دفتر 1 حکایت 7: طبیب کا کنیزک کی بیماری کی تشخیص کے لیے بادشاہ سے خلوت کی درخواست کرنا

دفتر اول: حکایت: 7


خلوت طلبیدنِ طبیب از بادشاہ جہتِ دریافتِ مرضِ کنیزک
طبیب کا کنیزک کی بیماری کی تشخیص کے لیے بادشاہ سے خلوت کی درخواست کرنا
1
چوں حکیم از ایں سخن آگاہ شُد
وز دروں ہمداستانِ شاہ شُد
ترجمہ: جب طبیب اس بات سے آگاہ ہوا اور (اپنے) باطن سے بادشاہ کا واقفِ راز ہو گیا۔
2
گُفت اے شہ خلوتی کُن خانہ را
دُور کن ہم خویش و ہم بیگانہ را
ترکیب: "گفت" فعل۔ "اے شاہ" ندا و منادی قائم مقام جملہ فعلیہ۔ "خلوتی کن الخ" مع آئندہ شعر کے جوابِ ندا ہوا۔ ندا و جوابِ ندا مل کر مقولہ ہوا "گفت" کا۔
ترجمہ: تو کہنے لگا اے بادشاہ! مکان میں خلوت کرا دیجئے۔ خویش و بیگانہ سب کو نکال دیجئے۔
3
کس ندارد گوش در دہلیزہا
تا بپرسم از کنیزک چیزہا
ترکیب: شعرِ سابق میں "خلوتی کن الخ" اور "دور کن" اور اس شعر میں "کس ندارد الخ" تینوں جملے بتقدیرِ عاطف مل کر معلول ہوئے۔ "تا بپرسم الخ" جملہ فعلیہ علّت۔ معلول و علّت مل کر جواب اس ندا کا ہوا جو شعرِ سابق میں ہے۔
ترجمہ: دہلیزوں میں (بھی) کوئی کان نہ لگائے تاکہ میں کنیزک سے چند باتیں دریافت کر لوں۔
مطلب: تخلیہ کی ضرورت اس لیے تھی کہ یہ مرضِ عشق کی تشخیص کا معاملہ تھا اور اس مرض کا بیمار اپنی بیماری کو ہر شخص پر ظاہر ہونے دینا پسند نہیں کرتا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
رسید جاں بلب دم نمے توانم زد
کہ سرِّ عشق ہمے ترسم آشکار شود
4
خانہ خالی کرد شاہ و شُد بروں
تا بپُرسد از کنیزک اُو فُسوں
ترکیب: یہاں سے جملہ مستانفہ شروع ہوا ہے۔
ترجمہ: بادشاہ نے گھر خالی کرا دیا اور (خود بھی) باہر نکل آیا تاکہ وہ کنیزک سے بات پوچھے۔
5
خانہ خالی کرد و یک دیّار نہ
جُز طبیب و جُز ہماں بیمار نہ
ترکیب: "یک دیار" اسمِ عدد و معدود مل کر مبتدا ہوا۔ "موجود" خبرِ محذوف۔ دوسرا مصرعہ الگ جملہ اسمیہ ہے جس کا مبتدا "کسے" اور خبر "موجود" مقدّر ہے۔
ترجمہ: گھر خالی کر دیا اور کوئی گھر والا (وہاں) نہ (رہا) طبیب کے اور اس بیمار کے سوا اور کوئی بھی (موجود) نہ تھا۔
مطلب: غرض طبیب و مریضہ کے لیے تخلیہ ہو گیا۔ شاید کوئی شبہ کرے کہ غیر مرد کی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کیوں کر درست ہے۔ جواب یہ کہ اوّل تو یہ قصہ اممِ سابقہ کا ہے ممکن ہے اس عہد کی شریعت میں یہ درست ہو، دوسرے یہ پیر مرد بالکل ضعیف و نحیف تھے اور "غَیْرُ اُُولِی الْاِرْبَۃِ" بعض احکام میں شرعًا مثل محرم کے ہوتا ہے۔ تیسرے ضرورتِ معالجہ میں بعض محظوراتِ شرعیہ کی اجازت ہے مثلًا کشفِ عورت وغیرہ (کذا قال فی کلید مثنوی)
6
نرم نرمک گفت شہرِ تو کجاست
کہ علاجِ اہلِ ہر شہرے جداست
ترکیب: "نرم نرمک" صفت ہے مفعول مطلق محذوف "گفتن" کی۔ "بگو" محذوف فعل با فاعل۔ "ایں" مبیّن محذوف۔ کاف بیانیہ محذوف۔ اور "شہرِ تو کجاست" جملہ اسمیہ استفہامیہ بیان مل کر مقولہ ہوا "بگو" کا اور یہ جملہ فعلیہ ہو کر معلول ہوا۔ دوسرا مصرعہ جملہ اسمیہ اس کی علّت۔
ترجمہ: (طبیب نے) نرم نرم (لفظوں میں) کہا (بتا) تیرا شہر کہاں ہے؟ کیونکہ ہر شہر والے کا علاج (حسبِ اختلافِ مزاج) جدا ہوتا ہے۔
نکتہ: اس کا وطن اس لیے پوچھا کہ سببِ مرض کا سراغ نکالنا تھا اور "علاجِ اہلِ ہر شہرے جدا ست“ کہنے سے یہ مقصود تھا کہ وہ بدگمانی میں نہ پڑ جائے کہ میرا وطن کیوں پوچھا جاتا ہے اور بیانِ واقعات میں اخفاء نہ کرے اور اگرچہ طبیبِ الٰہی کے اس قول سے جو بات ظاہرًا مفہوم ہوتی ہے وہ اصل مقصود نہ تھی بلکہ مقصود یہ تھا کہ کنیزک بدگمانی میں نہ پڑے تاہم یہ قول محض کذب پر محمول نہیں ہو سکتا، کیونکہ طبّی تحقیقات سے فی الواقع ملک ملک کے لوگوں کے مزاج جداگانہ اور مقتضیاتِ صحت الگ الگ ہوتے ہیں، لہذا ان کے لیے معالجاتِ امراض بھی اصولًا مختلف ہونے چاہییں۔
7
وندراں شہر از قرابت کیستت
خویشی و پیوستگی با چیستت
ترکیب: "قرابت" مضاف۔ "تاء" جو کیستت میں ہے اس کی مضاف الیہ۔ "چیستت" کی "تا" بمعنٰی "ترا"۔ دونوں مصرعہ دو جملہ استفہامیہ بیان ہوئے "ایں" مبیّن مقدّر کے۔ مبیّن و بیان مل کر مفعول بہ "بگو" محذوف کا اور یہ سب جملے مقولہ ہوئے "گفت" کے جو شعرِ سابق میں ہے۔ "گفت" اپنے مفعولِ مطلق اور مقولہ کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔
ترجمہ: اور (ساتھ ہی یہ بھی بتا کہ) اس شہر میں تیرے کون کون سے رشتہ دار ہیں؟ کن لوگوں سے تیری خویشاوندی اور ملاپ ہے۔
8
دسْت بر نبضش نہاد و یک بیک
باز میپُرسید از جورِ فلک
ترکیب: "یک بیک" اسمِ عدد میں "با" الصاق کے لیے ہے جس کا معدود محذوف ہے یعنی حال۔ "از جورِ فلک" میں "از" تبعیض کے لیے ہے اور مضاف محذوف ہے یعنی "حالاتِ جورِ فلک"۔ "باز" زائد ہے۔
ترجمہ: اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر جورِ چرخ (کے حالات میں) سے ایک ایک(حال) پوچھتا جاتا تھا۔
مسئلہ: جورِ فلک کا ذکر شاعرانہ رسم پر کیا گیا ہے۔ ورنہ شرعًا دہر، فلک، چرخ، گیتی کو ظلم و ستم سے منسوب کر کے برا و بھلا کہنا جائز نہیں۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے: "قَالَ اللہُ تَعَالٰی: یُؤْذِیْنِی ابْنُ اٰدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَ أَنَا الدَّهْرُ بِیَدِی الْاَمْرُ اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ" (بخاری و مسلم) یعنی "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابنِ آدم مجھ کو ستاتا ہے کہ دہر کو کوستا ہے حالانکہ میں ہی دہر ہوں۔ تمام امر میرے ہاتھ میں ہیں۔ میں ہی شب و روز کو پلٹتا ہوں"۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
از دست دور مہ و مہر نے ز گردشِ چرخ
کہ دائرہ زنگارندہ، نے ز پرکارست
لہٰذا آسمان کا شکوہ کرنا خود خدا کا شکوہ ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
عنانِ موج بدستِ ارادت دریاست
مکن ز کجرویِ آسماں فغاں زنہار
وَ لَہٗ ؎
نشانِ تیرِ ہوائی ہماں کماندارست
بعقدِ چرخ منہ تیر در کماں گستاخ
9
چُوں کسے را خار در پایش خَلَدَ
پائے خود را بر سرِ زانُو نہد
ترکیب: "خلد" کا فاعل "خار"، "نہد" کا فاعل ضمیر راجع بہ "کسے"۔ پہلا مصرعہ شرط دوسرا مصرعہ آئندہ شعر سمیت جزا۔
ترجمہ: جب کسی کے پیر میں کانٹا چبھتا ہے تو وہ اپنے پَیر کو گھٹنے پر رکھتا ہے۔
10
و از سرِ سوزن ہمی جوید سرش
ور نیابد میکند با لب ترش
ترکیب: "تر" مفعول بہ اوّل۔ شین ضمیر مفعولی بہ ثانی ہے "میکند" کا۔
ترجمہ: اور اس (کانٹے) کا سر سُوئی کی نوک سے تلاش کرتا ہے اور اگر نہیں ملتا تو اسے لب سے تر کرتا ہے۔
11
خار در پا شد چنیں دُشوار یاب
خار در دل چوں بُود؟ وا دہ جواب
ترکیب: "شد" فعلِ ناقص۔ "خار" موصوف۔ "در پا" متعلق "خلیدہ" محذوف کے۔ "دہ" صفت دونوں مل کر اسم۔ "چنیں" اسمِ اشارہ تشبیہی اور "دشوار یاب" مشارٌ الیہ مل کر خبر۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر شرط ہوئی بتقدیرِ حرفِ شرط۔ دوسرے مصرعہ میں "بود" کی خبر "دشوار یاب" محذوف۔ یہ جملہ اسمیہ جزا۔ پھر یہ جملہ شرطیہ بیان ہوا "ایں" مبیّن محذوف کا۔ یعنی "وادہ جواب ایں کہ چوں خار در پا الخ"۔
