دفتر چہارم: حکایت: 11
مثل آنکہ دنیا گلخن، و تقوی حمام، و تونگراں سرگیں کَشانند
اس بات کی تمثیل کہ دنیا بھٹی ہے، اور پرہیزگاری حمام ہے، اور مالدار لوگ اُپلے ڈالنے والے ہیں
مطلب: ”حمام“ بدن کی صفائی کے لئے ہوتا ہے۔ اور اسکے پانی کو گرم کرنے کے لئے لید، گوبر، کوڑا کرکٹ، خس و خاشاک وغیرہ اسکی بھٹی میں ڈالے جاتے ہیں۔ حمام کے کارندے اور ملازم سب میلے کچیلے اور دھوئیں سے کالے ہوتے ہیں۔ مگر حمام میں نہانے والے صاف ستھرے ہو کر نکلتے ہیں۔ وجہ تمثیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کا مال و متاع جو ضرورت سے زیادہ ہو، گویا لید، گوبر کی طرح ناپاک ہے۔ اسکو مہیا کرنے والے زر پرست، حمام کے ملازموں کی طرح گندے اور میلے لوگ ہیں، اور جس طرح گوبر، لید کے جل جانے سے حمام گرم ہوتا ہے، اور حمام میں نہانے والے پاک و صاف ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دنیوی مال و دولت کو ترک کرنے اور اس سے مستثنٰی ہو جانے سے تقویٰ کے انوار پَرتو افگن ہوتے ہیں، اور تارکِ دولت کی روح تمام الواثِ دنیوی سے پاک و مطہّر ہو جاتی ہے۔ اب اشعار کا مطلب اس خلاصہ سے حل ہوتا جائے گا۔ معشوقہ کا مقصد اس تقریر سے یہ ہے کہ اے بوالہوس! تو بھی دنیوی لذّات کی بھٹی میں سرنگوں پڑا ہے۔ میں تجھ کو کیا خاک پوچھتی تیری بر گشتہ بختی نظر ہی آ رہی ہے۔
1
شہوتِ دنیا مثالِ گلخن ست
کہ ازو حمام تقوٰی روشن ست
ترجمہ: دنیا کی خواہش بھٹی کی مانند ہے۔ جس سے پرہیز گاری کا حمام روشن ہے۔
2
لیک قسمِ متقی زیں توں صفاست
زانکہ در گرمابہ است و در تقاست
ترجمہ: لیکن اس بھٹی سے پرہیز گار کا حصہ صفائی ہے۔ کیونکہ وہ حمام کے اندر اور پرہیز گاری میں ہے۔ (جس طرح حمام کے اندر آدمی دھوئیں اور گوبر سے محفوظ ہے، پرہیزگار دنیا کی آلائش سے امن میں ہے۔)
3
اغنیاء مانندۂ سرگیں کشاں
بہرِ آتش کردن گرمابہ داں
ترجمہ: مالداروں کو ان لوگوں کی مانند سمجھو، جو حمام میں آگ جلانے کے لئے گوبر اٹھا کر لاتے ہیں۔
4
اندر ایشاں حرص بنہادہ خدا
تا بود گرمابہ گرم و با نوا
ترجمہ: انکے اندر خداوند تعالٰی نے (سیم و زر) کی حرص ڈال دی ہے۔ تاکہ (تقوٰی کا) حمام گرم اور با سامان رہے۔
مطلب: حمام کی بھٹی میں ایندھن پڑتا ہے، تو حمام گرم ہوتا ہے۔ ایندھن نہ پڑے تو وہ گرم کیونکر ہو؟ اسی طرح دنیا میں کسبِ زر اور جمع دولت کے کاروبار چل رہے ہیں۔ تو زہد و تقویٰ والوں کو ان سے بچنے کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ بالفرض اگر یہ کاروبار نہ ہوں تو ان سے بچنے کے کیا معنٰی ہوں گے۔ جس چیز کا وجود ہی نہیں، اس سے بچنا کیا مفہوم رکھتا ہے؟
5
ترکِ ایں تُوں گیر و در گرمابہ راں
ترکِ تُوں را عین آں گرمابہ داں
ترجمہ: (اے بوالہوس!) اس (دنیوی شہوت کی) بھٹی سے نکل، اور (پرہیزگاری کے) حمام میں داخل ہو۔ بھٹی کے چھوڑ دینے کو عین حمام سمجھ (پرہیزگاری کوئی جداگانہ وصف نہیں۔ یہ ترکِ لذّات کا ہی نام ہے۔)
6
ہر کہ در تون ست او چوں خادم ست
مرو را کو صابرست و حازم ست
ترجمہ: جو شخص (دنیوی مال و دولت کی) بھٹی (کے کام) میں (مصروف) ہے۔ وہ گویا اس شخص کا خادم ہے (جس نے پرہیز گاری اختیار کر لی، اور) جو کہ (لذّاتِ دنیا سے) صبر کرنے والا اور ہوشیار ہے۔ (خادم ہونے کی یہ وجہ اُوپر سپرد قلم ہو چکی ہے، کہ وہ دنیا کے کاروبار کرتے ہیں تو اہلِ تقویٰ کو انکے کاروبار سے بچنے کا موقع ملتا ہے، ورنہ انکو کس چیز سے بچنے اور متقی کہلانے کا موقع ملتا؟)
7
ہر کہ در حمام شد سیمائے او
ہست پیدا بر رخِ زیباۓ او
ترجمہ: جو شخص (تقویٰ کے) حمام میں چلا گیا۔ اس (کے صلاح و تقویٰ کی) علامت اسکے نورانی چہرے پر نمایاں ہے۔ (﴿سِيمَاهُمْ فِیْ وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ﴾ (الفتح: 29) ”انکی علامتیں سجدے کے اثر سے انکے چہروں پر نمایاں ہیں۔“)
8
تونیاں را نیز سیما آشکار
از لباس و از دخان و از غبار
ترجمہ: (دنیا کی) بھٹی والوں کی (گند باطنی، و تیره دلی کی) علامتیں بھی انکے لباس اور (اس پر لگے ہوئے) دھوئیں، اور غبار سے ظاہر ہیں۔ (جس طرح بھٹی والوں کا لباس میلا کچیلا اور دود آلود ہوتا ہے۔ اسی طرح دنیا دار کی بات چیت، خیالات اور جذبات، دولت کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔)
9
ور نہ بینی روش بویش را بگیر
بو عصا آمد برائے ہر ضریر
ترجمہ: اگر تو اسکا منہ دیکھ (کر اسکے باطن کا پتہ) نہیں (لگا) سکتا۔ تو اسکی (عادتوں کی) بو سونگھ لے (جو اسکے خیالات کی ترجمان ہیں۔) بُو (بھی) ہر (بے خبر کو سراغ بتانے کے لئے ایسی ہے جیسے) اندھے کے لئے لاٹھی (راہنما) ہے۔ (اہلِ بصیرت چہره دیکھ کر خیالاتِ باطن کا سراغ لگا لیتے ہیں: ”اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ“ (الترمذي: 3127) ”مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے۔“)
10
ور ندانی بود رازش در سخن
از حدیثِ نو بداں رازِ کہن
ترجمہ: اور اگر تم (اخلاق و خصال کی) بُو کو (محسوس کرنا) نہیں جانتے۔ (کہ اسکے لئے بھی علمِ اخلاق کی ضرورت ہے۔ تو پھر) اسکو بات چیت میں (لگا کر) نئی نئی گفتگو سے اس (کے اندرونی جذبات کو) پرانے راز کی طرف لاؤ (ہمارے اہلِ وطن کو اگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے اس مشورہ پر عمل کرنا ہے، تو ذرا کسی مارواڑی مہاجن سے گیہوں‘ چنے‘ کپاس کا بھاؤ‘ اور آس پاس کی منڈیوں کا حال پوچھ کر دیکھیں کہ اس سوال کے جواب میں اسکی قوتِ ناطقہ کس قدر جوش میں آتی ہے، اور وہ سامعین کا مغز کس بلند آہنگی سے چاٹتا ہے۔ ہندوستان میں مہاجن قوم خصوصاً مارواڑی مہاجن جس قدر کسب دولت کے عاشق و مشتاق اور ساتھ ہی ماہر و مشاق واقع ہوئے ہیں، اور کوئی قوم انکی ٹکر کی نہیں۔)
11
پس بگوید تونئے صاحبِ ذہب
بیست سلہ چرک بُردم تا بہ شب
