دفتر 4 حکایت 107: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فرعون سے فرمانا کہ تو میری ایک نصیحت قبول کر لے اور اس کے عوض چار انعام حاصل کر لے

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 107

گفتنِ موسیٰ علیہ السّلام مر فرعون را کہ از من یک پند قبول کن و چہار فضیلت عوض بستاں

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فرعون سے فرمانا کہ تو میری ایک نصیحت قبول کر لے اور اس کے عوض چار انعام حاصل کر لے

1

ہیں ز من بپذیر یک چیز و بیار

پس ز من بستاں عوض آن را چہار

ترجمہ: سن (اے فرعون!) میری ایک بات مان لے، اور (اس کو) بجا لا۔ پھر اس کے عوض مجھ سے چار (انعام) حاصل کر لے۔

2

گفت اے موسیٰؑ کُدام ہست آں یکے

شرح کن با من ازاں یک اندکے

ترجمہ: (فرعون نے) کہا اے موسیٰ! وہ ایک بات کونسی ہے اس بات کو کسی قدر تفصیل سے سناؤ۔

3

گفت آں یک کہ بگوئی آشکار

کہ خدائے نیست غیر از کردگار

ترجمہ: فرمایا کہ ایک بات یہ ہے کہ تو اعلانیہ کہہ دے کہ خداوند تعالٰی کے سوا کوئی (دوسرا) خدا نہیں۔

مطلب: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس کو یہ حکم دیا کہ زبان سے یوں کہہ دے، یہ نہیں کہا کہ اس کا اعتقاد رکھ، پس یا تو کہنے سے بتصدیقِ قلب کہنا مراد ہے، یا اس لیے کہ وہ دل میں تصدیق رکھتا تھا، لیکن زبان سے اقرار نہیں کرتا تھا، بلکہ اس کے خلاف بولتا تھا۔ یہ دوسری بات زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کی توحید سب لوگوں کے دلوں میں مستقر ہے اور موجودات پر نظر کرتے ہوئے اس کا علم بدیہی ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ﴾ (غافر:35) یعنی ”اسی طرح اللہ ہر متکبر جابر شخص کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔“ اس سے ظاہر ہے کہ کفّار جو زبان سے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں تو ان کے دل میں وحدانیت کا عقیدہ موجود ہے، پس مشرکین کا شرک، شرک فی التوحید نہیں بلکہ شرک فی العبادۃ ہے، اس لیے کافر کہتے تھے: ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَا إِلَى اللّٰهِ زُلْفٰی﴾ (الزمر:3) یعنی ”ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔“ پس ظاہر ہے کہ توحید ان کے دل میں قائم ہے۔

4

خالقِ افلاک و انجم بر عُلا

مردم و دیو و پری و مرغ را

ترجمہ: (وہی) آسمانوں اور (آسمانوں کے) اوپر ستاروں کو اور انسانوں، شیطانوں اور جنوں اور پرندوں کو پیدا کرنے والا ہے۔

5

خالقِ دریا و کوہ و دشت و تِیہ

ملکتِ او بے حد و او بے شبیہ

ترجمہ: (وہی) دریا، پہاڑ، جنگل اور صحرا کا خالق ہے۔ اس کا ملک بے حد ہے، اور وہ بے مثل ہے۔

6

حافظِ ہر چیز و ہر کس ہر مکاں

رازقِ ہر جانور اندر جہاں

ترجمہ: (وہی) ہر چیز، ہر شخص اور ہر جگہ کا محافظ ہے۔ وہی دنیا میں ہر جاندار کا رازق ہے۔

7

ہم نگہدارندۂ ارض و سما

ہم پدید آرندۂ گل از گیا

ترجمہ: (وہی) زمین اور آسمان کا رکھوالا بھی ہے۔ گھاس سے پھول پیدا کرنے والا بھی ہے۔

