دفتر چہارم: حکایت: 10
بیان آنکہ غرض از بَصِیْر و سَمِیْع و عَلِیْم گفتنِ حق چیست؟
اس بات کا بیان کہ حق تعالٰی کے (اپنے آپ کو) ”بَصِیْر“ اور ”سَمِیْع“ اور ”عَلِیْم“ کہنے سے غرض کیا ہے؟
1
از پئے آں گفت حق خود را بَصِیْر
کہ بود دیدِ ویت ہر دم نذیر
ترجمہ: حق تعالٰی نے اس لئے اپنے آپ کو بَصِیْر (بینا) کہا ہے۔ تاکہ اس کا دیکھنا ہر وقت تجھے ڈراتا رہے (یعنی تو گناہ کرتے وقت ڈرے کہ حق تعالٰی مجھے دیکھتا ہے۔)
2
از پئے آں گفت حق خود را سَمِیْع
تا بہ بندی ز گفتارِ شنیع
ترجمہ: حق تعالٰی نے اپنے آپ کو سَمِیْع (خوب سننے والا) اس لئے کہا ہے، تاکہ تو بری بات سے اپنے (لب) بند رکھے۔ (اس خوف سے کہ خدا اسکو سن لے گا۔)
3
از پئے آں گفت حق خود را عَلِیْم
تا نیندیشی فسادے تو ز بیم
ترجمہ: حق تعالٰی نے اپنے آپ کو عَلِیْم (بہت جاننے والا) اس لئے کہا ہے، تاکہ کوئی بری نیت نہ کرے۔ (اس) خوف سے (کہ خدا کو معلوم ہو جاۓ گا۔)
4
نیست اینہا بر خدا اسمِ علَم
کہ سیہ کافور دارد نام ہم
ترجمہ: یہ سارے (اسماء) خداوند تعالٰی کے اسمِ علم (یعنی محض پہچان کے لئے رکھے ہوئے نام) نہیں ہیں۔ کیونکہ (علمیت کے لحاظ سے تو) ایک حبشی کا نام بھی کافور ہوتا ہے۔
مطلب: حبشی نہایت کالا ہوتا ہے، اور کافور بالکل سفید براق۔ بظاہر ان میں کوئی مناسبت نہیں، نہ سہی، مناسبت کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو اسم علم ہے جو اس حبشی کے پیدا ہوتے ہی مقرر کر دیا گیا۔ اب اس سے اتنا فائدہ ہے اور یہی فائدہ مقصود ہے کہ جب کافور کہہ کر پکارتے ہیں تو یہ کالا کلوٹا حبشی دوڑا چلا آتا ہے۔ اسی لئے کہا ہے: ع۔ ”بر عکس نہند نام زنگی کافور۔“ جاہل ماں باپ، اپنے بچے کا نام فاضل رکھ دیتے ہیں، اور بکریاں چرانے پر لگا دیتے ہیں۔ ساری عمر اس کو ”الف، با“ کی شکل دیکھنی نصیب نہیں ہوتی۔ پھر بھی فاضل کا فاضل، کیونکہ یہ اسکا اسمِ علم ہے وصفی نام نہیں، اور نہ وصف ملحوظ ہے۔ اور اگر وصف ملحوظ ہوتا تو ایسا نام رکھنا ایک جعلسازی و فریب اور جرم سمجھا جاتا۔ حالانکہ ایسا نام رکھنا کوئی جرم نہیں، کیونکہ یہاں یہ وصفی نام ہی نہیں۔ وصفی نام فاضل اس شخص کا ہو سکتا ہے جو مثلاً جامعہ ازہر یا جامع دیوبند میں برسوں پڑھ کر آیا ہو۔ اسی لئے کہا ہے ”لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل“ پس خداوند تعالٰی کے یہ اسماء اسمِ علم کے قبیل سے نہیں ہیں، کیونکہ اسکی ذات نمایاں تر ہے۔ اسکو کسی اسمی امتیاز کی ضرورت نہیں۔ پس یہ اسماء وصفی ہیں اور ”بَصِیْر، سَمِیْع، عَلِیْم“ سے اسکا بَصَرْ و سَمَعْ و عِلَمْ کی صفات کے ساتھ بدرجۂ کمال موصوف ہونا مقصود ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
5
اسم مشتق ست ز اوصافِ قدیم
نے مثالِ علتِ اولٰی سقيم
ترجمہ: (خداوند تعالٰی کے ان ناموں سے ہر ایک نام اس کے) قدیم اوصاف سے بنا ہوا اسم ہے۔ (وہ نام) علت اولٰی (کے نام) کی طرح ناقص نہیں۔
