دفتر 4 حکایت 102: اس بات کا بیان کہ انسان کی ہر ادراک کرنے والی حسّ کے جداگانہ مدرکات ہیں، جو دوسری حسّ کے مدرکات سے بے خبر ہے، جسطرح ہر پیشہ ور استاد جو دوسرے استاد کے کام سے ناواقف ہو اس فن سے بے خبر ہے جو اسکے زیرِ استعمال نہیں، اور اسکی بے خبری اس فن سے جو اسکے زیرِ استعمال نہیں اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ والله اعلم

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 102

بیان آنکه هر حسِّ مدرک را از آدمی نیز مدرکاتے دیگرست کہ از مدرکاتِ آں حسِّ دیگر بے خبرست چنانکہ هر پیشہ ور استادِ اعجمی از کارِ استادِ دیگر بے خبرست از آنکه وظیفۂ او نیست و بے خبریِ ایں ازانکہ وظیفۂ او نیست نبود کہ آں مدرکات نیست۔ والله اعلم

اس بات کا بیان کہ انسان کی ہر ادراک کرنے والی حسّ کے جداگانہ مدرکات ہیں، جو دوسری حسّ کے مدرکات سے بے خبر ہے، جسطرح ہر پیشہ ور استاد جو دوسرے استاد کے کام سے ناواقف ہو اس فن سے بے خبر ہے جو اسکے زیرِ استعمال نہیں، اور اسکی بے خبری اس فن سے جو اسکے زیرِ استعمال نہیں اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ والله اعلم

1

چنبره دیدِ جہاں ادراکِ تست

پردۂ پاکاں حسِّ ناپاکِ تست

ترجمہ: جہان کو دیکھنے کا دائرہ تیرا (تنگ و محدود) ادراک ہے (اس لیے تو خاصانِ خدا کے درجہ کو محسوس نہیں کر سکتا۔ پس) پاک لوگوں (یعنی نبیوں اور ولیوں) کا پردہ (جو ان کو تیری نظر سے مخفی رکھتا ہے، خود) تیری ناپاک نظر ہے۔

مطلب: یہ بھی مولانا کا مقولہ ہے جو فرعون کی تنگ نظری و غلط بینی کی بحث میں فرما رہے ہیں، اور اس میں عام فرعون طبع لوگ مخاطب ہیں، جو اپنے وقت کے اہل اللہ کو نہیں پہچانتے۔ جسطرح فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے رتبہ و منزلت کو نہ پہچانا، مگر بقول بحر العلوم یہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے قول کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ آگے اس تنگ نظری کے دور کرنے کی تدبیر بتاتے ہیں:

2

مدّتے حِسّ را بشو ز آبِ عیاں

ایں چنیں واں جامہ شوئے صوفیاں

ترجمہ: مدت تک (اپنی اس محدود) حسّ کو مشاہدہ کے پانی سے دھوتے رہو (تاکہ وہ وسیع اور دور رس ہو جائے۔) حضرات صوفیہ کی جامہ شوئی اسی قسم کی سمجھو۔

3

اے ز غفلت از سبب تو بے خبر

بندۂ اسباب گشتستی تو خَر

ترجمہ: ارے تو (اپنی) غفلت کی وجہ سے سبب (حقیقی) سے بے خبر ہے۔ تو گدھا (ظاہری) اسباب کا غلام بن رہا ہے۔

4

لاجرم اعمٰی دل و سرگشتۂ

مضطرب احوال و مضطر گشتۂ

ترجمہ: اس لیے تو کور دل اور سرگردان ہو رہا ہے۔ بے قرار حالات والا اور مجبور ہو رہا ہے۔

5

چشم بکشا و مسبب را نگر

تا شوی فارغ ز اسبابِ نظر

ترجمہ: (باطن کی) آنکھ کھول اور مسبب کو دیکھ تاکہ تو نظر (و نگاہ) کے اسباب (یعنی ظاہری آنکھ) سے بے نیاز ہو جائے۔