8

مُطّلعِ او بر ضمیرِ بندگاں

حاکم و جبّار بر گردن کشاں

ترجمہ: وہ بندوں کے دلوں کی باتوں پر مطلع ہے، سرکش لوگوں پر حاکم اور زبردست ہے۔

9

اوست بر ہر پادشاہے پادشاہ

حکم او را یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآء

ترجمہ: وہ ہر بادشاہ سے بڑا بادشاہ ہے۔ حکومت اسی کی ہے ”اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔“ (”حکم“ مبتدا او ”را“ متعلق خبر مقدر ہے۔)

10

گفت اے موسیٰؑ کدام ست آں چہار

کہ عوض بدہی مرا بر گو بیار

ترجمہ: (فرعون نے) کہا اے موسیٰ علیہ السّلام! وہ چار (چیزیں) کونسی ہیں؟ جو مجھے (اس کے) عوض میں دو گے کہو۔ بیان کرو (یا یاد سے بیان کرو۔)

11

تا بود کز لطفِ آں وعدۂ حَسن

سست گردد چار میخ کُفرِ من

ترجمہ: تاکہ شاید اس اچھے کے وعدے کی خوبی سے میرے کفر کی (سزا سے) چار میخ نرم پڑ جائے۔ (”چار میخ“ ایک سزا ہے، جس میں مجرم کے ہاتھ پاؤں چار میخوں سے جکڑ دیتے ہیں۔)

12

بوکہ زاں خوش وعدہ ہائے مغتنم

بر کُشاید قفلِ کفرِ صد منم

ترجمہ: شاید ان اچھے وعدوں سے جو غنیمت ہیں۔ میرے کفر کا سو من کا قفل کھل جائے۔

13

بُوکہ از تاثیر جوئے انگبیں

شہد گردد در تنم آں زہر کیں

ترجمہ: شاید بہشت کی نہر عسل (کے دعوے) کی تاثیر سے، میرے وجود میں اس عداوت کا زہر شہد بن جائے۔ (جو مجھے حق کے ساتھ ہے۔)

14

یا ز عکسِ جوئے آں پاکیزہ شیر

پرورش یابد دمے عقلِ اسیر

ترجمہ: یا پاکیزہ دودھ کی اس (بہشتی) نہر کے عکس سے، (جس کا وعدہ کیا جاتا ہے میری نفس کی) قیدی عقل لمحہ کے لیے پرورش پائے (اور بہشت کے قابل ہو جائے۔)

15

یا بود کز عکسِ آں جُو ہائے خمر

مَست گردم بُو برم از ذوقِ امر

ترجمہ: یا شاید ان (بہشتی) انہارِ شراب کے عکس سے (جن کا وعدہ کیا جاتا ہے) میں مست ہوجاؤں (اور) حکمِ (حق کی بجا آوری) کے مزے کا سراغ لگا سکوں۔

16

یا بود کز لطفِ آں جوہائے آب

تازگی یابد تنِ شورہ خراب

ترجمہ: یا شاید پانی کی ان (بہشتی نہروں) کے لطف سے، (جن کا وعدہ کیا جاتا ہے میرا) بے رونق اور شکستہ بدن تازگی حاصل کر سکے۔

17

شورہ ام را سبزۂ پیدا شود

خار زارم جنّتُ الماویٰ شود

ترجمہ: (پھر خدا کے کرم سے) میری ہستی کی شور زمین میں، (اعمالِ حسنہ کا) سبزہ پیدا ہو جائے۔ (اور میرے اخلاق و اطوار کی) کانٹوں بھری زمین جنّتُ الماوٰی (کی طرح پُر بہار) بن جائے۔

18

بو کہ از عکسِ بہشتِ چار جو

جاں شود از یاریِ حق یار جُو

ترجمہ: شاید چار نہروں والی بہشت کے عکس سے (میری) جان حق تعالٰی کی مدد سے استمداد کر سکے۔

مطلب: ان ابیات اور مابعد کے ابیات کا مفاد یہ ہے کہ اخلاقِ حمیدہ بہشت کا عکس، اور اخلاق سیّئہ دوزخ کا عکس ہیں۔ یہ اس لیے کہ جنت مراد ہے، ان اخلاق و اعمال حسنہ سے جو لذت بخش اجسام کی صورت میں مجسم ہوئے ہیں۔ اور دوزخ ان معاصی سے مراد ہے جو اجسامِ موذیہ کی شکل میں تشکل کئے گئے ہیں، جیسے آگ سانپ بچھو وغیرہ۔ پس اعمال و اخلاق کے حقائق آخرت میں بصورت جواہر اور دنیا میں بصورتِ اعراض ظاہر ہوئے ہیں، اور ظاہر ہے کہ جواہر اقوٰی ہیں اعراض سے، اور اعراض جواہر کے ظلال ہوتے ہیں۔ دیکھو وجودِ خارجی کو وجودِ اصلی کہتے ہیں۔ وجودِ ذہنی کو وجودِ ظلی ٹھہراتے ہیں اور صورتوں کو اعیانِ خارجہ کے ظلال مانتے ہیں۔(بحر العلوم)

19

آں چناں کز عکسِ دوزخ گشتہ ام

آتش و در قہرِ حق آغشتہ ام

ترجمہ: (غرض بہشت کے عکس سے میں اسی طرح مستحقِ رحمت ہو جاؤں) جس طرح میں دوزخ کے عکس سے (سراپائے) آتش بن گیا ہوں، اور حق تعالٰی کے قہر میں ڈوب رہا ہوں۔

20

کہ ز عکسِ نارِ دوزخ ہمچو مار

گشتہ ام بر اہلِ جنت زہر بار

ترجمہ: کبھی میں دوزخ کی آگ کے عکس سے سانپ کی طرح، اہلِ جنت پر زہر برسانے والا ہوں۔ (صالحین مستحقِ جنت کو میں اذیت دے رہا ہوں۔)

21

کہ ز عکسِ جوششِ آبِ حمیم

آبِ ظلمم کرد خلقاں را رمیم

ترجمہ: کبھی (دوزخ کے) کھولتے ہوئے پانی کے عکس سے، میرے ظلم کے پانی نے مخلوق کو بوسیدہ کر دیا۔

22

من ز عکسِ زمہریرم زمہریر

یا ز عکسِ آں سعیرم چوں سعیر

ترجمہ: میں زمہریر کے عکس سے زمہریر ہوں، یا دوزخ کے عکس سے مثلِ دوزخ ہوں۔

23

دوزخِ دوریش و مظلومم کنوں

وائے آنکو یابمش ناگہ زبوں

ترجمہ: میں محتاج و مظلوم آدمی کے لیے (بمنزلہ) دوزخ ہوں، (کہ اس کو پھونک کر فنا کر دیتا ہوں۔) پھوٹ گئی قسمت اس شخص کی جس کو میں عاجز پاؤں (کیونکہ میرے ہاتھوں اسکی خیر نہیں۔)

24

موسیا باشد کہ بکشائیم در

در فضیلتہات گردم با خبر

ترجمہ: اے موسیٰ علیہ السّلام! شاید تم مجھ پر (عرفان کا) دروازہ کھول دو (اور) میں تمہاری فضیلتوں سے آگاہ ہو جاؤں۔

25

موسیا باشد کہ یابم مامنے

وا رہم از کثرتِ ما و منے

ترجمہ: اے موسیٰ! (علیہ السلام) شاید میں (تمہاری بدولت (نجات کی) امن گاہ حاصل کر سکوں (اور) غرورِ خودی کے غلبہ سے بچ جاؤں۔

26

ہیں بگو با من کدام ست آں چہار

کہ عوض خواہیم دادن بر شمار

ترجمہ: ہاں تو مجھے بتاؤ کہ وہ چار (چیزیں) کونسی ہیں؟ جو مجھے (بطور) عوض دو گے، شمار کرو۔