دفتر 4 حکایت 16: ایک یہودی کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا کہ اگر تم اللہ تعالٰی کی حفاظت پر اعتماد رکھتے ہو، تو اپنے آپ کو اس محل پر سے گرا دو، اور آپ کا اسکو جواب دینا

دفتر چہارم: حکایت: 16

گفتنِ جہودے حضرت علی رضی اللہ عنہ را کہ اگر اعتماد بر حفظِ اللہ تعالٰی داری، از سرِ ایں کوشک خود را بینداز، و جوابِ آنحضرت او را

ایک یہودی کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا کہ اگر تم اللہ تعالٰی کی حفاظت پر اعتماد رکھتے ہو، تو اپنے آپ کو اس محل پر سے گرا دو، اور آپ کا اسکو جواب دینا

1

مرتضے را گفت روزے یک عنود

کو ز تعظیمِ خدا آگاه نبود

ترجمہ: حضرت المرتضی کرم اللہ وجہہ کو ایک دن ایک سرکش آدمی نے، جو کہ اللہ تعالٰی کی تعظیم سے واقف نہ تھا، کہا۔

2

بر سرِ بامے و قصرِ بس بلند

حفظِ حق را واقفی اے ہوشمند

ترجمہ: (کہ) اے ہوش مند! کیا تم کو (یہ) واقفیت ہے کہ اللّٰه تعالٰی (اس شخص کی جو) ایک محل اور نہایت بلند عمارت پر (چڑھے) حفاظت کرتا ہے۔

3

گفت آرے او حفیظ ست و غنی

ہستیِ ما را ز طفلی و منی

ترجمہ: انہوں نے فرمایا، وہ ہماری ہستی کا بچپن اور نطفہ سے لے کر نگہبان ہے، اور (اپنی نگہبانی کے امتحان سے) غنی ہے۔

4

گفت خود را اندر افگن ہیں ز بام

اعتمادے کن بحفظِ حق تمام

ترجمہ: وہ بولا، اچھا تو پھر اپنے آپکو محل پر سے گرا دو۔ حق تعالٰی کی حفاظت پر پورا اعتماد کرو۔

5

تا یقین گردد مرا ایقانِ تو

و اعتمادِ خوب با برہانِ تو

ترجمہ: تاکہ مجھے تمہارے یقین، اور تمہارے مدلّل اعتقاد پر یقین آ جائے۔

6

پس امیرش گفت خامش کن برو

تا نگردد جانت زیں جرأت گرو

ترجمہ: تو امیر نے اسکو کہا، چپ رہ (اور) دفع ہو، تاکہ کہیں تیری جان اس گستاخی سے (کسی) ابتلاء میں نہ پڑجائے۔

7

کے رسد مر بنده را کو با خدا

آزمائش پیش آرد ز ابتلاء

ترجمہ: بندہ کو کب یہ حق حاصل ہے۔ کہ خداوند تعالٰی کو کسی امتحان سے آزمانے لگے؟

8

بنده را کے زہره باشد کز فضول

امتحانِ حق کند اے گیج گول

ترجمہ: اے گنده مغز، بے وقوف، بنده کو یہ تاب کہاں ہے۔ کہ بیہودہ طور سے حق تعالٰی کا امتحان کرے۔

9

آں خدا را میرسد کو امتحان

پیش آرد ہر دمے با بندگان

ترجمہ: (ہاں) اس خداوند تعالٰی کو یہ حق ہے۔ کہ بندوں کا ہر وقت امتحان کرے۔

10

تا بما ما را نماید آشکار

کہ چہ داریم از عقیدہ در سرار

ترجمہ: تاکہ ہماری حالت علانیہ دکھا دے۔ کہ ہم اپنے دل میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں۔

مطلب: انسان پر جو مصائب نازل ہوتے ہیں تو یہ غیبی امتحان ہیں۔ ان سے بندہ کی باطنی حالت کا ظہور ہو جاتا ہے۔ صالح بندے صبر و شکر کرتے ہیں، اور بیش از پیش راجع بحق ہو جاتے ہیں۔ اور خبیث الطبع لوگ بے صبری و نا شکری کے کلمات منہ سے نکالنے لگتے ہیں، اور حق تعالٰی سے مایوس ہو کر کفر پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

؎ مصیبت پے بہ پے اولادِ آدم پر جو آتی ہے

کسی کو نیک اعمال اور کسی کو شر سکھاتی ہے

اثر ہو مختلف انسان پہ جیسے تلخ دارو کا

کسی میں جان پڑتی ہے کسی کی جان جاتی ہے

11

ہیچ آدمؑ گفت حق را کہ ترا

امتحان کردم در ایں جرم و خطا

ترجمہ: کیا حضرت آدم علیہ السّلام نے کبھی حق تعالٰی کی جناب میں یہ عرض کیا؟ کہ اس جرم و خطا سے میں نے تیرا امتحان کرنا چاہا تھا۔

12

تا بہ بينم غایتِ حکمت شہا

وہ کرا باشد مجالِ ایں کرا

ترجمہ: تاکہ اے شہنشاہ (حقیقی!) میں تیرے علم کی انتہاء دیکھوں۔ ہاں، یہ کس کی مجال ہے؟ (کہ یوں کہے پھر تجھے ایسا کہنے کی جرأت کیوں ہوئی؟)

13

عقلِ تو از بسکہ آمد خیره سر

ہست عذرت از گناہِ تو بتر

ترجمہ: چونکہ تیری عقل بڑی بیہودہ واقع ہوئی ہے۔ (اس لئے) تیرا عذر تیرے گناہ سے بدتر ہے۔

انتباه: اوپر کے یہ تینوں شعر معشوقہ کی طرف سے عاشق کو خطاب معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ عاشق ہی نے ارتکابِ خطا کے بعد اسکو امتحان قرار دینا چاہا، اور اسی کا یہ عذر بدتر از گناہ کہلا سکتا ہے۔ یہودی کے متعلق یہ باتیں صادق نہیں آتیں، مگر اگلا شعر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کا جزء معلوم ہوتا ہے، جو یہودی سے مخاطب ہیں۔ شاید مولانا سے غلبہِ حال میں مختلف اقوال مخلوط ہو گئے۔

14

آنکہ او افراشت سقفِ آسماں

تو چہ دانی کرد او را امتحان

ترجمہ: جس (ذاتِ عالی صفات) نے آسمان کی چھت بلند کی ہے۔ (اے یہودی!) تو اسکا امتحان کیا کر سکتا ہے؟ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

15

اے ندانستہ تو شر و خیر را

امتحان خُود را کن آنگہ غیر را

ترجمہ: ارے تجھے جو برائی بھلائی کی خبر تک نہیں، پہلے اپنا امتحان کر پھر دوسرے کا۔

16

امتحانِ خود چو کردی اے فلاں

فارغ آئی ز امتحانِ دیگراں

ترجمہ: اے شخص اگر تو اپنا امتحان کر لے۔ (اور اپنے باطنی عیوب و نقائص کا تجھے پتہ لگ جائے) تو (انکی صلاح میں) تو دوسرے لوگوں کے امتحان سے فارغ رہے گا۔ (حدیث میں ہے: ”طُوْبٰیْ لِمَنْ شَغَلَہُ عَیْبُہٗ عَنْ عُیُوْبِ النَّاسِ“ (مسند البزار) ”مبارک ہے وہ شخص جسکو خود اپنے عیوب لوگوں کے عیوب کی طرف سے غیر متوجہ کر دیں۔“)

