دفتر 4 حکایت 103: اہلِ دنیا کا حملہ کرنا اور چڑھ کر جانا عالمِ غیب کے قلعہ پر جو عالمِ غیب کی سرحد ہے، اور ان کی کمین گاہ سے غفلت، کیونکہ جب غازی جنگ نہیں کرتا تو کافر حملہ کر دیتا ہے

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 103

حملہ آوردنِ ایں جہانیاں و تاخت بردن تا در بندانِ غیب کہ سرحدِ غیب ست و غفلتِ ایشاں از کمین کہ چوں غازی بغزا نرود کافر تاخت آرد

اہلِ دنیا کا حملہ کرنا اور چڑھ کر جانا عالمِ غیب کے قلعہ پر جو عالمِ غیب کی سرحد ہے، اور ان کی کمین گاہ سے غفلت، کیونکہ جب غازی جنگ نہیں کرتا تو کافر حملہ کر دیتا ہے

1

حملہ بُردند اسپۂ جسمانیاں

جانب روئیں دژ روحانیاں

ترجمہ: جسمانی مخلوقات کی فوج، روحانی کائنات کے قلعہ پر حملہ آور ہوئی۔

2

تا فرو گیرند در بندانِ غیب

تا کسے ناید ازاں سُو پاک جیب

ترجمہ: تاکہ وہ عالم غیب کے دروازہ شہر کو روک لیں۔ حتّٰی کہ ادھر سے کوئی پاک ہستی (دنیا میں) نہ آئے۔

3

غازیاں حملہ غزا چوں کم برند

کافراں برعکس حملہ آورند

ترجمہ: غازی لوگ جب جہاد کا حملہ نہیں کرتے، تو الٹا کافر لوگ حملہ کر دیتے ہیں۔

4

غازیانِ غیب چوں از حلمِ خویش

حملہ ناوردند بر تو زشت کیش

ترجمہ: (اے فرعون!) جب عالمِ غیب کے مجاہدوں نے اپنے حلم کی وجہ سے، تجھ بدکردار پر حملہ نہیں کیا تھا (تو:)

5

حملہ بردی سوئے در بندانِ غیب

تا نیایند ایں طرف مردانِ غیب

ترجمہ: تو تو نے عالمِ غیب کے قلعہ پر (ناحق) دھاوا بول دیا، تاکہ غیب کے جوانمرد ادھر نہ آنے پائیں۔

6

چنگ در صلب و رحمہا بر زدی

تاکہ شارع را بگیری از بدی

ترجمہ: تو نے (مردوں کی) پشت اور (عورتوں کے) رحم پر پنجہ ڈالا۔ تاکہ (اپنی) بدی (کے تقاضے) سے (اس خدا ساز) راستے کو بند کر دے۔

7

چوں بگیری شہرہے کہ ذوالجلال

برگزیدست از برائے انتسال

ترجمہ: (ارے!) تو اس شاہراہ کو کیونکر بند کر سکتا ہے، جس کو (خداوندِ) ذوالجلال نے نسل پیدا ہونے کے لیے تجویز فرمایا ہے؟

8

تو زدی در بندہا را اے لجوج

کوریِ تو کرد سرہنگے خروج

ترجمہ: اے جھگڑالو! تو نے (نسل کے) شہر بند کر دیے (مگر) تیری آنکھ میں خاک جھونک کر ایک مردِ سپاہی نکل ہی آیا۔

9

نک منم سرہنگ و ہنگت بشکنم

نک بنامش نام و ننگت بشکنم

ترجمہ: دیکھ (وہ) سپاہی میں ہوں اور میں تیری قوت کو فنا کروں گا۔ دیکھ اس (خداوندِ قدوس) کے نام سے تیرے نام و ننگ (کے طلسم) کو توڑوں گا۔

10

تو ہلا در بندہا را سخت بند

چند گاہے بر سبالِ خود بخند

ترجمہ: لے اب تو دروازوں کو خوب بند کر لے، کچھ دن اپنی مونچھوں پر ہنس لے۔

11

سبلتت را بر کند یک یک قدر

تا بدانی کالْقَدْرُ یُعْمِیْ الْبَصَرَ

ترجمہ: تقدیر تیری مونچھ کو ایک ایک (بال کر کے) نوچ ڈالے گی۔ تاکہ تجھے معلوم ہو جائے کہ تقدیر آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے۔

12

سُبلتِ تو تیز تر یا آنِ عاد

کہ ہمی لرزید از دمِ شان بلاد

ترجمہ: تیری مونچھیں زیادہ نوکیلی ہیں یا (قومِ) عاد کی، جن کے دم سے شہر لرزتے تھے۔

13

تو ستیزہ رُو تری یا آں ثمود

کہ نیامد مثلِ ایشاں در وجود

ترجمہ: تو زیادہ جنگ جو ہے، یا وہ (قوم) ثمود، جن کے برابر (جنگ جو قوم) کوئی پیدا نہیں ہوئی۔

14

صد ازینہا گر بگویم تو کری

بشنوی و ناشنودہ آوری

ترجمہ: میں اگر اس قسم کی نصیحتیں سینکڑوں بھی کروں تو (ان کو سننے سے) بہرا ہے۔ (اور) سن سنا کر ان سنی کر دے گا۔

15

توبہ کردم از سخن کانگیختم

بے سخن من دارویت آمیختم

ترجمہ: (اس) تقریر سے میں نے توبہ کی جو (بغرضِ نصیحت) شروع کی تھی (کیونکہ تجھ پر نصیحت کارگر نہیں ہوتی، اب) میں کچھ کہے بدوں تیرے (آخری علاج کے) لیے (تیز تر) دوا گھولتا ہوں۔

