دفتر 4 حکایت 12: ایک چمڑا ر نگنے والے کا قصہ جو عطر فروشوں کے بازار میں (جا کر) عطر کی خوشبو سے بے ہوش ہو گیا

دفتر چہارم: حکایت: 12

قصہ آں دبّاغ کہ در بازارِ عطّاراں از بوئے عطر بیہوش شد

ایک چمڑا ر نگنے والے کا قصہ جو عطر فروشوں کے بازار میں (جا کر) عطر کی خوشبو سے بے ہوش ہو گیا

1

آں یکے دبّاغ در بازار شد

تا خرد آنچہ ورا در کار بد

ترجمہ: ایک چمڑا رنگنے والا بازار میں گیا۔ تاکہ جو چیز اسے درکار ہے، خریدے۔

2

چونکہ در بازارِ عطّاراں رسید

ناگہاں افتاد بیہوش و خمید

ترجمہ: جب وه عطّاروں کے بازار میں پہنچا۔ تو ناگہاں بے ہوش ہو کر گر پڑا، اور زخم کھا گیا۔ (یعنی قلب کے علاوہ اسکے اعصاب پر بھی اثر پڑا۔)

3

بوۓ عطرش زد ز عطّارانِ راد

تا بگردیدش سر و بر جا فتاد

ترجمہ: شریف عطاروں (کی دکانوں) سے عطر کی خوشبو اس پر اثر کر گئی۔ اسکا سر چکرا گیا اور وہ وہیں (دھڑام سے) جا گرا۔

4

ہمچو مردار اوفتاد او بے خبر

نیم روز اندر میانِ رہگذر

ترجمہ: وہ دوپہر کے وقت راستے میں مردے کی طرح، بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

5

جمع آمد خلق بر وے آں زماں

جملگاں لَاحَوْلَ گو درماں کناں

ترجمہ: اسی وقت لوگ اس پر جمع ہو گئے۔ سب لَاحَوْلَ پڑھتے تھے (اور) تدبیر کرتے تھے۔

6

آں یکے کف بر دلِ او می براند

وز گلاب آں دیگرے بر وے فشاند

ترجمہ: ایک اسکے دل پر ہاتھ پھیرتا تھا (کہ حرکت قلب بند نہ ہو گئی ہو) اور دوسرا (غشی سمجھ کر) اس پر گلاب چھڑکتا تھا۔

7

او نمی دانست کاندر مرتعہ

از گلاب آمد ورا ایں واقعہ

ترجمہ: اسکو یہ معلوم نہ تھا کہ (اسی بازار کی) چراگاہ میں (عطر) گلاب ہی سے اسکو یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

8

آں یکے دستش ہمی مالید و سر

واں دگر کہگل ہمی آورد تر

ترجمہ: ایک اسکے ہاتھ اور سر کو ملتا تھا (کہ دورانیہ خون بند نہ ہو گیا ہو) اور دوسرا مٹی تر کر کے لاتا تھا (تاکہ تفریحِ قلب کے لئے اسکو سونگھائے۔)

9

آں بخور و عود و شکّر زد بہم

واں دگر از پوششش میکرد کم

ترجمہ: وہ دھونی کی دوا، اور عود اور شکر کو ملا کر کوٹتا تھا۔ اور دوسرا اسکے پہنے ہوئے کپڑے کم کر رہا تھا (کہ مبادا گرمی اور اجتماعِ خون کی بے ہوشی ہو۔)

10

واں دگر نبضش کہ تا چوں میجہد

واں دگر بو از دہانش میستد

ترجمہ: اور وہ دوسرا اسکی نبض کو (دیکھتا ہے) کہ کس طرح چل رہی ہے، اور وہ دوسرا اسکے منہ کی بو سونگھ رہا ہے۔

11

تا کہ مے خوردست یا بنگ و حشیش

خلق درماندند اندر بے ہشیش

ترجمہ: تاکہ (یہ معلوم کرے کہ شاید) اس نے شراب پی ہے یا بھنگ اور حشیش (پی گیا ہے۔ غرض) لوگ اسکی بے ہوشی (کا راز سمجھنے) میں عاجز آ گئے۔

