر ہم بے بقاست

زانکہ پیشِ نورِ روزِ حشر لاست

ترجمہ: (عام لوگوں کے جسمانی حواس کی طرح) انسان (با کمال) کے (روحانی) حواس بھی بے بقا ہیں۔ کیونکہ وہ (حق تعالٰی کے) نور کے سامنے، جو روزِ حشر میں نمایاں ہو گا، معدوم ہیں۔

مطلب: عوام کے حواسِ عنصری موت کے بعد نابود ہو جاتے ہیں، اور خواص کے حواسِ روحانی قائم رہتے ہیں، مگر قیامت کے دن حق تعالٰی کی تجلّی میں وہ بھی کالعدم ہو جائیں گے، کیونکہ وہاں وہ نور بوجہ اتم منکشف ہوگا۔ قیامت کے روز انبیاء علیہم السّلام تک کا بے ہوش ہو جانا احادیث میں مروی ہے۔ چنانچہ فرمایا رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے: لَاتُخَيِّرُوْنِيْ مِنْ بَيْنِ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُوْنُ أَوَّلَ مَنْ يُّفِيْقُ۔۔۔الخ(البخاري: الرقم: 6917) یعنی ”مجھ کو انبیاء علیہم السّلام پر فضیلت نہ دو (اس لئے کہ قیامت کے دن صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بیہوش ہو کر گر پڑیں گے، تو انکے ساتھ میں بھی بیہوش ہو کر گر جاؤں گا، پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا۔“ مولانا بحر العلوم یہاں حواسِ بشر سے، حواسِ عنصری سمجھے ہیں، جو درست معلوم نہیں ہوتا۔ حواسِ بشری عنصری کے فنا ہونے کا ذکر اوپر کے تینوں شعروں میں گزر چکا ہے۔ جن میں مذکور ہے کہ روحِ حیوانی موت کے آنے پر بدن سے نکل جاتی ہے۔ جب روح، بدنِ عنصری سے نکل گئی، تو پھر حواسِ عنصری کہاں رہے۔ جب حواسِ عنصری موت کے وقت فنا ہو چکے، تو پھر قیامت کے اور انکے فنا ہونے کے ذکر کا کیا فائدہ؟ علاوہ ازیں یہاں ”ہم“ کا کلمہ اس بات کا بڑا قرینہ ہے، کہ یہاں اس چیز کے بعد، جسکا فوت ہو جانا اوپر مذکور ہو چکا ہے، کسی اور چیز کے فنا ہونے کا ذکر فرما رہے ہیں، جو اس سے اعلٰی و اَشرف ہے۔ وَاللهُ اَعْلَمْ۔ آگے بیان فرماتے ہیں کہ خاصّانِ خدا کے خواصِ روحانی اگرچہ فنا ہو جائیں گے، مگر انکا فنا حواسِ عنصری کی طرح فنائے کلّی نہیں، بلکہ بنظرِ ظاہر فنا ہے، ورنہ وہ بدستور باقی و قائم ہیں۔

30

نورِ حسِّ جانِ بے پایانِ ما

نیست کلّی فانی و لاچوں گیا

ترجمہ: ہماری بے پایاں روح کا نورِ حواس، گھاس (پھوس) کی طرح، بالکل فنا و نا بود ہونے والا نہیں۔

اختلاف: پہلے مصرعہ کی کتابت کے متعلق متعدد نسخوں میں ایک عجیب اختلاف نظر آتا ہے۔ قلمی نسخے میں لکھا ہے ”جان نا پایان ما“ جو اوپر کے مندرجہ نسخہ کا ہم معنٰی ہے۔ منہج القویٰ کے مولّفِ علّام نے انہی الفاظ کو بتبدیل نقاط یوں لکھا ہے۔ ”جان با پایان ما“ یہ نسخہ نہایت قابل وثوق معلوم ہوتا ہے، ممکن ہے کہ مولانا کا اصل کلام یہی ہو۔ ناقلین نے با پایاںکو نہ سمجھ کر اپنے اجتہاد سے نا پایاںبنا دیا اور پھر محاورہ کے پابندوں نے اسکو بے پایاںلکھ لیا۔ منہج القویٰ کے نسخے کا ترجمہ یوں ہو گا جو ان شبہات سے بالکل محفوظ رہتا ہے، جو مندرجہ بالا نسخے پر وارد ہو سکتے ہیں ”ہمارے بزرگانِ دین کے حواسِ روحانیّہ کا نور بالکل فنا و نابود ہونے والا نہیں۔“

31

لیک مانندِ ستاره و ماہتاب

جملہ محو اند از شعاعِ آفتاب

ترجمہ: لیکن ستارہ اور چاند کی طرح۔ سب کے سب آفتابِ (حق) کے نور میں (نگاہوں سے) محو ہیں (اور حقیقت میں موجود ہیں۔)

32

آنچنانکہ سوز و دردِ زخمِ کیک

محو گردد چوں در آید مار اِلَيكْ

ترجمہ: (دوسری مثال) جس طرح پسو کے کاٹنے کی سوزش اور درد، محو ہو جاتا ہے جبکہ تیری طرف سانپ (کاٹنے کو) لپکتا ہے (کہ اسکے خوف سے پسو کے درد کو بھول جاتا ہے، مگر وہ درد منتفی نہیں ہوتا۔)

33

آنچنانکہ عور اندر آب جست

تا در آب از زخمِ زنبوراں برست

ترجمہ: (تیسری مثال) جس طرح کوئی ننگا آدمی (شہد کی بری قسم کی مکھیوں کے خوف سے) پانی میں کود پڑے۔ تاکہ پانی میں (غوطہ مار کر) مکھیوں کے کاٹنے سے بچ جائے۔ (جو اسکے تعاقب میں ہیں۔)

34

میکند زنبور بر بالا طواف

چوں بر آرد سر ندارندش معاف

ترجمہ: مکھیاں (اسکے) اوپر چکر لگا رہی ہیں۔ جب وہ سر ابھارتا ہے، تو اسے کاٹے بدوں نہیں چھوڑتیں۔)

مطلب: شہد کی ایک قسم کی بڑی مکھیاں ہوتی ہیں، جو بڑی خطرناک ہیں۔ عموماً پہاڑوں میں لوگ انکو پالتے ہیں۔ بعض جگہ میدانی علاقوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی راہرو اتفاقاً کسی اڑتی مکھی کو اپنے چہرے کے سامنے سے ہاتھ مار کر ہٹانا چاہیے، تو معلوم نہیں باقی مکھیوں کو کیونکر کسی بے تارِ برقی سے اطلاع مل جاتی ہے، کہ اس شخص پر انکی فوج در فوج حملہ آور ہوتی ہے، اور وہ اس کثرت سے اسکو کاٹتی ہیں کہ وہ بے چارہ نیم جان ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگ ان مکھیوں کے حملے سے کئی کئی دن بیمار رہتے ہیں۔ بعض مر جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ اگر کوئی آدمی بھاگ کر پانی میں کود پڑے، تو وہ پانی کی سطح پر اس انتظار میں اڑتی رہتی ہیں کہ جب نکلے گا تو پھر اسکی خبر لیں گے۔ شہد کی چھوٹی مکھی، بھڑ اور تیتے وغیرہ میں اس شدّت کا انتقامی جذبہ نہیں ہے۔ ان دو شعروں میں بھی حواس کے تجلّیِ حق کے آگے فنا ہونے کی مثال دی ہے، مگر وجۂ تمثیل شاید ناظرین کی سمجھ میں نہیں آئی ہوگی۔ اس لئے آگے مولانا رحمۃ اللہ علیہ خود اسکی تصریح فرماتے ہیں:

35

آب ذکرِ حق و زنبور ایں زماں

ہست یادِ ایں فلاں آں فلاں

ترجمہ: پانی، اللہ تعالٰی کی یاد ہے، اور مکھی (یہ ہے کہ) اس وقت، اِس فلاں (اور) اُس فلاں کا خیال (آۓ۔)

مطلب: جس طرح پانی کے اندر غوطہ مارنے والا مکھیوں کے حملے سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح یادِ الٰہی میں مستغرق ہو جانے والا، حواس کے بیہودہ ادراکات سے نجات پا جا تا ہے۔ آگے مولانا رحمۃ اللہ علیہ ان بیہودہ ادراکات، یعنی وساوس و خواطر کے دفع کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں:

36

دم بخور در آبِ ذکر و صبر کن

تا رہی از فکر و وسواسِ کہن

ترجمہ: ذکر کے پانی میں سانس کھینچ (کر غوطہ لگا) لو، اور صبر کرو۔ تاکہ تم خیال اور پرانے (معتاد) وسواس سے بچ جاؤ۔

37

بعد ازاں تو طبعِ آں آبِ صفا

خود بگیری جملگی سر تا بپا

ترجمہ: اسکے بعد تم (ذکر کے) اس صاف پانی کی پوری کیفیت۔ سر تا پا اختیار کر لو گے۔

مطلب: ان دو شعروں میں سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ اَدَامَہَا اللہُ مَادَامَتِ الْبَرِیَّۃُ“ کی تعلیمات کے مطابق ذکرِ خفی، حبسِ دم، وقوفِ قلبی، دفعِ خواطر، اور تجوہرِ قلب بذکر پر توجہ دلائی گئی ہے، اور نہایت شستہ و شائستہ اور جامع الفاظ میں (1) دم بخورحبسِ دم کرو۔ (2) در آب ذکر ذکرِ خفی میں، کیونکہ ذکرِ جہر میں حبسِ دم نہیں ہو سکتا۔ (3) صبر کندل کی طرف اپنی توجہ قائم رکھو، کیونکہ لغت میں صبرکے معنٰی بند رکھنا ہیں۔ یہ وقوفِ قلبی ہے، جو ذکر کے ساتھ لازم ہے، ورنہ ذکر مفید نہیں رہتا۔ (4) تا رہی از فکرحتیٰ کہ تم حضورِ خواطر کو روک رکھو۔ (5) دوسرے شعر میں قلب کے متجوہر بذکر ہو جانے کا ذکر ہے، جو دوامِ ذکر کا ثمرہ ہے، اور اسکا یہ رتبہ ہے کہ مکتوباتِ خواجہ محمد معصوم قُدِّسَ سِرُّہٗ کے مکتوب نمبر: 50 میں شیخ شہابُ الدّین سہروردی قُدِّسَ سِرُّہٗ الْعَزِیْز سے منقول ہے: ”کہ مرتبہ ایں ہمہ خوارق و کرامات فرو ترست از مرتبہ تجوہرِ قلب بذکر و وجودِ ذکرِ ذات“ اس سے معلوم ہوا کہ قلب پر کیفیّاتِ ذکر کا غیر منفک انداز میں مستولی ہو جانا وہ مرتبہ ہے، جو پانی پر چلنے والوں اور ہوا پر اڑنے والوں کو بھی حاصل نہیں۔ ہمارے حضرت سلّمہ اپنے خدام کو فرمایا کرتے ہیں کہ کثرتِ ذکر سے قلب کو وہ درجہ حاصل ہو جانا چاہیے کہ سوتے جاگتے، بیٹھے لیٹے، بات کرتے خاموش بیٹھے، غرض ہر حالت میں دل، اللہ اللہ کرتا رہے، اور کوئی حالت اس ذکر سے اسکی مانع نہ ہو۔ جسطرح آنکھ کے لئے رؤیت لازم ہے کہ جب آنکھ کھلی ہو، تو ہر چیز اسکے سامنے آئے گی، وہ ضرور اسکو محسوس کرے گا، کوئی امر اس رؤیت سے اسکا مانع نہیں ہوتا، اور یہی مطلب ہے مولانا کے اس ارشاد کا ”طبعِ آں آبِ صفا خود بگیری جملگی سر تا بپا“ پھر فرماتے ہیں:

38

آنچناں کز آب آں زنبورِ شر

می گریزد از توہم گیرد حذر

ترجمہ: (پھر یہ حالت ہو گی کہ) جسطرح وہ خطرناک مکھی، پانی سے بھاگتی ہے۔ (اسی طرح) تجھ سے بھی (خواطر وساوس کو) حذر ہو گا (دوامِ ذکر سے، خواطر بالکل نا بود ہو جائیں گے۔ پھر اگر احیانًا وارد ہوں بھی، تو انکا ورود قلب پر نہیں ہوتا، بلکہ صرف قالب پر ہوتا ہے۔)

39

بعد ازاں خواہی تو دور از آب باش

کہ بسر ہم طبعِ آبی خواجہ تاش

ترجمہ: اے رفیق ہم مشرب! اسکے بعد خواہ تم آبِ (ذکر) سے دور رہو (کچھ مضائقہ نہیں) کیونکہ تم اپنے باطن (قلب) سے آبِ ذکر کے ہم رنگ ہو چکے۔

مطلب: وہی مطلب ہے جو اوپر مذکور ہوا، یعنی پھر قلب خود ہر حالت میں ذکر کرتا ہے۔ ذاکر خواہ ارادہ کرے یا نہ کرے۔ تیسری مثال کی تقریر یہاں تک ختم ہوئی۔ اب پھر اصل مدّعا کی تائید فرماتے ہیں، جسکے ثبوت کے لئے تین مثالیں پیش کی تھیں۔ یعنی:

40

بس کسانے کز جہان بگذشتہ اند

لا نیند و در صفات آغشتہ اند

ترجمہ: بہت سے لوگ جو اس جہاں سے انتقال کر گئے ہیں۔ (اس وقت) معدوم نہیں ہیں اور حق تعالٰی کی صفات میں مستغرق ہیں (کیونکہ موت عدمِ محض نہیں، بلکہ تفرقہ روح و جسم ہے۔)

41

در صفاتِ حق صفاتِ جملہ شاں

ہمچو اختر پیشِ آں خور بے نشاں

ترجمہ:ان سب کی صفات حق تعالٰی کی صفات میں، اسی طرح بے نشان ہیں جیسے آفتاب کے سامنے ستارے۔

42

گر ز قرآن نقل خواہی اے حروں

خواں جَمِيْعٌ هُمْ لَدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ

ترجمہ: اے سرکش اگر تو قرآن مجید سے اسکا ثبوت طلب کرتا ہے، تو یہ آیت پڑھ لے۔ وہ سب ہمارے پاس حاضر کئے جائے گے۔

مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿إِنْ کَانَتْ إِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَإِذَا ہُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ﴾ (یٰس: 53) اور کچھ نہیں، بس ایک زور کی آواز ہوگی، جسکے بعد یہ سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کردیے جائیں گے۔

43

مُحۡضَرُوۡن معدوم نبود نیک بیں

تا بقائے روحہا دانی یقیں

ترجمہ: (پس) ﴿مُحۡضَرُوۡنَ(یعنی حاضر کئے ہوئے) معدوم نہیں ہوتے۔ اچھی طرح غور کر لے، تاکہ تجھے روح کے باقی ہونے کا یقین علم ہو جائے (روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی کی حدود متعین کرنے کے بعد، اب بتاتے ہیں کہ تم کو کون سی روح کی معیّت اختیار کرنی چاہیے:)

44

روح محجوب از بقایش در عذاب

روحِ واصل در بقا پاک از حجاب

ترجمہ: روحِ (حیوانی) جو (لذاتِ جسمانیہ کے انہماک میں) بقا باللہ کی طرف سے حجاب میں ہے، عذاب پاتی ہے۔ (اور) روحِ انسانی (یعنی اولیاء و انبیاء علیہم السّلام کی روح) جو بقاء باللہ میں واصل (بحق) ہے (اس) حجاب سے پاک ہے۔

مطلب: یہ مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے: ﴿وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ - وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ - تَظُنُّ اَنۡ یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ﴾ (القیامہ: 22 تا 25)

45 زیں چراغِ حسِّ حيوان المراد

گفتمت ہاں تا نجوئی اتّحاد

ترجمہ: الغرض میں تم کو یہ کہتا ہوں کہ خبردار! اس حسِّ حیوانی کی روح سے ہرگز اتّحاد کے طالب نہ ہونا۔

46

روحِ خود را متصل کن اے فلاں

زود با ارواحِ قدسِ سالکان

ترجمہ: اجی صاحب! اپنی روح کو جلدی سالکوں کی پاک ارواح سے متحد کر لو۔ (ارواحِ حیوانیہ کا تو یہ حال ہے کہ:)

47

صد چراغت ار مرند ار بیستند

باش فارغ چوں یگانہ نیستند

ترجمہ: تمہارے (آس پاس) کے سو چراغ خواہ بجھے ہوئے ہوں یا قائم (و روشن) ہوں۔ تم (ان کی طرف سے) مطمئن رہو۔ جب کہ وہ آپس میں آشنا نہیں ہیں۔ (یعنی طبائعِ حیوانیہ میں اتّحاد نہیں ہے۔)

48

زاں ہمہ جنگند ایں اصحابِ ما

جنگ کس نشنید اندر انبیاءؑ

ترجمہ: انہی تمام وجوہ سے یہ ہمارے یار لوگ ہاتھا پائی کرتے رہتے ہیں (مگر) انبیاء علیہم السّلام میں کسی نے لڑائی ہوتی نہیں سنی۔

مطلب: ذی ارواحِ حیوانیہ کی باہمی جنگ کی وجہ یہ ہے کہ انکی مقتضیات مختلف ہیں۔ فوائد و منافع کو ہر شخص اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے۔ اس تخالف و تجاذب سے جنگ تک نوبت پہنچتی ہے۔ اتّحادِ ارواح کا انکو علم نہیں، تاکہ حقیقتِ واقعہ کے معلوم ہو جانے سے جنگ اٹھ جاتی۔ اس لئے انبیاء علیہم السّلام میں تخالف نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے مصدّق ہیں، کیونکہ سب کی حقیقتِ روح متّحد ہے، اور انبیاء علیہم السّلام کو اس اتّحاد کا علم ہے، اور جانتے ہیں کہ جو کچھ پہنچا ہے یا پہنچ رہا ہے، وہ اسی فیّاضِ مطلق کی طرف سے ہے، جو اسکی مشیّت کے مطابق معیّن ہو چکا ہے۔ (بحر) چنانچہ مولانا رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں:

49

زانکہ نورِ انبیاءؑ خورشید بود

نورِ حسِّ ما چراغ شمع و دود

ترجمہ: کیونکہ انبیاء علیہم السّلام کا نور خورشیدِ (وحدت) ہے۔ (جو ہمیشہ ہر وقت یکساں ہے، بخلاف اسکے) ہمارے حواسِ (حیوانیہ) کا نور، شمع اور دھوئیں کا چراغ ہے۔ (جسکی حالت یکساں نہیں۔)

50

یک بمیرد یک بماند تا بروز

یک بود پا مژده دیگر با فروز

ترجمہ: ایک (پہلی رات ہی) بجھ جاتا ہے۔ ایک (گھر والوں کی غفلت سے) دن (چڑھے) تک (جلتا رہتا ہے) ایک تیل کی کمی سے (ٹمٹما رہا ہے، دوسرا خوب) روشن ہے۔

مطلب: اس اختلافِ احوال کی بناء پر دنیا میں سلسلۂ جنگ جاری ہے، اور طاقتور مچھلیاں کمزور مچھلیوں کو لقمہ کر جانے پر آمادہ رہتی ہیں، اور اسی لئے فرنگ شیدائے جنگ کا قول ہے کہ کمزور کو دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ آگے روحِ حیوانی کے اختلاف کی ایک دلیل ارشاد ہے:

51

جانِ حیوانی بود حیّ از غذے

ہم بمیرد او بہر نیک و بدے

ترجمہ: روحِ حیوانی غذا سے زندہ رہتی ہے۔ (اور) وہ ہر اچھی بری حالت سے (متاثر ہو کر) مر بھی جاتی ہے۔ (یعنی بدن سے نکل جاتی ہے، اور اسکا یہ حال دوسری روح پر اثر نہیں کرتا، چنانچہ:)