17

چوں بدانستی کہ شکّر دانۂ

پس بدانی کاہلِ شکّر خانۂ

ترجمہ: جب (اپنے امتحان سے) تجھ کو معلوم ہو گیا کہ تو (اپنی فطرت پاک کے لحاظ سے بمنزلہ) شکر پارہ ہے۔ تو پھر یقین رکھ کہ تو شکرستان (جنت میں داخل ہونے) کے لائق ہے۔ (﴿وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْـهَـوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِىَ الْمَاْوٰى(النازعات: 41-40) لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا، اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا۔ تو جنت ہی اسکا ٹھکانا ہوگی۔)

18

پس بداں بے امتحانے کہ اِلٰہ

شکّرے نفرستدت ناجائگانہ

ترجمہ: پس یاد رکھ کہ اللہ تعالٰی امتحان کے بغیر، تجھے بے محل (انعام کی) شکر نہیں بھیجے گا۔ (جب بندہ امتحان کے بعد قابلِ انعام ثابت ہوتا ہے تو پھر انعام پاتا ہے۔)

19

ایں بداں بے امتحان از علمِ شاه

چوں سری نفرستدت تا پائیگاه

ترجمہ: یہ (بھی) یاد رکھ کہ جب تو سردار (اور قابلِ عزت) ہے تو وہ شہنشاہ (حقیقی اپنے) علم کی رو سے امتحان کے بدوں تجھے جوتیوں کی جگہ میں نہیں بھیجے گا۔ (جب کسی با عزت آدمی کے سا تھ تقدیر سے یہ سلوک ہوتا ہے، تو ضرور حق تعالٰی نے اپنے علم میں امتحان کر کے ایسا مناسب سمجھا۔)

20

ہیچ عاقل افگند دُرِّ ثمین

درمیانِ مستراحِ پُر چمیں

ترجمہ: کیا کوئی عقل مند، ایک قیمتی موتی کو نجاست سے بھرے ہوئے بیت الخلاء میں ڈالتا ہے؟ (نہیں ہرگز نہیں۔ پس کسی پاک فطرت اور مستحقِ جنّت کو بھی دوزخ میں نہیں بھیجا جاتا۔)

21

زانکہ گندم را حکیمِ آگہے

ہیچ نفرستد بانبارِ کہے

ترجمہ: کیونکہ ایک با خبر حکیم، گیہوں کو بھوسے کے ڈھیر میں (ڈال دینے کے لئے) نہیں بھیجتا۔

انتباہ: اوپر سے یہ مضمون آرہا ہے کہ اپنے سے کسی بڑی ہستی کو آزمانا سوئے ادب ہے۔ آگے اس سے مولانا یہ سبق دیتے ہیں کہ اسی طرح مرید کا مرشد کو آزمانا سخت بے ادبی ہے، اور مرید کے سخت نقصان کا باعث ہے، اور اس سے اسکی ترقی کے رک جانے بلکہ کیفیّتِ حاصلہ کے سلب ہو جانے کا اندیشہ ہے، کیونکہ یہ بات اِدھر مرید کے سُوءِ اعتقاد سے ناشی ہوا کرتی ہے، اور سُوءِ اعتقاد سے مرید میں طلب و جلب کی صلاحیّت منتفی ہوجاتی ہے، اور اُدھر پیر کے تکدّرِ طبع کی باعث ہے، اور پیر کے تکدّرِ طبع سے اِفاضۂ برکات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔

22

شیخ را کہ پیشوا و رہبرست

گر مر یدے امتحان کرد او خرست

ترجمہ: شیخ جو پیشوا اور رہبر ہے، اگر کوئی مرید اسکا امتحان کرے، تو (نرا) گدھا ہے۔

23

امتحانش گر کنی در راہِ دیں

ہم تو گردی ممتحَن اے بے یقین

ترجمہ: اگر تو (طریقت میں، مرتبۂ کمال کے متعلق) اسکا امتحان کرے گا۔ تو اے بے اعتقاد! تو بھی شریعت میں (سلامتی کے ایمان کے متعلق) آزمائش میں پڑ جائے گا۔