12

پس خبر بردند خویشاں را شتاب

کہ فلاں افتاده است اینجا خراب

ترجمہ: آخر جلدی سے اسکے خویشوں کو اطلاع دی گئی کہ فلاں شخص یہاں بے ہوش پڑا ہے۔

13

کس نمی داند کہ چوں مصروع گشت

یا چہ شد کو را فتاد از بام طشت

ترجمہ: کسی کو معلوم نہیں کہ کیونکر بے ہوش کر گرا۔ یا (اسے) کیا ہوا جو (یوں) وہ رسوا ہوا۔

14

یک برادر داشت آں دبّاغ زفت

گرپز و دانا بیامد زود تفت

ترجمہ: اس دبّاغ کا ایک تناور بھائی تھا۔ (بڑا) چالاک و دانا۔ وہ جلدی سرگرمی کے ساتھ آیا۔

15

اندکے سرگینِ سگ در آستین

خلق را بشگافت و آمد با حنین

ترجمہ: تھوڑی سی کتّے کی نجاست (اس نے) آ ستین میں (چھپا رکھی تھی) لوگوں (کی بھیڑ) کو چیرتا اور روتا ہوا آیا۔

16

گفت من رنجش همی دانم ز چیست

چوں سبب دانی دوا کردن جلی ست

ترجمہ: اس نے کہا، میں جانتا ہوں کہ اسکا عارضہ کس سبب سے ہے۔ جب تم کو سبب معلوم ہے، تو علاج ظاہر ہے (کہ رفعِ سبب کی تدبیر کی جائے۔)

17

چوں سبب معلوم نبود مشکل ست

داروئے رنج و دراں صد محمل ست

ترجمہ: جب سبب معلوم نہ ہو، تو مرض کا علاج مشکل ہے۔ اس میں سینکڑوں احتمال ہیں۔

18

چوں بدانستی سبب را سہل شد

دانشِ اسباب دفعِ جہل شد

ترجمہ: جب تم کو (مرض) کا سبب معلوم ہو گیا، تو (علاج) آسان ہو گیا۔ اسباب کی واقفی سے (علاج) کی ناوافقی جاتی رہی۔ (یہ حکیمانہ تقریر تو اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کی۔ اب چپکے چپکے سے اپنے دل سے بھی کہتا ہے:)

19

گفت با خود ہستش اندر مغز و رگ

توئے بر تو بوئے آں سرگینِ سگ

ترجمہ: پھر اپنے دل میں کہا، اسکے مغز، اور رگ میں، وہ (چمڑوں کی بُو جو) کتّے کی غلاظت کی بُو (سے مشابہ ہے) تہہ بہ تہہ (سما رہی) ہے۔

20

تا میاں اندر حدثِ او تا بشب

غرض دبّاغی ست و روزی طلب

ترجمہ: حتٰی کہ وہ (صبح سے) رات تک نجاستوں کے درمیان، روزی کمانے کے لئے چمڑے رنگنے میں غرق رہتا ہے۔

21

با حدث کرده است عادت سال و ماہ

بوئے عطرش لا جرم سازد تباه

ترجمہ: برسوں، مہینوں سے اسکو نجاست (میں کام کرنے) کی عادت ہے۔ اس لئے عطر کی خوشبو اسکو مضر ہے۔

مطلب: اسی طرح اہل دنیا کسبِ روزی میں صبح سے شام تک کذب، فریب، مکر و دغا وغیرہ معاصی میں ڈوبے رہتے ہیں، جنکی بدبو ان کے دماغ میں اس قدر بس گئی ہے کہ انکو یہ گناہ ناگوار نہیں گزرتے، بلکہ اگر کوئی ناصح انکو ان باتوں سے روکتا ہے تو الٹا خفا ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں ان مولویوں کے کہنے پر جائیں تو بس دنیا میں بھوکے مریں۔ بعض لوگوں کو ان سچی ہدایات اور مفید نصائح سے اس قدر نفرت ہوتی ہے کہ ان کو ایسی مجلس میں جانا بمنزلۂ موت ہے، اور ایسی باتوں سے ان کا دم اکھڑ نے لگتا ہے ۔ وہی معاصی و جرائم کی باتیں انکو سازگار نظر آتی ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

