دفتر 1 حکایت 9: اس زرگر کو بلانے کے لیے بادشاہ کا قاصدوں کو سمرقند بھیجنا
دفتر اول: حکایت: 9
فرستادنِ پادشاہ رسولاں بسمرقند در طلبِ آں زرگر
اس زرگر کو بلانے کے لیے بادشاہ کا قاصدوں کو سمرقند بھیجنا
1
چونکہ سلطاں از حکیم آں را شنید
پندِ او را از دل و از جاں گزید
ترجمہ: بادشاہ نے جب اس (بات) کو حکیم سے سنا تو اس کی نصیحت کو دل و جان سے منظور کیا۔
2
گفت فرمانِ ترا فرماں کنم
ہرچہ گوئی آنچناں کن آں کنم
ترجمہ: (اور) کہا تیرے ارشاد کے موافق میں حکم دوں گا وہی کروں گا جو کچھ تو کہے گا کہ یوں کر۔
3
پس فرستاد آں طرف یک دو رسُول
حاذِقان و کافِیان و بس عدُول
ترکیب: "پس" حرفِ عطف۔ "فرستاد" فعل جس میں عائد بطرف بادشاہ اس کا فاعل۔ "آں طرف" ظرف۔ "یک دو" اسمِ عدد۔ "رسول" موصوف اور دوسرے مصرعہ میں اس کی صفتیں مل کر معدود۔ عدد و معدود مل کر مفعول بہ۔
ترجمہ: پس اس طرف ایک دو قاصد جو ہوشیار اور (ہر طرح) کافی نہایت قابلِ اعتبار تھے بھیجے۔
4
تا سمرقند آمدند آں دو امِیر
پیشِ آں زر گرز شاہنشہ بشِیر
ترجمہ: وہ دونوں (فرستادہ سردار) سمرقند میں زرگر کے پاس بادشاہ کی طرف سے (یہ) خوشخبری لے کر آئے کہ۔
مسئلہ: شاہنشاہ دراصل شاہانِ شاہ باضافتِ مقلوب ہے، یعنی بادشاہوں کا بادشاہ۔ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ مخلوق پر اس نام کا اطلاق جائز نہیں۔ "عَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَ رَضِیَ اللہ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَخْنَی الْاَسمَاۤءِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ اللہِ رَجُلٌ تَسَمّٰی مَلِکَ الْاَمْلَاکِ"۔ یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین نام اس شخص کا ہے جس کو شاہنشاہ کہا جائے“۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ "اَغْیَظُ رَجُلٍ عَلَی اللہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ اَخْبَثُہٗ وَ اَغْيَظُهٗ رَجُلٌ کَانَ یُسَمّٰی مَلِکَ الْاَمْلَاکِ۔ لَا مَلِکَ اِلَّا اللہُ"۔ (مشکوٰۃ۔ باب الاسامی) یعنی ”قیامت کے روز اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مستوجبِ ناراضگی اور سب سے زیادہ پلید وہ شخص ہے جس کا نام شاہنشاہ رکھا گیا (بادشاہوں کا بادشاہ) بادشاہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں“۔ پس مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا اس بادشاہ کے لیے شاہنشاہ کا لقب استعمال کرنا بظاہر محلِ اعتراض ہے۔ کلیدِ مثنوی میں لکھا ہے کہ شاید مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو یہ حدیث نہ پہنچی ہو۔ یا اس کو کراہتِ تنزیہی پر محمول کیا ہو، جیسے کہ بعض علماء نے کہا ہے اور ضرورتِ شعری نے اس کراہت کو رفع کر دیا ہو، یا یہ کہ علٰی الاطلاق شاہنشاہ کہنا ناجائز ہو اور خاص قید سے مثلًا شاہِ شاہانِ دنیا وغیرہ کہنا جائز ہو۔ واللہ اعلم۔
5
کاے لطیف استاد کاملِ معرفت
فاش اندر شہرہا از توصِفَت
ترکیب: شعر سابق میں "بشیر" کے ساتھ لفظ ”بایں“ مقدر تھا۔ یعنی اس بات کی خوشخبری دینے والے۔ یہ شعر اسی "ایں" کا بیان ہے۔ "استاد" موصوف۔ "لطیف" صفتِ مقدّم۔ "کاملِ معرفت" صفتِ دوم۔ دوسرا مصرعہ جملہ اسمیہ ہو کر صفتِ سوم۔ موصوف اپنی صفتوں سمیت منادٰی ہوا۔
ترجمہ: کہ اے باریک کام کرنے والے استاد، پوری شناخت والے جس کی تعریف شہروں میں (عام) ہے۔
6
نِک فلاں شہ از بر اے زرگری
اِختیارت کرد زیرا مہتری
ترکیب: "اینک" میں ایں اسمِ اشارہ۔ "وقت" مشارٌ الیہ محذوف۔ "کاف" تصغیر۔ مل کر ظرف ہوا۔ "زیرا مہتری" میں "از" حرفِ جار۔ "ایں را" مبیّن۔ "تو مہتر ہستی" بیان۔ مل کر مجرور ہوا۔
ترجمہ: اس وقت فلاں بادشاہ نے تجھ کو (خاص شاہی) زیور بنانے کے لیے پسند کیا ہے کیونکہ تو (ماہرانِ صنعت میں سے) بلند رتبہ ہے۔
7
اینک ایں خِلعت بگیر و زرّ و سیم
چُوں بیائی خاص باشی و ندیم
ترجمہ: فی الحال یہ خلعت اور دولت لے (پھر) جب تو (حضورِ شاہی میں) آئے گا تو خاص (درباری) اور ہم نشین ہو گا۔
8
مرد مال و خلعتِ بسیار دِید
غُرہّ شد از شہر و فرزنداں برِید
ترکیب: از شہر الخ "برید" کے متعلق ہے۔