ترجمہ: پس وہ (دنیا کی) بھٹی (جلانے) والا سونے (چاندی سے جمع کرنے) والا بطور فخر کہتا ہے۔ کہ میں نے رات تک گوبر کے بیس ٹوکرے ڈھوئے ہیں (یعنی دن بھر سونے چاندی کی اتنی تھیلیاں کمائی ہیں۔ دنیاوی مال کو گوبر سے تشبیہ دی ہے۔)
12
حرصِ تو چوں آتش ست اندر جہاں
باز کرده صد زبانہ ہر زماں
ترجمہ: (اے طالب دنیا!) تیری حرص دنیا میں بمنزلہ آتش ہے۔ جو ہر وقت سینکڑوں شعلے مار رہی ہے۔ (دیکھ تو سہی کہ گوبر اور سونے چاندی میں باہم کس قدر مناسبت ہے۔ پھر کیا تو اسی سونے چاندی پر ریجھ رہا ہے۔)
13
پیشِ عقل ایں زر چو سرگیں ناخوش ست
گرچہ چوں سرگیں فروغِ آتش ست
ترجمہ: (چنانچہ) عقل کے نزدیک یہ سونا گوبر کی طرح ناپسند ہے۔ اگرچہ (سونے میں وہی) گوبر کی سی آتشی چمک ہے۔ (جو گوبر کے سلگنے سے پیدا ہوتی ہے۔)
نکتہ: یہاں ایک لطیف انداز میں سونے اور گوبر کا ایک وصف میں اشتراک دکھا دیا۔ لطف کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ”سونے“ کو مشبّہ اور ”گوبر“ کو مشبّہ بہٖ ٹھہرایا ہے، اور مشبّہ بہٖ، مشبّہ سے افضل ہوتا ہے۔ گویا گوبر سونے سے افضل ہوا۔ فَافْہَمْ۔
14
آفتابے کو دم از آتش زند
چرکِ تر را لائقِ آتش کند
ترجمہ: سورج جو (گرمی میں) آگ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، (یا آگ برساتا ہے) گیلے گوبر کو (خشک کر کے) آگ (میں جلنے) کے لائق بنا دیتا ہے۔ (جس سے ظاہر ہے کہ گوبر آفتاب کا ممنونِ عمل ہے۔)
15
آفتاب آں سنگ را ہم کرد زر
تا بتُونِ حرص افتد صد شرر
ترجمہ: (اب دیکھئے کہ) آفتاب نے اس پتھر کو بھی (کان کے اندر) سونا بنا دیا۔ تاکہ حرص کی بھٹی میں سینکڑوں چنگاریاں جا پڑیں۔ (اس سے ظاہر ہے کہ گوبر کی طرح سونا بھی سورج کا مرہونِ منت ہے۔ پس یہ گوبر اور سونے کا دوسری بات میں اشتراک ہوا۔)
16
آنکہ گوید مال گرد آورده ام
چیست یعنی چرک چندیں خورده ام
ترجمہ: وہ جو کہتا ہے کہ میں نے مال جمع کیا ہے۔ (اسکا مطلب) کیا ہے؟ یعنی میں نے اتنی نجاست کھائی ہے۔
17
ایں سخن گرچہ کہ رسوائی فزاست
درمیان تونیاں زیں فخرہاست
ترجمہ: یہ بات اگرچہ رسوائی بڑھانے والی ہے۔ مگر دنیا داروں میں اس پر فخر (کئے جاتے) ہیں۔
18
گر تو شش سلّہ کشیدی تا بہ شب
من کشیدم بست سلّہ بے تعب
ترجمہ: (کہ) اگر تو نے رات (نجاست کے) چھ ہی ٹوکرے ڈھوئے۔ تو میں بیس ٹوکرے بے تکان جمع چکا ہوں۔(یعنی تو نے ساٹھ روپے کمائے تو میں بآسانی دو سو کما کر اٹھا ہوں۔)
19
آنکہ در تُوں زار و پاکی را ندید
بوے مشک آرد برو رنجے پدید
ترجمہ: جو شخص گندگی کی جگہ پیدا ہوا، اور اس نے پاکی نہیں دیکھی۔ مشک کی خوشبو اس پر کوئی مرض طاری کر دیتی ہے۔ (جو شخص پیدائش سے بری صحبت میں رہا۔ اچھی صحبت سے اسے نفرت ہوتی ہے، بلکہ وہ اس سے ضرر محسوس کرتا ہے۔)
20
گر بتوں انباز خواہی بود تو
زیں زیاں ہرگز نہ بینی سود تو
ترجمہ: (اے غافل!) اگر تو (اس متاعِ دنیا کی) بھٹی کے ساتھ ملا جلا رہا۔ تو اس نقصان میں تو ہرگز فائدہ نہ دیکھے گا۔