6

چوں شدی تو پاک پردہ بر کند

جانِ پاکانِ خویش بر تو مے زند

ترجمہ: جب تو پاک ہو جائے گا تو پردہ اٹھ جائے گا۔ پھر پاک لوگوں کی روح خود اپنے آپ کو تجھ پر نمایاں کر دے گی۔ (جو اس وقت تیری تنگ نظری و ظاہر پرستی کی وجہ سے مخفی ہے۔ یہاں تک تمہید تھی۔ اب وہ بیان شروع ہوتا ہے جسکے لیے اوپر عنوان قائم کیا گیا ہے:)

7

جملہ عالم گر بود نور و صوَر

چشم را باشد ازاں خوبی خبر

ترجمہ: تمام جہاں اگر (سراسر) روشنی اور (مختلف) صورتوں پر مشتمل ہو۔ تو آنکھ کو اس (کی) خوب صورتی سے (بخوبی) خبر ہوجائے گی۔

8

چشم بستی گوش مے آری بہ پیش

تا نمائی زلف و رخساره بتیش

ترجمہ: (اگر) تو آنکھ کو بند کر لے (اور اس کی بجائے) کان کو سامنے لائے، تاکہ اس کو کسی معشوق کی زلف اور رخساره دکھائے۔

9

گوش گوید من بصورت نگروم

صورت ار بانگے زند من بشنوم

ترجمہ: کان کہے گا کہ میں صورت پر مائل نہیں ہو سکتا۔ (ہاں) صورت اگر آواز دے تو میں اس کو سن سکتا ہوں۔

10

عالمم من لیک اندر فنِ خویش

فن من جز حرف و صوتے نیست بیش

ترجمہ: (بے شک) میں ماہر ہوں لیکن اپنے فن میں (ماہر ہوں، اور) میرا فن سوائے کلام اور آواز (سننے) کے اور کچھ نہیں۔

11

ہیں بیا بینی ببیں ایں خوب را

نیست بینی در خور ایں مطلوب را

ترجمہ: (پھر تو ناک کو کہے کہ) اری ناک! (ادھر) آ۔ اس حسین کو دیکھ مگر ناک (بھی) اس مطلوب کے لائق نہیں۔

12

گر بود مشک و گلابے بو برم

فنِّ من ایں ست و علمِ مخبرم

ترجمہ: (چنانچہ) وہ کہے گی اگر مشک و گلاب ہو تو میں (اس کو) سونگھ سکتی ہوں، میرا فن یہی ہے اور (یہی) میرا علمِ واقفیت (بھی ہے۔)

13

کے بہ بینم من رخِ آں سیم ساق

ہیں مکن تکلیف مَا لَیْسَ یُطَاق

ترجمہ: میں اس چاندی کی سی پنڈلی والے (معشوق) کا چہرہ کب دیکھ سکتی ہوں؟ بس جی! جو بات طاقت سے باہر ہو اس کی تکلیف نہ دو۔

مطلب: یہاں تک یہ مقصود تھا کہ ہر آلۂ حس وہی کام کر سکتا ہے جس کے لیے قدرت نے اس کو وضع کیا ہے، دوسرا کام کرنے سے معذور و قاصر ہے۔ اسی طرح فرعون کے حواسِ باطنی گویا حق بینی و حق شناسی کے لیے وضع ہی نہیں ہوئے تھے۔ پھر وہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو پیغمبری شان میں کیونکر دیکھ سکتا تھا؟ خیر یہ تو ہوا آلۂ حسّ کا غیر متعلق مدرکات کا ادراک نہ کر سکنا۔ اب فرماتے ہیں کہ بعض آلاتِ حس اپنے مخصوص مدرکات کے ادراک سے بھی قاصر ہوتے ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کا فعلِ ادرک ناقص ہوتا ہے۔ جسطرح احول کی آنکھ صحیح طور سے نہیں دیکھ سکتی، اور بہرے کے کان صحیح بات نہیں سن سکتے۔ و علٰی ہٰذا۔ فرعون کی آنکھیں تھیں، وہ دنیا جہاں کی چیزوں کو دیکھتا اور محسوس کرتا تھا، اس کے کان بھی تھے اور ہر آواز کو سن سکتا تھا کہ مگر حقیقت کے لحاظ سے اس کے یہ حواس بےکار تھے۔ ﴿وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَ لَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا﴾ (الأعراف: 179)