ترجمہ: مرد (زرگر) بہت سا مال اور خلعت دیکھ کر فریفتہ ہو گیا (اور اس نے اپنے وطن اور عیال سے (تعلق) توڑ لیا۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
خواہی شوی عزیز ز چاہِ وطن برائے
یوسف بہاے آب بکنعاں نداشتست
9
اندر آمد شادماں در راہِ مرد
بیخبرکاں شاہ قصدِ جانش کرد
ترکیب: "اندر" زائد۔ "آمد" کا فاعل "مرد" جو ذو الحال ہے۔ "شادماں" اس کا حال۔ دوسرے مصرعہ کی تقدیر "بیخبر بود ازیں کہ آں شاہ الخ"۔ "بود" فعلِ ناقص۔ اس میں "آید" اسم۔ "بیخبر" خبر، "از" جار۔ "ایں" مبیّن اور "آں شاہ قصدِ جانش کرد" بیان۔ مل کر مجرور مع جار کے متعلق "بود" کے ہوا۔
ترجمہ: مرد (زرگر) ہنسی خوشی راستے پر پڑ لیا۔ یہ خبر نہ تھی کہ بادشاہ نے اس کی جان (لینے) کا قصد کیا ہے۔
مطلب: زرگر کی جان لینے کا قصد تو دراصل طبیبِ الٰہی نے کیا تھا اور ممکن ہے بادشاہ کو ابھی اس حیلہ و تدبیر کی تفصیلات کا علم بھی نہ ہو مگر چونکہ اس تمام کارروائی کا اصل باعث بادشاہ ہے اس لیے قتلِ زرگر کو اسی سے منسوب کیا ہے۔
10
اسپِ تازی بر نشست و شاد تاخت
خونبہائے خویش را خلعت شناخت
ترکیب: "بر" جار کا مجرور "اسپِ تازی" ہے۔ جو ضرورتًا مقدّم آ گیا۔ "شناخت" کا فاعل "زرگر"۔ "خونبہا" مفعول بہ اوّل۔ "خلعت" مفعول بہ ثانی۔
ترجمہ: عربی گھوڑے پر سوار ہو کر خوش خوش دوڑ چلا (اور غلطی سے) اپنے خونبہا کو (جو لباسِ فاخرہ کی صورت میں اس کو ملا تھا) ایک انعامی خلعت سمجھ لیا۔
نکتہ: آہ! یہی حال ہے۔ اس غفلت شعار انسان کا جو لذّاتِ فانیہ کے چکر میں آ کر گردابِ معاصی میں جا پڑتا ہے۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو خود را ازاں در چہ انداختی
کہ چَہ را ز رہ باز نشاختی
11
اے شدہ اندر سفر با صد رضا
خود بیا پے خویش تا سوء القضا
ترکیب: "اے" حرفِ ندا کا منادٰی مقدّر ہے یعنی "مخاطب شدہ" کا فاعل "زرگر"۔
ترجمہ: اے (مخاطب) وہ بڑی خوشی کے ساتھ خود اپنے پاؤں سے بری موت کی طرف سفر کرنے لگا۔
مطلب: مطر بن عکامس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: "إِذَا قَضَى اللّٰهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَّمُوْتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهٗ إِلَيْهَا حَاجَةً"(رواہ احمد و الترمذی) یعنی ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے حق میں یہ حکم دیتا ہے کہ وہ کسی خاص زمین میں جا کر وفات پائے وہ اس کے لیے وہاں جانے کی کوئی ضرورت پیدا کر دیتا ہے۔“
نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گہ تیر خوردن عقابِ دلیر
بہ پرِّ خود آید ز بالا بہ زیر
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کبوتریکہ دگر آشیاں نخواہد دید
قضا ہمے برد او را بسوئے دانہ و دام
12
در خیالش ملک و عزّ و سروری
گفت عزرائیل رَو، آرے بری
ترکیب: "رو آرے بری" میں دو جملے معلول و علّت مل کر جملہ معلّلہ ہو کر مقولہ ہوا "گفت" کا۔
ترجمہ: اس کے خیال میں حکومت اور عزّت اور سرداری (کی دھن سمائی تھی) عزرائیل نے (جو اس کی جان قبض کرنے کو تیار تھا استہزاء سے) کہا۔ جاؤ، ہاں ہاں تم یہ سب کچھ لاؤ گے۔
مطلب: زرگر اپنی آئندہ دولت و عزّت کے خیالی پلاؤ پکا رہا تھا اور بدقسمتی اس سے استہزاء کرتی تھی۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ ع تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔
13
چوں رسید از راہ آں مردِ غریب
اندر آوردش بہ پیشِ شہ طبیب
ترجمہ: وہ بے وطن آدمی راہ طے کر کے (وہاں) پہنچا۔ طبیب نے اس کو بادشاہ کے حضور میں پیش کیا۔
14
پیشِ شاہنشاہ بردش خوش بناز
تا بسوزد بر سرِ شمعِ طراز
ترکیب: "برد" کا فاعل عائد بطرفِ طبیب ہے اور "شین" ضمیرِ مفعول بہ۔ "خوش" حال ہے برد کے فاعل کا۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر معلول ہوا۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر علّت۔
صنائع: شمع طراز استعارہ ہے کنیزک کے لیے یعنی شہر طراز کی معشوقہ سوزد اور شمع میں مناسبت ہے۔
ترجمہ: (طبیب) اس (زرگر) کو خوش ناز کے ساتھ بادشاہ کے پاس لے گیا تاکہ اس کو شمعِ طراز یعنی کنیزک پر (چراغ کی طرح) جلائے۔
مطلب: جس طرح بعض توہّم پرست لوگ بیمار کے سر پر چراغ چلا کر اوتار اتارتے ہیں تاکہ اس کو صحت ہو جائے اسی طرح یہاں یہ غرض تھی کہ اس زرگر کو بیمار کے چراغ سرِ بالیں کی طرح جلا کر اس کنیز کی شفا تدبیر کی جائے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر آنکہ روئے چو ماہت بچشمِ بد بیند
بر آتشِ تو بجز چشمِ او سپند مباد
15
شاہ دید او را و بس تعظیم کرد
مخزنِ زر را بدو تسلیم کرد
ترجمہ: بادشاہ نے اس کو دیکھ کر بڑی تعظیم کی (اور) سونے کا ذخیرہ اس کے حوالہ کیا۔
16
پس بفرمودش کہ بر سازد زِ زر
از سِوار و طوق و خلخال و کمر
ترجمہ: پھر اس کو حکم دیا کہ سونے کے کنگن اور طوق اور جھانج اور کمربند بنائے۔
17
ہم ز انواعِ اَوَانی بے عدد
کانچناں در بزمِ شاہنشہ سزد
ترکیب: شعر سابق میں "کمر" وغیرہ معطوف علیہ اس شعر میں "ہم" حرفِ عطف۔ "انواعِ اَوَانی" بترکیب اضافی موصوف اور "بے عدد" صفت مل کر مبیّن۔ کاف بیانیہ۔ "آنچناں" اسم اشارہ تشبیہی فاعل "سزد" کا۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر بیان ہوا۔ مبیّن و بیان مل کر دوسری صفت ہوئی۔ موصوف اپنی دونوں صفتوں سمیت معطوف ہوا۔
ترجمہ: کئی طرح کے بے شمار برتن بھی بنائے، جیسے شاہی مجلس (کی شان) کے لائق ہوتے ہیں۔
مسئلہ: سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا جائز نہیں۔ بادشاہ نے جو ایسا حکم دیا تو اممِ سابقہ کے لیے ایسے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت نہ ہو گی۔ یا وہ محض زیبایش و آرایش کے لیے بنوانے مقصود ہوں، جیسے کو ”سزد“ کے کلمہ میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ اور ان کا اس قسم کا استعمال جائز ہے۔ "لَہٗ اَنْ یُّزَیِّنَ بَیْتَہٗ بِالدِّیْبَاجِ وَ یَتَجَمَّلَ بِاَوَانِیْ ذَھَبٍ وَّ فِضَّۃٍ بِلَا تَفَاخُُرٍ"۔ (درِ مختار) یعنی "اس کے لیے جائز ہے کہ اپنے گھر کو دیباج سے سجائے اور سونے چاندی کے برتنوں سے آراستہ کرے بشرطیکہ تفاخر منظور نہ ہو"۔
18
زر گرفت آں مرد و شد مشغولِ کار
بیخبر از حالتِ ایں کار زار
ترکیب: "شد" فعلِ ناقص، اس میں ضمیر عائد بطرف "مرد" ذو الحال، اور دوسرا مصرعہ حال، مل کر اسم ہوا۔ "مشغولِ کار" خبر۔
ترجمہ: اس مردِ زرگر نے سونا لے لیا اور کام میں لگ گیا (بحالیکہ) وہ اس خراب کام کی اندرونی حالت سے بے خبر تھا۔
19
پس حکیمش گفت کاے سُلطانِ مِہ
آں کِنیزک را بایں خواجہ بدہ
ترکیب: "حکیمش" میں شین ضمیرِ منصوب متصل بادشاہ کی طرف راجع ہے۔ "گفت" کے بعد "ایں" مبیّن مقدّر ہے، باقی کلمات میں شعر آئندہ ندا و جوابِ ندا مل کر بیان۔
ترجمہ: پھر اس بادشاہ کو حکیم نے کہا کہ اے عالیجاہ سلطان! یہ کنیزک ان صاحب کو دے دیجئے۔
مطلب: یعنی اس سے نکاح کر دیجئے شرعًا یہ درست ہے کہ مالک اپنی کنیز کا کسی دوسرے شخص سے نکاح کر دے پھر کنیزک بدستور اپنے مالک کی ملک میں رہتی ہے وہ مالک کی خدمت کرتی رہتی ہے اور اس ضمن میں اپنے زوج کے ساتھ زنا شوئی کے تعلقات بھی رکھتی ہے۔ طبیب نے یہ تجویز اس لیے کی کہ عشق کا علاج مطلوب تھا اور عشق کا علاج وصل ہے۔ چنانچہ آئندہ شعر میں یہی وجہ بیان فرماتے ہیں۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اپنے محبوب کو غیر کی آغوش میں جانے دینا عاشق کی قوتِ برداشت سے باہر ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
من بیدل کہ با خود حیف دارم ہمدمش دیدن
کجا تاب آورم کش ہر زماں با ایں آں بینم
مگر یہاں اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔ اس لیے طبیب نے بھی پہلے یہ بات فورًا بادشاہ سے نہیں کی بلکہ بتدریج اب آ کر کہی ہے اور ساتھ ہی اس کو یقین دلایا ہے کہ آپ کی محبوبہ اگر شفایاب ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس کو ایک مرتبہ زرگر کے وصل کی آرزو پوری کر لینے دیجئے۔ چنانچہ کہتا ہے:
20
تا کنیزک در وصالش خوش شود
آبِ وصلش دفعِ ایں آتش شود
ترکیب: پہلے شعر میں "آں کنیزک را الخ" جملہ فعلیہ ہو کر معلول تھا۔ یہ شعر اس کی علّت ہے۔
صنائع: "وصل" کو "آب" سے اور "عشق" کو "آتش" سے تشبیہ ہے۔ "دفع" بجائے "دافع" بطور مبالغہ مصدر بجائے صفت استعمال ہوا ہے۔
ترجمہ: تاکہ کنیزک اس سے مل کر خوش ہو جائے (اور) اس (زرگر) کا آبِ وصل اس آتش (عشق) کا دافع ہو۔