مطلب: تو اسکے انتہائی کمالات کا سراغ لگانے کی گستاخی کرتا ہے، تو اسکی پاداش میں اپنی ابتدائی پونجی بھی کھو بیٹھتا ہے۔ شارحین نے در راہِ دینکو کنیسے متعلق کہا ہے، مگر ہم نے دوسرے مصرعہ کے فعل گردیکے متعلق کرنا زیادہ موزوں سمجھا۔ فَافْہَمْ۔

24

جرأت و جہلت شود عریان و فاش

او برہنہ کے شود زیں اقتباس

ترجمہ: (اس سے) خود تیری گستاخی اور جہالت بے پردہ اور فاش ہو جائے گی۔ وہ اس تفتیش سے کب رسوا ہوتا ہے؟

25

گر بیاید ذره سنجد کوہ را

بر درد زاں کُہ ترازوش اے فتیٰ

ترجمہ: اگر ایک ذرہ پہاڑ کو وزن کرنے آئے۔ تو اے جوان! اسکی ترازو اس پہاڑ سے پاش پاش ہو جائے گی۔

26

گر قیاسِ خود ترازو مے تند

مردِ حق را در ترازو مے کند

ترجمہ: اگر (مرید) اپنے قیاس کا ترازو قائم کرتا ہے (اور) حق تعالٰی کے (مقبول) بندے کو اس ترازو میں رکھتا ہے۔

27

چوں نگنجد او بمیزانِ خرد

پس ترازوے خرد را بر درد

ترجمہ: (اور اسکے مراتب و احوال کا اندازہ لگاتا ہے) تو چونکہ وه (مردِ کامل اپنے کمالات کے لحاظ سے) میزانِ عقل میں سما نہیں سکتا۔ پس (اسکی) عقل کے ترازو کو پاش پاش کرد یتا ہے۔

28

امتحان ہمچوں تصرف داں درو

تو تصرّف بر چناں شاہے مجو

ترجمہ: (مرید کا) امتحان کرنا، اس میں تصرّف کرنا سمجھو۔ (پس) تم ایسے شاہ (عالی جاہ) پر تصرف (کرنے کی جرأت) نہ کرو۔

29

چوں تصرف کرد خواہد نقشہا

بر چناں نقاش بہرِ ابتلا

ترجمہ: (وہ) نقوش (جنکو نقّاش نے بنایا ہے) ایسے نقاش پر بطور آزمائش کیونکر تصرف کر سکیں گے؟ (پیری کے فیضان سے مرید کو کشف یا وجدان کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ کیا اسی کشف یا وجدان سے وہ پیر کا امتحان لے رہا ہے۔ ہماری بلی ہمیں سے میاؤں؟)

30

امتحانے گر بر دانست و بدید

نے کہ ہم نقاش آں بر وے کشید

ترجمہ: اگر مرید (از روئے کشف و وجدان) امتحان کرنا جانتا ہے (اور کر کے) کے دیکھ چکا ہے۔ تو کیا یہ اسی پیر نے اسکو نہیں سکھایا؟

31

چہ قدر باشد خود ایں صورت کہ بَست

پیش صورتہا کہ در علمِ وے است

ترجمہ: اس نقش کی کیا قدر ہوسکتی ہے۔ ان نقوش کے مقابلے میں جو اسکے علم میں ہیں۔

مطلب: مرید اپنے پیر کے فیضان سے قدرے کشف کی صلاحیت پا کر، اب لگا خود پیر کا امتحان کرنے ”بازی بازی با ریش بابا ہم بازی؟“ حالانکہ پیر کے فیضان سے وہ بھی ایسے کمالات حاصل کرسکتا تھا، جنکے آ گے مرید کے موجودہ کمال کی کچھ بھی حقیقت نہیں، یا اگر بستکا فاعل خداوند تعالٰی کو قرار دیا جائے اور وَےکی ضمیر بھی اسکی طرف راجع تصور کی جائے، تو مطلب یوں ہو سکتا ہے کہ مرید پیر کے کمالات کا اندازہ کیا لگا سکتا ہے؟ حق تعالٰی نے مرید کو اسکے جن کمالات کے ادراک کا موقع بخشا ہے، وہ اسکے ان کمالات کے مقابلے میں سمندر میں سے ایک قطرہ کے برابر بھی نہیں جو حق تعالٰی کے علم میں ہیں۔