52

گر بمیرد ایں چراغ و طے شود

خانۂ ہمسایہ مظلم کے شود

ترجمہ: اگر یہ چراغ بجھ جائے اور اسکا فیصلہ ہو جائے۔ تو پڑوسی کا گھر اس سے تاریک کب ہوگا؟

53

نورِ آں خانہ چو بے ایں ہم بپاست

پس چراغِ حسِّ ہر خانہ جداست

ترجمہ: جب کہ اس گھر کی روشنی اس (بجھنے والے چراغ) کے بغیر بھی قائم ہے۔ (پس ثابت ہوا کہ) ہر خانۂ (جسم) کا چراغ، روح جدا ہے۔

54

ایں مثالِ جانِ حیوانی بود

نے مثالِ جانِ ربّانی بود

ترجمہ: یہ مثال روحِ حیوانی کی ہے۔ نہ کہ روحِ (انسانی یعنی لطیفۂ) ربّانی کی۔ (نور ربّانی کی مثال تو یہ ہے:)

55

باز از ہندوے شب چوں ماه زاد

در سرِ ہر روزنے نورے فتاد

ترجمہ: پھر جب کالی رات سے چاند نکلا۔ تو ہر روشندان پر (الگ) نور پھیل گیا۔

56

نورِ آں صد خانہ را تو یک شمر

کہ نماند نورِ آں بے ایں دگر

ترجمہ: ان سو گھروں کے نور کو تم ایک سمجھو۔ کیونکہ اس (ایک گھر) کا نور اس دوسرے کے (نور کے) بغیر نہیں رہتا۔ (اسکی وجہ یہ کہ اس ایک گھرکا نور، جبھی زائل ہو گا جب چاند چُھپ جاوے گا، پھر کسی گھر کا بھی نور نہ ہو گا۔)

57

تا بود خورشیدِ تاباں بر افق

ہست در ہر خانہ نور او قُنُق

ترجمہ: جب تک آفتاب کنارۂ آسماں پر درخشاں ہے۔ ہر گھر میں اسکا نور مہمان (کی طرح حاضر )ہے۔ (اسی طرح ایک کامل مکمل کا فیض تمام طالبانِ فیض کے قلوب پر پہنچتا ہے۔)

58

باز چوں خورشیدِ جاں آفل شود

نورِ جملہ جانہا زائل شود

ترجمہ: پھر جب روحانی آفتاب چھپ جاتا ہے۔ تو تمام ارواح کی روشنی بجھ جاتی ہے۔

مطلب: آفتاب کے چھپ جانے سے، یا تو اس کامل مکمل کی وفات مراد ہے کہ جو فیضان اسکی زندگی میں تھا، وہ نہ رہا۔ اگرچہ بزرگوں کا فیض بعد وفات بھی پہنچتا ہے، مگر وہ خاص نوعیّت کا ہوتا ہے، اور اسکا دائرہ خواص تک محدود رہتا ہے۔ پس مطلب یہ ہو گا کہ عام لوگوں کے لئے جو ہمہ گیری اور وسیع فیض جاری تھا بند ہو گیا، اس سے اس بزرگ کی توجّہات مراد ہیں کہ جب تک اسکی توجّہ رہتی ہے فیض پہنچتا ہے، اور جب توجّہ کے آفتاب پر بے توجّہی کا ابر چھایا، تو ادھر وہ روشنی زائل ہوئی۔

59

ایں مثالِ نور آمد مثلِ نے

مر ترا ہادی عدو را رہزنے

ترجمہ: یہ نور کی مثال ہے، مِثل نہیں ہے۔ تمہارے لئے (جو مدّعائے مثال کو سمجھتے ہو۔) باعثِ ہدایت ہے (اور) مخالف کے لئے (جسکے دل پر سینکڑوں شبہات وارد ہوں گے) وہ (ضرر رساں) رہزن ہے۔

60

بر مثالِ عنکبوت آں زشت خو

پردہائے گنده را بر بافد او

ترجمہ: وہ بد خُو (مخالف) مکڑی کی طرح (اپنے اعتراضات و شبہات کے) گندے جالے بنتا ہے۔

