دفتر چہارم: حکایت: 14
عذر خواستنِ عاشق گناہِ خود را بہ تلبیس، و فہم کردنِ معشوق
عاشق کا بطورِ فریب اپنے گناہ سے عذر کرنا، اور معشوقہ کا سمجھ جانا
1
گفت عاشق امتحان کردم مگیر
تا بہ بینم تو حریفی یا ستیر
ترجمہ: عاشق نے کہا معاف فرمائیے، میں تو صرف آزما رہا تھا۔ کہ آپ ایسے ویسے (ہی) ہیں یا با عصمت۔
2
من ہمیدانستمت بے امتحان
لیک کے باشد خبر ہمچوں عیاں
ترجمہ: میں تم کو امتحان کئے بغیر (بھی پاک دامن و غیور) جانتا تھا۔ لیکن سنی ہوئی بات آ نکھوں دیکھی کے برابر کب ہو سکتی ہے؟
3
آفتابی نام تو مشہور و فاش
چہ زیانست ار بکردم ابتلاش
ترجمہ: تم آفتاب ہو، تمہارا نام مشہور اور ظاہر ہے۔ اگر میں نے اسکو آزمانا چاہا تو کیا حرج ہو گیا؟
4
انبیاءؑ را امتحان کرده عداة
تا شده ظاہر ازیشاں معجزات
ترجمہ: (بلکہ امتحان میں فائدہ ہے، دیکھو) دشمنوں نے انبیاء علیہم السلام کو آزمایا۔ تو ان سے معجزات ظاہر ہوئے۔ (جو ہزاروں مخلوق کی ہدایت کا باعث ہو گئے۔)
5
تو منی من خویشتن را امتحاں
می کنم ہر روز در سود و زیاں
ترجمہ: تم میں ہوا (یعنی میرا اور تمہارا وجود متحد ہے۔ ”تو من شدی من تو شدم“) اور میں خود اپنے آپ کا امتحان نفع و نقصان میں ہر روز کرتا ہوں (پھر اس میں کسی کو بگڑنے کا کیا حق ہے۔)
6
امتحانِ چشمِ خود کردم بہ نور
ایکہ چشمِ بد ز چشمانِ تو دور
ترجمہ: اے (محبوبہ) کہ تیری آنکھوں سے بری آنکھ دور رہے۔ (تو میری آنکھ ہے، پس) میں نے نور کے ساتھ اپنی آنکھ ہی کا امتحان کیا ہے۔ کسی کو کیا شکایت؟)
7
ایں جہاں ہمچو خرابہ است و تو گنج
کہ تفحّص کردم از گنجت مرنج
ترجمہ: یہ جہاں گویا کھنڈر ہے، اور تو خزانہ ہے۔ اگر میں نے تیرے خزانہ کو تلاش کیا تو خفا نہ ہو۔ (کہ کوئی بُرا کام نہیں کیا۔)
8
زاں چنیں بیخردگی کردم گزاف
تا زنم با دشمناں ہر بار لاف
ترجمہ: اس قسم کی بیہودہ حماقت میں نے اس لئے کی ہے تاکہ (اس سے تمہاری پاک دامنی و غیرت مندی کا ظہور ہو) اور میں مخالفوں کے سامنے ہر بار تمہاری تعریف کے دعوے کر سکوں۔
9
تا زبانم چوں ترا نامے نہد
چشم ازیں دیدہ گواہی ہا دہد
ترجمہ: تاکہ جب میری زبان تمہارا (تعریفی) ذکر کرے۔ تو آنکھ اس دیکھی ہوئی حالت سے شہادتیں پیش کر سکے۔
10
گر شدم در راہِ حرمت راہزن
آمدم اے مہ بشمشیر و کفن
ترجمہ: (بالفرض) اگر میں نے (تمہاری) عزت پہ حملہ ہی کیا ہے۔ تو اے چاند میں تلوار اور کفن لایا ہوں۔ (بخوشی مجھے قتل کر ڈالو مگر:)
11
جز بشمشیرِ خود اے شاہم مکش
بیش ازیں از دوری اے ماہم مکش
ترجمہ: اے میرے بادشاہ! خود اپنی ہی تلوار سے مجھے قتل کرنا۔ اے چاند! آئنده مجھے فراق سے ہلاک نہ کرنا۔
12
جز بدستِ خود مبرم پا و سر
کہ ازیں دستم نہ از دستِ دگر
ترجمہ: اپنے ہاتھ کے سوا (کسی اور سے) میرا سر اور پاؤں نہ کٹوانا۔ کیونکہ میں اس ہاتھ کا (مملوک) ہوں، نہ کہ کسی دوسرے ہاتھ کا۔
13
از جدائی باز مے رانی سخن
ہرچہ خواہی کن و لیکن ایں مکن
ترجمہ: تم پھر فراق کا ذکر کرتی ہو۔ جو کچھ چاہو کرو، مگر (خدارا) یہ نہ کرنا۔
14