مطلب: بَصَرْ، سَمَعْ، عِلَمْ وغیرہ جو اللہ تعالٰی کی صفاتِ قدیمہ ہیں یہ اسماء ان سے مشتق ہیں، اور وہ انہی صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا: ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی﴾ (الاعراف: 180) یعنی”اور اسمائے حسنٰی (اچھے اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں“۔ پھر فرمایا، وہ علّتِ اولٰی کی طرح سقیم و ناقص نہیں کیونکہ علتِ اولٰی جس کو فلاسفر مانتے ہیں، کوئی معنٰی جیّد نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کسی چیز کو ادراک و مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ اس نے محض اشیاء کو باہم ربط دے دیا ہے، اور اسی سلسلے سے جہان قائم ہے، اور یہ ربط و ارتباط بطورِ علّت و معلول ہے اور اسکا سلسلہ علتِ اولٰی تک پہنچتا ہے، جس نے بذاتہٖ اس سلسلے کو جاری کیا ہے، اور تمام عالم اسکا معلول ہے۔ یہ ساری باتیں ناقص اور بے معنٰی ہیں۔ عالم کا تعلق حق کے ساتھ معلولیّت کی جہت سے نہیں ہے، بلکہ اسکے سامنے عالم کا عدم و وجود یکساں ہے کیونکہ وہ فاعل مختار ہے۔ اسکی صفات قدیمی ہیں۔ وہ علت و معلول سے منزّہ ہے۔ (منہج) فلاسفہ حق تعالٰی کو علّتِ اولٰی کہتے ہیں، اور معلولِ اوّل کا صدور بسبیل ایجاب اسکے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ان صفات کا اطلاق حق تعالٰی کے لئے علتِ اولٰی کے اطلاق کی طرح نہیں، کیونکہ حق تعالٰی تمام اشیاء کا خالق ہے۔ اسکے سوا کوئی ہرگز خالقیت کی بو نہیں رکھتا۔ پس اسکو علتِ اولٰی کہنا خلافِ واقع ہے، کیونکہ یہ نام چاہتا ہے کہ علتِّ ثانیہ، ثالثہ وغیرہ بھی ہوں گی، اور جو فعل علتِ اولٰی کا ہے وہی انکا بھی ہو گا۔ ”تَعَالٰی اللہُ عَنْ ذَالِکَ“۔ مگر صفات ”سَمِیْع، بَصِیْر، عَلِیْم“ وغیرہ ایسی نہیں ہیں۔ بلکہ فی الواقع صرف ذات حق سبحانہٗ و تعالٰی انکے ساتھ موصوف ہے۔ (بحر)
6
ورنہ تسخُّر باشد و طنز و دغا
کر را سامع، ضریرے را ضیاء
ترجمہ: ورنہ (ان وصفی اسماء کا اطلاق ایسی ذات پر کرنا جس میں وہ اوصاف نہ ہوں) تمسخر اور طنز اور فریب ہو گا۔ (جیسے کسی) بہرے کو سننے والا (اور) اندھے کو روشنی (کہنا۔)
7
يا علَم باشد حیی نامِ وقیح
یا سیاه زشت را نامِ صبیح
ترجمہ: یا کسی بے حیا کا اسم علَم حیا دار ہو، یا کسی بد صورت حبشی کا نام گورا ہو۔
8
طفلکِ نوزاده را حاجی لقب
یا لقب غازی نہی بہرِ نسب
ترجمہ: (یا مثلاً) کسی نو متولد بچے کا لقب حاجی (احمد رکھ دو) یا (غازیوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے اظہار) نسب کے لیے غازی لقب رکھ دو (تو اس میں کوئی حرج نہیں۔)
9
گر بگویند ایں لقبہا در مدیح
چوں ندارد آں صفت نبود صحیح
ترجمہ: (لیکن) اگر یہی القاب (توصیف و) مدح کے موقع پر استعمال کریں تو چونکہ اس (ممدوح) میں یہ صفت نہیں ہے۔ اس لئے وہ صحیح نہ ہو گا۔
10
تسخر و طنزے بود آں یا جُنوں
پاک حق ﴿عَمَّا يَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ﴾
ترجمہ: (پس) وہ (مدح) تمسخر و طنز ہو گی یا دیوانگی۔ حق تعالٰی اس سے پاک ہے: ﴿عَمَّا يَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ﴾ (سورۃ ابراہیم: 42) ”جو ظالم لوگ (اسکے بارے میں) بکتے ہیں۔“