14

باز حسِّ کژ نہ بیند غیر کژ

خواہ کژ غژ پیشِ او یاراست غژ

ترجمہ: پھر ٹیڑھی حسّ سوائے ٹیڑھے کے نہ دیکھے گی خواہ تم اس کے آگے ٹیڑھے چلو یا سیدھے چلو۔

15

چشمِ احول از یکے دیدنِ یقیں

ناظرِ شرک است نے توحید بیں

ترجمہ: بھینگے کی آنکھ ایک (چیز کو ایک) دیکھنے سے یقیناً (قاصر ہے۔ وہ) شرک کی نظر رکھتی ہے (یعنی ایک کے دو دیکھتی ہے) توحید کی نظر والی نہیں۔ (بعض نسخوں میں دوسرا مصرعہ یوں ہے:

وانکہ معزول ست اے خواجہ معین

اب خاص حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا خطاب چلتا ہے جسمیں وہ فرعون کو سرزنش کر رہے ہیں:)

16

تو کہ فرعونی ہمہ مکری و زرق

مر مرا از خود نمیدانی تو فرق

ترجمہ: تو جو فرعون ہے (اور) سراپائے مکر و فریب ہے، مجھ میں اور اپنے آپ میں فرق نہیں سمجھتا (جو اندھے کی طرح، تیرے بطلانِ حواس یا احول کی طرح، فسادِ حواس کا نتیجہ ہے۔)

17

منگر از خود در من اے کژباز تو

تا یکے تو را نہ بینی تو دو تو

ترجمہ: اے ٹیڑھے کام والے! مجھ میں اپنی ذات (پر قیاس کرنے کے لحاظ) سے نظر نہ کر، تاکہ تو (احول کی طرح) ایک کو دو نہ دیکھے (میں تو اپنے عہد کا پیغمبر، اور اپنے درجے میں منفرد و لاثانی ہوں، تو مجھ کو اپنے برابر سمجھ کر ایک سے دو فرعون سمجھ رہا ہے۔) اَسْتَغْفِرُ اللہ

18

بِنگر اندر من ز من یکے ساعتے

تا وراے کون بینی ساحتے

ترجمہ: مجھ کو ذرا میری ذات سے دیکھ، تاکہ تجھ کو اس جہان سے ماورا (کمالات کا) وسیع مقام نظر آ جائے۔ (حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا مقام شیوناتِ ذاتیہ کی ولایت ہے۔ اور ”ساحتے ماورائے کون“ سے یہی مراد ہے۔)

19

وارهی از تنگی و از ننگ و نام

عشق اندر عشق بینی والسّلام

ترجمہ: (پھر) تو (اپنی نگاہ کی) تنگی اور ننگ و نام (کی قید) سے چھوٹ جائے گا (اور میری) محبت کے اندر (خدا کی) محبت دیکھے گا اور (پھر) سلامتی ہے۔ (میرے کمالات کو دیکھ کر تجھے مجھ سے محبت ہو جائے گی، اور میری محبت خدا کی محبت کو مستلزم ہے۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:)

20

پس بدانی چونکہ رستی از بدن

گوش و بینی چشم مے تاند شدن

ترجمہ: جب تو (ترقی روحانی ترقی پا کر) جسم (کی پابندی) سے چھوٹ گیا، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ کان اور ناک بھی آنکھ بن سکتے (اور اسکی طرح دیکھ سکتے) ہیں۔

مطلب: یہ درجہ شاید قربِ نوافل میں حاصل ہوتا ہے، جسمیں سمع و بصر اور تمام قویٰ عینِ حق بن جاتے ہیں۔ پھر عارف ہر چیز کو ادراک کرتا ہے، اور اسکے ہر جز و جسم میں یکساں قوتِ ادراک پیدا ہو جاتی ہے، ابن فارض رحمۃ اللہ علیہ قصیدہ تائیہ میں فرماتے ہیں:

وَ کُنْ بَصَراً وَانْظُرْ وَ سَمْعاً وَعَیٰ

وَکُنْ لِسَاناً وَقُلْ فَالْجَمْعُ اَھْدَیٰ طَرِیْقَۃً

یعنی تو سراپا بینائی بن جا، اور دیکھ اور سراپا شنوائی بن جا اور سن، اور سراپا زبان بن جا اور بول، پس جمع تمام طریقوں سے زیادہ پر ہدایت ہے۔ یہ اس لیے کہا کہ سائل سراپائے حواس جمع کے مقام میں ہوتا ہے۔ ایک اور قصیدے میں فرماتے ہیں ؎

اِذَا مَا بَدَتْ لَیْلٰی فَکُلِّیْ اَعْیُنُ

وَاِنْ ھِیَ نَاجَتْنِیْ فَکُلِّیْ سَامِعُ

یعنی ”جب لیلٰی ظاہر ہوتی ہے، تو میں سراپائے چشم بن جاتا ہے۔ اور جب وہ مجھ سے گفتگو کرتی ہے، تو میں سراپائے گوش ہوتا ہوں۔“ امام احمد نے ایک حدیث میں روایت کیا ہے کہ: ”وَاللہِ اِنِّیْ لَاَرَیٰ مِنْ خَلْفِیْ کَمَا اَرَیٰ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ“ (مسند احمد: 2/449) یعنی ”میں تم کو سامنے اور پیچھے سے یکساں دیکھتا ہوں۔“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے تمام اجزا رؤیت کی طاقت رکھتے تھے۔ اور یہ طاقت نماز کے اندر اور باہر ہر وقت کام کرتی تھی، اور آپ کے طفیل اولیاء کرام کو بھی احیاناً یہ طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔(بحر العلوم)

21

راست گفتست آں شہِ شیریں زباں

چشم گردد مُوبموئے عارفاں

ترجمہ: سچ فرمایا ہے اس سلطانُ (العارفین) شیریں زباں نے کہ عارفوں کا بال بال آنکھ بن سکتا ہے۔

مطلب: یہ حضرت سلطانُ العارفین با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے کہ: ”لَایَصِیْرُ الرَّجُلُ مِنَ الْعَارِفِیْنَ حَتّٰی لَایَصَیْرَ کُلَّ شَعْرِہٖ عَیْناً نَاظِرَۃً“ یعنی ”آدمی اس وقت تک عارفوں میں شمار نہیں ہو سکتا جب تک اس کا بال بالِ چشمِ بینا نہ بن جائے۔“ (حاشیہ مثنوی مطبوعہ) آگے ایک تقریر میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ بینائی صرف آنکھ کے ساتھ مخصوص نہیں، یہ ایک عطیۂ الٰہی ہے وہ جس عضو کو چاہے بخش دے اگر وہ نہ بخشے تو آنکھ بھی بینائی سے محروم رہ سکتی ہے، اگر بخش دے تو ہاتھ پاؤں بھی بینا ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں باتوں کو متعدد نظائر سے ثابت فرمائیں گے۔

22

جسم را چشمے نبود اوّل یقیں

در رحم بود او جنینِ گوشتیں

ترجمہ: جسم کی یقیناً پہلے آنکھ نہ تھی۔ وہ رحم کے اندر گوشت کا مضغہ تھا (پھر جب اس کے تمام اعضا تیار ہو گئے تو آنکھ میں بینائی کا نور پیدا ہو گیا۔ مگر:)

23

علّتِ دیدن مداں پیہ اے پسر

ورنہ خواب اندر ندیدے آں صور

ترجمہ: اے عزیز! (اس کی آنکھ میں جو بینائی پیدا ہو گئی تو آنکھ کی) رطوبت (بیضیہ و زجاجیہ وغیرہ ہی) کو بینائی کا سبب نہ سمجھنا۔ ورنہ خواب کے اندر (جو) صورتیں (دکھائی دے جایا کرتی ہیں ہر گز) نظر نہ آتیں۔ (کیونکہ اس وقت آنکھیں بند اور حواس معطل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیکھنا آنکھ پر منحصر نہیں۔)

24

آں پری و دیو مے بیند شبیہ

نیست اندر دیدگانِ ہر دو پیہ

ترجمہ: (اور لو) پری اور جن برابر صورتیں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ دونوں کی آنکھوں میں (وہ) رطوبت نہیں (جسم کو تم سببِ رؤیت سمجھتے ہو۔)

25

نور را با پیہ خود نسبت نہ بود

نسبتش بخشید خَلّاقِ ودُود

ترجمہ: (بینائی کے) نور کو رطوبت کے ساتھ کچھ بھی نسبت نہ تھی۔ خالقِ مہربان نے اس کو نسبت بخشی ہے (اب اسکے غیر جنس چیزوں کو باہم نسبت بخشنے کا تماشہ دیکھو۔)

26

آدم ست از خاک کے ماند بخاک

جنّی است از نار بے ہیچ اشتراک

ترجمہ: آدمی خاک سے (پیدا ہوا) ہے (مگر) وہ خاک کے ساتھ مشابہ کہاں ہے؟ جن بلا شرکت آگ سے ہے۔

27

نیست خود مانندِ آتش آں پری

گرچہ اصلش اوست چوں مے بنگری

ترجمہ: (مگر) جب دیکھو تو پری آگ سے مشابہ نہیں ہے، اگرچہ اسکی اصل اسی سے ہے۔

28

مرغ از بادست کے مانند بباد

نامناسِب را خدا نسبت بداد

ترجمہ: پرندہ ہوا سے ہے مگر وہ ہوا کی مانند کہاں؟ خداوند تعالٰی نے (دو) نامناسب (چیزوں) کو (باہم) نسبت دے دی۔

29

نسبتِ ایں فرعہا با اصلہا

ہست بیچوں ارچہ دادش وصلہا

ترجمہ: (غرض) ان موالید کو اپنے عناصر کے ساتھ ایک بے کیف نسبت ہے، اگرچہ (حق تعالٰی نے) ان کو باہم پیوند بخش دیے ہیں۔

30

آدمی چوں زادۂ خاکِ ہباست

ایں پسرِ را با پدر نسبت کجاست

ترجمہ: آدمی جب ناچیز خاک سے پیدا ہوا ہے، تو (خیال کرو کہ) اس فرزند کو باپ کے ساتھ کیا نسبت ہے؟

31

نسبتے گر ہست مخفی از خِرد

ہست بے چوں و خرد کے پے برد

ترجمہ: اگر کوئی نسبت ہے تو وہ عقل سے مخفی ہے (اور) بے کیف ہے، اور عقل (اس کا) سراغ کیونکر پائے؟ (یہاں تک یہ بیان ہوا کہ نورِ بینائی کی نسبت آنکھ کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ یہ نسبت حق تعالٰی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے، اس نے دو غیر جنس چیزوں کو باہم ربط دے دیا، اور مولانا نے اشیاء کے کئی نظارے بھی کر دیے۔ اب چند مثالیں ایسی پیش فرماتے ہیں جن میں حق تعالٰی سے آنکھ کے سوا دوسری اشیاء کو بھی نورِ بینائی بخشا ہے جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ نور آنکھ کے ساتھ مخصوص نہیں:)

32

باد را بے چشم اگر بینش نداد

فرق چوں مے کرد اندر قومِ عَاد

ترجمہ: ہوا کو اگر اس نے آنکھ کے بغیر بینائی نہیں بخشی، تو وہ قومِ عاد (کے لوگوں) میں فرق کیونکر کرتی تھی؟

33

چوں ہمی دانست مومن از عدو

چوں ہمی دانست مے را از کدو

ترجمہ: وہ مومن کو دشمنِ (خدا) سے کیونکر پہچانتی تھی؟ شراب کو کدو سے کیونکر شناخت کرتی تھی؟

مطلب: قومِ عاد پر ہوا کا عذاب نازل ہوا تو ہوا نے کافروں کو چن چن کر ہلاک کیا، مومنوں کو کوئی اذیت نہ پہنچی۔ کدو میں شراب ڈالا کرتے تھے۔ ”کدو“ سے مراد ظاہری مومن یعنی منافق، اور ”شراب“ سے تہہ دل سے ایمان لانے والا، راسخ الایمان۔

