حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 108
شرح کردن موسیٰ علیہ السّلام آں چار فضیلت ہائے مزد را
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان کو بطورِ عوض ملنے والی چار فضیلتوں کی تفصیل کرنا
1
گفت موسیٰؑ کاوّلینِ آں چہار
صحّتے باشد تنت را پائیدار
ترجمہ: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ ان چاروں میں سے پہلی یہ ہے کہ تیرے وجود کی صحت پائیدار رہے گی۔
2
آں عللہائے کہ در طب گفتہ اند
دور باشد از تنت اے ارجمند
ترجمہ: وہ بیماریاں جو طب میں بیان کی گئی ہیں اے ارجمند! یہ تیرے وجود سے دور رہیں گی۔
مطلب: مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ اس سے اخلاقی و روحانی امراض مراد ہیں۔ یعنی اے فرعون! تو روحانی امراض سے جو منشائے معاصی و آثام ہیں محفوظ رہے گا، اور نسب میں جو امراضِ جسمانیہ مذکور ہیں ان کا احساس بوجہ صبر علی البلاء تجھ کو نہ ہوگا۔ مولانا بحر العلوم کو یہ تاویل اس لیے کرنی پڑی کہ تا مدتِ عمر جسمانی امراض کا عارض نہ ہونا لوازمِ ایمان سے نہیں ہے، بلکہ مومن لوگ امراض وغیرہ بلاؤں کے زیادہ ہدف بنتے ہیں۔ اور بیان کیا گیا ہے کہ فرعون کو پہلے ہی مدت العمر کوئی مرض عارض نہیں ہوا۔ پھر یہ بشارت اس کے لیے کونسی نئی خوشی کا باعث ہو سکتی تھی۔ ہر چند مولانا بحر العلوم کا عذر کسی حد تک صحیح ہے، مگر بلاشبہ یہ تاویل بھی مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے بہت بعید ہے۔ بے شک صحتِ بدن لازمۂ ایمان ہونے کی دلیل ہے، اور خصوصیت کے ساتھ فرعون کو اس کی بشارت دی گئی، اگر صحت لازمۂ ایمان ہوتی تو اس کو عوض نہیں کہہ سکتے تھے، عوض غیر متوقع چیز کا ہوتا ہے، اور نہ فرعون کو اس کی بشارت دینے کی ضرورت تھی، بلکہ پھر تو ہر شخصِ مومن اس سے مستفید ہوتا۔ فرعون اگر اس گفتگو تک دائم الصحت تھا تو اس سے آئندہ زمانے میں یقیناً اس کا صحیح و سالم رہنا لازم نہیں آتا، ممکن ہے کہ باقی ایامِ حیات میں اسے مرض کا اندیشہ ہو، لہٰذا اس کو اس اندیشہ سے سبکدوش کر دیا۔ جیسے کہ عام مشہور ہے کہ جس شخص کو کبھی کوئی مرض عارض نہ ہوا ہو اس کو آئندہ کسی شدید و مہلک مرض کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اسبابِ مرض جو جسم میں مخفی رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً کارگر نہیں ہوئے، وہ کبھی کبھار کی شدت کے ساتھ مؤثر ہوتے ہیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ
3
ثانیاً باشد ترا عمرِ دراز
کہ اجل وارد ز عمرت احتراز
ترجمہ: دوسرے تیری عمر لمبی ہو گی۔ کیونکہ موت تیری زندگی (کو ختم کرنے) سے ٹلتی رہے گی۔
4
ویں نباشد بعدِ عمرِ مستوی
کہ بنا کام از جہاں بیروں روی
ترجمہ: اور (آخر موت تو آنی ہے، مگر) یہ نہ ہوگا کہ تو ایک ہموار (اور صاف و یکساں) عمر (بسر کرنے) کے بعد دنیا سے ناکام جائے۔
5
بلکہ خواہانِ اجل چوں طفلِ شیر
نے ز رنجے کاں ترا دارد اسیر
ترجمہ: بلکہ (تو اپنی خوشی سے) موت چاہے گا۔ جس طرح بچہ دودھ (چاہتا ہے- ہاں) کسی بیماری سے (تنگ آ کر) نہیں جو تجھے مقید کئے ہوئے ہو۔
مطلب: موت چاہنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان دنیا کی کسی شدید مصیبت مثلاً مرض، قرض، بے آبروئی، فاقہ وغیرہ سے تنگ آ کر موت کو مصیبت سے نجات پانے کا ذریعہ سمجھے۔ دوسری یہ کہ مدت تک دنیا میں خوشحالی و فارغ البالی، اور تمام مرادات پر کامیاب رہ کر دنیا سے سیر ہو جائے، اور موت کے ذریعہ اگلی زندگی کا شائق و متمنی ہو اور راحت کا دائمی احساس اس کو اگلی زندگی میں بھی کسی نئی قسم کی راحت کی توقع دلاتا ہو۔ یہاں پہلی قسم کی تمنائے موت کی نفی اور دوسرے قسم کا اثبات کیا ہے۔ آگے بھی اسکی توضیح ہے:
6
مرگ جو باشی ولے نز عجز و رنج
بلکہ بینی در خرابِ خانہ گنج
ترجمہ: تو موت کا طالب ہوگا مگر بیچارگی اور تکلیف سے نہیں، بلکہ تجھے (اس زندگی کے) گھر کے منہدم ہونے میں (اگلی زندگی کا نیا اور زیادہ عجیب خزانہ) نظر آئے گا۔
7
پس بدستِ خویش گیری تیشۂ
مے زنی بر خانہ بے اندیشۂ
ترجمہ: پس تو اپنے ہاتھ میں تیشہ لے گا اور بے تامل گھر (کو منہدم کرنے کے لیے اس) پر مارے گا، (تاکہ وہ خزانہ نکال لے۔)
8
کہ حجابِ گنج بینی خانہ را
مانع صد خرمن ایں یک دانہ را
ترجمہ: کیونکہ تو گھر کو اس خزانہ کا حجاب پاتا ہے، اس ایک دانہ کو سینکڑوں کھلیانوں کا مانع (دیکھتا ہے)۔
مطلب: یہ زندگی مثل دانہ بے حقیقت ہے، اور اگلی زندگی سینکڑوں خرمنوں کی طرح گراں بہا اور بیش قیمت ہے، جب ایک دانہ سینکڑوں خرمنوں کو روکے بیٹھا ہو۔ (تو:)
9
پس در آتش افگنی ایں دانہ را
پیش گیری پیشۂ مردانہ را
ترجمہ: تو اس دانہ کو آگ میں جھونک دے گا۔ مردانہ تیشہ آگے رکھ لے گا۔
10
بر کنی ایں خانۂ تن بے دریغ
تا مہت آید بروں از زیرِ میغ
ترجمہ: اور اس جسم کے گھر کو بے دریغ کھود ڈالے گا، تاکہ تیرا (ابدی زندگی) کا چاند بادل کے نیچے سے نکل آئے۔
11
اے بیک برگے ز باغے ماندۂ
ہمچو کرمے برگش از رز راندۂ
ترجمہ: ارے ایک پتّے (کے پھیر) میں بڑے باغ سے قاصر رہنے والے، اس کیڑے کی مثل جس کو ایک پتے نے انگور سے دور ہٹا رکھا ہے۔
12
چوں کرم ایں کرم را بیدار کرد
اژدہائے جہل را ایں کرم خورد
ترجمہ: (مگر) جب (حق تعالٰی کے فضل و کرم) نے اس ننھے کیڑے کو ہوشیار کیا، تو وہ جہل کے اژدہے کو کھا گیا۔ (حق تعالٰی توفیق دے تو ایک کمزور و ضعیف آدمی میدانِ سعی میں اپنے سامنے سے بڑے بڑے مواقع کی چٹانوں کو پاش پاش کر کے رکھ دے۔)
13
کرم کرمے شد پُر از میوہ درخت
ایں چنیں تبدیل گردد نیک بخت
ترجمہ: (دیکھو) ایک کیڑا (اپنی ہمتِ خداداد سے) انگوروں کا باغ بن گیا۔ اہلِ سعادت یوں (سابقہ ادنٰی حالت سے اعلٰی حیثیت میں) تبدیل ہو جاتا ہے۔