مطلب: کسی جاہل کو علامہ کہنے کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسکے ساتھ استہزاء و تمسخر مقصود ہو۔ دوسرے اگر وہ جاہل ہونے کے باوجود عالموں سے جھگڑنے کی جرأت کرے تو طنزاً اس کو یہ لقب دیا جائے۔ تیسرے جب عوام کو اسکا معتقد بنانا اور اس سے کوئی مطلب نکالنا مقصود ہو، تو بطور فریب اس کو عالمانہ دستار و قبا پہنا کر اس لقب سے نامزد کیا جائے۔ چوتھے ایسے بے محل و ناموزوں لقب بخشنے والا خود دیوانہ ہو، جو منہ میں آئے کسی کے لئے بول دے مگر حق کے لئے اس طرح نادرست اسم استعمال کر نے کی کوئی بھی وجہ جائز نہیں ہو سکتی۔ مطلب یہ ہے کہ اسمِ علم تو جیسے بھی مسمّٰی کے لئے مقرر کر دیا جائے وہ شائع و ذائع ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ کسی زنگی کو کافور، کسی جاہل کو فاضل خان۔ کسی ٹکر گدا کو نواب دین، اور کسی بے خان و مال کو سلطان علی کہہ سکتے ہیں، مگر جن ناموں میں وصف مقصود ہو انکا کسی ایسی ذات کے لئے اطلاق کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جس میں وہ وصف نہ ہو؟ جیسے کسی اندھے کو باریک بین و تیز نظر کہا جائے۔ سوائے اسکے کہ اس سے مذاق یا فریب مقصود ہو۔ ”وَ تَعَالٰی اللّٰهُ عَنْ ذٰلِكَ عُلُوًّا کَبِیْرًا“۔ حق تعالٰی کے ساتھ نہ کوئی تمسخر کر سکتا ہے، نہ اسکو طنز دینے کی کسی کو تاب ہے، اور نہ یہاں فریب اور دغا کی ضرورت ہے، اور نہ کروڑوں اربوں مخلوق جو حق تعالٰی کو ان ناموں سے پکارتی ہے، سب کی سب دیوانی ہو سکتی ہے۔ لا محالہ حق تعالٰی کے وصفی نام صحیح طور سے صادق اور اسکی صفاتِ قدیمہ و صحیحہ کے مظہر ہیں۔ معشوق کی اس تقریر کا مطلب یہ ہے کہ اے بوالہوس! کہ تو اس بَصِیْر و سَمِیْع اور عَلِیْم سے ڈرتا نہیں جو تو ایسے فعلِ شنیع کا مرتکب ہو رہا ہے، اور ایسی بیہودہ باتیں منہ سے نکالتا ہے، اور ایسی بری نیت کر رہا ہے۔ اب آگے اسے کہتی ہے:
11
من ہمیدانستمت پیش از وصال
کہ نکو روئی و لیکن بد خصال
ترجمہ: میں ملنے سے پہلے تجھے جانتی تھی۔ کہ تو خوب صورت (تو) ہے مگر بد خصلت ہے۔
12
من ہميدانستمت پیش از لقا
کز ستیزه را سخی اندر شقا
ترجمہ: میں ملاقات سے پہلے تجھے جانتی تھی۔ کہ تو جگھڑالو ہونے کی وجہ سے بد بختی میں ثابت قدم ہے۔
13
چونکہ چشمم سرخ باشد در عمش
دانمش زاں درد گر کم بینمش
ترجمہ: (1) جب میری آنکھ ڈھلکے (یا ضعفِ بصر) میں سرخ ہو جائے، تو اس مرض کی وجہ سے (میں اس سرخی) کو معلوم کر لیتی ہوں۔ اگرچہ اسکو دیکھ نہیں سکتی۔ (اسی طرح تجھ کو میں نے بے دیکھے سمجھ لیا تھا کہ اس قماش کا آدمی ہے۔)
(2) جب کسی کے غم میں میری آنکھ خوں فشاں ہو تو اس درد (عشق) کی وجہ سے میں اس (کی قدر و قیمت) کو جانتی ہوں۔ اگرچہ اسکی زیارت نہ کی ہو (مگر تو اس پایہ کا نہیں ہے۔ جا اپنی راہ الگ۔)
مطلب: مولانا بحر العلومؒ فرماتے ہیں کہ یہ آخری تقریر اوجَح اور ادقّ اور مناسب مقام ہے۔ اس تقریر پر ”غمش“ میں شین کی ضمیر مبہم ہے، اور مراد یہ ہے جو شخص بھی اس صفت کا مالک ہو، تو میں اسکی غائبانہ شیدا ہوں، اسکی میں قدر دان ہوں۔ یہ ذکر مرجع نہیں چاہتا۔ (انتہٰی) آگے اسکو ملامت کے پیرایہ میں خوفِ حق پر متوجہ کرتی ہے۔