صنائع: "خارِ دل" کنایہ ہے مرضِ عشق سے۔
ترجمہ: اب (یہ) بتائیے کہ پاؤں میں (چھبا ہوا) کانٹا جب اس قدر مشکل سے ملنے والا ہے تو وہ کانٹا جو دل میں (چبھا ہوا) ہو (گرفت میں لانا) کیسا (مشکل) ہوگا۔
مطلب: خارِ دل یعنی مرضِ عشق کی تشخیص آسان کام نہیں۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
دردِ سرِ دوستاں، آہ و فغانِ من ست
کاہش جانِ طبیب، دردِ نہانِ من ست
12
خارِ دل را گر بدیدے ہر خسے
کے غماں را دست بودے بر کسے
ترکیب: "ہر" مضاف۔ "خس" مضاف الیہ۔ مل کر فاعل ہوا "بدیدے" کا۔ دونوں مصرعے شرط و جزا ہیں۔
ترجمہ: دل کے کانٹے کو اگر ہر ادنیٰ آدمی دیکھ سکتا تو غموں کا کسی پر کب قابو چل سکتا؟
مطلب: تیرِ غمزہ کا زخم نظروں سے نہاں ہوتا ہے اگر وہ ہر کس و ناکس معالج کو نظر آتا تو غمِ عشق سے ہر شخص شفایاب ہوتا رہتا۔
ہلافی رحمۃ اللہ علیہ ؎
جراحتِ دلِ ما بر طبیب ظاہر نیست
کہ تیرِ غمزۂ او ہر چہ کرد پنہاں کرد
نکتہ: اس شعر میں یہ ہے کہ اگر ہر ناقص معالجِ امراضِ نفسانیہ ہونے کی قابلیت رکھتا تو کسی کو بھی روحانی تکالیف پیش نہ آتیں۔ حالانکہ دیکھا جاتا ہے کہ ہزاروں مرید باوجود اپنے پیروں، مرشدوں کے ساتھ نسبت رکھنے کے شفائے روحانی سے محروم ہیں۔ لہذا تہذیبِ نفس و تزکیۂ روح کے لیے کامل کی طرف رجوع کرنا چاہیے نہ کہ ناقص کی طرف۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
عقل اگر داری مکن کسبِ کمال از ناقصاں
کے رسد آخر دماغت از شرابِ نیمرس
13
کس بزیرِ دُمِّ خر خارے نہد
خر نداند دفعِ او بر مے جہد
صنائع: "خر" اور "خار" میں تجنیسِ ناقص۔
ترجمہ: کوئی (شریر آدمی) گدھے کی دم کے نیچے کانٹا رکھ دیتا ہے۔ گدھا اس کو نکالنا نہیں جانتا (اور) کود پڑتا ہے۔
14
خر زِ بہرِ دفعِ خار از سوز و درد
جفتہ مے انداخت صد جا زخم کرد
ترجمہ: گدھا کانٹے کو دور کرنے کے لیے جلن اور درد سے (تنگ آ کر) دولتیاں چلاتا ہے (جس سے) سینکڑوں جگہ زخم کھاتا ہے۔
15
آں لکد کے دفعِ خارِ او کند
حاذقے باید کہ بر مرکز تند
ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ استفہامِ انکاری۔ دوسرے مصرعہ میں "حاذقے" موصول، کاف صلہ کا۔ "بر مرکز تند" جملہ فعلیہ ہو کر صلہ۔ موصول و صلہ مل کر فاعل ہُوا "باید" کا۔
ترجمہ: (مگر) وہ دولتیاں جھاڑنا اس کے کانٹے کو کب دور کر سکتا ہے۔ کوئی دانا چاہیے جو خاص (کانٹے) کی جگہ پر توجہ کرے۔
16
بَرجَہد واں خارِ محکم تر کَنَد
عاقلے باید کہ خارے بر کَنَد
ترکیب: "برجہد" اپنے فاعل کے ساتھ جو ضمیر مستتر راجع بطرف "حاذق" ہے، مل کر جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ ہوا۔ اگلا جملہ فعلیہ معطوف "محکم تر" "خار" کی صفت۔
ترجمہ: (وہ حاذق احتیاط سے) اچھے اور اس مضبوط گڑے ہوئے کانٹے کو کریدے (واقع میں) عقلمند چاہیے جو کانٹا نکالے۔
اختلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر اس شعر کے بعد ہے کہ "خرز بہرِ دفع الخ" اور ان نسخوں کے شارحین نے حسبِ سیاق "بر جہد" کا فاعل "خر" کو قرار دیا ہے اور "کند" کو "کردن" سے مشتق سمجھا ہے۔ یعنی گدھا کود کر کانٹے کو اور بھی مضبوط کر لیتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں نسخے کے اشعار کی ترتیبی ہیئت کے لحاظ سے جو شرح بحر العلوم کی ترتیب کے موافق ہے "بر جہد" کا فاعل "حاذق" بنتا ہے اور قافیے کی شائستگی اور صیغوں کی ہیئت اور بیان کی روش بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ فافہم واحفظ۔
17
آں حکیمِ خار چیں استاد بود
دست میزد جا بجا مے آزمُود