22

پس چنیں گفت ست جالینوس مہ

آنچہ عادت داشت بیمار آنش دہ

ترجمہ: جبھی تو (حکیم) جالینوس اعظم نے یوں کہا ہے کہ بیماروں کو جس چیز کی عادت ہو رہی ہو (ان کو) دو (یعنی مرض سے پہلے وہ جس چیز کے عادی ہوں، مرض میں وہی مفید ہو گی۔)

23

کز خلافِ عادت ست آں رنج او

پس دواے رنجش از معتاد جو

ترجمہ: کیونکہ خلاف عادت (کھانے پینے ہی) سے اسکا یہ مرض (عارض ہوا) ہے۔ پس اسکے مرض کا علاج اس چیز (کے استعمال) سے کرو، جو داخلِ عادت ہو۔

24

چوں جعل گشت ست از سرگیں کشی

از گلاب آید جعل را بے ہشی

ترجمہ: (یہ دبّاغ) گندگی کا کام کرنے سے، گندگی کے کیڑے کا سا بن گیا۔ (جو عطر سے بے ہوش ہو گیا چنانچہ) گندگی کا کیڑا گلاب سے بے ہوش ہو جاتا ہے۔

25

ہم ازاں سرگینِ سگ داروے اوست

کہ بداں آن را ہمی معتاد و خوست

ترجمہ: اسی سبب سے کتّے کی غلاظت اسکا علاج ہے۔ کیونکہ اس ( بدبو) پر اسکی عادت و خو (پڑ چکی) ہے۔ (اب مولانا اس دبّاغ کی گندہ دماغی کے ذکر سے، گندہ باطن لوگوں کے عبرت ناک حال کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)

26

اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ را بخواں

رُو و پشتِ ایں سخن را باز داں

ترجمہ: (اے مخاطب تو قرآن مجید میں آیۃ:)﴿اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَپڑھ (کر دیکھ لے، اور) اس بات کے ظاہر و باطن کو (اچھی طرح) سمجھ لے۔

مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ وَ الطَّیِّبٰتَ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ- اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ- لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ(النور: 26) ”گندگی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں، اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق۔ اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق۔ یہ (پاکباز مرد اور عورتیں) ان باتوں سے بالکل مبرّا ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ ان (پاکبازوں) کے حصے میں تو مغفرت ہے، اور باعزت رزق۔“ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس قصّے کے ظاہری پہلو کو نہ دیکھو، بلکہ اسکے باطنی پہلو سے عبرت حاصل کرو۔ حضرت نجم الدّین کبریٰؒ مذکورہ آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں دنیا اور اسکی شہوات و خباثت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خبیث لوگوں کے لئے ہیں، جن سے انكا نفس لذت گیر ہوتا ہے، اور ﴿خَبِیۡثِیۡنَسے دنیا پرست و دولت طلب لوگ مراد ہیں۔ وہ ان شہوات و لذّات کے اہل ہیں۔﴿طَیِّبٰتِسے اعمال صالحہ مراد ہیں۔ جو پاک و صالح لوگوں کا حصہ ہیں۔ اس لئے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ﴿وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ(ھود: 119) یعنی ”اسی لئے ان کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔“ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے: ‏اِعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهٗ(بخاری: 6605) یعنی ہر ایک کے لیے وہ عمل آسان کر دیا گیا ہے، جس کے لیے اسکو پیدا کیا گیا ہے۔

27

ناصحاں او را بعنبر يا گلاب

مے دوا سازند بہرِ فتحِ باب

ترجمہ: نصیحت کرنے والے (وعظ و نصائح کے) عنبر و گلاب سے اسکا علاج کرتے ہیں۔ (تاکہ ان پر ہدایت کا) دروازہ کھل جائے (مگر اسکا یہ حال ہے کہ ؎

نصیحت کن مرا چنداں کہ خواہی

کہ نتواں شستن از زنگی سیاہی

یہ کیوں؟ اس لئے کہ:)

28

مر خبیثاں را نسازد طیّبات

در خور و لائق نباشد اے ثقات

ترجمہ: اے معتبر لوگو! خبیثُ الطبع لوگوں کو نیک باتیں موافق نہیں پڑتیں۔ کیونکہ وہ (انکے لئے) مناسب اور لائق نہیں ہوتیں۔