مطلب: طولِ ہجر عاشق کے عشق کی زیادتی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے اہل اللہ طولِ ہجر، طولِ ناکامی اور دوامِ آہ و بکا میں بھی مزے لیتے ہیں۔ وَ لِلہِ دَرُّ مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ؎
حیف وہ سائل کہ کچھ دے کر جسے رخصت کیا
وائے وہ نالہ صلہ جس کو ملا تاثیر کا
اس لیے حکیم نے سمجھ لیا کہ لونڈی بقول "اَلْاِنْسَانُ حَرِیْصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ" اس وقت تک زرگر کی عاشق ہے جب تک اس سے مہجور ہے۔ اگر اس کے وصال سے خوش ہوئی تو اس کے عشق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ ایک طبی مسئلہ ہے اور تمام اطباء مرضِ عشق کے علاج میں اس پر متفق ہیں کہ :"اگر وصالِ معشوق میسر شود بہتر ازاں تدبیرے نیست" (اکسیر اعظم جلد اول)
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
عاشقِ بیمار را وصلِ حبیب آمد علاج
زاستانت چوں روم چوں طبیبی ہم حبیب
مگر ایسا عشق سچا عشق نہیں بلکہ ہوس ہوتی ہے جو ایک خود غرضانہ جذبہ ہے اور اس کا منتہٰی یہ ہے کہ شربتِ وصال پیا اور سیر ہو گئے۔ اور سچا عشق جو سراپائے سوز و گداز ہے وہ کسی حد تک ختم ہونے والا نہیں۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
مگس قند و پروانہ آتش گزید
ہوس دیگر و عاشقی دیگر است
21
شَہ بدو بخشید آں مہ رُوئے را
جُفت کرد آں ہر دو صحبت جُوئے را
ترجمہ: (آخر) بادشاہ نے وہ ماہرو (کنیزک) اس (زرگر) کو بخش دی (اور) ان دونوں طالبانِ وصال کا نکاح کر دیا۔
مطلب: بادشاہ نے طوعًا و کرہًا غیرتِ عشق کے کلیجے پر صبر و ضبط کا پتھر رکھ کر اپنی محبوبہ کو زرگر کے نکاح میں دے دیا۔ مگر اس سخت امتحان کی مشکلات کو بادشاہ کا دل ہی جانتا ہوگا۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
حمائل کرد شیریں دستِ خود در گردنِ خسرؔو
مگر میلِ حنا بندی ز خونِ کوہکن دارد
غالبًا بادشاہ نے اپنے دل کو یوں تسلی دے لی ہوگی کہ اپنے گلستانِ عیش سے اس کانٹے کو ہٹانے کی صرف یہی تدبیر ہے کہ ایک مرتبہ اس کی خلش کے لیے اپنے جگر کو پیش کر دیا جائے۔ جس طرح ایک جلد باز شوہر کسی تکرار میں اپنی جان سے پیاری بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے اور پھر اس کی دائمی جدائی کے تصوّر سے بیتاب ہوتا ہے تو اس کو اپنی تجدیدِ عیش کے لیے حلالہ کے سوا اور کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ چنانچہ وہ ایک رات کے لیے اپنی محبوبہ کو کسی غیر مرد کی شمعِ خلوت بننے دینا گوارہ کر لیتا ہے اس توقع پر کہ اس کے بعد وہ صرف میری ہو گی اور میں اس کا۔
22
مدّتِ ششماہ میراندند کام
تا بصِحت آمد آں دختر تمام
ترکیب: "مدت" مضاف اور "ششماہ" عدد و معدود مل کر مضاف الیہ اور یہ دونوں مل کر مفعول فیہ "راندند" کا۔ "تا" حرفِ جار برائے غایت، جس کے بعد "آں" مبیّن اور "کہ" بیانیہ مقدّر ہے۔
ترجمہ: چھ ماہ تک وہ مزے لوٹتے رہے۔ حتی کہ کنیزک بخوبی صحت یاب ہو گئی (یعنی عشق کا درد و سوز نہ رہا)
مطلب: جھوٹے اور نا پائیدار عشق کا انجام یہی ہوتا ہے کہ حصولِ وصل سے اس کی تاثیرات زائل ہو جاتی ہیں۔ بخلاف سچے عشق کے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
عاشق بفنا سیر ز معشوق نہ گردد
ماہی طلبِ آبِ کند گرچہ غذا شد
23
بعد ازاں از بہرِ او شربت بساخت
تا بخورد و پیشِ دختر میگداخت
ترکیب: "او" ضمیر مجرور کا مرجع "زرگر" ہے۔ "تا" غایت کے لیے۔
صنائع: "گداخت" کنایہ ہے مرض سے۔
ترجمہ: اس کے بعد حکیم نے اس (زرگر) کے لیے (ایک قسم کا زہریلا) شربت بنایا۔ یہاں تک کہ وہ اسے پی پی کر لڑکی کے سامنے (دن بدن) گھلنے لگا۔
مطلب: حکیم کو معلوم تھا کہ اس عشق کی بنا محض صورت پرستی ہے۔ اس لیے اس کے ازالہ کی یہ تدبیر نکالی کہ معشوق کی صورت بگاڑ دی جائے اور کوئی ایسا شربت بنا کر کسی حیلے سے اس کو پلایا جس سے اس کا جسم گھلنا شروع ہو گیا۔
24
چُوں ز رنجوری جمالِ او نماند
جانِ دختر در وَبالِ اُو نماند
ترجمہ: جب مرض کی وجہ سے اس زرگر کا جمال نہ رہا تو لڑکی کی جان اس کے وبالِ (عشق) میں (گرفتار) نہ رہی۔
الخلاف: ہمارے نسخے میں یہ شعر درج نہیں ہے۔
