دفتر 4 حکایت 13: دبّاغ کے بھائی کا مخفی طور سے گندگی کے ساتھ، دبّاغ کا علاج کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 13

معالجہ کردنِ برادرِ دبّاغ، دبّاغ را بخُفیہ ببوئے سرگیں

دبّاغ کے بھائی کا مخفی طور سے گندگی کے ساتھ، دبّاغ کا علاج کرنا

1

خلق را می راند از وے آں جواں

تا علاجش را نہ بینند آں کساں

ترجمہ: ( غرض) وہ جوان لوگوں کو اس دباغ کے پاس سے ہٹاتا تھا۔ تاکہ وہ لوگ اسکے علاج کو نہ دیکھیں۔

مطلب: ہر چند کہ گندگی کی بو اس دبّاغ کے دماغ میں بس جانے سے وہ اسکے نزدیک مرغوب تھی، لیکن اسکا بھائی اس بات کا یقین رکھتا تھا کہ لوگوں کے نزدیک یہ ایک قابلِ نفرت چیز ہے، اور ہمارے لئے اسکا استعمال قابلِ شرم ہے۔ اس لئے اسکو لوگوں کی نظر سے چھپانے کی کوشش کی۔ جو اس بات کی ایک بیّن دلیل ہے کہ معاصی ہر چند عاصی کے نزدیک مرغوب ہوں، مگر اسکا ضمیر انکو برا سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ انکا ارتکاب عموماً لوگوں کی نظر سے بچا کر کرتا ہے، اور پھر افشائے راز پر مکرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

؎ سعدی رحمۃ اللہ علیہ

پلیدی کند گربہ بر جائے پاک

چو زشتش نماید بپوشد بخاک

2

سر بگوشش برد ہمچوں راز گو

پس نہاد آں چرک بر بینی او

ترجمہ: (چنانچہ پہلے) وہ (اپنا) سر راز کی بات سنانے والے کی طرح اسکے کان کے پاس لے گیا۔ (اور اس اوٹ میں) پھر وہ گندگی اسکی ناک پر رکھ دی۔

3

کو بکف سرگینِ سگ سائیده بود

داروے مغزِ پلیداں دیده بود

ترجمہ: کیونکہ اس نے (اپنی) ہتھیلی پر کتّے کی غلاظت مل رکھی تھی۔ (جو چپکے سے اسکی ناک پر رکھ دی) اسکو ناپاک لوگوں کے مغز کے علاج کا تجربہ تھا۔

4

چونکہ بوے آں حدث را وا کشید

مغزِ زستش بوئے ناخوش را سزید

ترجمہ: جونہی اس (دبّاغ) نے اس گندگی کی بو سونگھی۔ تو اسکے گندے مغز نے گندی بو محسوس کی۔

5

ساعتے شد مرده جنبیدن گرفت

خلق گفتند ایں فسونے بد شگفت

ترجمہ: ایک گھڑی گزری تو مردہ حرکت کرنے لگا۔ لوگوں نے کہا یہ تو عجیب ٹوٹکا تھا۔

6

کاں بخواند افسوں بگوشِ او دمید

مرده بود افسوں بفریادش رسید

ترجمہ: کہ اس نے منتر پڑھ کر اس کے کان میں پھونکا (یہ دبّاغ گویا) مردہ تھا۔ منتر نے اسکی فریاد رسی کی۔ (اس سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)

7

جنبشِ اہلِ فساد آں سو بود

کہ زنا و غمزه و ابرو بود

ترجمہ: (اسی طرح) بد طینت لوگوں کی سرگرمی وہاں ہوتی ہے۔ جہاں بدکاری اور غمزہ و ابرو (کا ذکر) ہو۔

مطلب: جن لوگوں کی فطرت میں فسق و فجور داخل ہوتا ہے۔ انکے سامنے زہد و تقوی اور عفت و عفاف کا ذکر کرو، ان میں صلحاء و اتقياء کے قصے سناؤ، ذکرِ مراقبہ کی کیفیات بیان کرو، حقیقت و معرفت کی رمزیں معرضِ اظہار میں لاؤ، تو انکے کان پر جوں نہیں رینگنے کی۔ وہ ایک بت بنے ہوئے بیٹھے رہیں گے۔ لیکن جونہی فسق و فجور، زنا، لواطت، حسن و عشق، بوس و کنار کا ذکر چھڑ جائے تو وہ سنبھل کر بیٹھ جائیں گے، اور اس گفت و شنید کے ایک سرگرم رکن بن جائیں گے۔ یہی انکے ردّی الفطرت اور خبیث الطبع ہونے کی دلیل ہے۔

8

ہر کرا مشکِ نصحیت سود نیست

جز بدیں بوئے بدش بہبود نیست

ترجمہ: جس شخص کو (وعظ) و نصیحت کی مشک (خوشبو) مفید نہیں، اسکو سوائے اس بدبو کے فائدہ نہیں ہوتا۔

9

مشرکاں را زاں نجس خوانده ست احق

کاندرونِ پشک زادند از سبق

ترجمہ: مشرکوں کو اسی لئے حق تعالٰی نے نجس کہا ہے۔ کہ وہ ابتدا سے (معاصی کی) مینگنیوں میں پیدا ہوئے (اور پلے) ہیں۔

10

کِرم کو زادست از سرگیں ابد

می نگر داند بعنبر خوے خود

ترجمہ: جو کیڑا گوبر سے پیدا ہوتا ہے۔ ابد تک عنبر کا خوگر نہیں ہو سکتا۔

11

چوں نزد بر وے نثار رشِّ نور

او ہمہ جسم ست نے جاں چوں قشور

ترجمہ: چونکہ اس (پرستار طبیعت) پر ( سعادت کے) نور کا ایک چھینٹا نچھاور نہیں ہوا۔ (اس لئے) وہ چھلکوں کی طرح سراپا جسم ہے، نہ کہ جان (یعنی) اس میں روحانیت نہیں۔

مطلب: اس حدیث کی طرف اشارہ ہے: ”إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِيْ ظُلْمَةٍ فَأَلْقَىٰ عَلَيْهِمْ مِنْ نُوْرِہٖ فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ ذٰلِكَ النُّورِ اهْتَدَىٰ وَمَنْ أَخْطَأَہٗ ضَلَّ“ (الترمذي: 2642) یعنی ”اللہ تبارک وتعالٰی نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیداکیا، پھر ان پر اپنا نور ڈالا (یعنی اپنے نور کا پَرتو) تو جس پر یہ نور پڑگیا وہ ہدایت یاب ہوگیا، اور جس پر نور نہ پڑا (تجاوز کر گیا) تو وہ گمراہ ہوگیا۔ یہ حدیث مع شرح دوسرے دفتر میں بھی گزر چکی ہے۔ فَانْظُرْ اِلَیْہِ۔

12

ور ز رشِ نور حق قسمیشِ داد

ہمچو رسمِ مصر سرگین مرغ داد

ترجمہ: اور اگر حق تعالٰی نے اسکو نور کی بارش کا کچھ حصہ بخشا تو (یوں سمجھو کہ) مصر کی رسم کی طرح گوبر سے مرغ پیدا ہو گیا۔

مطلب: شارحین لکھتے ہیں کہ اہلِ مصر مرغ کے انڈوں کو گوبر میں دفن کر دیتے ہیں، تو ان سے بچے نکل آتے ہیں۔ اور یہ فن خاص اہلِ مصر کو ہی آتا ہے، اور کسی قوم اور کسی ملک میں اس فن کا رواج نہیں، یعنی اہلِ مصر کے سوا اور کسی کو گوبر میں انڈوں سے بچنے نکالنے نہیں آتے۔ مطلب یہ کہ بد اعمال لوگوں میں پیدا ہونے والا اور بد اعمالیوں کے نمونوں میں نشو و نما پانے والا انسان اگر احیانًا صالحین کی صحبت سے متاثر ہو کر نیکی پر مائل ہو جائے، تو یہ اہلِ مصر کے مذکورہ فن کی طرح ایک عجوبہ سمجھو، ورنہ بظاہر حالات سے ایسی توقع نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا انسان راہِ راست پر آ جائے تو بڑا با استقامت ہوتا ہے، کیونکہ وہ تحقیقًا راہِ راست پر آتا ہے نہ کہ تقلیدًا۔ وہ برائی کے نتائجِ قبیحہ سے پوری طرح واقف اور ان سے اچھی طرح عبرت گیر ہوتا ہے۔

13

لیک نے مرغِ خسیسِ خانگی

بلکہ مرغِ دانش و فرزانگی

ترجمہ: لیکن (وہ سرگین سے پیدا ہونے والا) کمینہ خانگی مرغ نہیں۔ (جو نجاستوں اور غلاظتوں میں اپنی چونچ آلودہ کرتا پھرے) بلکہ عقل دانائی کا مرغ (جو ہر آلائش سے بچے۔)

مطلب: گندی سوسائٹی سے نکل کر راہِ ہدایت پر آنے والا آدمی، بڑا مستقیم العمل ہوتا ہے۔ وہ دوبارہ اپنے دامن کو آلودۂ معاصی نہیں ہونے دیتا۔ اِلَّا مَاشَاءَ اللہ۔ آگے وہ معشوقہ پھر اپنے عاشق کو عتاب کرتی ہے:

14

تو بداں مانی کزاں نوری تہی

زانکہ بینی بر پلیدی می نہی

ترجمہ: (اے بوالہوس) تو (بھی) اس (دبّاغ) سے مشابہ ہے، جو تو اس نور (سعادت) سے خالی ہے۔ کیونکہ تو (اپنی) ناک ناپاکی پر رکھتا ہے۔

مطلب: اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہاں پیشۂ دباغت کی مذمت، اور دبّاغ کی حالتِ دماغ کی برائی مقصود ہے، کیونکہ یہ پیشہ شرعًا کوئی ممنوع و منکر نہیں، اور نہ اس پیشہ کو اختیار کرنے والے کا فسادِ شامہ جو ایک اضطراری حالت ہے قابلِ عتاب و عذاب ہے، بلکہ یہاں صرف معصیّت اور عادتِ معصیّت کی مذمت مقصود ہے۔ اور اس باطنی حالت کو دبّاغ کی ظاہری حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے، تاکہ سننے والا اس معصیّت سے نفرت کرے۔ مثلاً سیاہ دلی کو کالے توے سے تشبیہ دی جائے، تو اس سے سیاہ دلی کی مذمت کرنا، اور مخاطب کو دل کی اس حالت سے نفرت دلانا مقصود ہے، تو اس سے مذموم اور موردِ عتاب نہیں ہوتا۔

15

از فراقت زرد شد رخسار و رو

برگِ زردی میوۂ ناپختہ تو

ترجمہ: فراق میں تیرے رخسار اور چہرہ زرد ہو گیا۔ تو زرد پتہ ہے اور کچا میوہ ہے۔

مطلب: درخت کے پتے زرد ہونے کی نوبت تب آتی ہے کہ اسکا میوہ پک چکا ہوتاہے۔ مگر تو اپنے میوۂ اخلاق کی پختگی سے پہلے ہی زرد ہو گیا۔ حیا، ادب، خود داری کی صفات جو لازمۂ انسانیّت ہیں، ان سے تو خالی ہے اور مرتبۂ انسانیّت میں ابھی خام ہے، کہ عشق و ہجر میں نیم جان ہو گیا یعنی تو پختگی کو پہنچنے سے پہلے ہی ڈھل گیا۔

16

دیگ ز آتش شد سیاه و دود فام

گوشت از سختی چنیں ماندست خام

ترجمہ: دیگ تو آگ سے کالی اور دھوئیں کی ہمرنگ ہو گئی۔ گوشت سختی سے ایسا ہی کچے کا کچا رہ گیا۔

17

ہشت سالت جوش دادم از فراق

کم نشد یک ذره خامیت از نفاق

ترجمہ: میں نے آٹھ سال تک فراق میں تجھ کو جوش ديا۔ مگر نفاق سے میری خامی ایک ذرہ بھر کم نہ ہوئی۔

18

خامی و ہرگز نخواہی پخت تو

گر ہزاراں بار جوشی اے عتو

ترجمہ: تو (اب تک) کچّا ہے، اور ہرگز پکنے کا نہیں۔ اگرچہ اے سرکش! تو ہزاروں مرتبہ جوش کھائے۔

19

غورۂ تو سنگ بستہ از سقام

غورہا اکنوں مویزند و تو خام

ترجمہ: تیرا (طبیعت کا) کچا انگور (کسی) خرابی سے ٹھوس پتھر بن گیا۔ (یعنی پکنے سے پہلے خشک ہو گیا۔ حالانکہ دوسرے) کچے انگور اب کشمش (بن چکے) ہیں، اور تو (وہی) کچا (کا کچا) ہے۔