دفتر 4 حکایت 101: حضرت موسٰی علیہ السّلام کا جادوگری سے اپنی بریت ظاہر کرنا

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 101

نفی کردنِ موسٰی علیہ السّلام جادوئی را از خود

حضرت موسٰی علیہ السّلام کا جادوگری سے اپنی بریت ظاہر کرنا

1

گفت ہستم غرقِ پیغامِ خدا

جادوئی کہ دید با نامِ خدا

ترجمہ: انہوں نے فرمایا میں تو خداوند تعالٰی کے پیغام میں غرق ہوں۔ خدا کے نام کے ساتھ جادوگری کس نے دیکھی ہے؟ (جادو میں تو جنوں، شیطانوں، بتوں، دیویوں، دیوتاؤں کے نام ہوتے ہیں۔ خدا کا نام آئے تو جادو کا اثر باطل ہو جاتا ہے: ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ (بنی اسرائیل:21)

غفلت و کفرست مایۂ جادوئی

مشعلۂ دینست جانِ موسوی

ترجمہ: غفلت اور کفر جادوگری کی جان ہے۔ (اور) حضرت موسٰی علیہ السّلام کی جان دین کی مشعل ہے۔

3

من بجادویاں چہ مانم اے وقیح

کز دمم پُر رشک مے گردد مسیحؑ

ترجمہ: اے بے حیا! مجھ کو جادوگری کے ساتھ کیا مشابہت ہے؟ کہ میرے (پاک) دم سے تو مسیح علیہ السّلام کو بھی رشک آنے لگے۔ (منہج کے متن میں ”وقیح“ کے بجائے ”قبیح“ درج ہے)

مطلب: حضرت موسٰی علیہ السّلام کا زمانہ حضرت مسیح عیسٰی علیہ السّلام سے ہزارہا سال پہلے تھا۔ اس لیے موسٰی علیہ السّلام کی زبان سے ان کا ذکر خصوصاً اس طرح کہ گویا وہ ان کے ہم زمانہ ہیں جو ان کے کمالات پر رشک کرتے ہیں، محلِ شبہ ہے صاحبِ منہج فرماتے ہیں کہ حضرت موسٰی علیہ السّلام نے بطریقِ معجزہ پہلے سے حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی خبر دے دی۔ بحر العلوم لکھتے ہیں کہ گویا تقریر حضرت موسٰی علیہ السّلام کی ہے مگر مولانا اس کو اپنے الفاظ میں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت موسٰی علیہ السّلام کی تقریر میں مسیح سے مطلق کامل پاک نفس مراد ہے، اور مولانا نے اپنے الفاظ میں کامل سے مسیح کا استعارہ کر لیا۔ ”ھٰذَا ھُوَ الْاَشْبَہُ وَ الْاَوْقَعُ۔“

4

من بجادویاں چہ مانم اے جنب

کہ ز جانم نور مے گیرد کتب

ترجمہ: اے ناپاک! میں جادوگروں کے ساتھ کیا مشابہت رکھتا ہوں؟ کیونکہ میری روح سے تو کتابیں نور حاصل کرتی ہیں۔ (یعنی میرے احوال و اعمال کتابوں میں درج ہو کر لوگوں کے لیے درسِ دینیات بنتے ہیں۔)

5

من بجادویاں چہ مانم اے خبیث

کز خدا نازل شود بر من حدیث

ترجمہ: اے خبیث! میں جادوگری کے ساتھ کس بات میں ملتا جلتا ہوں؟ جبکہ مجھ پر خداوند تعالٰی کا کلام اترتا ہے۔

6

چوں تو با پرِّ ہویٰ بر مے پری

لاجرم بر من گماں آں مے بری

ترجمہ: چونکہ تو ہوس کے پَر کے ساتھ اڑ رہا ہے۔ اس لیے مجھ پر اس قسم کا گمان رکھتا ہے (کہ یہ بھی اہلِ ہوا و ہوس ہوگا۔ ”اَلْمَرْءُ یَقِیْسُ عَلٰی نَفْسِہٖ“)

7

ہر کرا افعال دام و دَد بود

بر کریمانش گمانِ بد بود

ترجمہ: جس شخص کے افعال وحشی جانوروں، اور درندوں کے سے ہوں۔ اس کو بزرگوں پر بدگمانی ہوتی ہے (کہ یہ بھی ایسے ہی ہوں گے۔)

8

چوں تو جزوِ عالمی پس اے مہین

کُلِّ آں را ہمچو خود بینی یقین

ترجمہ: چونکہ تو جہاں کا ایک جزء ہے، پس اے ذلیل! کل جہاں کو یقیناً اپنی مانند دیکھتا ہے۔ (اس خیال سے کہ جزء اپنے کل کا نمونہ ہوتا ہے۔ آگے مولانا چند ایسے نظائر پیش فرماتے ہیں جن میں انسان اپنی کسی خاص کیفیت میں، دوسری اشیاء کو بھی اس کیفیت سے متکیّف دیکھتا ہے:)