34

آتشِ نمرود را گر چشم نیست

باخلیلش چوں تجشّم کردنیست

ترجمہ: نمرود کی آگ کو اگر چشمِ (بصیرت حاصل) نہیں، تو خلیل اللہ علیہ السّلام کے ساتھ اس کو یہ تکلّف کیوں سوجھا؟ (کہ ان کو سینک تک نہ پہنچایا۔)

35

گر نبودے نیل را آں نورِ دید

از چہ قبطی را ز سبطی مے گزید

ترجمہ: اگر دریائے نیل کو وہ بینائیِ چشم حاصل نہ ہوتی، تو وہ قبطی (یعنی قومِ فرعون) کو سبطی (یعنی قومِ موسیٰ علیہ السّلام) سے کیونکہ چن سکتا؟ (اور اسے کیونکر غرق کرتا؟)

36

گر نہ کوہ و سنگ با دیدار شد

پس چرا داؤدؑ با او یار شد

ترجمہ: اگر پہاڑ اور پتھر صاحبِ بصارت نہ تھے، تو حضرت داؤد علیہ السّلام کیونکر ان کے رفیق ہو گئے؟ (کہ قراتِ زبور میں ان کو ہم آواز پاتے تھے۔)

37

ایں زمیں را گر نبودے چشمِ جاں

از چہ قاروں را فرو خورد آنچناں

ترجمہ: اس زمین کو اگر روحانی آنکھ (حاصل) نہ ہوتی، تو وہ قارون کو یوں کس طرح نگل گئی؟

38

گر نبودے چشمِ دل حنّانہ را

چوں بدیدے ہجرِ آں فرزانہ را

ترجمہ: اگر (ستونِ) حنّانہ کو دل کی آنکھ حاصل نہ ہوتی، تو وہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی جدائی کو کیونکر محسوس کرتا؟

39

سنگریزہ گر نبودے دیدہ ور

چوں گواہی دادے اندر مشت در

ترجمہ: کنکریاں اگر بینا نہ ہوتیں، تو (وہ ابوجہل کافر کی) مٹھی کے اندر کس طرح گواہی دیتیں؟ (کہ آپ سچے ہیں۔)

40

اے خرد برکش تو پرّ و بالہا

سورہ بر خواں زُلْزِلَتْ زِلْزَالَھَا

ترجمہ: اے عقل (اپنے) پر اور بازو کھول لے (اور) سورہ زلزال پڑھ۔

مطلب: اس سورۃ میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ﴿إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا - وَ أَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا - وَ قَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا - يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا - بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا﴾ (الزلزلۃ: 1-5) یعنی ”جب زمین اپنے بھونچال سے جھنجھوڑ دی جائے گی۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال دے گی۔ اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے؟ اس دن زمین اپنی ساری خبریں بتا دے گی۔ کیونکہ تمہارے پروردگار نے اسے یہی حکم دیا ہوگا۔“

41

در قیامت ایں زمیں بر نیک و بد

کے زنا دیدہ گواہی مے دہد

ترجمہ: (پس) قیامت میں یہ زمین دیکھے بدوں، نیک و بد لوگوں کے بارے میں گواہی کب دے سکے گی؟

42

کے تُحَدِّثُ حَالَھَا وَ اَخْبَارَھَا

تُظْھِرُ الْاَرْضُ لَنَا اَسْرَارَھَا

ترجمہ: کیونکہ زمین اپنا حال اور اپنی خبریں بیان کر سکے گی کہ وہ ہمارے لیے اپنے بھید ظاہر کر دے۔ (یہاں سے آگے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا قول شروع ہوتا ہے، جس سے وہ فرعون کو خطاب فرماتے ہیں یہاں تک جادوگری کے الزام کا جواب تھا، جسکے ضمن میں کئی مباحثِ لطیفہ آ گئے۔ اب موسیٰ علیہ السّلام دوسرے پہلوؤں سے اس کو تنبیہ کرتے ہیں:)