61

از لعابِ خویش پرده نور کرد

ديدۂ ادراکِ خود را کور کرد

ترجمہ: (مکڑی کی طرح) اس نے اپنے لعاب سے (ان) نورِ (معارف) پر پردہ ڈال دیا۔ (یہ پردہ دوسروں کے لئے مانع ادراک نہیں کہ) اس نے خود اپنے ادراک کی آنکھ کو اندھا کر لیا(یعنی یہ پردہ خود اسی کے لئے ادراکِ معارف سے مانع ہے دوسروں کے لئے نہیں۔)

62

گردنِ اسپ ار بگیرد برخورد

ور بگیرد پاش بستاند لکد

ترجمہ: اگر گھوڑے کی گردن پر (پیار سے) ہاتھ رکھے تو (اسکی سواری سے) فائدہ اٹھائے۔ اور اگر (اسے پچھاڑنے کے لئے) اسکے پاؤں پکڑنے لگے تو دولتّے کھائے گا۔

مطلب: معرفت کی باتوں کو حُسنِ اعتقاد سے سُنے تو ان سے بہرہ مند ہو جائے گا۔ اگر انکو اعتراض کی نگاہ سے دیکھے گا، تو مردود ہو جائے گا، یوں کہو کہ حقائق و معارف کو اگر سیدھی طرح سمجھنا چاہے، تو بخوبی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ اگر الٹی نظر سے دیکھے گا تو ایمان کا خطرہ ہے۔

63

کم نشین بر اسپ توسن بے لگام

عقل و دیں را پیشوا کن اے غلام

ترجمہ: اے (نا تجربہ کار) لڑکے! سرکش گھوڑے پر لگام ( دیئے) بغیر سوار نہ ہو۔ عقل اور دین کو پیشوا بنا لے۔

مطلب: معارف و حقائق کی مشکل باتوں میں خوامخواہ نہ پڑو۔ کسی اصول کے ساتھ ان میں گفتگو کر سکتے ہو، اور ان باتوں کو عقل و دین کی رہنمائی سے سمجھنے کی کوشش کرو۔ عام شارحین نے ان دونوں شعروں کا مطلب یوں لکھا ہے کہ اگر وہ معترض اپنے نفس کی گردن پکڑ کر اسے مغلوب کر لے، تو اسکی سواری سے فائدہ اٹھائے گا، اور اگر اسکے پاؤں پڑنے لگے تو الٹا اس سے نقصان اٹھائے۔ اے نادان لڑکے نفس کے سرکش گھوڑے پر تقویٰ کی لگام دیے بغیر سوار نہ ہو۔ عقل و دین کو پیشوا بنا لے۔یہ مطلب بھی درست ہو سکتا ہے، مگر ہمارے اختیار کردہ ترجمہ کا ما سبق کے ساتھ ربط زیادہ موزوں ہے۔ اگرچہگردن گرفتن و پاگرفتنکے ترجمہ میں ذرا تکلّف سے کام لینا پڑا، اور ایسے تکلّفات مثنوی میں بہت کرنے پڑتے ہیں۔

64

اندریں آہنگ مگر سست و پست

کاندریں رہ صبر و شقِّ اَنْفس ست

ترجمہ: (اے معترض نا تجربہ کار!) اس طریقۂ (سلوک) کو سرسری نظر سے نہ دیکھ۔ (کہ اسکے متعلق جو کچھ جی میں آتا ہے تو بک دیتا ہے) کیونکہ اس راستے میں (بڑے) صبر اور جان جوکھوں (کا کام) ہے۔

نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ہم سنگ دریں رہ ست ہم چاہ

میدار ز ہر دو چشم کوتاہ

ستیز کہ شحنہ در کمین ست

زنجیر مبر کہ آہنین ست

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

نماز در خمِ آں ابروانِ محرابی

کسے کند کہ بخونِ جگر طہارت کرد

65

باز گرد و قصۂ مسجد بگو

با سلیمانؑ نبیِ نیک خو

ترجمہ: (اب) واپس چلو اور مسجدِ اقصیٰ کا قصّہ (جو) حضرت سلیمان علیہ السّلام نیک خُو پیغمبر کے ساتھ (واقع ہوا) بیان کرو۔