16

کہ نہم بر ریشِ خامت تا پژد

تا بسوزد ریشِ خامت تا ابد

ترجمہ: جس کو میں تیرے کچے زخم پر لگاؤں گا تاکہ وہ پک جائے، حتّٰی کہ تیری پر غرور ڈاڑھی ہمیشہ کے لیے جل جائے۔

17

تا بدانی کو خبیرست اے عدُو

میدہد ہر چیز را در خوردِ او

ترجمہ: تاکہ اے دشمن! تجھے معلوم ہو جائے کہ وہ (حق تعالٰی) بڑا باخبر ہے۔ وہ ہر چیز کے ساتھ اس کے حسبِ حال سلوک کرتا ہے۔

18

کے نکو کردی و کے کردی تو شر

کہ ندیدی لائقش در پے اثر

ترجمہ: تو نے کب کوئی نیکی اور کب کوئی بدی کی، جس کے ساتھ اس کے مطابق جزا نہیں پائی۔

19

کے فرستادی دمے بر آسمان

نیکیے کز پے نیامد مثلِ آں

ترجمہ: تو نے ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی نیکی آسمان کی طرف بھیجی، جس کے برابر (عوض) نہیں آیا۔

20

گر مراقب باشی و بیدار تو

ہر دمے بینی جزائے کار تو

ترجمہ: اگر تو نگران اور ہوشیار رہے، تو ہر دم اپنے فعل کی جزا دیکھے۔

21

چوں مراقب باشی و گیری رسن

حاجتت ناید قیامت آمدن

ترجمہ: جب تو (نفس کا) نگران رہے گا اور (خواہشات کی) باگ تھام لے گا، تو تجھے قیامت آنے کی ضرورت نہ ہو گی (اس سے پہلے ہی تیری آمرزش ہو جائے گی۔)

22

آنکہ رَمزے را بداند او صحیح

حاجتش ناید کہ گوید او صریح

ترجمہ: جو شخص اشارہ کو بخوبی سمجھ جائے، اس کو صاف کہنے کی ضرورت نہیں (اَلْعَاقِلُ تَکْفِیْہِ الْاِشَارَۃُ)

23

ایں بلا از کَودنی آید ترا

کہ نکردی فہمِ نکتہ و رمزہا

ترجمہ: یہ بلا (تیری) بے وقوفی کی وجہ سے تجھ پر آنے والی ہے، کیونکہ تو نے نکتہ و ارشارات نہ سمجھے۔

24

از بدی چوں دل سیاہ و تیرہ شد

فہم کن اینجا نشاید خیرہ شد

ترجمہ: گناہ (بار بار کرنے) سے جب دل سیاہ اور مکدّر ہو گیا، تو (اپنی حالت پر) غور کر۔ یہاں بے باک نہ ہو جانا چاہیے۔

مطلب: حدیث شریف میں آیا ہے: ”عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِيْ قَلْبِهٖ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَكَرَهُ اللّٰهُ فِيْ كِتَابِهٖ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَا كَانُوْا يَكْسِبُونَ“ (سنن ابن ماجہ: 4244) ”یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے باز آجائے اور (اللہ سے) بخشش کی درخواست کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے۔ اگر مزید گناہ کرے تو سیاہی کا نقطہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ (حتّٰی کہ ہوتے ہوتے دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے۔) یہی وہ زنگ ہے۔ جس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں کیا ہے: ﴿كَلَّاۖ بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّاكَانُوا يَكْسِبُوْنَ﴾ (مطففین:14) ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔“ (منہج) ”فہم کن“ سے یہی مقصد ہے کہ دل پر یہ سیاہی کا نشان پڑتے ہی توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، تاکہ سارا دل سیاہ نہ ہو جائے۔

25

ورنہ خود تِیرے شود آں تیرگی

در رسد در تو جزاے خیرگی

ترجمہ: وہ کدورت (معصیت تیرے لیے زہریلا) تیر بن جائے گی۔ (اور اس کے زہریلے زخم سے) تجھ کو بیباکی کا عوض مل جائے گا۔

26

ور نیاید تیرت از بخشائش ست

نے پئے نادیدن آلائش ست

ترجمہ: اور اگر (سزا کا) تیر تجھے نہ لگے، تو اس (تعالٰی شانہٗ) کی بخشش ہے، نہ اس لیے کہ (اس لیے کہ اس نے) تیرے گناہ کی آلائش کو دیکھا نہیں۔ (جیسے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ بَصِيْرٌ بِمَا يَعْمَلُوْنَ﴾ (البقرۃ: 96) آگے مولانا فرماتے ہیں:)

27

ہیں مُراقِب باش گر دل بایدت

کز پے ہر فعل چیزے زایدت

ترجمہ: خبردار! اگر تجھے دل (کی سلامتی) چاہیے تو (اپنے اقوال و افعال کا) نگراں رہ۔ کیونکہ ہر (نیک و بد) فعل سے کوئی نہ کوئی نیک و بد نتیجہ (ضرور) پیدا ہوتا ہے (جو قلب پر اثر انداز ہوتا ہے۔)

28

ور ازیں افزوں ترا ہمت بود

از مراقب کارِ بالاتر رَود

ترجمہ: اور اگر تجھ میں اس سے زیادہ ہمت ہو تو (اس سے بڑھ کر ترقی کرنے کی امید ہے، پھر اقوال و اعمال کی) نگرانی کرنے والے سے زیادہ عروج ہو سکتا ہے۔