9

چوں تو بر گردی و بر گردت سرت

خانہ را گردندہ بیند منظرت

ترجمہ: جب تم (کسی طرح) گھومنے لگو اور (اس سے) تمہارا سر چکرائے۔ تو تمہاری آنکھ گھر کو (بھی) گھومتا دیکھے گی۔

10

ور تو در کشتی روی بریم رواں

ساحلِ یَم را ہمی بینی دواں

ترجمہ: اگر تم کشتی میں سوار ہو کر دریا کی سطح پر چلو، تو دریا کے کنارے کو (بھی ساتھ ساتھ) دوڑتے دیکھو گے۔

11

گر تو باشی تنگ دل از ملحمہ

تنگ بینی جَوِّ دنیا را ہمہ

ترجمہ: اگر تم کسی جھگڑے سے تنگ دل ہو، تو تمام دنیا کی فضا کو تنگ دیکھو گے۔

12

ور تو خوش باشی بکامِ دوستاں

ایں جہاں بنمایدت چوں بوستاں

ترجمہ: اگر تم دوستوں کی مراد کے موافق خوش ہو، تو یہ جہاں تم کو باغ کی طرح سرسبز و شاداب نظر آئے گا۔

13

اے بسا کس رفتہ در شام و عراق

او ندیدہ ہیچ جز کفر و نفاق

ترجمہ: ارے (بھائی!) بہتیرے (کافر و منافق) آدمی شام و عراق جاتے ہیں۔ تو ان کو وہاں سوائے کفر و نفاق کے کچھ نظر نہیں آتا۔

14

وے بساکس رفتہ تا ہند و ہرے

او ندید و جز مگر بیع و شری

ترجمہ: اور اے (بھائی!) بہتیرے (تجارت پیشہ) لوگ ہندوستان و ہرات گئے۔ ان کو (اپنے غلبۂ مذاق کی وجہ سے) خرید و فروخت کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔

15

وے بساکس رفتہ ترکستان و چین

او ندیده ہیچ الّا مکر و کین

ترجمہ: اور اے (بھائی!) بہتیرے (مکار و کینہ ور) لوگ ترکستان و چین تک گئے۔ ان کو (اپنے اخلاق کی عینک سے) سوائے مکر و کینہ کے کچھ نظر نہ آیا۔

16

طالبِ ہر چیز اے یارِ رشید

جز ہماں چیزے کہ مے جوید ندید

ترجمہ: اے راست رو دوست! کسی چیز کا طالب اس چیز کے سوا اور کچھ نہیں دیکھتا، جس کو وہ طلب کر رہا ہے۔

17

چوں ندارد مدرکے جُز رنگ و بو

جملہ اقلیمها را گو بجو

ترجمہ: جب (کوئی ظاہر بین سیاح) رنگ و بو کے سوا (اور) کچھ محسوس نہ کرے۔ تو چاہے ساری ولایتوں کو ڈھونڈ مارے (اس کو رنگ و بو ہی محسوس ہوگا۔)

مطلب: جو شخص بصیرتِ باطن سے خالی، اور ذوقِ روحانی سے محروم ہے۔ اس کو تمام اشیائے عالم کی صرف ظاہری صورت نظر آئے گی۔ بخلاف اسکے اہلِ بصیرت اور اربابِ ذوق ہر برگِ شجر سے دفترِ معرفت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کما قال السعدیؒ الشیرازی رحمۃ اللہ علیہ؎

برگ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار

ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار

18

گاؤ در بغداد آید ناگہاں

بگذرد او زیں سراں تا آں سراں

ترجمہ: ایک بیل اچانک بغداد میں آتا ہے، وہ (شہر کی) اس طرف سے اس طرف تک گزر جاتا ہے۔ (منہج میں ”سراں“ کے معنٰی جانب لکھے ہیں۔ ایک نسخے میں ”کراں تا آں کراں“ ہے۔)

19

از ہمہ عیش و خوشیہا و مزہ

او نہ بیند غیر قشرِ خرپزہ

ترجمہ: وہ (بیل شہر کی) عیش و خوشی، اور مزوں سے (بے خبر) خربوزہ کے چھلکے کے سوا اور کچھ نہ دیکھے گا۔

20

کہ بود افتادہ در راہ یا حشیش

لائق سیرانِ گاؤے یا خریش

ترجمہ: (کیونکہ) راستے میں پڑا ہوا (چھلکا) یا گھاس (کے سوا کچھ نہیں نظر آتا، اے ظاہر پرست سیاح!) تو بھی بیل کی رفتار اور اسکی حماقت کے لائق ہے۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ)

21

خشک بر میخِ طبیعت چوں قدید

بستۂ اسباب و جانش لا یزید

ترجمہ: وہ اسباب کے پابند (ہونے میں) سوکھے گوشت کی طرح، طبیعت کی میخ پر خشک (ہو رہا) ہے۔ اور اس کی روح ترقی نہیں کر سکتی۔