14
تو مرا چوں برّہ دیدی بے شباں
تو گماں کر دی ندارم پاسباں
ترجمہ: تو نے مجھے اس بکری کے بچے کی مثل سمجھا جس کا کوئی چرواہا (محافظ) نہ ہو۔ تو نے یہ سمجھا کہ میرا کوئی نگہبان نہیں۔
15
عاشقاں از درد زاں ناليده اند
کہ نظر نا جائگہ مالیده اند
ترجمہ: (تجھ سے) عاشقوں کو درد (غم) سے (تنگ آ کر) اسی لیے رونا (دھونا) نصیب ہوتا ہے۔ کہ وہ بے موقع نظر بازی کرتے پھرتے ہیں۔ (خدا سے نہیں ڈرتے۔ پس اسکی غیر ت انکو مبتلائے غم و الم کرتی ہے۔)
16
بے شباں دانستہ اند آں ظبی را
رائگاں دانستہ اند آں سبی را
ترجمہ: انہوں نے اس ہرنی کو لا وارث سمجھ لیا۔ اس قیدی کو مفت جانا۔
17
تا ز غیرت تیر آمد بر جگر
کہ منم حارس گزافہ کم نگر
ترجمہ: یہاں تک کہ غیرت (الٰہیہ) کا تیر ان کے جگر پر لگا۔ (جس میں یہ اشارہ مضمر ہے) کہ میں (اس ہرنی) کا نگہبان ہوں، تو بیہودگی کے ساتھ نظر نہ کر۔
مطلب: منہج القوٰی میں لکھا ہے کہ بظاہر یہ عتاب معشوقہ کی طرف سے ہے، لیکن فی الحقیقت اللہ تعالٰی کی طرف سے معشوقہ کی زبان کے ذریعہ سے ہے۔ یعنی اے عاشق بو الہوس! میں حافظ حارس اور سمیع و بصیر ہوں۔ میرے سوا کسی اور کی طرف نہ دیکھ، جو بمنزلۂ شرک ہے اور شانِ عشق سے بعید ہے۔ آگے پھر معشوقہ کہتی ہے:
18
کے کم از برّہ کم از بز غالہ ام
کہ نباشد حارس از دنبالہ ام
ترجمہ: کیا میں ایک بھیڑ بکری کے بچے سے کم ہوں؟ کہ میرے پیچھے کوئی نگہبان نہ ہو۔
19
حارسے دارم کہ مُلکش مے سزد
داند آں بادے کہ بر من مے و زد
ترجمہ: میں وہ نگہبان رکھتی ہوں جس کو (تمام عالم کی) حکومت سزا وار ہے۔ (ایک بوالہوس عاشق تو رہا الگ) وہ اس ہوا کو بھی جانتا ہے جو مجھ سے چھو جائے۔
20
سرد بود آں باد یا گرم آں علیم
نیست غافل نیست غائب اے سقیم
ترجمہ: اے بیمارِ (ہوس) وہ بڑا دانا (اس بات سے) غافل نہیں، نہ غائب ہے کہ وہ ہوا ٹھنڈی تھی یا گرم۔
(یہاں تک معشوقہ نے اس عاشق کو اسکی بد نیّتی و بد نظری پر ملامت کی ہے۔ اب وہ اس اصلی سبب کا راز فاش کرتی ہے جو اس بد نیّتی کا باعث ہے یعنی غلبۂ شہوت، اور یہاں ”سقیم“ کے لفظ سے اسی سبب کی طرف اشارہ کیا تھا:)
21
نفسِ شہوانی ندارد نورِ جاں
من بدل کوریت مے دیدم عیاں
ترجمہ: شہوت پرست نفس روحانی نور نہیں رکھتا۔ چنانچہ میں صاف چشم باطن سے، تیری کور باطنی دیکھ رہی تھی۔
22
نفس شہوانی ز حق کرست و کور
من بدل کوریت مے دیدم ز دور
ترجمہ: شہوت پرست نفس حق (کی طرف) سے بہرا اور اندھا ہے۔ میں چشمِ باطن کے ذریعہ دور سے تیری کور باطنی دیکھ رہی تھی۔
23
ہشت سالت زاں پُرسیدم بہیچ
کہ پُرت دیدم ز جہل و پیچ پیچ
ترجمہ: آٹھ سال تک میں نے تجھ کو اس لئے بالکل پوچھا تک نہیں۔ کہ میں نے تجھ کو جہالت سے پُر اور الجھا ہوا پایا۔
24
خود چہ پرسم آنکہ او باشد بتُوں
کہ تو چونی؟ چوں بود او سرنگوں
ترجمہ: بھلا میں اس شخص کو جو بھٹی کے سوراخ میں (گھس رہا ہو) کیا پوچھوں کہ تو کیسا ہے؟ جب کہ وہ (اس میں) سرنگوں (پڑا ہوا نظر آ رہا) ہو۔