32

وسوسہ ایں امتحان چوں آیدت

بختِ بد داں کامد و گردن زدت

ترجمہ: جب اس امتحان کرنے کا وسوسہ تجھے آئے۔ تو سمجھ لے کہ تیری بد نصیبی آ گئی اور تجھے ہلاک کر گئی۔

33

چوں چنیں وسواس دیدی زود زود

باخدا گرد و در آ اندر سجود

ترجمہ: جب ایسا وسوسہ تجھے محسوس ہو تو فوراً بلا تاخیر۔ خدا کی طرف رجوع کر اور سجدے میں گر جا۔

34

سجدہ گہ را تر کن از اشکِ رواں

کاے خدایا وارہانم زیں گماں

ترجمہ: بہتے ہوئے آنسوؤں سے سجدہ کی جگہ کو تر کر دے۔ (اور دعا کر) کہ الٰہی مجھے اس شبہ سے بچا۔

35

آں زماں کت امتحاں مطلوب شد

مسجد دینِ تو پر خروب شد

ترجمہ: جس وقت تجھے (پیر کا) امتحان (لينا) مقصود ہوا تو سمجھ لے کہ) تیری دینداری کی مسجد (ویرانی کی) گھاس سے پُر ہو گئی۔ (یعنی تیرا دین و ایمان خطرہ میں ہے۔ مَعَاذَ الله)

36

ہیں چو وسواس آمدت در امتحاں

باز گردد رُو بحق آر آں زماں

ترجمہ: خبردار! جونہی تجھے امتحان لینے کا وسوسہ آئے۔ تو توبہ کر اور فوراً متوجہ بحق ہو جا۔

37

تانگہ دارد ترا آں ممتحن

از گمان و امتحانِ انس و جن

ترجمہ: تاکہ وہ ممتحنِ (حقیقی) تجھے بد گمانی، اور انس و جن (کے شر) کی ابتلا سے محفوظ رکھے۔

38

اے ضیاء الحق حسّام الدّین بیا

قصۂ داؤد بر گو و بنا

ترجمہ: اے ضیاء الحق حسّام الدّین! آؤ (اب) حضرت داؤد علیہ السّلام اور (مسجدِ اقصٰی کی) تعمیر کا قصہ بیان کرو۔

نوٹ: عاشق و معشوقہ کا قصہ ختم ہوا، اور اسکا خاتمہ معشوقہ کے اس عتاب پر ہوا کہ تو نے کیوں مجھے آزمانا چاہا کہ یہ آدابِ عشق کے خلاف ہے۔ اس مناسبت سے مولانا نے مریدوں کے لئے بھی یہ قابلِ قدر ہدایت فرما دی کہ پیر کی آزمائش کا وسوسہ انکے لئے خطرناک ہے۔ اس سے توبہ کرنی چاہیے۔ خاتمۂ ہدایت پر یہ لفظ آپکی زبان سے نکل گئے کہ ”مسجدِ دینِ تو پر خروب شد“ یہاں ”مسجد“ اور ”خروب“ کے کلموں سے آپ کا ذہن فوراً مسجدِ اقصیٰ کی تعمیر کی طرف منتقل ہوتا ہے، جس میں ”خروب“ کی گھاس اُگ پڑی تھی۔ چنانچہ اب اس قصے کو چھیڑتے ہیں۔