ترکیب: "آں" اسمِ اشارہ اور "حکیم خار چین" بترکیبِ توصیفی مشارٌ الیہ مل کر اسم ہوا "بود" کا۔ "استاد" خبر۔ دوسرے مصرعہ میں الگ دو جملے بھی ہو سکتے ہیں یا ان کو "آں حکیم" کا بیان بھی قرار دے سکتے ہیں۔ بتقدیرِ کاف بیانیہ۔
ترجمہ: وہ کانٹے نکالنے والا حکیم (بھی) استاد تھا۔ جا بجا ٹٹولتا اور آزماتا تھا۔
مطلب: اوپر کے اشعار میں خارِ دل یعنی مرضِ عشق کی مشکلاتِ تشخیص اور دشوار یابی کا ذکر کیا تھا اور گدھے کی مثال سے اشارہ کیا تھا کہ نفسِ شیطان کس طرح روحانی امراض کے کانٹے دل میں بو دیتا ہے اور مریضِ نادان اپنی بد تدبیری سے بجائے فائدہ کے نقصان و ضرر کو ترقی دے لیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ ان کانٹوں کو نکالنے اور ان امراض کو دفع کرنے کے لیے کوئی حاذق، ماہرِ معالجہ اور صاحبِ تجربہ حکیم ہونا چاہیے۔ اب اس شعر میں کہتے ہیں کہ وہ طبیبِ غیبی انہی اوصاف کا حکیم تھا۔
18
زاں کنیزک برطریقِ راستاں
باز میپرسید حالِ داستاں
ترجمہ: اس لونڈی سے سیدھے سادھے لوگوں کی طرح واقعات کا حال پوچھتا جاتا تھا۔
19
با حکیم او راز ہا میگفت فاش
از مقام و خواجگاں و شہر تاش
ترکیب: "با" مفعولیت کے لیے۔ "فاش" صفت ہے مفعول مطلق محذوف یعنی گفتن کی۔
ترجمہ: وہ (بھی) حکیم کے سامنے (اپنے) مقام اور آقاؤں اور ہم شہری لوگوں کے متعلق راز کی باتیں صاف صاف بیان کرتی جاتی تھی۔
20
سوئے قِصّہ گفتنش میداد گوش
سوئے نبض و جستنش میداشت ہوش
ترکیب: "سوئے" مضاف اور "قصّہ گفتن" مضاف الیہ۔ مل کر ظرف ہوئی "میداد" کی۔
ترجمہ: (طبیب) اس کی قصہ گوئی کی طرف کان لگائے ہوئے تھا۔ نبض اور اس کی حرکت کا (بھی) خیال رکھتا تھا۔
21
تا کہ نبض از نامِ کہ گردد جِہاں
اُو بَود مقصودِ جانش در جَہاں
ترکیب: "از" جار۔ "نام" مضاف، کاف استفہامیہ مضاف الیہ۔ مل کر مجرور۔ یہ متعلق ہوا "جِہاں" کے جو خبر ہے "گردد" کی۔ "نبض" اسم ہے۔
صنائع: "جِہاں" بمعنی جہندہ و "جَہاں" بمعنی عالم میں تجنیسِ تامّ ہے۔
ترجمہ: تاکہ (دیکھوں) کس شخص کے نام پر اس کی نبض حرکت کرتی ہے (کیونکہ) دنیا بھر میں اس کا جانی محبوب وہی ہوگا۔
مطلب: عشقِ مجازی چونکہ ایک دماغی کیفیت ہے اور دماغ اعصاب کا مرکز ہے اس لیے حالاتِ عشق میں یہ عام بات ہے کہ معشوق کے سامنے آنے سے یا اس کا ذکر سننے سے یا اس کے تخیّل سے عاشق کے جسم میں ایک خاص اعصابی تحریک کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلًا تغیّرِ رنگ، سُرعتِ نبض، بستگیِ زبان وغیرہ۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو حالِ دلم پرسی مَن از رخِ نو حیراں
خواہم کہ سخن گویم آواز بروں ناید
وہ طبیبِ الٰہی اس قسم کی علامات کے ذریعہ کنیزک کے معشوق کا سراغ لگانا چاہتا تھا۔
22
دوستانِ شہرِ خود را برشمرد
بعد ازاں شہرِ دِگر را نام بُرد
ترکیب: "بعد ازاں" ظرف ہے "نام برد" کا۔ "برشمرد" میں "بر" زائد ہے۔ "شمرد" و "نام بُرد" کا فاعل "کنیزک" ہے۔
ترجمہ: (کنیزک) اپنے شہر کے (تمام) دوستوں کو گن گئی۔ پھر (کسی) دوسرے شہر کا ذکر چھیڑا۔
23
گفت چوں بیروں شدی از شہرِ خویش
در کدامِیں شہر میبُودی تو پیش
ترکیب: "گفت" کا فاعل "طبیبِ غیبی"۔ "چوں بیروں شدی الخ" شرط، دوسرا مصرعہ جملہ اسمیہ جزا۔ یہ جملہ شرطیہ ہوکر مقولہ "گفت" کا۔
ترجمہ: (طبیب نے) پوچھا جب تو اپنے شہر سے نکلی تو پہلے کس شہر میں جا کر رہنے لگی؟
24
نامِ شہرے گفت و زاں ہم درگذشت
رنگِ رُود نبضِ او دیگر نگشت
ترجمہ: اس نے ایک شہر کا نام بتایا اور پھر اس کا حال بھی سنا چکی (مگر) اس کے چہرے کا رنگ اور نبض متغیّر نہ ہوئی۔
25
