دفتر 1 حکایت 8: اس طبیبِ الٰہی کا کنیزک کے مرض کو معلوم کر لینا اور بادشاہ پر ظاہر کرنا
دفتر اول: حکایت: 8
دریافتنِ آں طبیبِ الٰہی رنجِ کنیزک را و بہ شاہ وا نمودن
اس طبیبِ الٰہی کا کنیزک کے مرض کو معلوم کر لینا اور بادشاہ پر ظاہر کرنا
1
آں حکیمِ مہرباں چُوں راز یافت
صورتِ رنجِ کنیزک بازیافت
ترجمہ: اس مہربان حکیم نے جب (یہ) بھید معلوم کیا تو کنیزک کے دکھ کا سراغ لگایا۔
2
بعد ازاں برخاست عزمِ شاہ کرد
شاہ را زاں شَمّۂ آگاہ کرد
ترکیب: "شمہ" "آگاہ" کی صفت ہے۔ "ازاں" کا مشارٌ الیہ نہیں ورنہ معنٰی مستقیم نہ ہوں گے کیونکہ "آں شمہ" سے یہ ظاہر ہو گا کہ وہ حال تھوڑا سا سرسری اور معمولی تھا۔ حالانکہ وہ ایک شاندار داستانِ عشق تھی۔ اور مہتم بالشان معاملہ تھا جس کے تصفیہ کے لیے طبیبِ الٰہی مامور ہو کر خدا جانے کن کالے کوسوں سے آیا ہوگا۔ "آں" کا مشارٌ الیہ "حال" مقدّر ہے۔
ترجمہ: اس کے بعد اٹھا (اور) بادشاہ کی طرف جانے کا قصد کیا (اور پاس جا کر) بادشاہ کو اس کے (حال) سے کسی قدر آگاہ کیا۔
مطلب: "شمہ آگاہ کرد، بہ تفصیل آگاہ نہ کرد" اس کی وجہ یہ کہ اس کی تفصیل سے جب بادشاہ کو معلوم ہوتا کہ اس کی محبوبہ کسی غیر مرد پر عاشق ہے تو اس کے شیشۂ غیرت کو ٹھیس لگتی۔ طبیبِ الٰہی کی مروت نے اس کو یہ قلبی ایذا پہنچانا گوارا نہ کیا کیونکہ رشکِ عشق کسی غیر کو محبوب کے کسی معاملے میں شریک دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ حتّٰی کہ محبوب کی راہ میں قتل ہونے میں بھی۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
شرکتِ فیضِ شہادت برنتابد کوہِ عشق
کشتنِ پرویز داغِ کوہکن را تازہ کرد
بس اتنا کہہ دیا ہو گا کہ مریضہ ایک خاص دماغی عارضہ میں مبتلا ہے جس کا باعث ایک شخص زرگر قوم کا سمر قند کا باشندہ ہے اور یہ تفصیل نہ کی ہو گی کہ اس نے کیا سحر کیا ہے یا اس کی عاشق ہے یا اور کوئی وجہ ہے۔
3
شاہ گفت اکنوں بگو تدبیر چیست
در چنیں غم موجبِ تاخیر چیست
ترجمہ: بادشاہ نے پوچھا بتا اب کیا تدبیر (مناسب) ہے؟ ایسے غم میں دیر کرنے کی کون سی وجہ ہے؟
4
گفت تدبیر آں بود کاں مرد را
حاضر آریم از پئے ایں درد را
ترکیب: "گفت" فعل، اس میں "عائد الیٰ طبیب" اس کا فاعل۔ "بود" فعلِ ناقص۔ "تدبیر" اس کا اسم۔ "آں" مبیّن، کاف بیانیہ، "حاضر آریم" فعل۔ "آں مرد" مفعول بہ۔ "را" علامتِ مفعولیت۔ "از پئے الخ" متعلق جس میں "از" اور "را" زائد ہیں۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر بیان ہوا۔ مبیّن و بیان مل کر خبر۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر مقولہ "گفت" کا ہوا۔
ترجمہ: (حکیم) بولا تدبیر (مناسب) یہ ہوگی کہ اس درد کے (علاج کے) لیے ہم اس مرد (زرگر) کو حاضر کریں۔
مطلب: طبیب نے بادشاہ کی غیرتِ عشق کے خیال سے اس ذکر میں بھی اجمال ملحوظ رکھا۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ اس مرض کے علاج کے لیے اس شخص کا حاضر کرنا ضروری ہے۔ یہ تشریح نہیں کی کہ آیا وہ شخص خود اس کا علاج کرے گا یا علاج میں مدد دے گا۔ یا اس کا شربتِ وصل کنیزک کے قلبِ سوزاں کو تسکین بخشے گا یا بے چارہ خود ہی پِس چَھن کر اس کے مرض کی دوا بنے گا۔ ایسے باریک پہلوؤں کی رعایت رکھنا مثنوی کی کمالِ بلاغت ہے۔
