دفتر 4 حکایت 105: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فرعونی بھیدوں اور اس کے خوابوں کو غیب سے بیان فرمانا تاکہ وہ اللہ تعالٰی کے باخبر ہونے پر ایمان لائے اور اللہ زیادہ جانتا ہے

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 105

باز گفتنِ موسیٰ علیہ السّلام اَسرارِ فرعونیہ را و واقعاتِ او را ظہر الغیب تا بخبیریِ حق ایمان آورد ”وَ اللہُ اَعْلَم“

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فرعونی بھیدوں اور اس کے خوابوں کو غیب سے بیان فرمانا تاکہ وہ اللہ تعالٰی کے باخبر ہونے پر ایمان لائے ”اور اللہ زیادہ جانتا ہے۔“

انتباہ: ”ظہر الغیب“ کے معنٰی پشتِ غیب کے ہیں، جس سے واقعاتِ مخفیہ مراد ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون حق تعالٰی کے خبیر ہونے کا معتقد نہ تھا، اور یہ بعید محض ہے کیونکہ کوئی کافر و مسلم حق تعالٰی کے خبیر و علیم ہونے سے منکر نہیں۔ شاید خبیر ہونے سے یہ مراد ہو کہ وہ نیک و بد سے اس طرح با خبر ہے کہ اس پر جزا مرتب ہو، کیونکہ حق تعالٰی کے اس طرح خبیر ہونے کا اعتقاد ملازمِ ایمان ہے، اور یہ اعتقاد باعثِ نجات ہو جاتا ہے اس سے فرعون البتہ محروم تھا۔ (بحرالعلوم)

1

با کمالِ تیرگی حق واقعات

مے نمودت تا روی راہِ نجات

ترجمہ: حق تعالٰی تجھ کو (تیری) سیہ باطنی کے باوجود (سچے) خواب دکھاتا رہا، تاکہ تو نجات کے راستہ پر چلنے لگے۔

2

ز آہن تیرہ بقدرت مے نمود

واقعاتے کہ در آخر خواست بود

ترجمہ: (تیرے قلب کے) تاریک لوہے سے (اپنی) قدرت کے ساتھ وہ تمام خواب دکھاتا رہا، جو آخر میں (ظہور پذیر) ہونے والے تھے۔

3

تا کُنی کمتر تو آں ظلم و بدی

آں ہمی دیدی و بدتر مے شدی

ترجمہ: تاکہ تو وہ ظلم اور بدی چھوڑ دے (مگر) تو وہ تمام خواب دیکھتا تھا اور (پہلے سے) زیادہ برا بن جاتا تھا۔

4

نقشہائے بد کہ در خوابت نمود

مے رمیدی زاں و آں نقشِ تو بُود

ترجمہ: بری صورتیں جو تجھ کو خواب میں نظر آتی تھیں تو ان سے نفرت کرتا حالانکہ وہ تیری ہی صورت تھی۔

5

ہمچو آں زنگی کہ در آئینہ دید

روے خود را زشت و بر آئینہ رِید

ترجمہ: اس زنگی کی طرح جس نے آئینے میں اپنی بری صورت دیکھی، اور (شدتِ نفرت سے) آئینے پر پاخانہ کر دیا۔

6

کہ چہ زشتی لائق اینی و بس

ز شتیم آنِ تو است اے کور خس

ترجمہ: (اور بولا) کہ (اے آئینے) تو کس قدر بد صورت ہے بس تو اسی لائق ہے (کہ تجھ پر پاخانہ پھر دیا جائے آئینہ بولا) اے اندھے کمینے! (یہ) میری بد صورتی (خود) تیری ہے۔

7

آں جفا بر روئے زشتت مے کنی

نیست بر من زانکہ ہستم روشنی

ترجمہ: وہ (گندگی سے آلودہ کرنے کی) زیادتی تو مجھ پر نہیں بلکہ خود اپنے بھیانک چہرے پر کر رہا ہے، کیونکہ مجھ میں تو نور (موجود) ہے۔ (یہ ترجمہ اس لحاظ سے ہے کہ ”ہستم“ کا ضمیر متکلم بمعنٰی مرا ہو، اور ”روشنی“ بیائے معروف مصدری ہو۔ لیکن اگر یہ ضمیر مبتدا اور ”روشنی“ بیائے مجہول بمعنٰی تفخیم خبر ہو تو معنٰی یوں ہوں گے ”کیونکہ میں تو خوب منور ہوں“۔)

8

گاہ مے دیدی لبانت سوختہ

گہ دہان و چشمِ تو بر دوختہ

ترجمہ: (چنانچہ) کبھی تو خواب میں اپنے لب جلے ہوئے دیکھتا تھا (اور) کبھی اپنا منہ اور آنکھیں سلی ہوئی۔

9

گاہ حیواں قاصدِ خونت شدہ

گہ سرِ خود را بدندانِ دوہ

ترجمہ: کبھی (خواب میں) کوئی جانور تیرے خون کا قصد کرتا تھا (اور) کبھی (تو) اپنے سر کو درندے کے دانتوں میں دیکھتا تھا۔

10

گہ نگوں اندر میانِ آب ریز

گہ غریقِ سیلِ خوں آمیز تیز

ترجمہ: کبھی بیت الخلاء میں الٹا (لٹکتا تھا) کبھی خون کے تیز سیلاب میں ڈوبا ہوا۔

11

گہ ز بامے اوفتادہ گشتہ پست

گاہ در اشکنجہ و بستہ دو دست

ترجمہ: کبھی ایک محل سے گر کر پیوندِ خاک ہو گیا، کبھی (عذاب کے) شکنجہ میں (تھا) اور دونوں ہاتھ جکڑے ہوئے۔

12

گاہ دیدہ خویش در زنجیر و غل

گاہ بر مغزت ز دندنے چوں دہل

ترجمہ: کبھی اپنے آپ کو بیڑی اور طوق میں پایا۔ کبھی تیرے مغز پر ڈھول کی طرح ضربیں لگائی جاتی تھیں۔

13

گہ ندات آمد ازیں چرخِ نقی

کہ شقیّ و کہ شقیّ و کہ شقیّ

ترجمہ: کبھی اس صاف آسمان سے تجھے آواز آتی تھی، کہ تو بدبخت ہے، تو بدبخت ہے، بدبخت۔

14

گہ ندات آمد صریحی از جبال

کہ برو ہستی ز اصحابِ شمال

ترجمہ: کبھی تجھ کو پہاڑوں سے صاف ندا آتی تھی کہ جا تو بائیں جانب والوں میں سے ہے (یعنی دوزخیوں میں سے۔)

15

گہ صدا مے آمدت از ہر جماد

تا ابد فرعون در دوزخ فتاد

ترجمہ: کبھی تجھ کو ہر بے جان چیز (پتھر وغیرہ) سے صدا آتی تھی کہ فرعون دوزخ میں گر گیا۔

16

گہ خطاب آمد ترا از ہر نبات

گشت مطرودِ ابد فرعون مات

ترجمہ: کبھی تجھ کو ہر بوٹی سے خطاب آتا تھا کہ فرعون عاجز، ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔

انتباہ: ان چار شعروں سے معلوم ہوا کہ فرعون کو واقعات میں اپنا محرومُ الایمان رہنا معلوم ہو چکا تھا، ورنہ اس کا ابد تک دوزخ میں رہنا اور ابد تک کے لیے مردود ہونا صادق نہیں آسکتا، اور موسیٰ علیہ السّلام کو اس کی خبر تھی اور انہوں نے اس کی اطلاع بھی دے دی۔ اس تقدیر پر اس بیان کا آخری بیت ؎

ہیں مکن زیں پس فراگیر احتراز

کہ ز بخشائش درِ توبہ است باز

مربوط نہ ہو سکے گا، کیونکہ اس سے اسکی توبہ مقبول ہونے کی توقع ظاہر ہوتی ہے، اور یہ معلومیت عدمِ ایمان اور ابدیتِ نار کے منافی ہے۔ نیز اللہ تعالٰی موسیٰ علیہ السّلام اور ہارون علیہ السّلام کو فرماتا ہے: ﴿فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشٰى﴾ (طہ: 44) یعنی ”جاکر دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے، یا (اللہ سے) ڈر جائے۔“ اور یہ توقع حق تعالٰی کی طرف سے ہے، اور صحیح یہی ہے۔ چنانچہ شیخ اکبر قُدِّسَ سِرُّہٗ نے فتوحات میں لکھا ہے کہ میں نے ہارون سے پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے سمجھا تھا کہ وہ توقع حق تعالٰی کی طرف سے ہے اور واجب الوقوع ہے۔ پس میں منتظر رہا کہ کب ایسا ہوگا؟ اور یہ بھی صریحاً منافی ہے اس کے کہ موسیٰ علیہ السّلام کو فرعون کا محروم الایمان ہونا معلوم تھا، اور وہ مطرودِ ابدی اور دوزخی ابدی تھا۔ اگر علمائے ظاہر کے قول پر چلیں کہ یہ توقع حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السّلام کی طرف سے تھی، اس طرح کہ تم نرم بات کرو اس امید پر کہ اس کو تذکر و خشیت کی توفیق ہو جائے۔ پس یہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی معلومیت اور فرعون کی ابدیتِ نار کے منافی ہے۔ لہٰذا حق یہ ہے کہ ان اشعار کے معنٰی یوں ہوں کہ اے فرعون! تو اپنے کفر پر قائم رہنے کی تقدیر پر شقی ہے، اور دوزخ میں ہمیشہ رہے گا، تو ابدی مطرود ہے۔ پس اس حالت سے باز آ کیونکہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ پس یہ مضمون اس بات سے معارض نہیں کہ وہ اس کے بعد ایمان لائے اور اس کا ایمان مقبول ہو۔ (بحر العلوم)

17

زیں بترہا کہ نمی گویم ز شرم

تا نگردد طبع معکوسِ تو گرم

ترجمہ: (بہت سے خواب اور اشارات) اس سے بھی بدتر (ہیں) جن کو میں (اس) لحاظ سے بیان نہیں کرتا کہ تیری الٹی طبیعت گرم نہ ہو جائے۔

18

اندکے گفتم بتو اے نا پذیر

ز اندکے دانی کہ ہستم من خبیر

ترجمہ: اے (نصیحت) قبول نہ کرنے والے! میں تو تجھ سے تھوڑی سی باتیں بیان کی ہیں۔ (ان) تھوڑی باتوں سے تو اندازہ لگا سکتا ہے کہ میں با خبر ہوں۔

19

خویشتن را کور مے کردی و مات

تا نیندیشی جوابِ واقعات

ترجمہ: تو نے اپنے آپ کو اندھا اور بے حسّ بنا لیا۔ تاکہ (ان) خوابوں کی تعبیر کا اندیشہ نہ کرے۔

20

چند بگریزی نِک آمد پیشِ تو

کوریِ ادراکِ مکرِ اندیشِ تو

ترجمہ: تو کہاں تک گریز کرے گا دیکھ (اب) تیرے مکر کے منصوبے گانٹھنے والے ذہن کی بے بصیرتی تیرے آگے آ گئی۔

21

ہیں مکن زیں پس فرا گیر اِحتراز

کہ ز بخشائش درِ توبہ است باز

ترجمہ: خبردار! اس کے بعد یہ کام نہ کر (اس سے پرہیز کر کیونکہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)