25
چُونکہ زِشت و ناخوش و رُخ زرد شد
اندک اندک در دلِ او سرد شُد
ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ اسمیہ ہو کر شرط جس میں ضمیر عائد بزرگر اسم ہے۔ دوسرا مصرعہ جزا اس میں بھی ضمیر عائد اسم ہے۔ "اندک اندک" حال ہے "سرد" کا۔
ترجمہ: چونکہ وہ (اس کے اثر سے) بدصورت اور ناپسند اور زرد چہرہ ہو گیا (اس لیے) آہستہ آہستہ اس (کنیزک) کے دل میں (اس کا شوق) ٹھنڈا ہوتا گیا۔
مطلب: چونکہ وہ عشق سچا نہ تھا بلکہ صورت پرستی تھی۔ اس لیے صورت کے بگڑنے سے وہ عشق زائل ہوتا گیا۔ سچا عشق صورت کے تغیّر سے متغیّر نہیں ہوتا۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
شوق کہ باقی بود یار چہ خوب و چہ زشت
دوست چو ساقی بود بادہ چہ صاف و چہ دُرد
26
عشقہائے کزپئے رنگے بود
عِشق نبود عاقِبت ننگے بود
ترکیب: "عشقہائے کہ" موصول۔ "از پئے الخ" صلہ کے ساتھ مل کر مبتدا ہوا۔ دوسرے مصرعہ میں دونوں جملے مل کر خبر۔
ترجمہ: جو عشق بازیاں (صرف) رنگ و روپ کی خاطر ہوتی ہیں۔ وہ سچا عشق نہیں (بلکہ) آخر کار عار (کلنک کا ٹیکا) ثابت ہوتی ہیں۔
مطلب: مولانا رحمۃ اللہ علیہ بیانِ واقعہ کے ضمن میں بطورِ نصیحت فرماتے ہیں کہ جو عشق صرف ظاہری شکل و صورت کے دیدار سے تعلق رکھتا ہے اور مشاہدۂ معنی کا اس میں دخل نہ ہو۔ وہ عشق پائیدار نہیں بلکہ رنگ و صورت کے تغیر پانے پر زائل ہو جانے والا ہے جس کا نتیجہ حسرت و ندامت اور ننگ و عار ہے۔ علاوہ ازیں صرف رنگ و بو پر مرنا بچوں کی طرح جو سرخ و سبز رنگوں پر لٹو ہو جاتے ہیں، احساساتِ روحانیہ کے تنزّل کی دلیل ہے اور اس قسم کا تنزّل بھی انسان کے لیے موجبِ شرم ہے۔ جس کو ارتقائے روحانی کی بدولت فرشتوں کے دوش بدوش رہنے کا حق حاصل ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کے بود جائے ملک در خانۂ صورت پرست
رو چو صورت محو کر دی با ملک ہمخانہ باش
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بوستان میں فرماتے ہیں کہ پوست پر دلدادہ ہونے والا انسان کیا، نرا حیوان ہے۔ ؎
نداند صاحبدلاں دل بپوست
وگر ابلہے داد بے مغز و گوشت
27
کاشکے آں ننگ بودے یکسری
تا نرفتے بر وَے آں بد داوری
ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ اسمیہ تمنائیہ معلول اور دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ علت مل کر جملہ معلّلہ ہوا۔ ”تا نرفتے بردے“ کی ضمیر کا مرجع قائم کرنے میں شارحین نے بڑا اختلاف کیا ہے۔ کسی نے اس کا مرجع زرگر بتایا ہے۔، کسی نے کنیزک، اور کسی نے عشق۔ مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے سابقہ دونوں قولوں کی تردید کر کے آخری قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ مگر اس تقدیر پر جو مطلب نکالا ہے وہ تکلف سے خالی نہیں۔ راقم نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ ان شاء اللہ چنداں مشکل و مستبعد نہ ہو گا۔
ترجمہ: کاش وہ عار (یعنی صورت پرستی) ہی پائیدار ہوتی تاکہ اس پر (یعنی عشق پر)، یہ ظلم نہ ہوتا (کہ اس قسم کی عشق بازی سے اس کا نام بدنام ہو رہا ہے۔)
مطلب: اس شعر میں اشارۃً اس امر کی تمنا کی ہے کہ وہ عشق جو لونڈی کو تھا مجازی نہ ہوتا بلکہ حقیقی ہوتا۔ وجہ اشارۃً ”یکسری“ کے کلمہ میں ہے۔ یعنی وہ عشق جو ہر چند کہ رنگ و بو پر موقوف ہونے کے باعث ننگ و عار کا موجب تھا مگر کاش دائمی و پائیدار ہی ہوتا تاکہ عشق کے نام پر مذمومیت کا دھبہ نہ لگتا اور ظاہر ہے کہ پائیداریِ عشق کے لیے پائیداریِ معشوق ضروری ہے اور ایسا معشوق صورت (مظہر) نہیں ہو سکتی جو فانی ہے بلکہ خالقِ صورت (ظاہر) ہو سکتا ہے۔ اگر ”بروے“ میں ضمیر کا مرجع زرگر کو قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ کاش یہ عشق باوجود ننگِ انسانیت ہونے کے زرگر کی موت پر زائل ہو جانے والا نہ سمجھا جاتا۔ تاکہ زرگر کو مارنے کی یہ تدبیر نہ کی جاتی بلکہ وہ دائمی ہوتا۔ تو پھر کنیزک کی سلامتی کے لیے زرگر کی سلامتی بھی مطلوب ہوتی۔
28
خوں دوید از چشم ہمچوں جُوئے او
دشمنِ جاں وَے آمد رُوے او
ترکیب: چشم موصوف۔ ہمچو کلمہ تشبیہ مضاف اور جوے مضاف الیہ مل کر مضاف ہوا اور مضاف الیہ اور سب مل کر صفت۔
