دفتر 4 حکایت 104: اس بات کا بیان کہ ہر ایک آدمی کا وجود اچھے جوہر والے لوہے کا سا ہے جو آئینہ بننے کے قابل ہے، تاکہ اس میں دنیا ہی کے اندر بہشت اور دوزخ اور قیامت وغیرہ کا معائنہ کر لے، خیالی طور سے نہیں، بلکہ مشاہدہ سے

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 104

بیان آنکہ تن ہر یک از آدمی ہمچو آہن نیکو جوہر کہ قابلِ آئینہ ست تا در دنیا بہشت و دوزخ و قیامت و غیرہا معائنہ بنماید نہ بطریقِ خیال بل بعیاں

اس بات کا بیان کہ ہر ایک آدمی کا وجود اچھے جوہر والے لوہے کا سا ہے جو آئینہ بننے کے قابل ہے، تاکہ اس میں دنیا ہی کے اندر بہشت اور دوزخ اور قیامت وغیرہ کا معائنہ کر لے، خیالی طور سے نہیں، بلکہ مشاہدہ سے

1

پس چو آہن گرچہ تیرہ ہیکلی

صیقلی کن صیقلی کن صیقلی

ترجمہ: پس اگر تو لوہے کی طرح بے نور شکل والا ہے، تو (مجاہدات سے اپنے آپ کو) صیقل کر، صیقل کر، صیقل۔

2

تا دِلت آئینہ گردد پر صور

اندرو ہر سو ملیحِ سیم بر

ترجمہ: تاکہ تیرا دل آئینہ ہو جائے (جو) دل پسند صورتوں سے پُر ہو اس میں ہر طرف چاندی کے سے وجود والا حسین جلوہ گر ہو (یعنی تیرا قلب عجائباتِ غیب کا مرقع بن جائے۔)

3

آہن ارچہ تیرہ و بے نور بود

صیقلی آں تیرگی از وے زدُود

ترجمہ: لوہا اگرچہ مکدر اور بے نور تھا، مگر صیقل نے وہ کدورت اس سے صاف کر دی۔

4

صیقلی دید آہن و خوش کرد رو

تاکہ صورتہا تواں دید اندرو

ترجمہ: لوہے نے صیقل پائی اور (اپنی) صورت اچھی بنا لی۔ حتّٰی کہ اس میں صورتیں دیکھ سکتے ہیں (یہی کیفیت قلب و جسم کی ہو سکتی ہے۔)

5

گر تنِ خاکی غلیظ و تیرہ است

صیقلش کن زانکہ صیقل گیرہ است

ترجمہ: اگر خاکی جسم غلیظ اور بے نور ہے، تو اس کو صیقل کرو کیونکہ وہ صیقل کو قبول کرنے والا ہے۔

6

تا درو اشکالِ غیبی رُو دہد

عکسِ حورے و ملک در وے جہد

ترجمہ: تاکہ اس میں غیبی صورتیں جلوہ گر ہو جائیں، حور اور فرشتہ کا عکس اس میں پڑے۔

7

صیقلِ عقلت بداں دادست حق

کہ بداں روشن شود دل را ورق

ترجمہ: حق تعالٰی نے تجھے عقل کا صیقل اس لیے دیا ہے کہ اس کے ساتھ دل کا ورق روشن ہو جائے۔

8

صیقلی را بستۂ اے بے نماز

واں هوا را کردۂ دو دست باز

ترجمہ: اے بے نماز! تو نے صیقل کو بند کر دیا ہے، اور خواہشِ نفسانی کے دونوں ہاتھ کھول دیے (جو قلب کو تیرہ و مکدر کر رہی ہے۔)

9

گر ہوا را بند بنہادہ شود

صیقلی را دست بکشادہ شود

ترجمہ: اگر خواہشِ نفسانی کو روک رکھا جائے، تو صیقل کے ہاتھ کشادہ ہو جائیں گے (بواعثِ کدورت کے رفع ہونے سے دل روشن ہونے لگے گا۔)

10

آہنے کائینۂ غیبی بدے

جملہ صورتہا درو حاصل شدے

ترجمہ: جو لوہا غیبی آئینہ بن جائے، اس میں (عالمِ غیب کی) تمام صورتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔

11

تیرہ کردی زنگ دادی در نہاد

ایں بود یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَاد

ترجمہ: تو نے (اپنے آئینۂ قلب کو) تاریک کر لیا اور وجود میں زنگ ڈال لیا۔ یہی (مراد) ہے (اللہ تعالٰی کے اس فرمان سے) کہ ”لوگ زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں۔“

مطلب: قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے جو یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے: ﴿وَ يَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ﴾ (المائدہ: 64) یعنی ”یہ زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، جبکہ اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ مولانا نے ”فساد“ کی تفسیر قلب و وجود کے تیرہ و زنگ آلود ہونے سے فرمائی ہے، اس لحاظ سے کہ تیرگیِ قلب تمام معاصی کی مبدء ہے۔

12

تا کنوں کردی چنیں اکنوں مکن

تیرہ کردی آب ازیں افزوں مکن

ترجمہ: تو نے اب تک اس قسم کے (مفسدانہ) اعمال کئے ہیں اب نہ کر۔ تو نے (رعایا کے امن و عافیت کے) پانی کو گدلا کر دیا ہے، اس سے زیادہ (گدلا) نہ کر۔

13

بر مشوراں تا شود ایں آب صاف

واندرو بین ماہ و اختر در طواف

ترجمہ: اس پانی کو حرکت نہ دے تاکہ صاف ہو جائے، اور اس میں تو چاند اور ستاروں کو چکر لگاتے دیکھ لے۔

مطلب: تالاب و حوض کے پانی کو زور سے حرکت دیں اس کی تہہ کی مٹی اٹھ کر اسے گدلا کر دیتی ہے۔ پھر اس پانی میں جو کواکب اور دیگر عجائبات فلک نظر آتے تھے، اب نظر نہیں آتے۔ فرماتے ہیں رعایا کو دکھ دے کر خستہ و تباہ نہ کر، امن و عافیت میں رکھ، اس سے خود تیرے جاہ و اقبال کی ترقی مضمر ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

رعیت چو بیخ است سلطان درخت

درخت اے پسر باشد از بیخ سخت

14

زانکہ مردم ہست ہمچوں آبِ جو

چوں شود تیرہ نہ بینی قعرِ او

ترجمہ: کیونکہ لوگ نہر کے پانی کی مانند ہیں، جب وہ (پانی) گدلا ہو جائے تو تو اس کی تہ کو نہیں دیکھ سکتا۔

15

قعر چوں پر گوہرست و پر ز دُر

ہیں مکن تیرہ اگر ہستی تو حُر

ترجمہ: نہر کی تہ جب جواہرات اور موتیوں سے پر ہے، تو خبردار! اس کو مکدر نہ کر اگر تو بھلا مانس ہے۔

16

جان مَردُم ہست ماننِد ہوا

چوں بگرد آمیخت شد پردہ سما

ترجمہ: لوگوں کی جان گویا ہوا ہے جب وہ گرد (غم) سے مل گئی، تو آسمان کے لیے پردہ بن گئی۔ (ہوا میں غبار اٹھ کر آسمان کو ڈھک لیتا ہے، اسی طرح غریب رعایا کی جانیں جب بادشاہ کے ظلم سے دکھیا ہوں تو ان کی آہیں آسمان پر چھا جاتی ہیں۔)

17

مانع آید او ز دیدِ آفتاب

چونکہ گردش رفت شد صافی و تاب

ترجمہ: (گرد آلود ہوا) آفتاب کو دیکھنے سے مانع ہوتی ہے (مگر) جب اس کی گرد جاتی رہے تو صاف شفاف ہو جاتی ہے۔ (اسی طرح اگر رعایا کا دکھ دور ہو جائے تو بادشاہ پر آسمان سے رحمت نازل ہونے کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔)

18

حاصل آنکہ کم مکن اے بے سرور

صیقلی وَاللّٰہُ اَعْلَمْ بِالصُّدُوْر

ترجمہ: الغرض اے ناخوش! اپنے وجود کی صیقل (کرنے) میں کوتاہی نہ کر، اور اللہ سینوں (کے حال) کو بہتر جانتا ہے۔