در سخن آباد ایندم راه شد
گفت امکان نیست چوں بیگاه شد
ترجمہ: کلام کے مقام میں اب (گفتگو کا) راستہ نکل آیا۔ مگر چونکہ بے وقت ہو گیا، اس لئے کچھ کہنے کا امکان نہیں۔
مطلب: شیخ افضل کہتے ہیں کہ یہ عاشق کا مقولہ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ ”سخن آباد“ یعنی لب پر گفتگو آ گئی اور تمہارے عتاب نے عذر کی ہمت پیدا کر دی، لیکن کچھ کہنے سننے کا موقع نہیں کیونکہ وقت تنگ ہے۔ اگر انہی باتوں میں مشغول رہا تو اصل مطلب فوت ہو جائے گا۔ مگر شیخ عبد اللطیف کہتے ہیں کہ اغلب یہ ہے کہ یہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ ہے، جب جدائی کا مقولہ چھڑا تو عالمِ سخن میں ایک راستہ نکل آیا۔ پس یہاں عاشقانِ حق کے دیدار سے سیر نہ ہونے کا ذکر کرنا چاہیے، یا سالکوں کے کسی قصور کی وجہ سے حق تعالٰی کا ان پر عتاب کرنا، اور اپنی تجلّی کو انکی نظر سے چھپانا بیان ہو، یا خلق کے حق سے جدا رہنے سے متعلق کچھ کہنا چاہیے اور ”دور افتادگانِ کوئے دوست“ کو تنبیہ کی جائے، مگر وقت تنگ ہے اور عاشق و معشوق مصروفِ جنگ ہیں۔(بحر)
15
پوستہا گفتیم و مغز آمد دفیں
گر بمانیم ایں بماند ہم چنیں
ترجمہ: ہم نے (ظاہری امور جو بمنزلہ) پوست (ہیں) کہہ ڈالے اور مغر (سخن) مخفی رہ گیا۔ اگر ہم (انہی باتوں میں پڑے) رہے تو وہ اسی طرح (مخفی) رہ جائے گا۔
مطلب: پہلی توجیہ کی بنا پر یہ بھی عاشق کا مقولہ ہے، یعنی میں اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگا رہا اور اپنے خُلوصِ قلب کے اظہار سے قاصر رہا، جو بمنزلہ مغز ہے۔ اگر میں انہی باتوں میں لگا رہا تو اسکے اظہار کا موقع نہ ملے گا۔ دوسری توجیہ کی بنا پر یہ مولانا کا قول ہے، یعنی ہم قصے کہانی کے بیان میں لگے رہے، اور ان قصوں سے جو اصلی بات مقصود ہے یعنی نتیجہ و ثمرہ اور نصحیت و عبرت، اب تک اسکی نوبت نہیں آئی۔ اگر اب اسکو بیان نہ کیا تو پھر کب کریں گے؟ اس شعر کا ایک لفظ ”بماند“ مختلف فیہ ہے۔ اکثر نسخوں میں ”نماند“ بنون درج ہے۔ قلمی نسخے میں ”بماند“ ببائے موحدہ ہے۔ ہم نے سہولت معنٰی کے لئے وہی اختیار کر لیا۔ اگر ”نماند“ رکھا جائے تو معنٰی یوں ہو سکتے ہیں۔ ”کہ اس توقّف میں مغزِ سخن مدفون رہ گیا۔ اگر اور توقّف ہوا تو مدفون بھی نہ رہے گا بلکہ اڑ جائے گا اور پھر تلاش بھی کرو گے تو نہیں ملے گا۔“
16
گر خطائے آمد از ما در وجود
چشم میداریم در عفو اے ودود
ترجمہ: اگر ہم سے کوئی خطا سرزد ہو گئی ہو، تو اے مہربان! ہم معافی کی امید رکھتے ہیں۔
مطلب: عاشق کا قول ہونے کی تقدیر پر وہ معشوقہ سے معافی مانگتا ہے کہ اگر گفتگو میں کوئی بے جا کلمہ منہ سے نکل گیا تو معاف فرمائیں۔ اور مولانا کا قول ہونے کی صورت میں وہ خداوند تعالٰی سے عفو کے طلبگار ہیں۔ اگلا شعر بلا اختلاف عاشق کا قول ہے:
17
امتحاں کردم مرا معذور دار
چوں ز فعلِ خویش گشتم شرمسار
ترجمہ: (اے محبوبہ!) میں نے (تو آپکو صرف) آزمایا تھا۔ چونکہ (اب) میں اپنے (اس) فعل سے شرمندہ ہوں۔ (اس لئے) مجھے معاف فرمائیں۔