ترجمہ: اس زرگر کی نہر کی مثل (بہنے والی) آنکھ سے خون بہنے لگا۔ اس کا (خوب صورت) چہرہ اس کے حق میں دشمنِ جان ثابت ہوا۔
مطلب: زرگر کی خوبصورتی اس کی ہلاکت کا باعث ہوئی۔ بدصورت ہوتا تو کیوں کنیزک عاشق ہوتی؟ اور کیوں بادشاہ اس کو ہلاک کراتا۔
29
دشمنِ طاؤس آمد پرِّ اُو
اے بسا شہ را بکُشتہ فرِّ اُو
ترجمہ: مور کا دشمن خود اس کا پر ہوتا ہے۔ اے (مخاطب!) بسا اوقات بادشاہ کو خود اس کی شان و شوکت نے مار ڈالا۔
مطلب: یہ دو نظیریں ہیں۔ شعر بالا کے مضمون کی۔ یعنی مور کے پروں کی خوبصورتی اس کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے اور بادشاہ کی شان و شوکت ہر چند کہ اس کے لیے ایک قابلِ فخر چیز ہے مگر جب کوئی دوسرا بادشاہ بوجہ حسد یا اس کی بڑھتی ہوئی سلطنت کے خوف سے اس کی ہلاکت کی تدبیر کرتا ہے تو وہی شان و شوکت اس کی بربادی کا باعث ہو جاتی ہے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
میکند ویراں تموّل خانۂ معمور را
انگبیں سیلاب باشد خانۂ زنبور را
30
چونکہ زرگر از مرض بد حال شد
در گدازش شخصِ او چُوں نال شُد
ترکیب: یہ شعر بتقدیرِ عاطف جملہ معطوفہ ہو کر شرط ہے آئندہ اشعار کی۔
ترجمہ: جب زرگر مرض سے بری حالت کو پہنچ گیا (اور اس کا جسم گھل جانے کے باعث لاغری) میں ریشہ قلم کا سا ہو گیا تھا۔
31
گفت من آں آہُوم کز نافِ من
ریخت آں صَیّاد خونِ صافِ من
ترکیب: "گفت" فعل جس میں عائد بزرگر اس کا فاعل۔ باقی کلمات مع آئندہ چار شعروں کے مقولہ ہوا۔ فعل اپنے فاعل اور مقولہ کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر جزا ہوئی جس کی شرط شعرِ سابق تھی۔
ترجمہ: تو اس نے کہا میں وہ ہرن ہوں جس کی ناف سے اس کا شکاری (قاتل) نے صاف خون گرا دیا۔
مطلب: زرگر اپنی مظلومی پر رو رہا ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
چہ کند آہوے مسکین کہ بتگ جاں ندہد
شہسواراں کہ بدنبالۂ آہو باشند
32
اے من آں رُوباہِ صحرا کز کمیں
سر بریدندم برائے پوستِیں
ترکیب: "اے" حرفِ ندا۔ منادیٰ یعنی "مخاطب" مقدّر۔ "آں روباہِ صحرا" مبیّن۔ اور باقی کلمات مع مصرعہ ثانیہ بیان۔ مل کر خبر ہوئی۔ "من" اسم۔ "ہستم" کلمہ ربط محذوف۔ یہ جملہ اسمیہ جوابِ ندا ہوا۔
ترجمہ: اے (مخاطب!) میں وہ جنگلی لومڑی ہوں کہ پوستین کی غرض سے (شکاریوں) نے کمین گاہ سے (اٹھ کر) میرا سر کاٹ ڈالا۔ (حضرت جانِ جاناں مظہر رحمۃ اللہ علیہ ؎)
بلوحِ تربتِ من یافتند از غیب تحریرے
کہ ایں مقتول را جز بیگناہی نیست تقصیرے
33
اے من آں پیلے کہ زخمِ پیلباں
ریخت خُونم از برائے استخواں
ترجمہ: اے (مخاطب!) میں وہ ہاتھی ہوں کہ فیلبان کے زخم نے (میری) ہڈی کی خاطر مجھ کو ہلاک کیا۔ (عمر خیام ؎)
روزے کہ شود اِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ
داندم کہ بود اِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ
من دامنِ تو بگیرم اندر عرصات
گویم صنما بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ
34
آنکہ کُشْتستم پئے ما دُونِ من
مے نداند کہ نخسپد خونِ من
ترجمہ: جس شخص نے مجھ سے کم رتبہ (یعنی بادشاہ) کی خاطر مجھ کو مارا ہے کیا وہ نہیں جانتا کہ میرا خون سوئے گا نہیں (بلکہ بدلہ لے گا)۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
مے تواں بردن بآسانی ز برگِ لالہ داغ
خونِ ما را شستن از دامانِ قاتل مشکل ست
مطلب: زرگر گمراہ لاف و گزاف کے طور پر اپنے آپ کو کبھی آہو اور روباہ سے اور کبھی پیل سے تشبیہ دے کر اپنے قاتل کو کوس رہا ہے۔ حتّٰی کہ بادشاہ کو بھی اپنے آپ سے مادون یعنی کم رتبہ خیال کرتا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ میں کنیزک کا معشوق ہوں اور بادشاہ اس کا عاشق ہے "وَ الْمَطْلُوْبُ اَفْضَلُ مِنَ الطَّالِبِ"۔ یا یوں ہی اغترارِ نفس سے بک رہا ہے۔ غرض آخر دم تک تقدیرِ الٰہی پر صبر و شکر اور دواعِ زندگی کے وقت عجز و توبہ کے کلمات اس کی زبان پر نہیں آتے کہ اس ولی کے نزدیک مقبول ہو جاتا۔ بلکہ متکبّرانہ کلمات بول رہا ہے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
ازیں ہوا کہ ترا در سر است میترسم
کہ چوں حباب رسد عاقبت سرت برباد
35
بر من ست امروز و فردا بروے است
خونِ چوں من کس چنیں ضائع کے است
ترکیب: پہلا مصرعہ باظہار مقدّرات یوں ہے "اگر امروز مصیبت بر من آمدہ است فردا بر او آمدنی ست"۔ یہ جملہ شرطیہ ہوا دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ استفہامِ انکاری۔ جس میں "چوں من" صفت مقدّم۔ "کس" موصوف مؤخّر مل کر مضاف الیہ ہے "خون" کا۔ یہ مبتدا ہوا۔ "چنیں" اسمِ اشارہ تشبیہی اور "ضائع" مشارٌ الیہ مل کر خبر ہوئی۔ یہاں تک مقولۂ زرگر ختم ہوا۔
ترجمہ: (اگر) آج مجھ پر مصیبت آئی ہے تو کل کو اس پر (آنے والی ہے) مجھ جیسے (عالی پایہ) انسان کا خون یونہی کب ضائع ہو سکتا ہے۔
مطلب: زرگر پھر وہی دمِ واپسیں میں شیخی بگھار رہا ہے بلکہ طبیب پر اپنی مظلومی کی شامت پڑنے کا متوقع ہے۔ لیکن چونکہ اس کا قتل بالہامِ ربانی اور بمصلحتِ غیبی تھا۔ اس لیے قاتل پر اس کا کوئی وبال نہیں پڑ سکتا تھا۔ یہ محض زرگر کا اظہارِ تکبّر ہے جو مرتے دم تک نہ گیا۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
صنائع: "باز" بمعنٰی "واپس" اور "باز" بمعنٰی "تکرار و معاددت" میں تجنیسِ تام۔ نیز مصرعہ میں صنعتِ "رَدُّ الْعَجْزِ عَلٰی الْاِبْتِدَاءِ" ہے۔
ترجمہ: دیوار اگرچہ دور تک لمبا سایہ ڈالتی ہے مگر وہی سایہ پھر اس کی طرف واپس جاتا ہے۔
مطلب: یہ شعر مقولۂ مولانا ہے۔ زرگر نے جو کہا تھا کہ "بر من ست امروز و فردا بر وے ست"۔ ہر چند کہ اس کا یہ قول خصوصِ واقعہ پر چسپاں نہیں کیونکہ طبیبِ غیبی نے کوئی جرم نہیں کیا تھا کہ اس کو سزائے عاقبت ملنے کا خوف ہو سکتا مگر درجۂ عموم میں یہ بات حق ہے کہ آج کے اعمال کل کو نیک یا بد پاداش کا باعث ہوں گے۔ کما قیل ؎
بیابانِ مکافات آنچناں آب و ہوا دارد
کہ گر امروز کاری دانہ فردا بروں آید
اس کی تائید میں مولانا تمثیلًا فرماتے ہیں کہ دیکھو طلوعِ آفتاب کے وقت ہر چیز اپنا سایہ کس قدر دور ڈالتی ہے۔ مگر جوں جوں سورج بلند ہوتا جاتا ہے وہ سایہ قریب آتا آتا زوال کے وقت بالکل اس چیز کے ساتھ آن ملتا ہے۔ اسی طرح اعمال ہر چند کہ متعدی نہیں ہوتے ہیں مگر آخر ان کی جزا و سزا صاحبِ عمل کو مل کر رہتی ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: ﴿لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ﴾(البقرہ: 286)
اگر زمانے کے ہاتھوں سے پہنچے کچھ ایذا
نہ ہونا چاہیے مغموم و بیقرار تجھے
بغور دیکھ تو عملوں کی اپنے فردِ حساب
ضرور کوئی ملا ہے ترا ادھار تجھے
37
ایں جہاں کوہ ست و فعلِ ما نِدا
سوئے ما آید نِداہا را صدا
صنائع: یہ شعر مذہبِ کلامی کے رنگ میں ہے۔ "جہان و کوہ" اور "فعل و ندا" میں تشبیہ ہے۔ "ندا و صدا" میں تجنیسِ لاحق۔
ترجمہ: یہ جہان (گویا) پہاڑ ہے اور ہمارا ہر کام ندا ہے (جب ہم آواز دیتے ہیں تو) ہماری نداؤں کی گونج ہماری طرف آتی ہے۔ (یعنی ہمارے اعمال کی سزا اور جزا ہم کو ملتی ہے۔)
مطلب: مولانا پاداشِ اعمال کی دوسری نظیر بیان فرماتے ہیں۔ بقولِ کسے ؎
بد نہ بولے زیرِ گردوں گو کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
38
اِیں بگفت و رفت در دم زیرِ خاک
آں کنیزک شُد ز درد و رنج پاک
ترکیب: "ایں" کا مشارٌ الیہ "سخن" مقدر ہے۔ دوسرا مصرعہ جملہ اسمیہ ہو کر معلول ہے۔ آئندہ شعر اس کی علت۔
ترجمہ: (الغرض) زرگر نے اتنا کہا اور اسی لمحہ میں مر گیا اور خاک کے نیچے چلا گیا۔ وہ کنیزک (بھی اس کے عشق کے) دکھ سے سبکدوش ہو گئی۔
مطلب: "ایں بگفت" سے اوپر کے دو شعر جو مولانا کا مقولہ ہیں چھوڑ کر باقی اشعار مقولۂ زرگر ہیں۔ لیکن اگر ان دونوں شعروں کو بھی مقولۂ زرگر بنایا جائے با ایں تاویل کہ اپنی بے گناہی اور طبیب کے ظلم کے زعم میں جزائے اعمال کا یہ مسلّمہ و مشہور اصول اس کے منہ سے نکلا تو بھی چنداں مستبعد نہیں۔ پھر "ایں بگفت" کا اشارہ مقولہ سے متصل ہو جائے گا اور اسی طرح سلسلۂ کلام صاف مربوط ہو جاتا ہے۔ مگر تمام شارحین ان دونوں شعروں کے مقولۂ مولانا ہونے پر متفق ہیں۔
39
زانکہ عشقِ مُردگاں پائندہ نیست
زانکہ مُردہ سوے ما آئندہ نیست
ترکیب: "زانکہ" برائے علّت، باقی کلماتِ مصرعہ جملہ اسمیہ ہو کر معلول۔ دوسرے مصرعہ میں "زانکہ" برائے علّت۔ باقی کلمات جملہ اسمیہ ہو کر علّت یہ معلول و علت مل کر جملہ معلّلہ ہو کر علّت ہوئی۔ شعرِ سابق کے مصرعہ ثانیہ کی۔
