دفتر چہارم: حکایت: 15
رد کردنِ معشوق عذرِ عاشق را و تلبیسِ او را
معشوقہ کا عاشق کے عذر اور اسکے فریب کو رد کرنا
1
در جوابش بر کشاد آں ماه لب
کہ سوئے ما روز و سوئے تست شب
ترجمہ: اسکے جواب میں اس ماه (پیکر) نے لب کشائی کی۔ کہ ہماری طرف (صدق کا) دن، اور تیری طرف (کذب کی) رات ہے۔
2
حیلہ ہائے تیرہ اندر داوری
پیشِ بینایاں چرا می آوری
ترجمہ: تو بے بنیاد بہانے، انصاف کے مقام میں، داناؤں کے سامنے، کیوں پیش کر رہا ہے؟
3
ہرچہ در دل داری از مکر و رموز
پیشِ ما رسوا و پیدا ہمچو روز
ترجمہ: جو کچھ تیرے دل میں مکر اور (مکّارانہ) اشارات ہیں، وہ ہمارے سامنے دن کی طرح، فاش اور ظاہر ہیں۔
4
گر بہ پوشیمش ز بنده پروری
تو چرا بے روئی از حد مے بری
ترجمہ: اگر ہم (تیرے) اس (مکر و فریب) پر چشم پوشی کر رہے ہیں، تو از راہِ بندہ پروری (ایسا کر رہے ہیں) تو بے لحاظی و بے ادبی کو حد سے کیوں بڑھائے جا رہا ہے؟
5
از پدر آموز کآدمؑ در گناه
خوش فرود آمد بسوئے پائگاه
ترجمہ: اپنے باپ آدم علیہ السلام سے (ادب اور اعترافِ تقصیر کا طریقہ) سیکھ، جو گناہ میں (مبتلا ہوتے ہی) بخوشی جوتیوں کی جگہ پر اُتر آئے (یعنی عاجزی و تضرّع کرنے لگے۔)
6
چوں بدید آں عالم الاسرار را
بر دو پا اِستاد استغفار را
ترجمہ: جب انہوں نے اس (خداوند) واقفِ اسرار کو دیکھا (کہ وہ میرے قصور سے بخوبی آگاہ ہے) تو استغفار کے لئے دونوں پیروں پر کھڑے ہو گئے۔
7
بر سرِ خاکسترِ اندوه نشست
وز بہانہ شاخ تا شاخے نجست
ترجمہ: وہ غم کی راکھ پر بیٹھ گئے۔ اور بہانہ کے لئے ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر چھلانگ نہ لگائی (یعنی بہانہ جوئی نہ کی بلکہ سرِ تسلیم خم کر دیا۔)
8
رَبَّنَا اِنَّا ظَلَمْنَاۤ گفت بس
چونکہ جانداراں بدید از پیش و پس
ترجمہ: بس یہی دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے گناہ کیا۔ جبکہ انہوں نے مسلّح سپاہی (یعنی ملائکہ کو) آگے پیچھے دیکھا۔ (حضرت آدم علیہ السلام کا حال اور انکے یہ دعائیہ کلمات، کسی گزشتہ جلد میں گزر چکے ہیں۔)
9
دیدہ جاندارانِ پنہاں ہمچوں جان
دور باشِ ہر یکے تا آسماں
ترجمہ: انہوں نے وہ مسلّح سپاہی دیکھے، جو روح کی طرح مخفی ہیں۔ ہر ایک کا دو شاخہ (نیزه) آسمان تک بلند) تھا۔
10
کہ ہلا پیشِ سلیمانؑ مور باش
تا نہ بشگافد ترا ایں دور باش
ترجمہ: (وہ کہتے تھے) کہ خبردار! شہنشاہِ حقیقی کے آگے چیونٹی (کی طرح عاجز و خاکسار) بن جاؤ۔ تاکہ تم کو یہ دور باش پھاڑ نہ ڈالے۔
11
جز مقامِ راستی یکدم مائیست
ہیچ لالا مرد را چوں چشم نیست
ترجمہ: صدق کے مقام کے سوا (کسی جگہ) دم بھر کے لئے بھی کھڑے نہ ہو۔ (سچی توبہ کرو) آدمی کا خدمتگار (وفادار) آنکھ کے برابر (کوئی) نہیں (جو انجام پر نظر کر کے توبہ پر آمادہ کرتی ہے۔)
12
آدما تو نیستی کور از نظر
لیک اِذَا جَآءَ القَضَاءُ عَمِیَ الْبَصَرْ
