دفتر چہارم: حکایت: 17
قصۂ مسجدِ اقصٰی و خروب رستن، و عزم کردنِ داؤد علیہ السّلام پیش از سلیمان علیہ السّلام بنائے آں مسجد را
مسجد اقصٰی اور اس میں خروب کی گھاس اُگنے کا قصّہ اور حضرت داؤد علیہ السّلام کا حضرت سلیمان علیہ السّلام سے پہلے اس مسجد کی تعمیر کا قصد کرنا
1
چوں در آمد عزمِ داؤدی تنگ
کہ بسازد مسجدِ اقصٰی بہ سنگ
ترجمہ: جب حضرت داؤد علیہ السّلام کا مصمّم ارادہ ہو گیا کہ مسجدِ اقصٰی پتھر سے تعمیر کریں۔
2
وحی کردش حق کہ ترکِ ایں بخواں
کہ ز دستت بر نیاید ایں مکاں
ترجمہ: تو حق تعالٰی نے انکو وحی بھیجی کہ اس (ارادہ) کو ترک کردو۔ کیونکہ تمہارے ہاتھ سے یہ عمارت تیار نہ ہو گی۔
3
نیست در تقدير ما آنکہ تو ایں
مسجِد اقصٰی براری اے گزیں
ترجمہ: اے برگزیدہ (رسول) یہ ہماری تقدیر میں نہیں ہے۔ کہ تو مسجِد اقصٰی کو تیار کرے۔
4
گفت جرمم چیست اے دانائے راز
کہ مرا گوئی کہ مسجد را مساز
ترجمہ:عرض کیا کہ اے بھیدوں کے جاننے والے! مجھ سے کیا قصور ہو گیا۔ کہ مجھے تو یہ حکم دیتا ہے کہ مسجد تعمیر نہ کر۔
5
گفت بے جرمے تو خونہا کردۂ
خونِ مظلوماں بگردن بردۂ
ترجمہ: فرمایا تو نے بے گناہ خون کئے ہیں۔ مظلوموں کے خون (اپنی) گردن پر اٹھائے ہیں۔ (یہ محبت کی باتیں ہیں، ورنہ کہاں ایک پیغمبر اور کہاں خون ناحق؟ اور اس سلسلۂ کلام کی تحریک سے ان اسرار کا افادہ مقصود ہے جو آگے آتے ہیں۔ اب سنیے کہ اس خونِ ناحق کی حقیقت کیا تھی:)
6
کہ ز آوازِ تو خلقِ بے شمار
جاں بدادند و شدند آں را شکار
ترجمہ: کہ تیری (دلگداز) آواز (لحنِ داؤدی) سے بے شمار لوگ مر گئے، اور اسکا شکار ہو گئے۔
7
خوں بسے رفت ست بر آوازِ تو
بر صدائے خوبِ جاں پردازِ تو
ترجمہ: تیری (دل گداز) آواز، (اور) تیری عمدہ اور جان نکال لینے والی صدا سے، بہت خون ہو گئے۔
8
گفت مغلوبِ تو بودم مستِ تو
دستِ من بر بستہ بود از دستِ تو
ترجمہ: عرض کیا (الہٰی) میں (اس وقت تیرے عشق سے) تیرا مغلوب (اور) تیرا مست ہوتا تھا۔ (اور) میرے ہاتھ تیرے دست قدرت سے بندھے ہوئے تھے۔ (اس لئے مجھ سے یہ ناحق خون ہو جاتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السّلام جب حق تعالٰی کی محبت کے ذوق میں بلند آواز سے زبور پڑھتے، تو طیور و حشرات الارض اسکے سننے کے لئے دیوانہ وار دوڑتے آتے، اور سامعین میں بہت سے لوگ شدّتِ اثر سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے۔)
9
نے کہ ہر مغلوبِ شہ مرحوم بود
نے کہ اَلْمَغلُوْبُ کَالْمَعْدُوْم بود
ترجمہ: کیا وه شخص قابل رحم (و عفو) نہیں ہے جو بادشاہِ حقیقی کے (جلوۂ جلال کے) آگے مغلوب ہو (رہا ہو) کیا (ایسا) مغلوب، معدوم (و لاشے) سمجھے جانے کے قابل نہیں؟
10
گفت اے مغلوب معدومیت کو
جز بہ نسبت نیست معدوم اَنْصِتُوْا
ترجمہ: (حق تعالٰی نے) فرمایا اے (عشق و مستی کے) مغلوب! تو معدوم کہاں ہے؟ معدوم تو نسبت ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ (اسکو) خاموش رہ کر (سن لو اور سمجھ لو۔)
مطلب: جذبۂ حق کے مغلوبِ حق کی طرف منسوب کرنے سے تو بے شک معدوم الوجود اور مسلوب الاختیار ہے، لیکن وہ مطلقاً معدوم نہیں۔ چنانچہ خلق کی طرف اسکی نسبت ہو تو پھر وہ معدوم نہیں، بلکہ موجود اور ذی اختیار ہے۔ پس تم مخلوق مقتول کے معاملے میں اپنے آپکو معدوم کیونکر ٹھہراتے ہو؟
11
ایں چنیں معدوم کو از خویش رفت
بہترین ہستہا افتاد زفت
ترجمہ: (علاوہ ازیں) ایسا معدوم جو (عشق ومحبت میں) اپنی ہستی سے معدوم ہوا ہو۔ تمام موجودات سے افضل و اعلٰی واقع ہوا ہے (کیونکہ وہ معدومِ محض نہیں بلکہ اسکو صرف اپنی ہستی کا وجدان نہیں۔ پس وہ اپنی ہستی سے معدوم اور اللہ کے ساتھ موجود ہے۔)
12
او بہ نسبت با حیاتِ حق فناست
درحقيقت در فنا او را بقا ست
ترجمہ: وہ حق تعالٰی کی حیات کے ساتھ منسوب ہو کر فانی (معدوم) ہے۔ (مگر) حقیقت میں اسکو (اسی) فنا کے اندر بقائے (دوام حاصل) ہے۔ (پس اسکی بقاء تو تمام موجودات کی بقا سے افضل ہے۔ پھر وہ معدوم کیسا؟)
13
جملہ ارواح در تدبيرِ اوست
جملہ اشباح در تاثیرِ اوست
ترجمہ: تمام ارواح اس (فنا فی اللّٰہ وبقاء باللّٰہ) کی تدبیر (و تصرّف) میں ہیں۔ (کیونکہ وہ حق تعالٰی کا مراٰۃ و مظہر ہے، اور) تمام اجسام اسکے زیرِ اثر ہیں (کیونکہ وہ خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہیں۔)
14
آنکہ او مغلوب اندر لطفِ ماست
نیست مضطر بلکہ مختاِر وِلاست
ترجمہ: جو (بنده) ہماری مہربانی میں مغلوب ہے، وہ بے اختیار نہیں۔ بلکہ (ہمارا) محبوب ہونے کی وجہ سے با اختیار ہے۔
15
منتہائے اختیار آنست خود
کاختیارش گردد ایں جا مفتقد
ترجمہ: (بندہ کے) اختيار کا (معراجِ) کمال تو یہی ہے۔ کہ اسکا اختیار یہاں (ہماری درگاه میں) معدوم ہو جائے۔
مطلب: تاکہ وہ بندہ حق تعالٰی کا آلۂ عمل بن جائے جو قربِ فرائض کا ذریعہ ہے۔ (قربِ فرائض کی مفصّل شرح، مفتاح العلوم کی پہلی جلد میں سپردِ قلم ہو چکی ہے۔ جیسے الله تعالٰی نے فرمایا: ﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى﴾ (الانفال: 17) چنانچہ یہاں رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا اختیار الله تعالٰی کے اختیار میں محو ہو گیا، اور آپ میں اللہ تعالٰی کا اختیار ظہور پذیر ہو گیا۔ اسی لئے الله تعالٰی نے آپ سے ”رمی“ کی نفی کر کے خود اپنے لئے ثابت فرمائی کیونکہ اس وقت آپ حق تعالٰی کے آلۂ عمل تھے۔ پس اس سے زیادہ مؤثر و کارگر اور پُر لذّت اختیار اور کونسا ہوسکتا ہے؟
16
اختیارش گر نبودے چاشنی
کے بگشتے آخر او محو از منی
ترجمہ: اگر اس (فنا فی الله و بقاء باللہ) کا اختیار پُر لذّت نہ ہوتا تو آخر وہ اپنی ہستی سے محو کیوں ہوتا (اور اپنے آپ کو حق تعالیٰ کا آلۂ عمل کیوں بناتا۔)
17
در جہاں گر لقمہ و گر شربت است
لذّتِ او فرعِ محوِ لذّت است
ترجمہ: دنیا میں اگر کوئی (پُر لذّت) لقمہ اور (خوشگوار) گھونٹ ہے۔ تو اسکی لذّت (اختیار کی) لذّت کو مٹا دینے کی شاخ ہے۔
مطلب: خود مختاری کو مٹا کر مختار باختیار اللّٰہ بن جانے میں جو لذّت ہے۔ دنیا کی کوئی لذّت اس سے میل نہیں کھا سکتی۔ کَمَا قِیْلَ ؎
نہ بوئے گل نہ رنگ لالہ از جامے برد ما را
بگُلشن لذّتِ ترکِ تماشا مے برد ما را
18
گرچہ از لذّات بے تاثیر شد
لذّتے بود او و لذّت گیر شد
ترجمہ: اگرچہ وہ (مختار باختیار اللّٰہ) لذّات (دنیویہ) سے خالی ہو گیا۔ (مگر یہ ترکِ لذّت بھی) ایک لذّت تھی اور (اس سے) وہ لذّت گیر ہوا۔
19
ہر کہ او مغلوب شد مرحوم گشت
در بحارِ رحمتش معدوم گشت
ترجمہ: جو شخص (صفاتِ حق میں) مغلوب (ومحو) ہو گیا۔ وہ جوارِ رحمت میں پہنچ گیا اسکی رحمت کے سمندوں میں گھل مل گیا۔
20
نے چناں معدوم کز اہلِ وجود
ہیچ بر وے چربد اندر گاہِ جود
ترجمہ: ایسا معدوم (اور بے کس اور بے بس) نہیں کہ موجودات میں سے (کوئی ہستی) افاضہ (خیر و برکت) کے وقت اس پر غالب آجائے (بلکہ وہ سب پر غالب ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:)
21
بلکہ والی گشت موجودات را
بے گمان و بے نفاق و بے ریا
ترجمہ: بلکہ وہ (تمام) موجودات کا حاکم بن گیا۔ (اس میں) شک نہیں نہ بناوٹ ہے نہ دکھاوا۔
22
بے مثال و بے نشان و بے مکان
بے زمان و بے چنین و بے چنان
نہ (اسکی) مثال ہے، نہ نشان ہے، نہ جگہ ہے، نہ وقت، نہ ایسا، نہ ویسا۔
23
بے شکال اندر سوال و در جواب
دم مزن وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ
ترجمہ: نہ (اس نکتے کے سمجھنے میں کوئی) رکاوٹ ہے۔ (اب زیادہ) سوال و جواب پر لب کشائی نہ کرو، اور اللّٰہ بہتر جانتا ہے۔