ترجمہ: کیونکہ مرنے والے کا عشق پائیدار نہیں (اور اس کی وجہ) یہ کہ مردہ ہمارے پاس آنے والا نہیں۔
مطلب: اوپر کہا تھا کہ زرگر کے مرنے پر کنیزک مرضِ عشق سے بالکل صحت یاب ہو گئی۔ اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ عشق تو ایک عالی پایہ چیز ہے۔ کنیزک کا عشق ایسا نا پائیدار اور عارضی کیوں ثابت ہوا کہ محبوب کے مرنے پر زائل ہو گیا۔ مولانا اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس کا محبوب فانی تھا اور فانی چیز کا عشق بھی عارضی و فانی ہوتا ہے۔ محبوبِ باقی ہی کا عشق ہے جو پائیدار ہے جس کو عشقِ حقیقی کہتے ہیں۔ چنانچہ اگلے شعر میں اس کا ذکر فرمائیں گے۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ فانی چیز کا عشق نا پائیدار کیوں ہے؟ اس کا جواب دوسرے مصرعہ میں یہ دیا ہے کہ فانی چیز فنا ہو کر واپس نہیں آ سکتی۔ جب ایک چیز کا وصل اس کے فنا ہونے کے بعد عقلًا و عادۃً محال ہے تو اس کا عشق بھی فضول ہے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
نیست حسنِ بے بقا شائستۂ دلبستگی
با چراغِ برق یک پروانہ ہمراہی نہ کرد
40
عشق زندہ در رَواں و در بصَرَ
ہر دمے باشد ز غنچہ تازہ تر
ترجمہ: زندہ (معشوق یعنی حی و قیوم) کا عشق (ہی) ہر دم جان و بینائی میں غنچہ سے بڑھ کر تازہ رہتا ہے۔
نکتہ: فانی چیز کا عشق بھی فانی ہے لیکن معشوقِ حقیقی جو حیِ دائم ہے۔ اس کا عشق ابدی ہے۔ اس نکتہ کو "غنچہ" کے کلمہ میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نہایت لطیف انداز سے ادا کیا ہے۔ یعنی غنچہ (گلِ نو شگفتہ) کی بہارِ حسن جو بلبلِ شیدا کی شیفتگی کی باعث ہے، چند روزہ ہے۔ دو دن میں گلِ رعنا افسردہ ہو کر رہ جاتا ہے اور بلبل کا عشق بھی اس سے منقطع ہو کر کسی اور گل سے متعلق ہو جاتا ہے۔ لیکن شاہدِ حقیقی "لَا یَزَالُ وَ لَا یَمُوْتُ" ہے اور اس کا عشق بھی غنچۂ فانی اور اس کے عشق کے مقابلہ میں تازگیِ دوام رکھتا ہے۔ وَ لَنِعْمَ مَا قَالَ الْحَافِظُ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ؎
جو در رویت بخند و گل مشو در دامش اے بلبل
کہ بر گل اعتمادے نیست گو حسنِ جواں دارد
41
عِشق آں زِندہ گزیں کو باقی ست
وز شرابِ جانفزایت ساقی ست
ترجمہ: (اے طالب!) اس زندہ (معشوق حقیقی) کا عشق اختیار کر۔ جو سدا سلامت ہے اور جو (محبت کی) جانفزا شراب تجھ کو پلانے والا ہے۔
نکتہ: عشقِ مجازی میں دل و دماغ کی ابتری اور کاہشِ جان مضمر ہے مگر عشقِ حقیقی جانفزا اور روح پرور ہے کہ اس میں بے انتہا روحانی ترقیات ہیں۔ بقول عارفے ؎
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر ست
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہرکہ یابد یک نظر زد زندہ ماند جاوداں
ہرکہ از وے زندہ شد جانش برست از دار و گیر
42
عشقِ آں بگزیں کہ جُملہ انبیاء
یافتند از عشقِ او کار و کِیا
ترجمہ: اس (ذاتِ پاک) کا عشق اختیار کرو جس کے عشق سے تمام انبیاء علیہم السّلام معزّز و ممتاز ہوئے۔
مطلب: خداوند تعالیٰ کا عشق انسان کو عالی رتبہ بنا دیتا ہے۔ بخلاف اس کے مخلوق کا عشق باعثِ ذلت و خواری ہے۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
داغِ غلامیت کرد رتبۂ خسرو بلند
میرِ ولایت شود بندہ کہ سلطاں خرید
43
تو مگو مارا بداں شہ بار نیست
بر کریماں کارہا دُشوار نیست
ترجمہ: تو (مایوسی سے) یہ نہ کہہ کہ اس بادشاہ تک ہماری رسائی نہیں (کیونکہ وہ کریم ہے اور) کریموں کے نزدیک (ایسے) کام دشوار نہیں ہوتے۔
مطلب: بے شک بارگاہِ خدا کی شان بلند ہے اور انسانِ حقیر کی وہاں باریابی ایک مشکل امر نظر آتا ہے مگر تم مایوس نہ ہو وہ کریم کارساز خود اپنے بندوں کو رسائی عطا فرماتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ ذِرَاعًا"(مشکوٰۃ) یعنی "جو میری طرف بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اس کی طرف گز بھر قریب ہو جاتا ہوں"۔ غرض اس کے عشق و محبت کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے جو چاہے داخل ہو اور اس کا تقرّب حاصل کرے۔