ترجمہ: اے آدم تم بینائی سے اندھے نہیں ہو۔ لیکن جب قضا آتی ہے، تو بصارت بیکار ہو جاتی ہے۔ (اسی لئے تم جیسے دانا و بینا سے یہ غلطی کیسے ہوگئی۔)
14
عمرہا باید بنادر گاہ گاہ
تا کہ بینا از قضا افتند بچاہ
ترجمہ: (مگر اس قسم کے اتفاقات ہمیشہ نہیں ہوتے) عمریں چاہییں کہ (شاذ و) و نادر کبھی کبھار۔ کوئی آنکھوں والا قضا سے کنویں میں گرے۔
15
کور را خود ایں قضا ہمراهِ اوست
کہ مر او را اوفتادن طبع و خوست
ترجمہ:(مگر) یہ قضا اندھے کے تو ساتھ لگی رہتی ہے۔ کیونکہ گرنا اسکی طبیعت اور خصلت میں (داخل) ہے۔ (پس چشمِ بصیرت کا ہونا اچھا اور اسکا حاصل کرنا ضروری ہے، تاکہ انسان غلطیوں سے بچتا رہے، با بصیرت غلطی شاذ و نادر کرے گا، اور بے بصیرت ہمیشہ۔)
16
در حدث افتد نداند بوئے چیست
از من ست ایں بوے یا آلودگی ست
ترجمہ: (اندها) گندگی میں گر (کر آلودہ ہو) جاتا ہے، تو اتنا نہیں جانتا کہ (یہ) کس چیز کی بُو ہے (خود) میری (جسمانی میل کچیل کی بُو) ہے یا کسی بیرونی آلائش (کی) ہے۔
مطلب: بے بصر ہونے کی خرابی ایک نہیں بلکہ بہت سی ہیں۔ چنانچہ خرابیاں گنتے جاؤ (1) راستے میں۔ (2) گرا بھی نجاست پر۔ (3) گرتے وقت نجاست سے بچ نہ سکا۔ (4) نجاست کی آلودگی معلوم نہ ہوئی۔ (5) بدبو آتی ہے مگر معلوم نہیں، کسی آلائش کی ہے یا خود اپنے بدن کی۔ (6) اگر یہ معلوم ہو بھی گیا کہ یہ آلائش کی بدبُو ہے، تو پھر یہ معلوم ہونا مشکل ہے کہ نجاست کم و بیش کہاں کہاں لگی ہے۔ (7) اس لاعلمی سے اپنے بدن و جامہ کو پاک کرنے سے معذور ہے۔ یہ ایک مثال ہے معاصی کی آلودگی کے ساتھ ملوّث ہونے کی جبکہ انسان کو بصیرت حاصل نہ ہو۔ چنانچہ: (1) وہ کوئی نہ کوئی اخلاقی یا دینی لغزش کر بیٹھتا ہے۔ (2) اس لغزش میں اس سے کسی گناہ کا ارتکاب ہو جا تا ہے۔ (3) اسکو گناہ کی برائی محسوس نہیں ہوتی، اس لئے اس سے بچ نہیں سکتا۔ (4) بے علمی و بے بصیرتی سے اسکو معلوم نہیں کہ میرا دامنِ عفّت کس معصیّت کی گندگی سے آلودہ ہے۔ (5) اسکے بعض نتائج سے جو احیاناً دنیا میں بھی ظہور پذیر ہو جاتے ہیں، وہ پریشان تو ہوتا ہے مگر اسکو یہ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ نتائج میرے ہی کسی سوئے عمل کا ثمرہ ہیں یا عام فطرتی و ناگزیر حالات میں داخل ہیں۔ (6) اگر اسکو اتنا معلوم ہو گیا کہ یہ میرے ہی گناہوں کا ثمرہ ہے تو پھر وہ صغائر تو رہے الگ، اپنے کبیرہ گناہوں کی جزئیات کو معلوم کرنے اور انکے کم و کیف کو سمجھنے سے عاجز ہے۔ (7) اس لئے وہ صحیح اور خالص توبہ کرنے سے معذور ہے، یا یوں کہو کہ وہ اپنے نفس کے امراض کی تشخیص نہ کرنے کے سبب سے انکے علاج سے عاجز ہے۔ اندھے کو جسطرح بدبُو کا احساس نہیں، اسی طرح اسے خوشبو کا بھی پتہ نہیں لگتا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
17
ور کسے بر وے کند مشکے نثار
ہم ز خود داند نہ از احسانِ یار
ترجمہ: اور اگر کوئی (چپکے سے) اس پر مشک بکھیر دے۔ تو وہ (اس خوشبو کو) اپنے وجود سے سمجھے گا۔ نہ کہ دوست کے احسان سے۔ (آگے ان مثالوں کا نتیجہ ارشاد فرماتے ہیں:)
18
پس دو چشمِ روشنِ صاحب نظر
بہتر از صد مادرست و صد پدر
ترجمہ: پس دو روشن (اور) نظر والی آنکھیں۔ سو ماں باپ سے بہتر ہیں (جو اپنے بچے کو نیک و بد سے آگاہ کیا کرتے ہیں، کیونکہ ماں باپ کے بتائے پر عمل کرنا تقلیدی ہوگا اور خود دیکھ کر عمل کرنا تحقیقی۔)
19
خاصہ چشمِ دل کہ آں ہفتاد پوست
پیشِ چشم حسں کہ خوشہ چینِ اوست
ترجمہ: خصوصاً دل کی آنکھ (یعنی بصیرتِ باطن) جو اس ظاہری آنکھ سے ستر گنا (افضل) ہے۔ چونکہ اس (چشمِ دل) کی خوشہ چین (اور محتاج) ہے (بصیرتِ باطن نہ ہو تو بصیرتِ ظاہر فضول ہے۔)
کما قیل ؎
بے بصیرت چشمِ ظاہر بیں نمی آید بہ کار
روزنے حاجت نباشد خانۂ آئینہ را
انتباه۔ یہاں پہنچ کر مولانا پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے۔ وہ گوناگوں اسرار کے لئے بے تاب ہیں، مگر قلبی جوش جو مضامینِ نادرہ اُگل رہا ہے، الفاظ کا دامن انکے احاطے سے باہر ہے۔ گو ناظرین و سامعین کے نزدیک یہ اشعار بھی موتیوں کی لڑی ہیں، اور ہر شعر کا ایک ایک کلمہ جواہرات کا ٹکڑا ہے۔ گو مولانا اس پر راضی نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میرے دل کی بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔
20
اے دریغا رہزنان بنشستہ اند
صد گره زیرِ زبانم بستہ اند
ترجمہ: ہائے افسوس (بعض موانع ظاہری و باطنی کے) راہزن بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے میری زبان کے نیچے گرہیں ڈال دی ہیں۔
21
پائے بستہ چوں رود خویش راہوار
بس گراں بندے ست ایں معذور دار
ترجمہ: گھوڑے کے پاؤں جکڑے ہوئے ہوں تو وہ اچھی طرح کیونکر چلے؟ یہ بڑی بھاری قید ہے، معاف کیجئے۔
22
ایں سخن اشکستہ مے آید دلا
کیں سخن دُرّست و غیرت آسیا
ترجمہ: اے دل یہ کلام ٹوٹا پھوٹا (زبان سے) ادا ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہ کلام موتی ہے، اور غیرتِ الہٰیہ (جو کتمانِ اسرار کی متقاضی ہے) چکّی ہے۔ (وہ انکو پیسں پیسں کر بھیج رہی ہے، تاکہ اسرارِ الہٰی اصلی صورت میں شائع نہ ہونے پائیں۔)
23
دُر اگرچہ خرد و اشکستہ شود
توتیائے دیدهٔ خستہ شود
ترجمہ: موتی اگرچہ رگڑا اور پیسا جائے (پھر بھی) بیمار آنکھ کا سرمہ بن جاتا ہے۔
24
اے دُر از اشکستِ خود بر سر مزن
کز شکستن روشنی خواہی شدن
ترجمہ: اے موتی تو اپنے پِسں جانے سے سر نہ پیٹ۔ کیونکہ تو پِس کر (آنکھ) کا نور بن جائے گا۔
25
ہم چنیں اشکستہ بستہ گفتنی ست
حق کند آخر درستش کو غنی ست
ترجمہ: اسی طرح ٹوٹی پھوٹی (باتوں) کو (جوڑ) باندھ کر کہہ ہی ڈالنا چاہیے۔ حق تعالٰی آخر انکو درست کر دے گا، وہ غنی ہے۔ (اسکے خزانے میں کوئی کمی نہیں۔)
26
گندم ار بشکست وز ہم در شکست
بر دکان آمد کہ نک نان درست
ترجمہ۔ گیہوں اگر ٹوٹ گئے اور ریزہ ریزہ ہو گئے (تو آخر انہوں نے یہ درجہ بھی تو پا لیا کہ آٹا بن کر) دکان پر آ گئے (اور بزبانِ حال بول اٹھے) کہ لو عمدہ نان!
نوٹ: آگے مولانا اس شکستگی کے بیان کو معشوقہ کی عتابیہ تقریر کے ساتھ پیوند دیتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ معشوقہ نے اپنے بوالہوس و معتوب عاشق سے کہا:
27
تو ہم اے عاشق چو جرمت گشت فاش
آب و روغن ترک کن اشکستہ باش
ترجمہ: اے عاشق جب تیرا گناہ ظاہر ہو گیا۔ تو تو بھی یہ چکنی چپڑی باتیں چھوڑ دے، اور کسرِ نفسیِ (سے اپنے قصور کا اعتراف) کر لے۔
28
آنکہ فرزندانِ خاصِ آدمند
نوحۂ اِنَّا ظَلَمْنَا مے دمند
ترجمہ: جو لوگ حضرت آدم علیہ السّلام کے خاص (سعادتمند) فرزند ہیں۔ وہ (اپنے گناہوں سے نادم ہو کر انہی کی طرح) ”اِنَّا ظَلَمْنَا“ کا نوحہ بلند کرتے ہیں۔
29
حاجتِ خود عرض کن حجت مجو
ہمچو ابلیسِ لعینِ سخت رو
ترجمہ: اپنا (اصلی) مقصد بیان کرو (اور) ابلیس ملعون، حجّت باز کی طرح، حیلہ جوئی نہ کر۔
30
سخت روئی گر ورا شد عیب پوش
در ستیزه و سخت روئی رو بکوش
ترجمہ: اگر (تجھے یہ خیال ہے کہ) ابلیس کے لئے حجت بازی عیب پوش بن گئی۔ (کیونکہ اس نے اپنے آتشی وجود کا، مخلوقِ خاک سے افضل ہونا بیان کر دیا) تو جا تو بھی بحث، اور حجّت بازی میں کوشش کر دیکھ (اور اسکا انجام تجھے معلوم ہو جائے گا۔)
نوٹ: قلمی نسخے میں شعر کا آخری لفظ ”مکوش“ درج ہے یعنی ”تو کوشش نہ کر“ یہ بھی درست ہے، مگر اختیار کردہ نسخہ کے معنٰی میں برجستگی کی شان پائی جاتی ہے، اور اسکا تہدیدی پیرایہ مناسب مقام بھی ہے۔ عاشق نے عذر کیا تھا کہ میں نے محض آزمائش کی تھی۔ معشوقہ نے اسکی تردید میں جو تقریر کی ہے۔ اسکا خلاصہ یہ ہے کہ: (1) تیرے حیلے سب مجھ پر عیاں ہیں۔ (2) تجھ کو اعترافِ قصور اپنے باوا آدم علیہ السّلام سے سیکھنا چاہیے۔ (3) تجھ کو اپنی حالت کی پَرکھ کے لئے چشمِ بصیرت حاصل کرنی لازم ہے۔ (4) چکنی چپڑی باتیں چھوڑ دے۔ (5) حجت بازی سے باز آ۔ (6) اب چھٹی بات یہ کہتی ہے کہ اگر تیری یہ باتیں بہانہ و حجت نہیں ہیں۔ اور فی الواقع تو نے امتحان ہی کیا تھا، تو تیرا امتحان کرنا بھی سوئے ادب، اور آدابِ عشق کی خلاف ورزی میں داخل ہے، بلکہ کافرانہ فعل ہے۔
31
آں ابو جہل از پیغمبرؐ معجزے
خواست ہمچو کینہ ور ترکِ غزے
ترجمہ: اس (کافر) ابوجہل نے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے، ایک کینہ ور، تُرکِ غُز کی طرح (آمادہ ہو کر) معجزہ طلب کیا۔
32
معجزہ جست از نبی بوجہل سگ
دیدہ نفزودش ازاں الّا کہ شک
ترجمہ: ابوجہل کتّے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے معجزہ طلب کیا۔ (چنانچہ اسکو معجزہ دکھا دیا گیا، مگر) اس (کمبخت کو) سوائے مزید شک کے اس (معجزہ سے کچھ) بصیرت زائد (حاصل) نہ ہوئی۔
33
لیک آں صدیقِ حق معجز نخواست
گفت زیں رُو خود نگوید غیر راست
ترجمہ: لیکن (بخلاف اس کے) اس صدّیقِ حق نے معجزہ طلب نہ کیا۔ (بلکہ) کہا یہ چہرہ سوائے حق کے کچھ نہیں کہے گا۔ (مگر کتبِ سیر میں منقول ہے کہ یہ عبد الله بن سلام نے کہا تھا۔)
34
کے رسد ہمچو توئی را کزمنی
امتحان ہمچوں من یارے کنی
ترجمہ: (تو) تجھ جیسے (مدعیِ عشق) کو یہ حق کہاں ہے؟ (کہ از راہِ غرور) مجھ جیسے دوست کا امتحان کر نے لگے۔