5
قاصِد بفرست کاِخبارش کند
طالبِ ایں فضل و ایثارش کند
ترجمہ: ایک قاصد بھیجئے تاکہ اس کو خبر کرے اور اسے اس انعام و بخشش کا جویاں بنائے۔
مطلب: بادشاہ کی یاد آوری ایک زرگر کے لیے کس قدر غیر مترقبہ نعمت تھی ”ایں فضل“ سے اس کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی کوئی قاصد جا کر زرگر کو اس کی اس خوش نصیبی سے مطلع کرے کہ تجھے بادشاہ بلاتا ہے اور اس کو اس فضیلت کے حصول کی رغبت دلائے۔
6
مردِ زرگر را بخواں زاں شہرِ دُور
با زر و خلعت بدِہ اُو را غُرور
صنائع: "زرگر" اور "زر" میں مراعاۃ۔
ترجمہ: مردِ زرگر کو اس دور دراز شہر سے بلائیے (اور) نقدی اور خلعت کے ساتھ اس کو پھسلایئے۔
7
تا شود محبوبِ تو خوشدِل بدو
گرد آساں ایں ہمہ مُشکل بدو
ترجمہ: تاکہ آپ کی معشوقہ کا دل اس کی بدولت خوش ہو جائے اور یہ ساری مشکل اس کے ذریعہ سے آسان ہو جائے۔
مطلب: یہاں پھر معاملۂ عشق کی نزاکت کو ملحوظ رکھ کر اجمال سے کام لیا ہے۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ آپ کی معشوقہ اس زرگر کی بدولت گردابِ غم سے نجات پا کر خوش و خرم ہو جائے گی۔ باقی رہا یہ کہ کس طرح؟ طبیبِ الٰہی نے ابھی اس کی عقدہ کشائی مناسب نہیں سمجھی۔
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخہ میں نہیں ہے۔
8
چوں بہ بیند سیم و زر آں بے نوا
بہرِ زر گردد ز خان و ماں جُدا
صنائع: "زرگر" کے ذکر میں لفظِ "زر گردد" پُر لطف ہے۔
ترجمہ: جب وہ تنگدست سونا چاندی دیکھے گا (تو) روپے کی خاطر گھر بار سے جدا ہونا منظور کرے گا۔
وَ نِعْمَ مَا قِیْلَ ؎
ہلال اگر بلب نان خویشتن مے ساخت
بحرص شہر بشہر ایں قدر نمے گردید
9
زر خِرد را والہ و شیدا کند
خاصہ مُفلس را کہ خوش رُسوا کند
ترکیب: "خاصہ" بمعنی خُصُوْصًا مفعولِ مطلق خَصَّصتُ فعل با فاعل مقدّر کا۔ "مفلس" مبیّن۔ "کاف" بیانیہ۔ "کند" فعل۔ ضمیرِ مستتر راجع بہ "زر" اس کی فاعل۔ "او را" مفعول بہ اوّل محذوف۔ "خوش" تاکید۔ "رسوا" موکّد۔ تاکید و موکّد مل کر مفعول بہ ثانی۔ یہ جملہ فعلیہ بیان ہوا۔ مبیّن و بیان مل کر مفعول بہ ہوا۔
ترجمہ: روپیہ عقل کو دیوانہ و دلدادہ بنا لیتا ہے۔ خصوصًا مفلس (کی عقل) کو جسے خوب ہی خوار کرتا ہے۔
مطلب: مال و زر کی حرص عمومًا ہر شخص کو اپنی طرف کھینچتی ہے مگر مفلس کو تو بالکل اندھا کر دیتی ہے کہ طمع کی بھوک میں جب وہ مال پر گرتا ہے تو اسے حلال و حرام کی پروا نہیں رہتی نہ وہ انجام پر نظر کرتا ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چوں سگِ درندہ گوشت یافت نپرسد
کیں شتر صالح است یا خرد سال
10
زر اگرچہ عقل مے آرد ولیک
مردِ عاقِل باید او را نیک نیک
صنائع: "نیک نیک" میں صنعتِ تجنیس۔
ترجمہ: روپیہ اگرچہ عقل پیدا کرتا ہے مگر اس کے لیے نہایت نیک (اور) عقلمند آدمی چاہیے۔ کما قیل ؎