43

ایں فرستادن مرا پیشِ تو میر

ہست برہانے کہ شد مُرسِل خبیر

ترجمہ: (خداوند تعالٰی نے) مجھ کو تجھ (جیسے) بادشاہ (مالکِ تاج و تخت) کی طرف جو (تہدیدی پیغام دے کر) بھیجا ہے، تو یہ (اس بات کی) دلیل ہے کہ بھیجنے والا (اس امر سے) آگاہ ہو گیا ہے (کہ:)

44

کہ چنیں دارُو چناں ناسور را

ہست در خور از پے میسور را

ترجمہ: کہ ایسی دوا ایسے ناسور کے لیے مناسب ہے، تاکہ (وہ) آسانی (سے رفع) ہو جائے۔

45

واقعاتے دیدہ بودی پیشِ ازیں

کہ خدا خواہد مرا کردن گزیں

ترجمہ: تو اس سے پہلے (کئی خواب) دیکھ چکا تھا، کہ خداوند تعالٰی مجھے (اس مہم کے لیے بطور پیغمبر) انتخاب کرے گا۔ (اور تجھے معلوم ہو چکا تھا کہ:)

46

من عصا و نور بگرفتہ بدست

شاخِ گستاخِی ترا خواہم شکست

ترجمہ: میں عصا اور نور ہاتھ میں لے کر (ان معجزوں سے) تیری گستاخی کا سینگ توڑ ڈالوں گا۔ (”گستاخی کے سینگ“ سے مراد فرعون کا دعوئے خدائی ہے، اور اس دعویٰ کا معجزوں کے مقابلے میں باطل ثابت ہونا اس سینگ کا ٹوٹنا ہے۔)

47

واقعاتے سہمگیں از بہرِ ایں

گونہ گونہ مے نمودت ربِّ دیں

ترجمہ: اسی لیے پروردگارِ دین طرح طرح کے خوفناک واقعات تجھ کو دکھاتا تھا۔

48

در خورِ سرِّ بد و طغیانِ تو

تا بدانی کوست در خورد آنِ تو

ترجمہ: جو تیرے برے عقیدے اور سرکشی کے لیے مناسب تھے۔ تاکہ تو سمجھ جائے کہ وہ (واقعات) تیرے لائق ہیں۔

49

تا بدانی کو حکیم ست و خبیر

مصلحِ امراضِ درماں نا پذیر

ترجمہ: تاکہ تجھے معلوم ہو جائے وہ (تعالٰی شانہٗ) دانا اور باخبر ہے۔ لاعلاج بیماریوں کو اچھا کر دینے والا ہے۔

50

تو بتاویلات مے گشتی ازاں

کور و کر کایں ہست از خوابِ گراں

ترجمہ: تو (مختلف) تاویلوں کی وجہ سے (ان خوابوں کے ساتھ متنبہ ہونے کے بجائے) ان کی طرف سے اندھا اور بہرا ہو جاتا تھا۔ کہ یہ (خواب) گہری نیند کے سبب سے (نظر آ جاتے) ہیں۔

51

واں طبیب و آں منجّم در لمع

دید تعبیرش بپوشید از طمع

ترجمہ: اور ان طبیبوں اور نجومیوں نے (اپنی علمی) روشنی میں، اس (خواب) کی تعبیر دیکھ لی (مگر بادشاہ کو خوش رکھنے کی) طمع سے (اسکو) چھپا لیا۔

52

گفت دُور از دولت و از شاہیت

کہ در آید غصہ در آگاہیئت

ترجمہ: (اور بطور خوشامد) کہنے لگے کہ حضور کی سلطنت اور بادشاہی سے (خدا کرے) یہ بات دور رہے، کہ کوئی فکر کی بات (خوامخواہ) آپکے علم میں آئے۔

53

از غذائے مختلف یا از طعام

طبعِ شوریدہ ہمی بیند منام

ترجمہ: (بات صرف اتنی ہے کہ) مختلف غذاؤں یا (کسی خاص) طعام کی وجہ سے، طبیعت خراب ہو کر (پریشان) خواب دیکھنے لگتی ہے (ان سے ڈرنا فضول ہے۔)