مطلب: خلاصہ یہ کہ حق تعالٰی نے فرمایا کہ اے داؤد! تم بیتُ المقدس کو تعمیر نہیں کر سکتے کیونکہ تم نے بہت سے خون ناحق کئے ہیں۔ عرض کیا، وہ خون میں نے دانستہ نہیں کئے بلکہ میں اس وقت معدوم تھا۔ فرمایا نہیں، ایسا معدوم تو تمام موجودات سے بہتر موجود ہوتا ہے۔ یہ مکالمہ بظاہر بہ سبیل مجاز مطالبہ معلوم ہوتا ہے، مگر مولانا بحرالعلوم کی تقریر سے ظاہر ہے کہ یہ سارا معاملہ محمول بہ حقیقت ہے۔ انکی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السّلام نے یہ سوال کیا ”جرمم چیست اے دانائے راز“ تو بطورِ کسرِ نفسی اپنے آپکو جرم کے ساتھ منسوب کیا ورنہ آپ معصوم ہیں، اور پھر حق تعالٰی کا قول جو منقول ہے کہ ”بے جرمے خونہا کردۂ“ یہاں جرم کا اطلاق بطريقۂ مشاکلہ ہے، اور حضرت داؤد علیہ السّلام کو جو خون ناحق کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے تو اسکا راز یہ ہے کہ ہلاکِ خلق فی حدّ ذاتہٖ مبغوض ہے اگرچہ مباح ہو، جیسے کہ طلاق اگرچہ مباح هے، لیکن ابغض المباحات ہے، ورنہ حقیقت و واقع میں یہاں ظلم نہ تھا کہ مخلوق کو مظلوم کہا جا سکے؟ اور نہ اسکا گناه حضرت داؤد علیہ السّلام کی گردن پر ہوسکتا ہے، کیونکہ بلاشبہ وہ معصوم ہیں۔ خصوص الحکم کی فصل یونسی میں مذکور ہے کہ شفقت بر خلق اللّٰہ کو غیرت برائے اللہ سے زیادہ قابل رعایت سمجھا گیا۔ حضرت داؤد علیہ السّلام نے بیتُ المقدس کی تعمیر کا ارادہ کیا، مگر جب اسکی تعمیر سے فارغ ہوئے تو وہ منہدم ہو گیا۔ اسی طرح کئی بار اسکو تعمیر کیا، ہر بار منہدم ہو جاتا تو خداوند تعالٰی کی جناب میں اسکی شکایت کی۔ وحی آئی کہ اس مکان کی تعمیر اس شخص کے ہاتھ سے تکمیل پاکر قائم نہیں رہ سکتی جس نے خون ریزیاں کی ہوں۔ عرض کیا کہ الہٰی کیا یہ خون ریزیاں تیری راہ میں نہیں ہوئیں۔ فرمایا ہاں میری راہ میں ہی ہوئیں، یعنی وہ جرم نہ تھیں بلکہ موجب ثواب تھیں۔ اس حکایت کے ایراد سے مدّعا یہ ہے کہ نشاء انسانیہ کی رعایت و اقامت اسکے هدم سے اولٰی ہے۔ (انتہی المنقول الفصوص) اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور قصاص میں خونریزی اگرچہ ادائے فرض ہے، لیکن اللہ تعالٰی کے نزدیک انسان پر شفقت اور نشاء انسانیہ کی حفاظت اہم ہے، اور هدم نشاء انسانیہ تعمیرِ بیت اللہ کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے جمہور حنفیہ کے نزدیک جہاد حسن بنفسہٖ نہیں، بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے حسن ہے۔ مولانا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے اہلاکِ مخلوقِ غیر انسان، انہدامِ بیت کا باعث تھی۔ یہ خصوص کے بیان سے منافی نہیں جس میں نشاء انسانیہ کو اسکے هدم کا باعث ٹھہرایا ہے۔ شاید دونوں سبب مؤثر ہوں لیکن هدمِ نشاء انسانیہ قوی ہے، کیونکہ انسان بھی بیت اللّٰہ ہے۔ (انتہیٰ کلام بحر العلوم)