خواجگاں و شہرہا را یک بیک
باز گفت از جا و از نان و نمک
ترکیب: "گفت" کا فاعل "کنیزک" کی ضمیر۔ "از" تبعیض کے لیے ہے اور مضاف محذوف ہے۔ یعنی "از حالات، جا و نان و نمک"۔
ترجمہ: (اپنے) مالکوں اور شہروں کا ایک ایک کر کے ذکر کیا، اپنی قیام گاہ اور نان و نمک کا (مفصل) حال سنایا۔
26
شہر شہر و خانہ خانہ قِصّہ کرد
نے رگش جنبید نے رُخ گشت زرد
ترکیب: "قصہ" مفعول بہ اول۔ اور "شہر و خانہ" بربطِ عطف مفعول بہ ثانی۔ "را" علامتِ مفعولیت مقدّر ہے۔ مصرعہ ثانیہ پر "لکن" حرفِ استدراک مقدّر ہے۔
ترجمہ: شہر شہر اور گھر گھر کا حال بیان کر ڈالا (لیکن) نہ اس کی رَگ حرکت میں آئی اور نہ چہرہ زرد ہوا۔
27
نبضِ او بر حالِ خود بُد بے گزند
تا بُپرسید از سمرقندِ چو قند
ترکیب: "تا" حرفِ جار غایت کے لیے ہے جس کے بعد "آں" مبین و کاف بیانیہ مقدر ہے۔ جو بیان کے ساتھ مل کر مجرور ہوا اور یہ متعلق ہوا "بود" کے۔
صنائع: "سمرقند" اور "قند" میں تجنیسِ ناقص ہے۔
ترجمہ: اس کی نبض بلا نقصان اپنی حالت پر (چل رہی) تھی یہاں تک کہ اس نے قند کے سے (شیریں شہر) ثمرقند کا حال پوچھا۔
مطلب: یعنی کنیزک کے نزدیک وہ شہر قند کا سا شیریں تھا کیونکہ وہ اس کے محبوب کا مسکن تھا اور عاشق کو دیارِ محبوب تمام روئے زمین سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔
جامؔی از خاکِ خراساں چہ کنی قصدِ حجاز
چوں ترا کعبۂ مقصود بہ ترکستان ست
23
آہ سردے برکشید آں ماہرُو
آب از چشمش رواں شد ہمچو جُو
ترجمہ: (سمر قند کا ذکر آتے ہی) اس ماہرُو نے ایک آہِ سرد کھینچی (اور) اس کی آنکھوں سے نہر کی طرح (آنسوؤں کا) پانی بہنے لگا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
داشت ارزانی خیالت دوش تشریفِ قدوم
مردم چشم منش از گریہ گوہر ریز کرد
29
گفت با زرگانم آنجا آورید
خواجۂ زرگر دراں شہرم خرید
ترکیب: "گفت" فعل اور "عائد بکنیز" اس کا فاعل۔ باقی کلمات مع شعر آئندہ کے مصرعۂ اولٰی کے مقولہ۔
ترجمہ: (پھر) بولی۔ سوداگر مجھ کو وہاں لایا (اور) اس شہر میں ایک صاحب نے جو زرگر (کی قوم سے) تھا مجھ کو خرید لیا۔
30
در برِ خود داشت ششماہ و فروخت
چُوں بگفت ایں ز آتِش غم برفروخت
صنائع: "غم" کو آگ سے تشبیہ دی ہے۔ "فروخت" بمعنٰی بیچ دیا اور "فروخت" بمعنٰی جل اٹھا میں تجنیسِ تام۔
ترجمہ: (تو) اس نے چھ ماہ تک مجھ کو اپنے پاس رکھ کر بیچ ڈالا۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ آتشِ غم سے جل اٹھی۔
مطلب: طبیبِ نبّاض نے جو کھود کھود کر پوچھنا شروع کیا تو مجبورًا کنیزک کو حقیقتِ حال زبان پر لانی ہی پڑی جس سے اضطرارًا اس کی حالت متغیّر ہو گئی اور طبیب پر اس کا راز آشکارا ہو گیا۔
آہ جامؔی زد علم چوں چاک کردی سینہ اش
عاقبت شد آشکارا آتشِ پنہاں کہ بود
31
نبض جست و روے سرخش زرد شُد
کز سمرقندیِّ زرگر فرو شُد
ترکیب: شعرِ سابق کے مصرعۂ ثانیہ میں چوں "بگفت ایں" شرط اور باقی کلمات مع اس شعر کے مصرعۂ اولٰی کے جزا ہوئے۔ شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ ہو کر معلول ہوا۔ مصرعہ ثانیہ علّت۔
ترجمہ: نبض پھڑکنے لگی اور اس کا سرخ چہرہ زرد پڑ گیا۔ (اس تصوّر سے) کہ وہ سمرقندی زرگر سے جدا ہو گئی۔
مطلب: کنیزک قصۂ عشق کو چھپا رہی تھی۔ مگر طبیب نے حکمتِ عملی سے باتوں باتوں سے سراغ نکال لیا۔ بقول بزرگے ؎
مے تواں داشت نہاں عشق ز مردم لیکن
زردیِ رنگِ رخ و خشکیِ لب را چہ علاج
اور طبیب نے سمجھ لیا کہ محبوب کے شہر سے جدا ہونا ہی اس کے اس مرض کی شدّت کا باعث ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
دوائے عشق گویند از سفر خیزد چہ دانستم
کہ در دل مہرِ آں مہ خواہد افزوں شد بہر منزل
32
چُوں ز رنجور آں حکیم ایں راز یافت
اصلِ آں درد و بلا را باز یافت
صنائع: مرضِ عشق سے درد و بلا استعارہ کیا ہے۔
ترجمہ: جب اس حکیم نے بیمار سے یہ راز معلوم کر لیا تو اس درد و مصیبت کی اصلیت دریافت کر لی۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
سرِّ سودائے تو در سینہ بماندے پنہاں
چشم بر دامن اگر فاش نکردے رازم
33
گُفت کوئے او کدام است و گذر
او سرِ پُل گفت و کوئے غاتفر
ترکیب: پہلے "گفت" کا فاعل طبیب دوسرے گفت کا فاعل "کنیز" ہے۔
ترجمہ: پوچھا اس کا کوچہ اور راستہ کون سا ہے۔ وہ بولی (راستہ کا نام) سر پل (ہے) اور کوچہ غاتفر (کے محلے) کا ہے۔
34
گُفت آنگہ آں حکیمِ با صواب
آں کنیزک را کہ رستی از عذاب
ترجمہ: (تب) وہ صائب الرائے حکیم اس لونڈی سے کہنے لگا تم نے اب تکلیف سے نجات پائی۔
35
گفت دَانستم کہ رنجت چیست زود
در علاجت سِحرہا خواہم نمود
ترکیب: "گفت" کا فاعل "طبیب" ہے۔ "دانستم" فعل با فاعل۔ "ایں" مبیّن محذوف۔ کاف بیانیہ۔ "رنجت چیست" جملہ اسمیہ استفہامیہ بیان ہوا۔ مبیّن اور بیان مل کر مفعول بہ "دانستم" کا۔ یہ جملہ فعلیہ ہو۔ "زود" مجرور ہے "یائے جار" مقدر کا اور یہ متعلق "خواہم نمود" کے یہ دوسرا جملہ فعلیہ۔ دونوں جملے بمعہ نیچے کے تین شعروں کے مقولہ "گفت" کا ہوا۔
ترجمہ: (اور) کہا مجھے معلوم ہو گیا کہ تمہیں کیا مرض ہے۔ اب فورًا تمہارے علاج میں کئی جادو (کی سی سریع التاثیر تدبیریں) کروں گا۔
36
شاد باش و ایمن و فارغ کہ من
آں کُنم با تو کہ باراں با چمن
ترکیب: "باش" فعل با فاعل اور "شاد و ایمن و فارغ" اس کا مفعول بہ مل کر جملہ فعلیہ انشائیہ معلول ہوا۔ باقی کلمات کی تقدیر یہ ہے کہ "من با تو آں احسان کنم کہ باراں با چمن کرد"۔ "آں احسان" مبیّن اور "کہ باراں با چمن کرد" بیان۔ مل کر مفعول بہٖ ثانی ہوا "کنم" کا۔ "تو" مفعول بہ اول۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر علّت ہوا۔
ترجمہ: اب تم خوش اور بے فکر اور فارغ البال رہو کیونکہ میں تمہارے ساتھ وہ (سلوک کروں گا جو بارانِ رحمت) چمن کے ساتھ (کیا کرتا ہے)۔
37
من غمِ تو میخورم تو غم مخور
بر تو من مُشفِق تَرَم از صَد پدر
صنائع: پہلے مصرعہ میں صنعتِ مقابلہ ہے۔
ترجمہ: میں تمہارا غمخوار ہوں۔ تم غم نہ کرو۔ سو باپوں سے بڑھ کر میں تمہارا ہمدرد ہوں۔
مطلب: یعنی باپ میں جس قدر شفقت و ہمدردی ہوتی ہے۔ اگر اس کو سَو گنا فرض کر لیا جائے تو بھی میری شفقت اس سے زیادہ ہو گی۔
38
ہاں و ہاں ایں راز را با کس مگوے
گرچہ شاہ از تو کند بس جُستجوے
ترکیب: "ہاں" حرفِ تنبیہ۔ پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر جزاءِ مقدّم۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر شرطِ مؤخّر۔ ان مذکورہ چاروں شعروں کے جملے مل کر مقولہ ہوا "گفت" کا۔ جو "گفت دانستم کہ رنجت الخ" میں ہے۔
ترجمہ: خبردار! خبردار! یہ راز کسی سے بیان نہ کرنا۔ اگر چہ بادشاہ بھی تم سے بہت دریافت کرنا چاہے۔
39
تا توانی پِیشِ کس مکشائے راز
بر کسے اِیں دَر مکُن زنہار باز
ترجمہ: حتّٰی الامکان کسی کے سامنے اپنا راز ظاہر نہ کرو (بلکہ) کسی پر یہ دروازہ ہی نہ کھولو۔
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے۔
40
چونکہ اسرارت نہاں در دل شود
آں مُرادت زود تر حاصل شود
ترجمہ: جب تمہارے بھید دل میں چھپے رہیں گے تو تمہاری وہ مراد اور بھی جلد بر آئے گی۔
مطلب: طبیب و کنیزک کی گفتگو کے ذکر میں بمناسبتِ مقام مولانا اخفائے راز کی تاکید کرتے ہیں کہ اخفائے اسرار سے حصولِ مرادات کی امید ہے کیونکہ افشائے راز سے کوئی نہ کوئی مخالف چلتی گاڑی میں روڑا اٹکانے والا پیدا ہو جاتا ہے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
تا حرفِ مے پرستاں گفتی شنید زاہد
ہشیار باش ایں جا دیوار گوش دارد
41
گُفت پیغمبر ہر آنکو سِرّ نہفت
زُود گردد با مُرادِ خویش جُفت
ترکیب: "گفت" فعل۔ "پیغمبر" فاعل۔ "ہر آنکو" اسمِ موصول اپنے صلہ "سر نہفت" کے ساتھ مل کر مبتدا۔ دوسرا مصرعہ جملہ اسمیہ ہو کر خبر۔ مبتدا اور خبر جملہ اسمیہ ہو کر مقولہ "گفت" کا۔
ترجمہ: پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسّلام) نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنا بھید چھپاتا ہے وہ جلدی اپنی مراد کو جا ملتا ہے۔
مطلب: شرح بحر العلوم میں لکھا ہے یہ شعر اس حدیث کا مضمون ہے۔ "مَنْ کَتَمَ سِرَّہٗ حَصَلَ مُرَادَہٗ"۔ وَ ہٰکَذَا فِیْ مُکَاشَفَاتِ رِضْوِیْ۔ یعنی جس نے اپنا بھید مخفی رکھا اس کی مراد بر آئی۔ مگر موضوعاتِ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث مرفوعًا ثابت نہیں۔ صاحبِ کلیدِ مثنوی فرماتے ہیں یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ "اِسْتَعِیٌنُوا عَلٰی اِنْجَاحِ الْحَوَآئِجِ بِالکِتْمَانِ" (بیھقی) "اپنی مرادات کے پورا کرنے میں ان کے مخفی رکھنے سے مدد لو"۔ (و اللہ اعلم بالصّواب)
42
دانہ چُوں اندر زمیں پنہاں شود
بعد ازاں سَرسبزیِ بُستاں شود
ترجمہ: (دیکھو) دانہ جب زمین میں دب جاتا ہے تو اس کے بعد (اپنے دب جانے اور چھپ جانے کی بدولت، پودے کی صورت میں نکل کر) باغ کی سرسبزی (کا باعث) بن جاتا ہے۔
43
زرّ و نقرہ گر نبودندے نہاں
پَرورش کے یافتندے زیرِ کاں
ترجمہ: (اسی طرح اور سنو) سونا چاندی اگر پوشیدہ نہ ہوتے تو کان کے نیچے پرورش کیونکر پاتے۔
مطلب: ان دو مثالوں کے ذریعہ سے یہ بتایا ہے کہ جس طرح ایک چھوٹا سا بیج زمین میں چھپ کر اجزائے ارضیہ سے غذا پا کر پھوٹ نکلتا ہے اور ایک خوبصورت پودے کی شکل میں زینتِ باغ بن جاتا ہے۔ اور ان کے اندرونی اجزائے ارضیہ اور بخارات باہم امتزاج پا کر سونے چاندی کی قیمتی دھاتوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بخلاف اس کے اگر دانہ زمین سے باہر رہتا تو کبھی پودے کی شکل نہ پاتا اور اگر وہ اجزائے ارضیہ و بخارات کان سے باہر نکالے جاتے تو ہرگز سونا چاندی نہ بن سکتے۔ اسی طرح اگر اسرار کے بیجوں کو دل کے گلزار میں مخفی رکھیں اور رازوں کے عناصر کو قلب کی کان میں دبائے رکھیں تو ان کے نتائج خوب صورت پھولوں اور آبدار جوہروں کی صورت میں پیدا ہوں گے۔
نکتہ: اس بیان میں یہ اشارہ ہے کہ سالک کو چاہیے کہ اپنے اسرارِ قلب و کیفیاتِ باطن اور مکشوفات و مشاہدات کو کسی پر ظاہر نہ کرے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
از جانِ خویشتن ہم رازے نہفتہ دارم
زیرا کہ مے نشاید بیگانہ محرمی را
ہاں ضرورت ہو تو حلِ مشکلات اور حصولِ ہدایات کے لیے صرف مرشد سے ایسے امور بیان کرنے چاہییں۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
رازیکہ بر خلق نہفتیم و نگفتیم
با دوست بگوئیم کہ او محرمِ راز است
44
وعدہا و لطفہائے آں حکیم
کرد آں رنجور را ایمن ز بیم
ترجمہ: (الغرض) اس حکیم کے وعدوں اور مہربانی (بھری باتوں) نے اس بیمار کو (نا کامی کے) خوف سے مطمئن کر دیا۔
45
وعدہا باشد حقیقی دلپذیر
وعدہا باشد مجازی تاسہ گیر
ترکیب: "وعدہا" موصوف اور "حقیقی" صفت مل کر اسم ہوا "باشد" کا۔ "دلپذیر" خبر۔ اسی طرح دوسرے مصرعہ میں "مجازی" وعدہ کی صفت ہے۔
ترجمہ: سچے وعدے دل پسند ہوتے ہیں۔ بناوٹی وعدے (دل کو) بیقرار کیا کرتے ہیں (کہ پورے ہوں گے یا نہیں)۔
کما قیل ؎
وعدۂ اربابِ دنیا ہمچو خوابِ احتلام
شب ہمہ شبِ عیش و عشرت باشد و فردا دروغ
مطلب: حکیمِ الٰہی کے سچے وعدہ اور جھوٹے وعدہ کا فرق بیان فرماتے ہیں اور اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مشکوٰۃ شریف میں بروایت ترمذی درج ہے کہ امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم سے یہ کلمات سن کر یاد کر لیے۔ "دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ، فَاِنَّ الصِّدْقَ طَمَانِیْنَۃٌِ وَ اِنَّ الْکِذْبَ رِیْبَۃٌ"۔ یعنی "شکی بات کو چھوڑ کر غیر شکی بات اختیار کرو۔ کیونکہ سچائی دل کا اطمینان ہے اور جھوٹ شبہ کی بات ہے"۔
46
وعدۂ اہلِ کرم گنجِ رَواں
وَعدۂ نا اہل شد رنجِ رواں
صنائع: یہ شعر ذو القافیتین ہے۔ "رواں" بمعنی "جاری" اور "رواں" بمعنی "جان" میں تجنیسِ تام۔
ترجمہ: اہلِ کرم کا وعدہ (وہ) خزانہ ہے (جس کا فیض سدا جاری رہنے والا ہے) نالائق کا وعدہ رنجِ جان (ثابت) ہوا ہے۔
نکتہ: شیخِ کامل اور شیخِ مُزوّر کے وعدوں میں جو فرق ہے ان دونوں شعروں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیخ کامل کے وعدے خواہ تعلیم و تربیت سے متعلق ہوں یا بطور بشارات ہوں سب صادق اور طمانیتِ قلب کا باعث ہوتے ہیں۔ مگر شیخِ مکّار کے وعدے کذب اور پورے نہ ہونے کے باعث پریشان کرنے والے ہوتے ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
مریدِ پیرِ مغانم ز من مرنج اے شیخ
چرا کہ وعدہ تو کردی داد بجا آورد
47
وعدہا باید وفا کردن تمام
ور نخواہی کرد باشی سرد و خام
ترکیب: "باید" فعل۔ "وفا کردن" مضاف۔ "وعدہا" موکّد اور "تمام" تاکید مل کر مضاف الیہ۔ مضاف و مضاف الیہ مل کر فاعل ہوا "باید" کا۔ "ور نخواہی کرد" جملہ فعلیہ ہو کر شرط ہوا۔ "باشی الخ" جزا۔
ترجمہ: تمام وعدوں کو پورا کرنا چاہیے، اگر تم (پورے) نہ کرو گے تو سرد (مہر) اور خام (کار) ثابت ہو گے۔
مطلب: وعدہ خلاف آدمی کو سرد دل یا سرد مہر اس لیے کہا کہ اس میں اپنی صداقت کو قائم رکھنے کی سرگرمی نہیں ہوتی۔ خام کار اس لیے کہ وہ اپنے وعدوں کی بنا پر جو کام کرتا، کراتا ہے اس میں دوام اور پختگی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کا اعتبار جاتا رہتا ہے اور کام بنتے بنتے بگڑ جاتے ہیں۔ ایفائے وعدہ شیوۂ پیغمبر ہے اور پیغمبروں کے حالات میں وعدہ وفائی کے بہت سے سبق آموز نظائر ملتے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ "لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَ لَا تُمَازِحْہُ وَ لَا تَعِدْہُ مَوْعِدَۃً فَتُخْلِفَہٗ" (ترمذی) یعنی "تو اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر اور نہ اس سے (اس درجہ) مزاح کر (جس سے اسے تکلیف ہو) اور نہ اس سے کوئی وعدہ کر کے اس کے خلاف کر" خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
وفائے عہدِ نکو باشد ار بیاموزی
وگرنہ ہر کہ تو بینی ستمگری داند
48
وعدہ کردن را وَفا باشد بجاں
تا بہ بینی در قیامت فیضِ آں
ترکیب: "را" بطور حرفِ جار اور "وعدہ کردن" اس کا مجرور۔ یہ متعلق ہے وفا سے۔ اور "بجان" بھی اس سے متعلق ہے۔ "وفا" اپنے متعلقات سمیت مبتدا ہے اور اس کی خبر "واجب" مقدّر ہے۔
ترجمہ: وعدہ کو دل و جان سے پورا کرنا واجب ہے تاکہ تم قیامت میں اس (ایفائے وعدہ) کا فیض دیکھو۔
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے۔