29

چوں ز عطرِ وحی کژ گشتند و گُم

بُد فغاں شاں کہ تَطَیَّرْنَا بِکُمْ

ترجمہ: جب (پیغمبروں کی) وحی کے عطر سے وہ لوگ بدگماں اور مبہوت ہو گئے۔ تو انکا یہی شور و غل تھا کہ ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔

مطلب: یہ اہلِ انطاکیہ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جنکو ہدایت دینے کی غرض سے انکی طرف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے دو حواری گئے۔ تو: ﴿قَالُوْۤا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْۚ- لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَیَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(یٰس: 18) ”وہ کہنے لگے کہ ہم نے تو تم کو (بڑا ہی) منحوس پایا۔ (کہ تمہارے آتے ہی قحط وغیرہ مصائب میں مبتلا ہو گئے۔ اگر تم (اپنے وعظ و نصیحت سے) باز نہ آؤ گے تو ہم تم کو ضرور سنگسار کر دیں گے اور ضرور تم کو ہم سے سخت اذیّت پہنچے گی۔“ چونکہ ان لوگوں کی فطرت فاسد تھی اور وہ طبعاً خبیث و ناپاک تھے، اس لئے پیغمبروں کے اقوالِ طیبہ انکو ناگوار گزرے، جس طرح گندگی کا کیڑا شمیمِ گل سے اذیّت محسوس کرتا ہے۔ اس لئے انہوں نے ان اقوال پاک اور انفاسِ متبرکہ کو نحوست سے تعبیر کیا اور کہنے لگے:

30

رنج و بیماریست ما را زیں مقال

نیست نیکو وعظِ تاں ما را بفال

ترجمہ: (اے واعظو!) ان باتوں سے ہم پر دکھ اور بیماری طاری ہوتا ہے۔ تمہارا وعظ ہمارے لئے نیک فال نہیں۔

مطلب: تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ جب یہ حواری اہل انطاکیہ کو ہدایت کر رہے تھے، تو تقدیر سے انہی دنوں بارش میں توقّف ہو گیا۔ اس بنا پر ان لوگوں نے ان حواریوں کو باعث نحوست ٹھہرایا۔ مگر انہوں نے جواب دیا: ﴿طائِرُكُمْ مَعَكُمْ(یٰس: 19) ”یہ تمہاری شامت ہے جو تمہارے ساتھ ہے۔“

31

گر بیاغازید نصحے آشکار

ما کنیم ایں دم شما را سنگسار

ترجمہ: اگر تم نے علانیہ نصیحت کرنی شروع کر دی۔ تو ہم ابھی تم کو سنگسار کر دیں گے۔

32

ما بہ لہو و لعب فربہ گشتہ ایم

در نصیحت خویش را نسرشتہ ایم

ترجمہ: ہم نے کھیل کود میں پرورش پائی ہے۔ اپنے آپکو نصیحت کا خوگر نہیں کیا۔

33

ہست قُوْتِ ما دروغ و لہو و لاغ

شورشِ معده ست ما را زیں بلاغ

ترجمہ: ہماری غذا جھوٹ، اور کھیل، اور ہنسی مذاق ہے۔ اس تبلیغ سے تو ہمیں متلی ہوتی ہے۔

34

رنج را صد تو و افزوں میکنند

عقل را دارو بافیوں می کنند

ترجمہ: (افسوس کہ یہ لوگ) اپنے مرض کو سو گنا اور زیادہ کر لیتے ہیں۔ عقل کا علاج افیون سے کرتے ہیں (جو اور بھی عقل پر پردہ ڈال دے۔)

35

گند شرک و کفرِ ایشاں بیحدست

ہیں کہ دبّاغ اوفتادہ بیخودست

ترجمہ: ان لوگوں کے شرک و کفر کی گندگی بے حد ہے۔ خبردار! (تم کس بحث میں مشغول ہو گئے۔ کچھ دوسری طرف کی بھی فکر ہے؟) کہ وہ دبّاغ بے ہوش پڑا ہے۔