54

زانکہ دید او که نصیحت جونۂ

تند و خونخواری و مسکین خونۂ

ترجمہ: کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ تو نصیحت کا طالب نہیں، بلکہ تند و خونخوار ہے، اور خاکسارانہ خو والا نہیں ہے۔ (اس لیے وہ ڈر گیا کہ مبادا تو خوفناک تعبیر سن کر بگڑ بیٹھے، اور بے چارے کے منجم کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ (یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرعون کے خواب سے عبرت گیر نہ ہونے پر ملامت کی ہے۔ اب اسکے اطفالِ بنی اسرائیل کو قتل کرنے پر زجر و توبیخ کا تازیانہ برساتے ہیں۔)

55

بادشاہاں خوں کنند از مصلحَت

لیک رحمت شاں فزون ست از عَنت

ترجمہ: بادشاہ ملکی و سیاسی مصلحت سے انسان کا خون کر دیتے ہیں۔ (﴿وَ لَكُمْ فِيْ الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّا أُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (البقرۃ: 179)) لیکن ان کا رحم ہلاک سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

56

شاہ را باید کہ باشد خوئے رب

رحمتِ او سبق گیرد بر غضب

ترجمہ: بادشاہ کو چاہیے کہ پروردگار کا خُلق اختیار کرے۔ (”تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ“ چنانچہ) اس کی رحمت غضب پرسبقت رکھتی ہے۔ (”إِنَّ رَحْمَتِيْ سَبَقَتْ غَضَبِيْ (البخاري: الرقم: 6986))

57

نے غضب غالب بود مانندِ دیو

بے ضرورت خوں کنند از بہرِ ریو

ترجمہ: نہ تو دیو کی طرح (ان پر) غضب غالب ہو۔ (اور) وہ بلا ضرورت مکاری سے (لوگوں کا) خون کریں۔

58

نے حلیمی مخنث وار نیز

کہ شود زن روسپی زال و کنیز

ترجمہ: نہ ہی ہیز کی طرح (حد سے زیادہ) حلم ہو، کہ اس سے عورت بدکار ہو جاتی ہے، اور کنیز (بھی بدچلنی اختیار کر لیتی ہے۔)

59

دیو خانه کردہ بودی سینہ را

قبلۂ سازیدہ بودی کینہ را

ترجمہ: (اے فرعون!) تو نے (اپنے) سینے کو دیو (خونخوار) کا گھر بنا رکھا تھا، تو نے کینہ کو (اپنا) قبلہ بنا رکھا تھا۔

60

شاخِ تیزت بس جگرہا را کہ خست

نک عصایم شاخِ شوخت را شکست

ترجمہ: تیرے (ظلم کے) تیز (اور نوکیلے) سینگ نے بہت سے (مقتولُ الاولاد ماں باپ کے) جگروں کو چھید ڈالا۔ دیکھ! میرا عصا اب تیرے (اس) شوخ سینگ کو توڑے گا۔

انتباہ: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا مبعوث ہو کر فرعونی شوکت کو پامال کرنا، تقدیر الہیٰ میں مقرر ہو چکا تھا۔ فرعون کو خواب میں یہ کیفیت نظر آئی تو اس نے پہلے تو یہ کوشش کی کہ بنی اسرائیل کے مرد اپنی عورتوں کے قریب نہ جائیں تاکہ نہ کوئی عورت حاملہ ہو، نہ موسیٰ پیدا ہوں۔ جب اس میں اس کی کچھ پیش نہ گئی اور بحکمِ خدا موسیٰ علیہ السّلام کا وجود اپنی ماں کے شکم میں مستقر ہو گیا، تو پھر فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرانا شروع کیا، تاکہ ان میں موسیٰ علیہ السّلام پیدا ہوتے ہی مارے جائیں۔ اب صورت یہ ٹھہری کہ خداوند تعالٰی تو ایک مرد باطل شکن کو (عدم سے) دنیا میں بھیج رہا ہے، اور دنیا کے باطل پرست کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو اس عالم میں آنے نہ دیں یا اس کو یہاں قدم رکھتے ہی واپس عدم میں بھیج دیں۔ تو اس کے یہ معنٰی ہوئے کہ گویا افواجِ دنیا عساکرِ غیب پر حملہ آور ہیں۔ مولانا اسی مضمون کو ایک عنوان کے ساتھ شروع فرماتے ہیں: