حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 109
تفسیر ”کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ“ (عجلونی، کشف الخفاء، الرقم: 2016)
اس کی تفسیر کہ ”میں مخفی خزانہ تھا، پس مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔“
مطلب: ظاہر یہ ہے کہ ”کنز“ سے مراد ذاتِ متصفہ باسماء و صفات اور اس کی احدیت ہے، اور اس کا معروف ہونا انسان میں بدرجۂ اتم ہے۔ یہی معرفت مخلوق کے پیدا کرنے کی علّتِ غائیہ ہے، اور انسان کا اپنی ذات میں اس ذاتِ موصوفہ کو پہچاننا علم ذوقی ہے، اور اپنے سوا میں پہچاننا علمِ شہودی (بحر العلوم) اس حدیثِ قدسی کا مفہوم یہ ہے کہ حق تعالٰی فرماتا ہے کہ میں مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک گنجِ پنہاں تھا۔ جس کو جاننے پہچاننے والا کوئی نہ تھا۔ مجھے شوق ہوا کہ میرے جاننے پہچاننے والے اور میرے محّب و مشتاق شیفتہ و شیدا، طالب و عاشق بھی ہوں، اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ چنانچہ اب اس مخلوق میں لاکھوں میرے عاشق ہیں، جو میری طلب میں سرگردان ہیں۔ اس مفہوم کو ذہن نشین رکھو۔ آگے ربط دیتے وقت اس کو مستحضر کرنا ہوگا:
1
خانہ بر کن از عقیقِ این یمن
صد ہزاراں خانہ شاید ساختن
ترجمہ: تو (اپنی ہستی کے) گھر کو کھود ڈال (جس کے اندر ایک عقیق موجود ہے) اس یمن کے عقیق سے لاکھوں (نئے) گھر تعمیر کر سکتے ہیں۔
مطلب: ”یمن“ سے قلب و روح اور ”عقیق“ سے حکمت مراد ہے۔ چنانچہ وارد ہے کہ: ”اَلْإِيْمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ“ (مسنداحمد) اس میں ”ایمان“ سے قلبِ مصدق، اور ”حکمت“ سے علمِ محکم بعمل مقصود ہے۔ یعنی خانۂ وجود کو ریاضت سے کھود ڈال، اس وجود ظلمانی کے کالعدم ہونے کے بعد قلب سے لاکھوں روحانی عجائب ظہور پا سکتے ہیں۔(منہج) تعلقِ بدنی کو فنا کرنے سے ہر صورتِ بشریہ میں ظہور کر سکتے ہیں۔ یہ صورتیں مثالی ابدان کی ہیں، اور عارف ہر صورتِ مثالی سے عالم کی سیر کر سکتا ہے۔(بحر)
2
گنج زیرِ خانہ است و چارہ نیست
پس ز ہدمِ خانہ میندیش و مایست
ترجمہ: خزانہ گھر کے نیچے (مدفون) ہے، اور (اگر خزانہ کو نکالنا اور قبضے میں لانا چاہتے ہو تو اس کو منہدم کرنے کے بغیر) چارہ نہیں۔ پس تم گھر کو منہدم کرنے میں تامل نہ کرو اور کھڑے نہ رہو۔
3
کہ ہزاراں خانۂ از یک نقدِ گنج
مے تواں کردن عمارت بے ز رنج
ترجمہ: کیونکہ خزانہ کی ایک نقدی سے بلا تکلّف، ہزاروں گھر تعمیر کر سکتے ہیں۔
4
عاقبت آں خانہ خود ویراں شود
گنج از زیرش یقین عریاں شود
ترجمہ: آخر وہ گھر (موت کے بعد) خود مسمار ہو جائے گا۔ اور یقیناً اس کے نیچے سے خزانہ ننگا ہو جائے گا۔ (شاید تم کہو کہ ہم ازخود اپنی ہستی کا گھر کیوں ڈھائیں؟ جب وہ خود بخود ڈھ جائے گا، تو خزانہ نکل پڑے گا۔ واضح رہے کہ اس وقت تم اس خزانہ سے متمتع نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:)
5
لیک آنِ تو نباشد زانکہ روح
مزدِ ویران کردن استش آں فتوح
ترجمہ: لیکن (پھر وہ خزانہ) تیری ملک نہ ہو سکے گا، کیونکہ روح (جو اس خزانہ پر قابض ہوتی ہے تو) وہ کشائشِ غنا اس کے (خانۂ و وجود کو باختیارِ خود) ویران کرنے کا عوض ہے (اور موت کے بعد خانۂ وجود اضطرارًا ویران ہوتا ہے۔)
6
چوں نکرد آں کار مزدش ہست لا
لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
ترجمہ: جب اس نے (باختیارِ خود) وہ (انہدامِ خانہ ہستی کا) کام نہیں کیا، تو اس کا محنتانہ نہیں (مل سکتا) ”انسان کا حق اتنا ہی ہے جتنی وہ کوشش کرے۔“
7
دست خائی بعد ازاں تو کاے دریغ
ایں چنیں ماہے بُد اندر زیرِ میغ
ترجمہ: اس کے بعد تو (حسرت سے اپنا) ہاتھ کاٹے گا (اور کہے گا کہ ہائے افسوس! ایسا چاند بادل کے نیچے موجود تھا (میں نے اس کی پروا نہ کی۔)
مطلب: جب خانۂ بدن موتِ طبیعی سے ویران ہو جائے گا اور تو روح مجرد رہ جائے گی، اس وقت تیرے سامنے سے حجاب اٹھ جائے گا، پھر تو افسوس کرے گا کہ میں نے تن پروری میں عمر گزار دی۔ ان کمالاتِ روحانیہ کو پیدا نہ کیا جو روح کے اندر بالقوہ موجود تھے، مگر اس وقت افسوس کرنا مفید نہ ہو گا کیونکہ اب عمل کا موقعہ نہیں آئے گا۔ چنانچہ تو کہے گا:
8
من نکردم آنچہ گفتند از بِہی
گنج رفت و خانہ و دستم تہی
ترجمہ: (افسوس) مجھے جو اچھی بات (بطورِ مشورہ) کہی گئی میں نے اس پر عمل نہ کیا۔ خزانہ (بھی) گیا اور گھر (بھی تباہ ہوا) اور میرا ہاتھ خالی رہ گیا)۔
9
حائلِ گنج و حجاب ایں خانہ بود
مانعِ صد خرمن ایں یک دانہ بود
ترجمہ: (افسوس) یہ گھر خزانہ کی آڑ اور حجاب رہا، ایک دانہ سینکڑوں خرمنوں کی رکاوٹ بنا رہا، اس لیے میں اس خزانہ کو معلوم نہ کر سکا۔
مطلب: اس خزانہ کے عدمِ حصول کے دو سبب تھے، ایک اس کا مشاہدہ میں نہ آنا۔ اس شعر میں اسی سبب پر افسوس کیا ہے۔ دوسرے جو حضرات اس کے غائبانہ وجود کی اطلاع دیتے اور اس کے لیے کوششِ حصول کی تاکید فرماتے تھے ان کے ارشاد پر عمل نہ کرنا، اور دوسرے شعر میں اس سبب پر اظہارِ حسرت کیا ہے۔ آگے اس محروم کو اپنی چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھانے پر ایک اور عجیب پیرایہ میں تنبیہ فرماتے ہیں:
10
خانۂ اجرت گرفتی و کریٰ
نیستِ ملک توبہ بیعے و شریٰ
ترجمہ: تو نے یہ خانۂ (وجود) اجرت و کرایہ پر لیا ہے، جو بیع و شریٰ کے ساتھ تیرا ملک نہیں ہوا۔
مطلب: اجرت و کرایہ پر لینے سے عارضی تصرف، اور بیع و شریٰ سے دائمی قبضہ مراد ہے، کیونکہ کرایہ دار کو مالک مکان جب چاہے گھر سے بے دخل کر دے، اور خرید شدہ مکان سے کوئی بے دخل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ انسان کا وجودِ جسمانی اور اس کی دنیوی زندگی چند روزہ ہے دائمی نہیں۔
11
ایں کریٰ را مدّتے او تا اجل
تا دریں مدت کنی در وے عمل
ترجمہ: اس کرایہ کی معیاد موت تک ہے، تاکہ اس مدت کے اندر تو اس گھر میں (ٹھہر کر کچھ) کما لے۔ (یعنی اس چند روزہ زندگی، کا توشۂ اعمال جمع کر لے۔)
12
پارہ دوزی مے کنی اندر دکاں
زیر ایں دکانِ تو پنہاں دوکاں
ترجمہ: تو دکان کے اندر چیتھڑے سی رہا ہے۔ اس دکان کے نیچے (زر و جواہر) کی دو کانیں مخفی ہیں۔ (تو لذائذِ جسمانیہ کے حصول میں منہمک ہے، حالانکہ تیری روح کے اندر اس سے کہیں زیادہ گراں قدر روحانی لذتیں موجود ہیں۔)
13
ہست ایں دکاں کرائی زود باش
تیشہ بستاں و تگش را مے خراش
ترجمہ: یہ کان کرایہ کی ہے (اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا اس لیے) جلدی کر تیشہ لے اور اس کی تہ کرید (ریاضات سے جسم کو مضمحل کر اور روح کو قوت دے۔)
14
تاکہ تیشہ ناگہاں بر کاں نہی
از دکان و پارہ دوزی وا رہی
ترجمہ: تاکہ تو تیشے کو اچانک کان پر جا مارے۔ (اور اس دولت کے حصول سے اس قدر مال دار ہو جائے کہ) دکانداری اور پارہ دوزی سے چھوٹ جائے۔
15
پارہ دوزی چیست خوردِ آب و ناں
مے زنی ایں پارہ بر دلقِ گراں
ترجمہ: پارہ دوزی کیا ہے؟ پانی اور روٹی کی خوراک۔ تو یہ (خوراک کا) چیتھڑے (جسم کی بھاری گدڑی) پر ہی ہے۔
16
ہر زماں مے درّد ایں دلقِ تنت
پارہ بر وے مے زنی زیں خوردنت
ترجمہ: ہر لمحہ یہ جسمانی گدڑی پھٹتی رہتی ہے، تو اپنی اس خوراک سے اس پر پیوند لگا دیتا ہے۔ (انسان کا جسم ہر لمحہ تحلیل ہو کر کم ہوتا رہتا ہے، اور غذا سے بدل یا تحلیل ہو کر یہ کمی ساتھ کے ساتھ پوری ہوتی رہتی ہے۔)
17
اے ز نسلِ بادشاہِ کام گار
با خود آ زیں پارہ دوزی ننگ دار
ترجمہ: اے (غافل! جو) بادشاہ یا اقبال (یعنی آدم علیہ السّلام خلیفۃ اللّٰہ فی الارض) کی نسل سے (ہے۔) ہوش میں آ، اور اس پارچہ دوزی سے شرم کر۔
مطلب: حضرت آدم علیہ السّلام کو بادشاہ کام گار اس لیے کہا کہ وہ سب سے پہلے خلیفۃ اللہ ہیں، جن کی خلافت کے متعلق ملائکہ بھی بحث کر چکے ہیں، اور کام گار اس لیے کہ شیطانِ لعین نے ہر چند ان کو شکست دینی چاہی، مگر ان کے وابت قرب میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی اور وہ اس طرح با اقبال و با مراد رہے۔ یہ فرزندی بحیثیت جسم ہے، اگر فرزندی حیثیت سے روح مراد ہو، تو پھر شاہِ کام گار سے شاہِ کونین سرورِ دارین رسول مقبول علیہ الصّلوۃ والسّلام ہیں، کیونکہ آپ کی روح بنظرِ حیثیت تمام موجودات کی باپ ہے۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”اَنَا مِنْ نُوْرِ اللہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنْ نُوْرِیْ اَوْ کَمَا قَالَ۔“ (لم أجد) یعنی ”میں اللہ کے نور سے ہوں اور مومن میرے نور سے ہیں۔“
18
پارۂ بر کن ازیں قعرِ دکان
تا بر آرد سر به پیشِ تو دوکان
ترجمہ: (اپنے جسم پر پیوند لگانے کے بجائے) اس دکان کی تہ سے پیوند اکھیڑ۔ تاکہ تیرے آگے دولت کی دکانیں نمودار ہو جائیں۔
19
پس ازاں کایں مہلت خانہ کرے
آخر آید بر نخوردہ زو برے
ترجمہ: اس کے بعد جو اس کرایہ کے گھر کی معیاد، اس سے کوئی پھل کھائے بدوں پوری ہو جائے۔
20
پس ترا بیروں کند صاحبِ دکان
ویں دکاں را بر کند از روئے کاں
ترجمہ: پھر تجھ کو مالک دکان (اس کے) باہر نکال دے۔ (﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ﴾ (الاعراف: 34)) اور وہ اس دکان کو کان کے اوپر سے اکھاڑ پھینکے۔
21
تو ز حسرت دست بر سر مے زنی
گاہ ریشِ خامِ خود بر مے کنی
ترجمہ: تو تو حسرت سے سر پیٹنے لگے گا کبھی اپنی احمقانہ ڈاڑھی کو نوچے گا۔
22
کاے دریغا آنِ من بود ایں دکاں
کور بودم بر نخوردم ز ایں مکاں
ترجمہ: کہ ہائے افسوس یہ دکاں میرے قبضے میں تھی۔ میں اندھا تھا (جو) اس مکان سے فائدہ نہ اٹھایا۔
23
اے دریغا گنج را بگذاشتم
آبِ حیواں را بخاک انپاشتم
ترجمہ: ہائے افسوس! میں نے خزانہ کو چھوڑ دیا۔ آبِ حیات کو مٹی سے ڈھک دیا۔
24
اے دریغَا بود ما را بردباد
تا ابد یَا حَسْرَتَا شُد لِلْعِبَاد
ترجمہ: ہائے افسوس! وہ (خزانہ) ہمارا تھا (جو) برباد ہو گیا۔ (اب) ہمیشہ کے (لیے) ہم پر اللہ کا یہ قول صادق آتا ہے ”کہ حسرت ہے بندوں کے لیے۔“
انتباہ: یہ ترجمہ اس تقدیر پر ہے کہ ”بود“ کا اسم یعنی ”آں خزانہ“ مقدر ہو، اور یہ شعر اس مضمون کا ایک جزو ہو۔ جس میں کمالاتِ باطن کو خزانہ زیر دکان کے استعارہ میں ظاہر کیا ہے۔ لیکن اگر اس شعر کو اس مضمون کا نتیجہ و ملخص قرار دیا جائے اور ”بود“ بمعنٰی ہستی ”مارا“ کے ساتھ مضاف ہو، تو پھر ترجمہ یوں ہو گا ”ہائے افسوس! ہماری ہستی برباد ہو گئی۔ یا ہائے افسوس ہماری ہستی کو ہوائے نفس اڑا لے گئی۔“ یعنی ہواؤ ہوس میں زندگی ضائع ہوئی، اعمالِ صالحہ بجا نہ لا سکے، اور روحانی کمالات حاصل نہ کئے۔
25
اے دَریغا اے دَریغا اے دریغ
ماہِ من پنہاں بماند زیرِ میغ
ترجمہ: ہائے افسوس! ہائے افسوس! ہائے افسوس۔ کہ میرا (کمالات کا) چاند (جسمانیت کے) بادل کے نیچے (چھپا کا) چھپا رہ جائے (اور اس کے طلوع کا موقع ہاتھ سے نکل جائے)۔
مطلب: حدیث مندرجہ عنوان ”کُنْتُ کَنْزاً۔۔الخ“ کا جو مفہوم اوپر درج ہو چکا ہے اس کو ذہن میں مستحضر کر کے غور کرنا چاہیے، کہ اس بیان کو اس حدیث کی تفسیر ٹھہرایا ہے، تو وہ اس کی تفسیر کس اعتبار سے ہے؟ مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عارفین کے قلوب پر جو حق تعالٰی کی تجلیات وارد ہوتی ہیں اور وہ ان کی ازدیادِ شوق کے باعث ہوتی ہیں، اور بندوں کو موردِ تجلیات بنا کر اپنا والہ و شیدا کرنے کے لیے ہی خدا نے مخلوق کو پیدا کیا ہے، اس بیان میں انہی کمالات کے حاصل نہ کرنے پر افسوس کیا ہے کہ قلب میں موردِ تجلیات ہونے کی صلاحیت و استعداد موجود تھی، مگر اس سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ پس یہ بیان جس میں ایک قلب کے مخفی خزانہ کا سراغ بتایا ہے۔ تجلیاتِ خداوندی کے اس خزانہ کی تفسیر کر رہا ہے، جس کے اظہار کے لیے مخلوق کو پیدا کیا گیا، اور انسان کے قلب میں اس کے اظہار کی صلاحیت رکھی گئی، مگر غافل لوگ اس سے متمتع نہیں ہوتے۔ آگے اسی حسرت مند و متاسف کی زبان سے یہ بات کہلاتے ہیں کہ میں نے علومِ دنیویہ میں تو سر کھپا کر عمر ضائع کی، مگر غیبی علوم و معارف کے حصول کی کوشش نہ کی جس کی بدولت کمالاتِ باطن کا خزانہ ہاتھ آتا ہے۔