مطلب: ”قدید“ بوزن ”شدید“ خشک گوشت کے ٹکڑے، جن کو دھوپ میں سکھا کر رکھتے ہیں، تاکہ بوقتِ ضرورت پکا کر کھائیں، اس گوشت کو خشک کرنے کے لیے کھونٹی پر لٹکایا جاتا ہے کہ نیچے رکھنے میں بلی کتّے کے اڑا لے جانے کا خوف ہے۔ اس کی اس ہیئت کو پابندِ اسباب کے لیے استعارہ کیا ہے، یعنی جسطرح خشک گوشت کھونٹی پر لٹکا ہوتا ہے، اور اب اس میں کوئی زیادتی نہیں ہوگی، بلکہ لمحہ بہ لمحہ اس کی رطوبت ہی زائل ہو گی۔ اس طرح پابندِ اسباب اپنی طبیعت کی کھونٹی سے لٹک رہا ہے، جس قدر اس کی طبیعت کی بساط ہے پس وہ اسی قدر علم رکھتا ہے، اس کی نظر اسباب سے باہر نہیں جاتی۔ نہ وہ قدرتِ حق کے وسیع عرفان سے بہرہ مند ہو کر اپنی روح کو ترقی دے سکتا ہے۔ شعر کی جامعیت سُبْحَانَ اللہ، فَلِلّٰہِ دَرُّهٗ۔

22

واں فضائے خرقِ اسبابِ و علل

ہست ارضُ اللہ اے صدرِ اجل

ترجمہ: اور وہ فضا جہاں اسباب و علل کا سلسلہ درہم برہم ہے۔ اے صدرِ اعظم وہ اللہ کی سرزمین ہے (جس کی وسعت کی انتہا نہیں۔)

مطلب: دنیا کے تمام کاروبار اسباب کے ما تحت چل رہے ہیں اگر ان اسباب سے بالاتر نظر سے جا کر اس قدرتِ حق کا مشاہدہ کریں، جو ان اسباب میں مؤثر ہے اور اس کے بغیر ایک لمحہ کے لیے بھی یہ اسباب کارگر نہیں ہوتے تو یہ ایک وسیع مقام ہے۔ کس کی کیفیت یہ ہے کہ:

23

ہر زماں مُبدل شود چوں نقشِ جاں

نو بنو بیند جہانے در عیاں

ترجمہ: جب (سالک کی نظر میں کائنات کا (نقش ہر وقت بطور تجدد امثال) مبدل ہوتا ہے تو (اس کی) روح صاف طور پر نئے سے نیا عالم دیکھتی ہے (اور یہ کس قدر پر لطف بات ہے)۔

مطلب: سالک کی نظر جب سلسلۂ اسباب سے بالا تر حق تعالٰی کے فعلِ تخلیق پر پہنچتی ہے تو اس کی نظر میں وجودِ عالم کا وہ تماشا منکشف ہونے لگتا ہے جس کو صوفیاء کی اصطلاح میں تجدّدِ امثال کہتے ہیں یعنی حق تعالٰی کے فیضانِ تخلیقِ کائناتِ عالم کا ہر آن میں معدوم ہو کر ساتھ کے ساتھ موجود ہوتے جانا اس طرح کہ اس کے عدم و وجود میں کچھ فاصلہ نہیں ہوتا اور یہ ایک پر لطف تماشا ہے۔ جس کے بغیر عالم بے مزہ تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

24

گر بود فردوس و انہارِ بہشت

چوں فسردہ یک صفت شد گشت زشت

ترجمہ: اگر فردوش اور بہشت کی نہریں بھی ہوں، تو جب وہ ایک ہی صفت پر جم کر رہ جائیں تو (دیکھنے والے کی نظر میں) بد نما ہیں۔

مطلب: یہاں تک مولانا کا مقولہ تھا اس لیے اوپر ایک شعر میں صدرِ اجل کا لفظ آیا ہے کیونکہ اگر یہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فرعون کے ساتھ خطاب ہوتا تو وہ ہر گز اس گہرِ اذل کو صدرِ اجل نہیں کہہ سکتے تھے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر جادو گیری کا اتہام لگایا تھا۔ یہاں تک اس کا جواب تھا جسکی تحصیل ان چار فقروں میں ہو سکتی ہے۔

(1)۔ پیغمبر جادوگر نہیں ہو سکتا۔

(2)۔ تم اپنے کافرانہ نقطۂ نظر سے پیغمبر کو دیکھتے ہو۔ اس لیے اسے بھی ایسا ویسا سمجھتے ہو۔

(3)۔ بیل گدھے کو گھاس پھوس کی سوجھا کرتی ہے۔

(4) اسبابِ ظاہر سے نظر اٹھا کر ارض اللہ کی سیر کرنے والی نگاہ پیدا کرو۔ اس نظر سے پیغمبر کو بھی پہچان سکتے ہو۔ آگے یہی مضمون نئے عنوان سے چلتا ہے: