دفتر 1 حکایت 6: بادشاہ کا طبیبِ غیبی کو بیمار کے پاس لے جانا
دفتر اول: حکایت: 6
بُردنِ بادشاہ طبیبِ غیبی را بر سرِ بیمار
بادشاہ کا طبیبِ غیبی کو بیمار کے پاس لے جانا
1
قِصۂ رنجور و رنجوری بخواند
بعد ازاں در پیشِ رنجورش نشاند
ترجمہ: بیمار اور (اس کی) بیماری کا قصہ سنایا۔ اس کے بعد اس (طبیبِ غیبی) کو (نبض وغیرہ دیکھ کر تشخیص مرض کرنے کے لیے) بیمار کے پاس بٹھا دیا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو خود معالجۂ دردِ سینۂ ریشاں کن
کہ عاجز ست طبیب از علاجِ ایں امراض
2
رنگِ رُو و نبض و قارُورہ بِدید
ہم عَلاماتش ہم اسبابش شُنید
ترجمہ: (طبیب نے) چہرہ کا رنگ اور نبض اور قارورہ دیکھا۔ اس (مرض) کی علامتیں اور اسباب بھی سنے۔
3
گفت ہر دارُو کہ ایشاں کردہ اند
آں عمارت نیست وِیراں کردہ اند
ترکیب: "ہر دارو" اسم موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر مبتدا۔ "آں عمارت الخ" اس کی خبر۔ "ویراں کردہ اند" سے پہلے "بل" حرفِ اِضراب مقدّر ہے۔ مبتدا و خبر جملہ اسمیہ ہو کر مقولہ ہوا "گفت" کا۔
صنائع: عمارت استعارہ ہے اصلاحِ مزاج سے اور ویران فسادِ مزاج سے۔
ترجمہ: کہنے لگا ان (اطباء) نے جو جو معالجہ کیا ہے (اس سے کوئی صحت کی) عمارت نہیں (بنائی بلکہ) انہوں نے (اس کو) ویران کیا ہے۔
مطلب: مرض کچھ تھا وہ لوگ علاج کچھ کرتے تھے جس سے کوئی فائدہ متصوّر نہ تھا۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
علاجِ خویش مکن ضائع اے طبیب اینجا
کہ بر جراحتِ عاشق دوا ندارد سود
4
بیخبر بودند از حالِ درون
اَسْتَعِیْذُ اللہَ مِمَّا یَفْتَرُوْن
ترکیب: "بودند" فعل جس میں ضمیر جمع غائب اسم۔ "بیخبر" خبر۔ "اَسْتَعِیْذُ" فعل با فاعل۔ "اللہَ" مفعول بہ۔ "مِنْ" جار۔ "مَا" موصولہ۔ "یَفْتَرُوْنَ" فعل۔ جس میں ضمیر جمع غائب اس کی فاعل اور ضمیر منصوب متصل مقدّر راجع باسم موصول مفعول بہ۔ پھر فعل و فاعل و مفعول بہ مل کر صلہ ہوا۔ موصول و صلہ بحکمِ مفرد ہو کر مجرور ہوا۔ جار مجرور متعلق "اَسْتَعِیْذُ" کے۔
ترجمہ: وہ لوگ اندر کے حال سے بے خبر تھے۔ میں ان کی غلط بیانی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
مطلب: وہ اطباء مرض کی تہہ کو نہیں پہنچے۔ بقول امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
مسیحا مردہ داند زندہ کردن
ولے دردِ مرا درماں نداند
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نشاید بدارو دوا کردشاں
کہ کس مطلع نیست بر دردِ شاں
5
دِید رنج و کشف شد بر وَے نہفت
لیک پنہاں کرد و با سلطاں نگفت
ترکیب: مصرعۂ اولیٰ میں جملہ فعلیہ معطوف علیہ اور جملہ اسمیہ معطوف مل کر مستدرک منہ۔ مصرعہ ثانیہ مستدرک۔
ترجمہ: اس نے بیماری ملاحظہ کی اور راز کی بات اس پر ظاہر ہو گئی لیکن اس نے (اس کو) چھپایا اور بادشاہ سے ذکر نہ کیا۔
مطلب: طبیبِ الٰہی نے عوارضِ ظاہری سے اس کا مرضِ باطنی معلوم کر لیا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نوکِ مژگانم بسرخی بر بیاضِ زرد رُوئے
قصۂ دل مے نویسیدۂ حاجتِ گفتار نیست
بادشاہ سے اس حال کو مخفی رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت طبیبِ الٰہی نے اس کے مرض کا جو پتا لگایا وہ محض سرسری معائنہ کا نتیجہ تھا ابھی اس نے قطعی طور پر مرض تشخیص نہیں کیا، جو آگے چل کر کرے گا۔ اور ظنی و تخمینی بات کا اظہار خلافِ احتیاط ہے۔ یا یہ وجہ ہو گی کہ طبیبِ الٰہی کو جو معلوم ہوا کہ کنیزک بادشاہ کے سوا کسی اور مرد کے عشق میں مبتلا ہے تو بادشاہ پر اس کا اظہار کرنا اس کو رقابت کی آتشِ رشک میں جلانا تھا جس کو طبیبِ الٰہی کی مروّت نے گوارا نہ کیا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بر دل از غصّۂ مرا رنج و ملالے ست عظیم
کہ بہر سفلہ سرِ غنج دلالے ست ترا
اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر جب تدبیرِ کار کے لیے بادشاہ پر اصل راز ظاہر آنا لازم ہو جائے گا تو بھی طبیبِ الٰہی اس پر مجمل سا اظہار کرے گا جیسا کہ آگے آتا ہے۔
6
رنجش از صفرا و از سَوْدا نبود
بُوئے ہر ہیزم پدید آید ز دُود
ترکیب: "رنجش" کی ضمیر "کنیزک" کی طرف راجع ہے۔ "رنجش" اسم ہے۔ "عارض" خبرِ محذوف۔
ترجمہ: اس کی بیماری صفرا اور سودا (کے غلبہ) سے نہ تھی (جس کو طبیب نے قرائن سے خوب سمجھ لیا چنانچہ) ہر لکڑی کی بُو اس کے دھوئیں ہی سے محسوس ہو جاتی ہے۔
مطلب: طبیبِ غیبی نے علامات سے معلوم کر لیا کہ اس کو کیا مرض ہے امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو حالِ من خود ازیں روئے زرد بیں و مپرس
کہ من بردے تو پیدا نمے توانم کرد
7
دِید از زارِیش کُو زارِ دل ست
تن خوش است و او گرفتارِ دل ست
ترکیب: "زاریش" کی ضمیر راجع بکنیزک ہے۔ "کو زارِ دل ست" بیان ہے مبین محذوف یعنی "ایں" کا۔ جو "دید" کا مفعول بہ ہے۔
صنائع: "زارِ دل" اور "گرفتارِ دل" کنایاتِ عشق ہیں۔
ترجمہ: (طبیبِ الٰہی نے) اس کی گریہ و زاری (یا اس کی لاغری یا زار و نزار ہونے) سے بھانپ لیا کہ وہ مریضِ دل ہے۔ بدن چنگا بھلا ہے اور اسیر دل ہے۔ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ؎
اشکِ خونیں بطبیباں بنمودم گفتند
دردِ عشقست و جگر سوز دوائے دارد
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
گر تو منکر سوی اے دوست بداند ہر کس
کیں بلائے دِلم از نرگس جادوئے کے ست
8
عاشِقی پَیدا ست از زاریِ دل
نیست بیماری چو بیماریِ دل
ترکیب: "عاشقی" مبتدا۔ "پیدا" خبر۔ "نیست" فعلِ ناقص۔ "بیماری" اسم۔ "ثابت" خبرِ محذوف۔ دونوں الگ جملے ہیں۔ "نیست بیماری" کے آخری میں یائے تنکیر مقدّر ہے۔
صنائع: "بیماریِ دل" میں مشاکلہ ہے۔
ترجمہ: دل کی زاری سے عاشقی ظاہر ہے۔ دل کی بیماری کے برابر (کوئی) بیماری نہیں۔
مطلب: کنیزک کے دل کی دگرگوں حالت بتا رہی ہے کہ اس کو مرضِ عشق ہے جو دل کا مرض ہے اور دل کا مرض بدن کے مرض سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
تن اگر بیمار شد بر سر میاریدم طبیب
اے عزیزاں کارِ تن سہل ست فکرِ دل کنید
9
عِلّتِ عاشق ز عِلّتہا جداست
عِشق اُصطرلابِ اَسرارِ خداست
صنائع: "عشق" و "اصطرلاب" میں تشبیہ۔
ترجمہ: عاشق کا مرض (سارے) امراض سے نرالا ہے۔ عشق خدا کے بھیدوں کا اصطرلاب ہے (جس سے اسرارِ معرفت معلوم ہوتے ہیں)
مطلب: یہاں سے ضمنًا عشق کے حالات بیان فرماتے ہیں۔ یعنی جس طرح اصطرلاب سے احوالِ فلکیہ کی واقفیت حاصل ہوتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک ایسا روحانی آلہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے اسرارِ الٰہیہ منکشف ہوتے ہیں۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بیدلاں را جز آستانۂ عشق
در رہِ کوئے دوست منزل نیست
10
عاشِقی گر زیں سر و گر زاں سرست
عاقِبت ما را بداں شہ رہبرست
ترکیب: "عاشقی" مبتدا۔ مصرعۂ اولیٰ کے باقی کلمات بطورِ شرط اور دوسرا مصرعہ بطورِ جزا مل کر خبر ہوئی۔ شرط میں "او" مبتدا مقدّر ہے۔ اسی طرح جزا میں بھی عاقبت ظرف ہے۔
ترجمہ: عاشقی خواہ ادھر کی (مجازی) ہے یا ادھر کی (حقیقی) ہے انجام کار ہم کو اس شاہِ (محبوباں) کی طرف لے جاتی ہے۔
مطلب: یہ کہ عشقِ مجازی ہو یا حقیقی بہر کیف وہ محبوبِ حقیقی یعنی ذاتِ حق کی طرف لے جاتا ہے۔ عشقِ حقیقی کا مُوصِل الٰی الحق ہونا تو ظاہر ہے لیکن عشقِ مجازی جس کا تعلق جمالِ مخلوقات سے ہوتا ہے اس کو اگرچہ نردبانِ حقیقت کہتے ہیں۔ بقول جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
متاب از عشق رو گرچہ مجازی ست
کہ آں بہرِ حقیقی کارسازی ست
اور بقول مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کھولا ہے مجھ پہ سرِّ حقیقت مجاز نے
یہ پختگی صلہ ہے خیالاتِ خام کا
لیکن وہ ہر شخص کے لیے اور ہمیشہ مفید نہیں اور نہ ہر شخص کو اس کی اجازت ہے۔ اسی لیے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے دوسرے مصرعہ میں ”ما را بداں شہ رہبرست“ فرمایا ہے۔ یعنی عشقِ مجازی صرف ہم عارف لوگوں کی رہبری کر سکتا ہے جس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ وہ عوام کے لیے خطرناک ہے۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
طریقِ عشق پُر آشوب و فتنہ ست اے دل
بیفتد آنکہ دریں راہ با شتاب رود
مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الُوہیّت و محبوبیّت خاص خداوند تعالیٰ کی صفات ہیں جن میں غیر کی شرکت محال ہے۔ مگر عشقِ مجازی کا تعلق جو بظاہر ماسوٰی سے ہے تو اس کی اصلیت یہ ہے کہ اس جمیلِ مطلق جلّ شانہٗ کا پرتوِ جمال مختلف مظہروں میں جلوہ گر ہوتا ہے اور ہر مظہر کے الگ الگ عاشق پیدا ہو جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا مجازی معشوق تو وہی خاص خاص مظہر ہے لیکن معشوقِ حقیقی سب کا ایک ہی ہے کیونکہ ایک ہی شمع ہے جس کی شعائیں متعدد چیزوں پر پڑ کر ان کو روشن کر رہی ہیں اور یہ نکتہ عارف ہی سمجھ سکتا ہے جو ترقی کرتا کرتا عشقِ مظہر کے ذریعے سے اس پر جا پہنچتا ہے جدھر سے یہ پرتو اس مظہر پر پڑا ہے۔ وَ ہُوَ الْمُرَادُ۔ پس عشقِ مجازی عارف کے لیے ہادی ہے اور جاہل کے لیے وبالِ عظیم ہے جو مظہر کے عشق پر ہی مر مٹتا ہے اور اسی کو معشوق و معبود جانتا ہے۔ انتہٰی۔
میں کہتا ہوں کہ اہلِ معرفت کے نزدیک عشقِ مجازی کا نردبانِ حقیقت ہونا بے شک حق اور صواب ہے لیکن اس کی عمومی اجازت میں یہ خرابی ہے کہ بد سرشت لوگ اس اصل کی آڑ میں کھلم کھلا بد نظری اور بد مشربی کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے عوام بھی دھوکا کھاتے ہیں۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اپنی پاک نظری و معرفت آموزی کے دعوے میں حسین لڑکوں کو ساتھ لے بیٹھتے ہیں مجھ تجربہ کار سے پوچھو تو وہ اپنی کمزوری یا کسی مصلحت سے بدکاری تو کر نہیں سکتے لیکن لذّتِ نظر اور لطفِ مصافحہ اور ذوقِ ہم آغوشی حاصل کرنے میں ان کی مثال اس روزہ دار کی سی ہے جو دستر خوان کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھے، یا اس بکری کی سی جو کھجوروں کو ایک تھیلے میں بند پا کرصرف ان کی گھٹلیاں چبانے پر قناعت کرے ؎
گروہے نشینند با خوش پسر
کہ ما پاکبازیم و صاحبِ نظر
ز من پرس فرسودۂ روزگار
کہ بر سفرہ حسرت خورد روزہ دار
ازاں تخمِ خرما خورد گوسفند
کہ قفلست بر تنگ خرما و بند
شیخ نے ایک عجیب حکایت لکھی ہے کہ ایک عابد کسی حسین لڑکے پر عاشق ہو گیا۔ حکیم بقراط نے اس کی پریشانی و سرگردانی کی حالت کو اشتباہ کی نظر سے دیکھا تو لوگ بولے یہ شخص بڑا متّقی و متورّع اور عبادت گزار ہے اور کہتا ہے کہ میں اس نقش پر فریفتہ نہیں ہوں بلکہ اس نقش کے نقّاش پر عاشق ہوں۔
حکیم نے کہا تمہارا عابد تو بات نکتہ کی کہتا ہے مگر ہر شخص کی اس سے تسلّی نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ صرف نقّاش کا عاشق ہے تو کسی ایک دن کے بچے کو دیکھ کر اس کا عشق جوش میں کیوں نہیں آتا وہ بھی اس کی صنعت کا ایک نمونہ ہے بلکہ ایک سچے عاشقِ حق کو جو بات کسی ماہرو میں نظر آتی ہے وہی ایک اونٹ میں بھی دکھائی دینی چاہیے۔ ؎
بگفت ارچہ صیتِ نکوئی رود
نہ با ہرکسے ہرچہ گوئی رود
نگارندہ را خود ہمیں نقش بود؟
کہ شوریدہ را دلِ بیضا ربود
چرا طفلِ یک روزه ہوشش نبرد
کہ در صنع دیدن چہ بالغ چہ خُرد
محقّق ہماں بیند اندر اِبل
کہ در خوبرویانِ چین و چگل
غرض عشقِ مجازی جس کی عارفوں کے لیے اجازت ہے اس کی جائز اور حلال صورت کج دار و مریض کا معاملہ ہے۔ جو ہر کس و نا کس کے بس کا نہیں۔ اکثر اس کا نتیجہ معصیت اور ارتکابِ حرام ہوتا ہے۔ اَعَاذَنَا اللہُ مِنْہُ۔ اس لیے اس سے پرہیز لازم ہے۔ شارحِ کلیدِ مثنوی بھی دبی زبان سے کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں عشقِ مجازی میں خطرہ ہے۔ مگر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ اس میں یہ خاصیت ضرور ہے کہ دل میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے اور باقی تعلّقات قلب سے دفع ہو کر یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے اس لیے اس کے اِزالہ کے بجائے اِمالہ بہتر ہے یعنی اس کو عشقِ حقیقی میں بدل دینا چاہیے۔ پھر ساتھ ہی اِمالہ کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ عاشق پارسائی پر قائم رہے۔ محبوب کی طرف نظر نہ کرے اور یہ سوچے کہ مصنوع میں یہ جمال ہے تو صانع میں کس قدر ہو گا۔ اس سے اس کا عشق مخلوق سے خالق کی طرف مائل ہو جائے گا۔ مگر میرے نزدیک اِمالہ مشکل ہے اور اِمالے کا مذکورہ طریقہ بھی غیر مفید ہے۔ فریفتگی کے بعد ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے قلب و دماغ کو قابو میں رکھنا اور قوٰی و جوارح کو پابندِ اعتدال بنا سکنا ایک امرِ متعذّر ہے۔ پھر نہ آنکھ میں یہ تاب رہتی ہے کہ محبوب کی طرف سے بند ہو سکے نہ دل میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ کسی دوسرے کی اصلاحی تعلیمات کی طرف توجہ کر سکے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ز دیدنت نتوانم کہ دیدہ بربندم
گر از مقابلہ بینم کہ تیر مے آید
خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
گفتم بخویش کزولے برگیر دل دلم گفت
کارِ کسے ست ایں کو با خویشتن برآید
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
پندم مدہ کہ نشنوم اے نیک خواہ ازانکہ
من با تو ام ولے دلِ من جائے دیگر ست
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ناصحا بیہودہ مے گوئی کہ دل بردار ازو
من بفرمانِ دلم یا دل بفرمانِ من است
خلاصۂ کلام یہ کہ عشقِ مجازی سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ یہ عشق اگر ہادی الٰی الحق ہے تو اس کے لیے بڑی قابلیت اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ اگر صلاحیت نہ ہو تو پھر یہ بلائے عظیم بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس سے بچنا اچھا ہے۔ ؎
قابلیت ہو تو دیدارِ جمال اچھا ہے
ورنہ اس کوچہ کا پھر ترکِ خیال اچھا ہے
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر کجا سلطانِ عشق آمد نماند
قوّتِ بازوئے تقویٰ را محل
پاکدامن چوں زید بے چارۂ
اوفتادہ تا گریباں در وحل
اگرچہ آثارِ صوفیہ میں ایسے احوال و اقوال نظر سے گزرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشقِ مجازی کو خاص قیود و شرائط کی حد میں جائز بلکہ مستحسن مانا گیا ہے مگر ان روایات کے مقابلہ میں اسوۂ خلیل اللہ علٰی نبیّنا و علیہ صلوٰت اللہ کو دیکھنا چاہیے کہ اس سے کیا سبق ملتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی نظر تلاشِ حق میں بتوں پر پڑی اور وہ ان میں کوئی خدائی شان نہ پا کر ان کا ابطال کر چکے تو پھر مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (عالمِ افلاک و زمین) کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک ستارہ نظر آیا۔ اس میں خدائی شان کا جلوہ دیکھا تو بولے ﴿ھٰذَا رَبِّیْ﴾(الأنعام:76) ”یہ میرا پروردگار ہے“۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پیغمبری فطرت ستارہ پرستی پر مائل کب ہوتی تھی۔ خصوصًا وہ پیغمبر جس نے بدوِّ شعور سے شرک کو حقارت سے دیکھا ہو لا محالہ "ھٰذا رَبِّیْ" کے اسمِ اشارہ میں ان کا مشارٌ الیہ پروردگارِ حق تھا جس کی شان ان کو ایک مظہر میں ظاہر ہوتی نظر آئی اور وہ مظہر ایک ستارہ تھا مگر کمالِ محویت کے باعث مظہر سے قطع نظر کر کے ظاہر کو مشارٌ الیہ بنایا۔ "فَلَمَّاۤ اَفَلَ" جب وہ ستارہ غروب ہو گیا تو آپ علیہ السّلام نے دیکھا کہ یہ مظہر جس میں وہ محبوبِ حقیقی کے جمال کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ ایک مجبور و فانی چیز ہے۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کند در ہر قدم فریادِ خلخال
کہ حُسنِ گُل رخاں پا در رکاب است
﴿قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ﴾(الانعام: 76) ”تو کہا غروب ہو جانے والی چیزوں کو میں پسند نہیں کرتا“۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
مرغِ زیرک نشود در چمنش نغمہ سرائے
ہر بہاریکہ ز دنبال خزانے دارد
یعنی جلوۂ حق کے مشاہدہ کے لیے ایسی فانی چیزیں مجھے پسند نہیں۔ غرض پھر چاند اور اس کے بعد سورج کو دیکھا۔ یہی نقص ان بڑے بڑے مظاہر میں پایا تو کہا۔ ﴿اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾(الانعام: 79) یعنی "میں نے تو ایک ہی کا ہو کر اپنا رخ اسی کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں"۔
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بچشمِ تیز بینت ہر چہ نیکوست
چو نیکو بنگری عکسِ رُخِ اوست
بقا خواہی بروئے اصل بنگر
وفا جوئی بسوئے اصل بنگر
مَعَاذَاللّٰہ ز اصل ار دور مانی
چو عکس آخر شود بے نور مانی
غرض جب ایک پیغمبر مخلوقِ فانی میں خالقِ باقی کا جلوہ دیکھنا شرک کا مترادف سمجھتا ہے تو اب بتاؤ عوام کے لیے، جن کے قلوب ہر وقت ہَوا و ہَوس کے حملوں سے خطرے میں ہیں، اس کو کیا سمجھا جائے۔
رباعی:
ہشیار رہو عشق کی مستی سے بچو
عفریتِ ہوس کی چیرہ دستی سے بچو
غارت گرِ ایمان ہیں بتانِ طنّار
مومن ہو اگر تو بت پرستی سے بچو
11
ہرچہ گویم عشق را شرح و بیاں
چوں بِعشق آیم خَجِل باشم ازاں
ترجمہ: عشق کی تفصیل و بیان (خواہ) کتنا ہی کروں۔ جب عشق میں آتا ہوں اس (بیان) سے شرمندہ ہوتا ہوں۔
مطلب: "بعشق آیم" سے مراد عشق کو دیکھتا ہوں یا عشق میں پڑتا ہوں۔ دونوں طرح ہو سکتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ عشق ایک ذوقی و وجدانی امر ہے اور ایسے امور تحریر و تقریر کے ذریعہ سے پوری طرح منکشف نہیں کیے جا سکتے اس لیے میں عشق کی جس قدر تشریح کرتا ہوں جب عشق کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے یا اس کو اصلی روپ میں دیکھتا ہوں تو مجھے ندامت ہوتی ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
بشو اوراق گر ہمدرس مائی
کہ علمِ عشق در دفتر نباشد
12
گرچہ تفسیرِ زباں روشن گر ست
لیک عشقِ بیزباں روشن تر ست
ترجمہ: اگرچہ زبان کی تشریح (مطلب پر) روشنی ڈالنے والی ہے لیکن عشق تو زبان کے بغیر (خود ہی) خوب روشن ہے۔
مطلب: ہر چند کہ زبان ہر قسم کے حالات کے اظہار کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن عشق ایسی چیز ہے کہ اس کی کیفیت خود بخود عاشق پر زبان کو تکلیف حرکت اور کانوں کو تصدیقِ سماعت دیے بغیر ہی بخوبی منکشف ہو جاتی ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ؎
نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی سے زباں میری
13
چوں قلم اندر نوشتن میشتافت
چوں بعِشق آمد قلم بَرخود شگافت
ترجمہ: جب قلم (مختلف مضامین کے) لکھنے میں تیزی سے مصروف تھا (تو) جونہی عشق پر آیا (وہ) قلم شق ہو گیا۔
مطلب: عشق چونکہ ایک امرِ ذوقی ہے اس لیے جس طرح اس کی اصلیت کو زبان ادا نہیں کر سکتی اسی طرح قلم بھی اس کے حالات کو حیطۂ تحریر میں لانے سے عاجز ہے۔ ہر چند وہ دیگر مضامین کو کھول کھول کر لکھنے کی اعلیٰ قابلیت رکھتا ہے مگر جب عشق کے حالات لکھنے کا وقت آتا ہے تو عاجز آ جاتا ہے۔
14
چوں سخن در وصفِ اینحالت رسید
ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید
ترجمہ: جب بات اس حالت (عشق) کے اظہار تک پہنچی تو قلم ٹوٹ گیا اور کاغذ پھٹ گیا۔
مطلب: شعرِ سابق کے مضمون کی تاکید ہے کہ حالاتِ عشق کے لکھنے کی نوبت آتی ہے تو نہ قلم میں تابِ تحریر رہتی ہے نہ کاغذ میں قوّتِ برداشت۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ؎
اسرارِ عشق بھی کہیں دیکھے ہیں واعظو
دخل آپ کو بہت کتبِ معتبر میں ہے
15
عقل در شرحش چُو خر در گِل بخُفت
شرحِ عشق و عاشقی ہم عشق گفت
ترجمہ: اس کی (یعنی عشق کی) شرح کرتے وقت عقل (کا یہ حال ہُوا) گویا گدھا کیچڑ میں دھنس گیا عشق اور عاشقی کی شرح بھی عشق ہی نے کی۔
مطلب: زبان و قلم کے بعد اب عقل کو لو۔ جو بڑی بڑی معنوی شکلوں کو حل کرنے والی ہے لیکن عشق کی شرح کرنے سے یہ بھی عاجز و درماندہ ہے۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ایکہ از دفترِ عقل آیتِ عشق آموزی
ترسم ایں نکتہ بہ تحقیق ندانی دانست
آخر جب عشق و عاشقی کی شرح کسی چیز سے نہ ہو سکی تو یہ کام خود عشق ہی نے انجام دیا اور یہ اس طرح کہ جب کسی پر حالات عشق طاری ہوتے ہیں تو وجدانی طور پر خود اپنے ہی عشق سے اس پر اس کی کیفیت منکشف ہو جاتی ہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہم دیدۂ تو باید تا چہرۂ تو بیند
کانجا کہ آں جمال ست انسان چہ کار دارد
عشق اور عاشقی جو شعر میں مذکور ہے ایک ہی چیز ہے۔ صرف اعتباری فرق ہے یعنی عشق خالص وصفی معنی میں ہے بلا اعتبار اس کے کوئی اس سے موصوف ہو یا نہ ہو، اور عاشقی وہی وصفی معنٰی اس اعتبار کے ساتھ کہ کسی میں حاصل ہو۔
16
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
گر دَلِیلت باید ازوے رُو متاب
ترجمہ: آفتاب کی دلیل (خود) آفتاب ہی ہے۔ اگر تجھ کو دلیل چاہیے تو اس کی طرف سے رُخ نہ پھیر۔
مطلب: اوپر ذکر تھا کہ عشق کے بیان سے زبان و قلم اور عقل تینوں عاجز ہیں مگر جو شخص مبتلائے عشق ہو جاتا ہے خود عشق کے ذریعہ سے اس پر اس کی کیفیت اس وضاحت کے ساتھ منکشف ہو جاتی ہے کہ کسی دیگر واسطہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس جس شخص کو اس کے حالات سے واقف ہونے کی آرزو ہو وہ مقامِ عشق میں داخل ہو کر یہ آرزو پوری کر سکتا ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس کی تمثیل سورج سے دیتے ہیں کہ جس شخص کو اس کی حالت و کیفیت معلوم کرنی ہو اس کو کسی شرح و بیان کی ضرورت نہیں خود آفتاب ہی آفتاب کے حالات کی دلیل ہے۔ اس کو چاہیے کہ آفتاب کو دیکھ لے۔ اس شعر میں اس حدیث کی طرف بھی اشارہ ہے کہ "عَرَفْتُ رَبِّیْ بِرَبِّیْ" یعنی "میں نے اپنے پروردگار کو پروردگار ہی کے ذریعہ سے پہچانا"۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
طوطیائے چشمِ مہ جز پر توِ خورشید نیست
بنورِ دوست مے بینیم حُسنِ روئے دوست
نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بسے منزل آمد ز من تا بتو
نشاید ترا یافت الّا بتو
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بنورِ طلعتِ تو یافتم جمالِ ترا
بآفتاب تواں دید کافتاب کجاست
وَ لَہٗ ؎
جز بعلمِ او نداند ذاتِ او را ہر علیم
جز بنورِ او نہ بیند ذاتِ او را ہر بصیر
17
از وَے ار سایہ نشانے میدہد
شمس ہر دم نورِ جانے میدہد
ترکیب: "ار" حرفِ شرط۔ "میدہد" فعل۔ "سایہ" فاعل۔ "نشانے" مفعول بہ۔ "از وَے" متعلق۔ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر شرط ہوئی۔ دوسرا مصرعہ جزا۔ "از وَے" کی ضمیر شمسِ فلکی کی طرف راجع ہے۔ "ہر دم" ظرف۔
صنائع: "شمس" استعارہ ہے ذاتِ حق سے۔
ترجمہ: اس (فلکی سورج) سے اگر سایہ نشان دیتا ہے تو آفتابِ حق (تاریکی و سایہ سے پاک ہے وہ) ہر وقت جان کا نور بخشتا ہے۔
مطلب: عشق کے خود بخود مُدرَک ہونے میں آفتاب کا تمثیلًا ذکر کیا تھا تو یہاں شرکتِ اسمی کے تقاضے سے مولانا کی توجّہ آفتابِ حق کی طرف منعطف ہو گئی، اور فرماتے ہیں کہ ہر چند آفتابِ ظاہری کا ادراک بلا واسطہ ہوتا ہے مگر اس کا ظہور پھر بھی بمقابلہ آفتابِ حقیقی کے ناقص ہے اور آفتابِ حقیقی کا ظہور کامل ہے۔ کیونکہ بقول "اَلْاَشْیَاۤءُ تُعْرَفُ بِاَضْدَادِھَا" "ہر چیز اپنی ضد کے ذریعہ سے پہچانی جاتی ہے"۔ آفتاب اور اس کی دھوپ کی شناخت بھی اس کی ضد یعنی سایہ سے ہوتی ہے۔ تو اس آفتاب کی شناخت میں ایک چیز واسطہ ہوئی جو سایہ ہے اور اس لیے وہ بلا واسطہ مُُدرَک ہونے کی صفت میں ناقص ہوا۔ بخلاف آفتابِ حقیقی کے جو اس صفت میں کامل ہے کیونکہ وہ ہر وقت نورِ جان عطا فرماتا ہے اور کسی وقت بھی غائب نہیں ہوتا۔ نہ اس کے ادراک میں کسی چیز کو دخل ہے اور یہی غایتِ ظہور اس کے عوام کی نظروں سے مخفی ہونے کا سبب ہو گیا۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کھلا جتنا ہوا اتنا ہی مستور
چھُپا جتنا رہا کُھلتا بدستور
عمر خیام غُفِرَ لہٗ ؎
اے در طلبِ تو عالمے در شرر و شور
درپیشِ تو درویش و تونگر ہمہ غور
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
اے با ہمہ در حدیث و گوش ہمہ کر
دے با ہمہ در حضور و چشم ہمہ کور
پنہاں تر ازانی کہ توانت بہ نشاں یافت
پیدا تر ازانی کہ بپرسند نشانت
وجہ اس اخفاء کی یہ کہ عام لوگوں کی نظریں اشیاء کو ان کی اضداد کے ذریعہ معلوم کرنے کی عادی ہیں اور شمسِ حقیقی کی کوئی ضد نہیں۔ ہاں عارف لوگ جن کی روحانی نظر روشن ہوتی ہے اس کے ادراک کی دولت سے بہرہ وَر ہوتے ہیں، اور یہی نورِ جاں سے مراد ہے۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
دیدنِ رُوئے ترا دیدۂ جاں مے باید
ویں کجا مرتبۂ چشمِ جہاں بینِ من ست
مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر چشم آئینہ ہے رُخِ آفتابِ کا
ہاں سطحِ آب بے خس و خاشاک چاہیے
18
سایہ خواب آرد ترا ہمچوں سَمَر
چوں بر آید شمس اِنْشَقَّ الْقَمَر
ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ۔ "خواب" مفعول بہ۔ "ترا" مفعول بہ ثانی۔ مصرعہ ثانیہ شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ ہے۔
صنائع: "شمس" استعارہ ذاتِ حق سے ہے۔ "قمر" استعارہ ہے ممکنات سے۔
ترجمہ: (آفتابِ ظاہری کا) سایہ تو نیند (یعنی غفلت) لاتا ہے جس طرح کہانی (سنتے سنتے نیند آ جاتی ہے اور وہ) آفتابِ (حق) جب نکلتا ہے تو (ممکنات کا) چاند ماند پڑ جاتا ہے۔
مطلب: یہاں بھی آفتابِ ظاہری کے نقص اور آفتابِ حق کے کمال کا بیان مقصود ہے یعنی آفتابِ ظاہری تو غروب ہونے کے بعد ایک عالمگیر تاریکی چھوڑ جاتا ہے جس کا خاصہ یہ ہے کہ نیند آنے لگتی ہے جس طرح کہانیاں قصے سنتے سنتے نیند آیا کرتی ہے، مگر آفتابِ حق کبھی غروب نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت نور افشاں رہتا ہے اور اس کے چکا چوند سے ممکنات ماند ہیں۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ذرّہ ذرّہ حیرتی ہے مہرِ پُر تنویر کا
بیخودی آئینہ ہے ہنگامۂ تکبیر کا
دونوں آفتابوں کی مذکور حالتوں کا مقابلہ اس لحاظ سے کہ ایک کا غروب ہونا باعثِ غفلت ہے اور دوسرے کا ہر وقت درخشاں و تاباں رہنا عارفوں کے قلوب کی دائمی تنویر کا موجب ہے۔ جیسے کہ گذشتہ شعر میں گزر چکا ہے۔ اس شعر میں جو "چوں بر آید" کا کلمہ آیا ہے تو اس سے شمسِ حق کا غروب کے بعد طلوع کرنا مراد نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب عارفین کے قلوب متوجّہ ہوتے ہیں تو ان پر اس کی عالم افروز تنویر منکشف ہوتی ہے۔ اور یہ اس کے منافی نہیں کہ اس کا نور ہر وقت درخشاں ہو مگر بعض اوقات نظروں کی اس طرح توجہ نہ ہو۔ ممکنات کو قمر کے ساتھ تشبیہ دینے میں یہ لطیف مناسبت ہے کہ جس طرح قمر کا نور شمس سے مستفاد ہوتا ہے اسی طرح ممکن کا وجود بھی شمسِ حق کا عطا کردہ ہے بلکہ تمام موجودات اسی کے اسماء و صفات کے ظلال ہیں۔ عارفِ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ترکیب: "خود" یہاں حرفِ زائد ہے۔ "غریبے" میں یائے تنکیر۔ "نیست" فعلِ ناقص۔ "غریبے" اسم۔ "موجود" خبرِ محذوف۔ دوسرے مصرعہ میں "شمسِ جاں باقی ست" جملہ اسمیہ معلول۔ "کو را" دراصل "کہ اُو را"۔ "امس ثابت نیست" جملہ اسمیہ ہو کر علّت۔
ترجمہ: بے شک جہان میں سورج کا سا مسافر کوئی نہیں (بخلاف اس کے) آفتابِ جان (یعنی ذاتِ حق سدا) قائم ہے جس کو دیروز (کی قید) نہیں۔
مطلب: ظاہری آفتاب تو ہمیشہ سیرِ گردش میں ہے جو (معلوماتِ قدیمہ کے موافق) دن بھر چلتا رہتا ہے اور رات کو غائب ہو جاتا ہے لیکن وہ جانوں کو منور کرنے والا سورج یعنی حق جَلَّ وَ عَلَا کبھی غائب نہیں ہوتا بلکہ اپنی ایک ہی شان میں "اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ" جلوہ گر ہے۔ اس کے لیے آج یا کل کی صفات نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ صفات غروب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
وجودش آں فروزاں آفتاب ست
کہ ذرہ ذرہ از وے نور یاب ست
گر از خورشید دمہ دارد نہاں روئے
فتد در عرصۂ نابود شاں گوئے
20
شمس در خارج اگرچہ ہست فرد
مثلِ او ہم میتواں تصویر کرد
ترکیب: سارا شعر جملہ شرطیہ ہو کر مستدرک منہ ہوا۔ "ہم" حرفِ عطف زائد۔
ترجمہ: (فلکی) آفتاب اگرچہ خارج میں ایک ہی ہے (مگر ذہن میں) ہم اس کا سا (ایک اور آفتاب) تصوّر کر سکتے ہیں۔
مطلب: ظاہری آفتاب ہر چند کہ ایک ہی ہے لیکن اس جیسے اور کئی آفتابوں کا تصور کر لینا کوئی امر محال نہیں۔ پس اگر خارجًا ایک ہی سورج ہے تو ذہنًا ایک سے زیادہ سورج ہو سکتے ہیں اور ذہنی تعدّد ہی اس کی فردیت کو ناقص کر رہا ہے۔ لیکن آفتاب حق میں یہ بات نہیں۔ جس کا ذکر اگلے شعر میں آتا ہے۔
21
لیک آں شمسیکہ شد مستش اثیر
نبودش در ذہن و در خارج نظِیر
ترکیب: "لیک" حرفِ استدراک۔ "آں شمسے کہ" اسمِ موصول، اپنے صلہ "شد مستش" کے ساتھ مل کر مبتدا ہوا۔ مصرعہ ثانیہ خبر۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر مستدرک ہُوا شعرِ سابق سے۔
ترجمہ: لیکن وہ آفتاب (حق) کہ کرۂ نار (تک کی عالی پایہ مخلوق) اس کے لیے مست ہے۔ اس کی نظیر نہ ذہن میں ہے نہ خارج میں۔
مطلب: بقول میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
اس مسندِ عزّت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا گزر ہووے تعقّل کے قدم کا
22
در تصوّر ذاتِ او را گنج کُو
تا در آید در تصوّر مثلِ اُو
ترکیب: "گنج" مضاف۔ "ایں" مبیّن مقدّر۔ مصرعہ ثانیہ جملہ فعلیہ ہو کر بیان۔ یہ دونوں مل کر مضاف الیہ۔ مضاف و مضاف الیہ مل کر مبتدا۔ "ثابت" خبر محذوف۔ باقی متعلقات۔
ترجمہ: (اور اس کی نظیر متصّور ہو بھی کیونکر) بھلا اس کی ذاتِ پاک کے لیے (ہمارے) تصور میں اس کی گنجائش ہے؟ کہ اس کی نظیر تصوّر میں آ سکے۔
مطلب: اوپر کہا تھا کہ اس کی نظیر ذہن میں نہیں آ سکتی۔ اس کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی چیز کی نظیر ذہن میں تب آ سکتی ہے جب خود اس کی ذات بھی متصور ہو سکے لیکن ذاتِ خداوندی کا تصوّر شرعًا اور عقلًا محال ہے۔ فیضی غُفِرَ لَہٗ ؎
تابش نمود بچشمِ بینا
کیں مَے بگذار داد مینا
آں نور کزو دو دیدہ باز ست
مژگاں گسل و نظر گداز ست
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
چگونہ قطرہ تواند محیطِ دریا شد
ز راہِ فکر رسیدن بذات ممکن نیست
جب اس کی ذات کا تصور ممکن نہیں تو اس کی نظیر بھی تصور میں نہیں آ سکتی۔
23
شمس تَبْریزی کہ نُورِ مُطلق ست
آفتاب است و زِ اَنوارِ حق ست
ترجمہ: ہاں (ہمارے محترم) شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ جو نورِ کامل ہیں (وہ کمالات کے) آفتاب ہیں اور خدا کے انوار سے (ایک نور) ہیں۔
مطلب: لفظی و اسمی اشتراک سے اب مولانا کا خیال اپنے ہادی کی مدح کی طرف انتقال کرتا ہے۔ اور وہ شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو شمسِ ظاہری اور شمسِ حق کی طرح اسمًا شمس ہیں۔ مگر شمسِ ظاہری تو اپنی نور افشانی کے لیے مقیّد بطلوع بعد غروب ہے اور یہ شمس ایسی قیود سے مطلق ہے اور اس کی نسبت کامل ہے۔ ہاں شمسِ حق کی نسبت سے کم ہے بلکہ وہ اسی کے انوار سے ایک نور ہے۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
روئے تو مگر آئینۂ لطفِ الٰہی ست
حقّا کہ چنیں ست دریں روے دریا نیست
24
چُوں حدیثِ روئے شمس الدین رسید
شمسِ چارم آسماں سر درکشید
ترکیب: پورا شعر جملہ شرطیہ ہے۔ "چارم" بمعنٰی چہارم صفتِ عددی آسمان کی ہے۔
صنائع: "سر درکشیدن" کنایہ ہے آفتاب کی خجلت سے۔
ترجمہ: جب (حسنِ اتفاق سے) شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ (تبریزی) کے روئے (پُر تنویر) کا ذکر آیا تو چوتھے آسمان کے سورج نے (شرمندگی سے) منہ چھپا لیا (کیونکہ اس میں تابِ مقابلہ نہ تھی)۔
مطلب: یہ کہ ممدوح خوبی میں سورج سے بڑھ کر ہے۔ بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
گوئے خوبی کہ پرواز تو کہ خورشید آنجا
نہ سواریست کہ در دست عنانے دارد
جوں ہی محبوب کا نام زباں پر آیا۔ سورج ماند پڑ گیا ؎
چو نقشِ خط درخست بست در غزل جامی
بیاضِ صفحۂ خورشید را مسوّدہ ساخت
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
بر بامِ آسماں وش گر ماہِ ما برآید
خورشید کیست بارے کو بر سما برآید
سورج کو فلکِ چہارم سے منسوب کرنا بناءً علی العرف ہے۔ ورنہ آیاتِ قرآنی میں یہی پایا جاتا ہے کہ سورج اور ستارے فلکِ اوّل پر ہیں۔
25
واجب آمد چونکہ بُردم نامِ اُو
شرح کردنِ رمزے از انعامِ اُو
ترکیب: "چونکہ نامِ او بردم" شرط باقی کلمات مل کر جزا۔ جن میں "شرح کردن" مصدر اپنے مفعول "رمزے الخ" کے ساتھ مل کر اسم ہے۔ "واجب" خبر۔ "از" تبعیضیہ ہے۔
ترجمہ: اب جو میں نے ان کا نام لیا ہے تو واجب ہے کہ ان کے احسانات میں سے کچھ نہ کچھ بیان کروں۔
مطلب: ان کے احسانات یہ ہیں کہ باطنی تربیت دی۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
جزاک اللہ کہ چشمم باز کردی
مرا با جانِ جاں ہمراز کردی
ز مہرِ غیر بگسستی دلِ من
حریمِ وصل کردی منزلِ من
26
ایں نَفَس جاں دامنم برتافتہ ست
بُوئے پیراہانِ یُوسف یافتہ ست
ترکیب: "برتافتہ ست" فعل۔ "جان" فاعل۔ "دامنم" مفعول بہ۔ "ایں نفس" مفعول فیہ۔ "برائے" حرفِ جار مقدّر۔ "ایں" مقدّر مبیّن مجرور، جس کا بیان اگلے دو شعر ہیں۔ یہ سب مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔
صنائع: "بوئے پیراہنِ یوسف علیہ السّلام یافتن" کنایہ ہے شدّتِ اشتیاق سے۔
ترجمہ: اس وقت (میری) روح نے میرا دامن سمیٹ (کر اس کے انعام کا ذکر کرنے پر مجھے مستعد کر) دیا ہے (کیونکہ) اس نے (حضرت یعقوب علیہ السّلام کی طرح) حضرت یوسف علیہ السّلام کے پیراہن کی خوشبو پائی ہے۔
مطلب: حضرت یعقوب علیہ السّلام کا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جب یوسف علیہ السّلام نے قافلہ والوں کو اپنی قمیص دے کر کہا کہ اس کو میرے والد کی آنکھوں سے لگا دیں تو ان کا نورِ بصارت جو گریۂ فراق سے زائل ہو چکا ہے پھر عود کر آئے گا۔ اس قافلہ کا قمیص کو لے کر مصر سے روانہ ہونا تھا کہ ادھر صدہا میل سے حضرت یعقوب علیہ السّلام کو اس کی خوشبو آنے لگی۔ ﴿قَالَ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ﴾(یوسف: 94) :"یعقوب علیہ السّلام نے کہا اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا نہ سمجھو، تو مجھے یوسف علیہ السّلام کی خوشبو آ رہی ہے"۔ یعقوب علیہ السّلام کو اپنے حالی و موالی کے اعتراض کا اندیشہ تھا کہ کہیں گے ان کو ہر وقت یوسف علیہ السّلام کے ذکر کے سوا اور کوئی خیال ہی نہیں۔ اس لیے بطورِ عذر کہا ﴿لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ﴾۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو بھی یہ خیال ہوا کہ سامعین کہیں یہ اعتراض نہ کریں کہ کہاں کنیزک کا قصہ اور کہاں اپنے مرشد کی مدح چھیڑ دی۔ اس لیے بطورِ عذر کہتے ہیں کہ میں بھی یعقوب علیہ السّلام کی طرح اب ریحِ محبوب سے بے خود ہو رہا ہوں اور دل اس کے ذکر پر مجبور کر رہا ہے۔ سامعین معاف فرمائیں۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چوں کنم قصدِ سخن نامِ تو آید بر زباں
چوں کنم جاناں کہ جز نامِ تو ہیچم یاد نیست
27
کز برائے حقِّ صحبت سالہا
باز گو رمزے ازاں خوش حالہا
ترکیب: یہ شعر جملہ فعلیہ انشائیہ معلول، اور آئندہ شعر اس کی علّت مل کر بیان ہوا۔ شعرِ سابق کے مبیّن مقدّر کا۔ "صحبتِ سالہا" میں فکِّ اضافت ہے۔
ترجمہ: (میری روح اس لیے مجھے مستعد کر رہی ہے) کہ سالہا سال کے حقِ صحبت کے لیے ان کے مبارک حالات میں سے کچھ نہ کچھ بیان کرو۔
28
تا زمین و آسماں خنداں شود
عقل و روح و دیدہ صد چنداں شود
ترکیب: اس شعر کا مضمون علّت ہے شعرِ سابق کے مضمون کی۔
صنائع: جمع۔
ترجمہ: تاکہ زمین و آسمان (والے خوشی سے) ہنسنے لگیں (اور) عقل اور روح اور دیدہ (دل) سَو گنا (روشن) ہو جائیں۔
مطلب: رازِ توحید جو مرشد نے تعلیم کیا تھا اس کو بیان کروں۔ تو عالم میں نشاط و انبساط کی لہر دوڑ جائے اور عقل و روح منور ہو جائیں۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎
تصوف کے بیاں کو ہوش نے روح آشنا پایا
معانی کچھ نہ سمجھا پر قیامت کا مزا پایا
29
گفتم اے دور اُوفتادہ از حبِیب
ہمچو بیماریکہ دُور است از طبیب
ترکیب: "اے دور اوفتادہ" ندا و منادی قائم مقام جملہ فعلیہ اور آئندہ چھ شعر جوابِ ندا ہیں۔ "ہمچو بیمارے الخ" جار و مجرور متعلق "دور اوفتادہ" کے۔ "بیمارے" مبیّن۔ باقی کلمات اس کا بیان۔
ترجمہ: میں نے (جوابًا) کہا اے (روح) جو پیارے (مرشد) سے دُور پڑی ہے۔ جیسے وہ بیمار جو طبیب سے دُور ہو۔
لَا تُکَلِّفْنِیْ فَاِنِّیْ فِی الْفَنَا
کَلَّتْ اَفْھامِیْ فَلَا اُحْصِیْ ثَنَا
ترکیب: "لَا تُکَلِّفْ" فعل با فاعل اور "فِیْ" ضمیر منصوب متصل مفعول بہ۔ مل کر جملہ فعلیہ انشائیہ ہوا۔ "فاء" حرفِ عطفِ مفیدِ تعلیل۔ "اِنَّ" حرفِ مشبّہ بفعل۔ "ی" ضمیرِ متکلم منصوب اس کا اسم۔ "فِی الْفَنَا" جار مجرور متعلق خبرِ محذوف "مُبْتَلٰی" کے۔ یہ جملہ اسمیہ خبریہ ہوا۔ "کَلَّتْ" فعل۔ "اِفْہَامِیْ" مضاف و مضاف الیہ مل کر اس کا فاعل۔ یہ جملہ فعلیہ ہوا۔ "فائے عاطفہ" مفیدِ سببیّت۔ "لَا اُحْصِیْ" فعل با فاعل اور "ثَنَاء" اس کا مفعول بہ مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔
ترجمہ: مجھے (مدح کرنے پر) مجبور نہ کرو کیونکہ میں بے خودی (کی حالت) میں ہوں۔ میرے ہوش و حواس بیکار ہو رہے ہیں۔ پس میں (اس کی) پوری تعریف نہیں کر سکتا۔
مطلب: روح جو مدحِ شیخ پر مجبور کر رہی تھی مولانا اس سے عذر کرتے ہیں کہ میں سوزِ فراق سے بیخود ہو رہا ہوں۔ ہوش و حواس ٹھکانے نہیں۔ کیا مدح کر سکتا ہوں۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
تا بخود باز آیم انگہ وصفِ دیدارش کنم
از کہ مے پرسی دریں میداں کہ سرگرداں چو گوست
30
کُلُّ شَیْءٍ قَالَہٗ غَیْرُ الْمُفِیْق
اِنْ تَکَلَّفَ اَوْ تَصَلَّفَ لَا یَلِیْق
ترکیب: "کُلُّ شَیْءٍ" بترکیبِ اضافی موصوف۔ "قَالَ" فعل۔ ضمیر راجع بطرف "شیء" مفعول بہ۔ "غَیْرُ الْمُفِیْقِ" بترکیبِ اضافی فاعل۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر صفت موصوف و صفت مل کر مبتدا۔ "اِنْ" حرفِ شرط۔ "تَکَلَّفَ" اور "تَصَلَّفَ" دو فعل جن میں ضمیر مستتر راجع بطرف "غَیْرُُ الْمُفِیْقِ" ان کی فاعل۔ "فِیْہِ" متعلق مقدّر۔ "لَا یَلِیْقُ" جزا۔ شرط و جزا مل کر خبر ہوئی مبتدا کی۔
صنائع: "تَکَلَّفَ" اور "تَصَلَّفَ" میں تجنیسِ لاحق ہے۔
ترجمہ: غیر ذی ہوش جو بات کہے گا اگر (اس میں) تکلّف کرے گا یا خلاف (حقیقت) کہے گا تو یہ لائق نہیں۔
31
ہرچہ میگوید موافق چوں نبود
چوں تکلّف نیک نا لائق نمود
ترکیب: "ہرچہ" اسم موصول اور "میگوید" بہ تقدیرِ ضمیر منصوب مفعولی۔ جملہ فعلیہ اس کا صلہ مل کر مبتدا ہُوا۔ "چوں" حرفِ شرط۔ "موافق نبود" بتقدیرِ "اُو" اسم۔ جملہ اسمیہ ہو کر شرط ہوا۔ دوسرا جملہ اسمیہ ہو کر جزا۔ اس میں بھی اسم مقدّر ہے اور "چوں تکلّف" جار مجرور متعلق "نمود" کے ہے۔
ترجمہ: جو کچھ وہ بولتا ہے چونکہ وہ (موقع اور وقت کے) موافق نہیں ہوتا اس لیے وہ ایک بناوٹ کی طرح نہایت غیر مناسب دکھائی دیتا ہے۔
مطلب: عذر کیا ہے کہ مجھ سے بر محل بات نہ ہوگی۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر سخنے در محلِ خود نکوست
زمزمۂ مرغ بگلزار بہ
32
من چگویم یک رَگم ہشیار نیست
شرحِ آں یاریکہ آنرا یار نیست
ترکیب: "من چگویم" فعل با فاعل۔ دوسرے مصرع میں "شرح" مضاف اور "آں یارے" مبیّن اور اس کا بیان مل کر مضاف الیہ ہو کر "گویم" کا مفعول ہوا۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر معلول ہوا۔ "یک رگم الخ" جملہ اسمیہ ہو کر علّت۔
ترجمہ: میری (تو) ایک رگ بھی ہوش میں نہیں (تو) میں اس محبوب (حقیقی) کا تفصیلی ذکر کیا سناؤں جس کا کوئی شریک نہیں۔
مطلب: اوپر عذر کرتے آئے ہیں کہ میں ہوش ہی میں نہیں۔ تو مرشد کی مدح اور اس کے انعام کی تفصیل کیا کروں۔ چونکہ انعام سے مراد وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہے جس میں کمالِ الٰہی کا بیان ہوتا ہے۔ اس لیے آپ فرماتے ہیں کہ ایسی غیر ہوشمندی کی حالت میں انعامِ مرشد کو یعنی رازِ وحدۃ الوجود کو یا دوسرے لفظوں میں شرحِ صفتِ الٰہیہ کو کیا بیان کروں۔
33
خود ثنا گفتن زِ من ترکِ ثناست
کایں دلیلِ ہستی و ہستی خطاست
ترکیب: "خود" زائد ہے۔ "ثنا گفتن" مبتدا۔ "زِ مَن" اس کے متعلق۔ "ترکِ ثنا" خبر۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر معلول۔ دوسرے مصرعہ میں دو جملے معطوف علیہ و معطوف مل کر علّت۔
ترجمہ: میرا مدح کرنا حقِ مدح کو پائمال کرتا ہے کیونکہ (مدح گوئی) اپنی ہستی کی دلیل ہے اور ہستی (کا دعوٰی) غلط ہے (کیونکہ میں فنا کے مقام میں ہوں) وَ لَنِعْمَ مَا قَالَ مَوْلَانَا اِسْمٰعِیْلُ الْمَرْحُوْمُ، فَلِلہِ دَرُّہٗ ؎
کیسی طلب؟ کہاں کی طلب؟ کس لیے طلب؟
ہم ہیں تو وہ نہیں ہے؟ جو وہ ہے تو ہم نہیں
الخلاف: یہ شعر بعض نسخوں میں نہیں ہے۔
34
شرحِ ایں ہجراں و ایں خونِ جگر
ایں زماں بگذار تا وقتِ دِگر
ترکیب: "ایں ہجراں" معطوف علیہ اور "ایں خونِ جگر" معطوف مل کر "شرح" کے مضاف الیہ ہوئے۔ مضاف و مضاف الیہ مل کر "بگذار" کا مفعول بہ۔ یہ شعر اور اوپر کے پانچ شعر جوابِ ندا ہیں۔ ندا اور جوابِ ندا مل کر مقولہ ہوا "گفتم" کا جو ”گفتم اے دور افتادہ از حبیب“ میں ہے۔
ترجمہ: اس ہجر (و فراق پر مشتمل) اور خونِ جگر (پلانے والی چیز یعنی عشق) کی شرح کو (جو دوسرے لحاظ سے وحدۃ الوجود کا مسئلہ کہلاتی ہے) اب دوسرے وقت تک ملتوی رکھو۔
مطلب: مسئلہ وحدۃ الوجود اہل اللہ کا مایۂ عشق ہے۔ اس کو ہجر اس لیے فرمایا کہ سیر فی اللہ کی کوئی انتہا نہیں۔ سالک ترقی کے جس مقام پر پہنچتا ہے اور جس تجلّی سے بہرہ ور ہوتا ہے اس پر قناعت نہیں کرتا بلکہ طلبِ زیادت میں اپنے آپ کو مبتلائے فراق سمجھتا ہے (کذا فی بحر العلوم) بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر راہ رو کہ رہ بحریم دوش بَرَد
مسکین برید وادی درہ در حرم نداشت
35
قَالَ اَطْعِمْنِیْ فَاِنِّیْ جَاۤئِعٌ
فَاعْتَجِلْ فَالْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ
ترکیب: "قَالَ" فعل۔ ضمیرِ مستتر راجع بطرف "روح" اس کی فاعل۔ "اَطْعِمْنِیْ" فعل با فاعل مع مفعول جملہ فعلیہ معطوف علیہ۔ "ف" حرفِ عطف مفیدِ تعلیل۔ "اِنِّیْ جَائِعٌ" جملہ اسمیہ معطوف۔ "فَاعْتَجِلْ" جملہ فعلیہ معطوف۔ "فَالْوَقْتُ الخ" جملہ اسمیہ معطوف، معطوف علیہ اپنے معطوفات کے ساتھ مل کر جملہ معطوفہ ہو کر آئندہ دو شعروں سمیت مقولہ ہوا "قَالَ" کا۔
ترجمہ: (روح) بولی۔ مجھے (سرِّ وحدت الوجود کی) غذا دے کیونکہ میں (استماعِ اسرار کی) بھوکی ہوں تو اب جلدی کر۔ کیونکہ وقت کاٹنے والی (تیز) تلوار (کی طرح گزرا جا رہا) ہے۔
مطلب: مولانا بوجہ بے خودی بیانِ اسرار سے عذر کرتے تھے۔ مگر روح پھر تقاضا اور اصرار کرتی ہے کہ ضرور کچھ نہ کچھ سنانا ہو گا۔ "اَلْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ" اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ جو وقت آتا ہے پہلے وقت کو منقطع اور معدوم کر دیتا ہے، یا یہ کہ تمام موجودہ حالات کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ گزر جانا وقت کا ذاتی کام ہے مگر عالم کے تمام واقعات و حوادث بھی اس کے ساتھ کٹتے چلے جاتے ہیں۔
36
صُوفی اِبْنُ الوقْت باشد اے رفیق
نیست فردا گُفتن از شرطِ طریق
ترجمہ: اے دوست! صوفی تو ابنُ الوقت (یعنی مقتضائے وقت کے موافق کام کرنے والا) ہوتا ہے (آج کا کام) کل پر ڈالنا شرطِ طریقت نہیں۔
مطلب: "کارِ امروز را بفردا مگزار" یعنی اس وقت جو کام ہو جائے غنیمت ہے۔ بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر وقتِ خوش کہ دست دہد مغتنم شمار
کس را وقوف نیست کہ انجامِ کار چیست
37
صُوفی اِبنُ الحال باشد درِ مثال
گر چہ ہر دو فارغ اند از ماہ و سال
صوفی ابن الحال (یا ابن الوقت) بطور تمثیل کہلاتا ہے۔ اگرچہ (صوفی اور وقت) دونوں ماہ اور سال سے مبرّا ہیں۔
مطلب: اوپر جو صوفی کو "ابنُ الوقت" کہا تھا اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید وقت کے لغوی معنی مراد ہوں، اس شبہ کا ازالہ فرماتے ہیں کہ صوفی کو ابنُ الوقت یا ابنُ الحال کہنا بطورِ مجاز ہے، ورنہ جس طرح صوفی ہنگام و زمانہ کا پابند نہیں۔ اسی طرح وقت کے معنٰی یہاں زمانہ کے نہیں ہیں بلکہ اصطلاحی معنٰی یعنی وارداتِ قلب مراد ہیں جن کو زمانہ سے تعلق نہیں۔
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے۔
38
تو مگر خود مردِ صوفی نیستی
نقد را از نِسیہ خیزد نیستی
ترکیب: تینوں شعروں کے تمام جملے مل کر مقولہ ہوئے اس "قَالَ" کے جو "اَطْعِمْنِیْ الخ" میں ہے۔
صنائع: "نیستی" فعل اور "نیستی" اسم میں تجنیسِ مستوفی۔
ترجمہ: شاید تو صوفی آدمی نہیں ہے (کہ ٹال رہا ہے اور اتنی بھی خبر نہیں کہ) نقد کو ادھار سے نقصان پہنچتا ہے۔
مطلب: اوپر کہا تھا کہ صوفی ابنُ الوقت ہوتا ہے اور ابنُ الوقت دو معنٰی میں آتا ہے۔ ایک خاص معنٰی جو بمقابلہ "ابُو الوقت" کے ہوتا ہے یعنی مغلوب الحال۔ دوسرا عام معنٰی جو دونوں کو شامل ہے یعنی مقتضائے وقت پر عمل کرنے والا۔ اس شعر سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ وہاں ابن الوقت بمعنٰیِ عام مراد تھا۔ ورنہ یہاں صوفی ہونے کی نفی نہ کی جاتی کیونکہ جو کوئی ابن الوقت بمعنی خاص یعنی مغلوب الحال نہ ہو تو ممکن ہے کہ ابو الوقت ہو۔ پھر تو وہ بطریقِ اولیٰ صوفی یعنی صاحبِ مقام ہوگا۔ جو مغلوب الحال سے افضل ہوتا ہے۔ اس شعر میں بھی یہی تقاضا ہے کہ آج کا کام کل پر نہ رکھو۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
اے دل از عشرتِ امروز بفردا فگنی
مایۂ نقدِ بقا را کہ ضمان خواہد بود
39
گفتمش پوشیدہ خوشتر سِرِّ یار
خود تو در ضمْنِ حکایت گوش دار
ترکیب: "گفتم" فعل با فعل۔ "ش" ضمیر مفعول بہ۔ باقی الفاظ مع آئندہ شعر کے مقولہ ہوئے "گفتم" کا۔ "سرِّ یار" ذو الحال اور "پوشیدہ" حال مل کر مبتدا۔ "خوشتر" خبر۔
ترجمہ: میں نے اس کو جواب دیا کہ یار کا بھید پوشیدہ ہی بہتر ہے (اگر سننا ہی چاہتی ہو تو) اس حکایت کے ضمن میں سنتی جا۔
مطلب: کھلے کھلے الفاظ میں اظہارِ سِرّ مناسب نہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز
ورنہ در محفلِ رنداں خبرے نیست کہ نیست
ہاں ایک مجازی قصے کے پیرائے میں حقیقت کو بیان کر دیتے ہیں۔ سنتے جاؤ۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
پردہ ز تشبیہ و مجازش کنم
تحفۂ ہر محفل رازش کنم
40
خوشتر آں باشد کہ سِرِّ دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں
ترکیب: "باشد" فعلِ ناقص۔ "آں" مبیّن۔ "کہ سرِّ دلبراں" تا آخرِ شعر بیان۔ دونوں مل کر اسم۔ "خوشتر" خبر۔
ترجمہ: بہتر یہی ہوتا ہے کہ دلبروں کا راز اور لوگوں کے قصے (کے لباس) میں (کنایۃً) سُنا دیا جائے۔
مطلب: اسرارِ حقیقت کو تمثیلی حکایت کے ضمن میں بیان کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چو اہلِ دل ز عشق افسانہ گویند
حدیثِ بلبل و پروانہ گویند
اس شعر میں مثنوی شریف کے اس اندازِ خاص کی طرف اشارہ ہے جو اس میں اوّل سے آخر تک چلا گیا ہے، یعنی اسرارِ سلوک کو مستقل اور واضح عنوانات کے نیچے رکھ کر اس پر خاص بحث و تمحیص نہیں کی۔ جیسا کہ دیگر کتبِ فن کا طریقہ ہے۔ بلکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ طوطی و زاغ اور شیر و خرگوش وغیرہ اشیاء کی کہانیوں کے ضمن میں بلا تخصیصِ مواقع وہ، وہ اسرار و رموز بیان کرتے چلے گئے ہیں۔ جنہوں نے اس کتاب کو فتوحاتِ مکّیہ اور مکتوباتِ امام ربّانی رحمۃ اللہ علیہ سے علمی حیثیت میں کسی طرح کم نہیں رہنے دیا، اور ذوقی و حالی چاشنی میں ان سے بڑھا دیا ہے ؎
ذوق ہے جس کا صحیح آ جائے گا اس کو یقین
تیرے خامے کو ہے جنبش دے رہا روح الامین
41
گفت مکشوف و برہنہ بے غُلول
باز گو رنجم مدہِ اے بو الفضُول
ترکیب: "گفت" فعل، جس میں ضمیر راجع بطرف "جان" فاعل۔ باقی الفاظ اس شعر کے اور آئندہ شعر مل کر مقولہ ہوا "گفت" کا۔ "باز گو" فعل۔ "راز" محذوف ذو الحال، اور "مکشوف و برہنہ" حال مل کر مفعول بہ۔ "بے غلول" متعلّق۔
ترجمہ: (روح) کہنے لگی اے فضول باتیں کرنے والے مجھے (زیادہ) نہ ستا (مطلوبہ راز کو) کھلے طور سے اور بلا اخفا کے بے کم و کاست بیان کر دے۔
42
باز گو اسرار و رمزِ مُُرسَلیں
آشکارا بہ کہ پنہاں سِرِّ دیں
ترجمہ: پیغمبرانِ خدا (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کے اسرار اور رموز بیان کر۔ دین کا بھید صاف صاف (بیان کرنا) چاہیے نہ کہ پوشیدہ۔
مطلب: اسرارِ مرسلین سے مراد وحدۃ الوجود کا راز ہے کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء علیہم السّلام نے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کی تعلیم دی ہے اور اس کے معنی ہیں "لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہُ"۔ اور دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہے کہ جو ذات جمیعِ کمالات میں متفرّد ہو اس کا معبود ہونا لازم ہے۔ اور لازم کی نفی کے لیے ملزوم کی نفی لازم ہے۔ تو غیر اللہ کے استحقاقِ عبادت کی نفی سے، جو "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُُ" کا مدلول ہے، یہ لازم آتا ہے کہ اس کا انفراد فی الکمالات منفی ہو۔ اور یہ مدلول ہے وحدۃ الوجود کا۔ اس لحاظ سے وحدۃ الوجود "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُُ" کا مدلولِ التزامی ٹھہرا۔ اور ملزوم کی تعلیم میں اشارۃً لازم کی تعلیم بھی ہو گئی، کیونکہ "اَلشَّیْءُ اِذَا ثَبَتَ ثَبَتَ بِلَوَازِمِہٖ" مسلّمہ اصول ہے۔ اس اعتبار سے اس کو اسرارِ مرسلین فرمایا ہے اور چونکہ یہ "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُُ" کا مدلولِ مطابقی نہیں، اس لیے رمز و اسرار کہا (کلیدِ مثنوی)
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے۔
43
پردہ بردار و برہنہ گو کہ من
مے نگنجم با صنم در پَیرہن
صنائع: "پردہ، برہنہ، پیراہن" میں مراعاتُ النّظیر ہے۔ "پیرہن" کنایہ ہے تمثیلات و حکایات کے حجاب سے۔
ترجمہ: پردہ (خفا) اٹھا دے اور صاف صاف (پوست کندہ) بیان کر۔ کیونکہ (میں اسرارِ دلبر کو تمثیلات و حکایت کے پردے میں سننا پسند نہیں کرتی۔ گویا شوقِ تواصل کے سبب) میں معشوق کے ساتھ پیرہن سمیت اپنی گنجائش نہیں پاتی (اس میں اور مجھ میں قمیص تک کی بھی آڑ نہ ہونی چاہیے)۔
مطلب: وہی اسرارِ وحدت کے بیان کا تقاضا۔ بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
نکتۂ روح فزا از دہنِ یار بگو
نامۂ خوش خبر از عالمِ اسرار بیار
اور اس کو اس قدر صاف و صریح پیرائے میں سننے کا شوق ہے کہ تمثیلات و حکایت بھی گویا بمنزلۂ پیراہن ہیں، جس کی آڑ لطفِ وصل میں مخلّ ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر کہ جز معشوق باشد پردۂ بیگانگی ست
بوئے یوسفؑ را ز پیراہن شنیدن مشکل است
44
گُفتم ار عُریاں شود اُو درِ عیان
نے تو مانی نے کِنارت نے میان
ترکیب: "ار عریاں شود الخ" شرط۔ دوسرا مصرعہ جزا۔ مل کر جملہ شرطیہ۔ نیچے کے چار اشعار سمیت مقولہ ہُوا "گفتم" کا۔
ترجمہ: میں نے (روح کو) کہا اگر وہ راز (تیرے اور سب کے سامنے) کھل جائے (تو) نہ تو رہے گی نہ تیرا کنارا اور نہ وسط۔
مطلب: اس رازِ مکنوں کے اظہار سے تیری حالت زیر و زبر ہو جائے گی۔ بقول امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو رخ نمودی و عشّاق را وجود نماند
کہ پیشِ چشمۂ خورشید وجہِ شبنم نیست
45
آرزُو میخواہ لیک اندازہ خواہ
برنتابد کوہ را یک برگِ کاہ
صنائع: "کوہ و کاہ" میں تجنیسِ لاحق۔
ترجمہ: اپنی مراد (جم، جم) مانگ لیکن اندازہ (کے موافق) مانگ۔ گھاس کا ایک پتہ پہاڑ کو نہیں اٹھا سکتا۔
من نظارۂ خوشم وصل نہ حدِّ من بود
حوصلۂ مگس مداں کو بخورد نوالہ را
46
آفتابے کز وَے ایں عالم فروْخت
اندکے گر پیش آید جملہ سوخْت
ترجمہ: (مثلاً یہی) سورج جس سے یہ (سارا) جہاں روشن ہے اگر (اپنے مقام سے) ذرا بھی آگے بڑھے تو سب کو جلا ڈالے۔
مطلب: اگر حدِّ ادب سے بڑھ جائیں تو وصال وبال بن جاتا ہے۔ مثلًا سورج کہ دور سے اس کا نُور فرحت بخش ہے، اگر وہ قریب آ جائے وہ عذابِ نار بن جائے۔ وَ لِلہِ دَرُّ حَضْرَتِ لِسَانِ الْعَصْرِ اَکْبَرَ اِلٰہ آبادی مرحوم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ حَیْثُ قَالَ ؎
سنیے حکمت جو میری گفتار میں ہے
ایک حدِّ ادب ہر ایک سرکار میں ہے
پروانے نے شمع سے لپٹنا چاہا
پہلے تھا نور میں اور اب نار میں ہے
47
تا نگردد خوں دلِ جانِ جہاں
لب بدو زو دیدہ بربند ایں زماں
ترجمہ: (پس مناسب ہے کہ) تو اس وقت (اپنے) لب سی لے اور آنکھیں بند رکھ تاکہ (اس خطرناک بھید کے افشا سے) ہستیِ عالم کا خون نہ ہو جائے۔
مطلب: اگر یہ راز ظاہر ہو جائے تو عالم نابود ہو جائے۔ دریا اپنی ہستی میں نمودار ہو تو موج و حباب کہاں رہیں؟
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
چہ پوشی پردہ بر رُوئے کہ آں پنہاں نمے ماند
و گر بے پردہ میداری تنے را جاں نمے ماند
48
بیش ازِیں آشوب و خونریزی مجو
بیش ازیں از شمس تبریزیؒ حجو
ترکیب: "بیش" صفت ہے "آشوب و خونریزی" کی۔ "ازیں" متعلق ہے "بیش" کے۔ یہاں تک "گفتم" کا مقولہ ہوا۔ جو "گفتم اور عریاں الخ" میں ہے۔
ترجمہ: اس سے زیادہ (اس قسم کے) آشوب و خونریزی کے درپے نہ ہو۔ اس سے آگے شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ چھیڑ۔
مطلب: جب شمسِ ظاہری کے انوار کی تاب نہیں، جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے، تو شمس معنوی یعنی شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے انوار یا رازِ وحدت الوجود کی تاب کب ہوگی۔ پس اس کے بیان کے لیے اصرار نہ کر، کہ اس میں فتنۂ آشوب ہے۔
49
ایں ندارد آخر از آغاز گو
رَو تمامِ ایں حکایت باز گو
ترجمہ: اس (ذکر یا بحث) کا تو کوئی خاتمہ ہی نہیں۔ چلو اب اس حکایت کا بقیہ سناؤ۔